اردو ڈرامہ اور ہمارا معاشرہ

ابھی حال ہی میں مجھے ایک نجی یونیورسٹی میں ایک سیمینار میں جانے کا موقعہ ملا جس میں ملک کے نامور ڈرامہ نگار خواتین و حضرات کو مدعو کیا گیا تھا ۔سب نے موجودہ حالات میں چلنے والے ڈراموں پر اپنا اپنا اظہار خیال کیا میں بھی ان کے اس مؤقف سے مطمئن ہوا کہ کم از کم ہمارے لکھنے والے اچھی سوچ رکھتے ہیں اور وہ معاشرے کے لئے وہی لکھنا چاہتے ہیں جسے ہمارا معاشرہ پسند کرتا ہے ۔لیکن آج کل میڈیا پر ایسے ڈراموں کی بھر مار ہے جو دوسرے ممالک سے امپورٹ کئے جاتے ہیں اور زبردستی ہمارے معاشرے پر ٹھو نس د یے جاتے ہیں جو یقیناً کسی طرح بھی ہمارے معاشرے میں دکھانے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ ہم ایک ایسی ثقافت کے مالک ہیں جہاں پر اب بھی شرم و حیا موجود ہے ابھی بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو بے حیائی پر مبنی ڈراموں کو اپنی فیملی میں بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ان ڈراموں میں دکھائے جانے والے اداکاراؤں کے لباس مغربی ہوتے ہیں جو کسی بھی لحاظ سے ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے ۔ہمارے ہاں لکھنے اچھا والوں کی کمی نہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کو بھی مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ پروڈیوسر کی مرضی کے مطابق لکھیں کیونکہ آج کل سب سے بڑا مسئلہ چینل کی ریٹنگ کا ہے لیکن اس ریٹنگ کے چکر میں ہماری نئی نسل کو کیا سکھایا جا رہا ہے۔

ایک وقت تھا کہ صرف ایک ٹی وی پر ایسے ڈرامے پیش کیئے جاتے تھے جسے گھر کے تمام افراد بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے ان ڈراموں کو دیکھنے کے لئے لوگ وقت سے پہلے ہی اپنے کام کاج کر کے بیٹھ جاتے تھے تاکہ وہ ڈرامہ دیکھنے سے رہ نہ جائے۔اس کے بر عکس آج بھی لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے بہت اچھا لکھنے والے رائیٹر ز موجود ہیں اس کے باوجود ایسے ڈرامے پیش کئے جاتے ہیں جن کو بندہ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔چاہیئے تو یہ تھا کہ ہم اپنے معاشرے کے لئے نصیحت آموز ڈارامے تخلیق کرتے لیکن ہم نے فیشن اور بے حیائی کو فروغ دینا شروع کر دیا جس سے ہماری نوجوان نسل کافی راغب ہوئی کیونکہ جو دکھایا جائے گا لوگ ایسا ہی بننے کی کوشش کریں گے ایک اسلامی ملک میں ہمیں ان اسلامی اقدار کا خیال رکھنا چایئے جو ہمیں قران وسنت میں بتائی گئی ہیں۔ڈراموں کے علاوہ ہمارے اشتہارات بھی بے لگام ہو چکے ہیں لگتا ہے کہ ان کو کھلی آزادی مل چکی ہے جو چاہیں وہ دکھائیں ۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چایئے کہ ہمارا معاشرہ آزاد خیال نہیں ہے یہ ایک اسلامی معاشرہ ہے یہاں سب کو معلوم ہے کہ اس کی کیا حد ہے لیکن ڈراموں میں بعض اوقات ایسے سین دکھائے جاتے ہیں جو کسی بھی طرح ایک اسلامی معاشرے کے قابل نہیں ہیں۔ہر ایک ڈرامے میں ساس بہو کے موضوع کو اہمیت دی جاتی ہے ہمیں ایسے ڈرامے بنانے کی ضرورت ہے کہ جس میں ساس بہو ایک دوسرے کی عزت کریں لیکن ڈراموں میں اس کے بالکل بر عکس دکھایا جاتا ہے جس میں دونوں سازشیں کرتی نظر آتی ہیں اس طرح کے منفی سین دکھانے ضروری نہیں بلکہ ان کو مثبت انداز میں پیش کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ عرصہ سے ڈراموں میں ایک نئی تبدیلی آئی ہے اچھی بات ہے لیکن اس تبدیلی کو منفی رحجانات سے دور رکھا جائے تو ہی ڈرامے کے مثبت پہلو سامنے آئیں گے۔

بچپن میں ہمیں تاریخی ڈرامے دیکھنے کو ملتے تھے جس سے بچوں کو پتا چلتا تھا کہ ایک مسلمان حکمران اور مجاہد کیسے جنگ و جدل کیا کرتے تھے اس طرح کے ڈراموں سے ہمیں اپنی تاریخ جاننے کا موقع ملتا تھا لیکن آجکل ایسے ڈرامے ناپید ہو چکے ہیں حالانکہ ہماری نسل کو اب ایسے ہی ڈراموں کی ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے مجاہدین کے کارناموں کو جان سکیں۔ اس کے علاوہ ٹی وی پر ایسے ڈرامے پیش کئے جائیں جن میں ہماری فوج کے سپاہیوں اور افسروں کے کارنامے دکھائے جائیں ۔ شہدا ء نے جو قربانیاں اس ملک کے لئے دی ہیں ان کو ڈراموں کا حصہ بنایا جائے مختصر یہ کہ ڈراموں میں اسلامی اقدار کو مد نظر رکھنا ضروری ہے تا کہ ملک میں فحاشی اور بے حیائی نہ پھیلنے پائے۔

اس کے علاوہ ایسے ڈرامے بھی پیش کئے جا سکتے ہیں جو طنز و مزح پر مبنی ہوں ایسے ڈرامے ہمیشہ پسند کئے گئے ہیں اور پسند کئے جاتے رہیں گے لیکن آج جو مزاحیہ ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں ان میں کسی نہ کسی شخصیت کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو میری نظر میں صحیح نہیں ہے آخر میں میں یہی کہوں گا کہ میڈیا ہمارے ملک میں آزاد ہے اس لئے اس کو ایسے موضوع پر ڈرامے دکھانے چاہیں جو واقعی ہمارے معاشرے کی ضرورت ہیں صرف خواتین پر ہی ڈرامے بنانا کسی طور بھی ٹھیک نہیں ،خواتین کے مسائل کی نشاندہی کرنا ایک مثبت عمل ہے لیکن عورت کو منفی صورت میں دکھانا کسی طور بھی صحیح نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بچوں پر ڈرامے پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے اس وقت بھی بچوں کے ڈرامے کم ہی پیش کئے جا رہے ہیں بچوں کو بھی تفریح کے مواقع ملنے چاہیں میڈیا کو اس طرف بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اپنی آنے والی نسل کی صحیح طریقے سے پرورش کر سکیں ۔

H/Dr Ch Tanweer Sarwar
About the Author: H/Dr Ch Tanweer Sarwar Read More Articles by H/Dr Ch Tanweer Sarwar: 320 Articles with 1829137 views I am homeo physician,writer,author,graphic designer and poet.I have written five computer books.I like also read islamic books.I love recite Quran dai.. View More