عدالتی نظام میں بہتری کیسے

ایک وکیل اپنے شہر کا سب سے نامی گرامی وکیل تھا۔ اتنا کام تھا کہ اس کے پاس مقدامات ختم ہی نہیں ہوتے تھے۔ اﷲ کی شان کہ جب اس کی پریکٹس عروج پر تھی تو وہ کسی اﷲ والے کے ہاتھ لگ گیا اور اس نے بیعت کرلی۔ پھر ایک دن شیخ سے کہنے لگا کہ میرا تو پیشہ ہی وکیل کا ہے۔۔۔۔ اور آپ کہتے ہیں کہ سچ بولنا چاہئے۔ تو میں کیا کروں؟ شیخ نے کہا کہ بھئی سبق تو یہی پڑھا رہاہوں کہ سچ بول کر ہارنا جانا جھوٹ بول کر جیت جانے سے بہتر ہے۔۔ اسلئے جھوٹ سے بچو۔ اپنی آخرت خراب مت کرو۔ اس کو بات سمجھ آگئی۔ اس نے بیوی کو جاکر کہا کہ بھئی میں نے آج کے بعد جھوٹ نہیں بولنا ۔ میں نے دل میں عہد کرلیاہے۔ ان کی زمینیں بھی تھیں اور وہ بہت معزز فیملی کے لوگ تھے۔ بیوی نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ چنانچہ وہ مضبوط ہوگئے۔ اب وہ چیمبر میں آئے تو انہوں نے اپنے ساتھ والے وکیلوں کو کہہ دیا کہ میں نے جھوٹا مقدمہ کوئی نہیں لینا۔ اب جو بندہ بھی مقدمہ لے کر آتا وہ اس کے کہتے کہ میں نے جھوٹا مقدمہ نہیں لینا۔ اب جب یہ شرط لگائی تو اسکو کون مقدمہ دے؟ لوگ پیچھے ہٹ گئے ۔ اس شخص پر دو سال آزمائش کے آئے۔ پہلا سال بہت دکھ والا تھا۔ دوسرا س سے بھی زیادہ دکھ والا تھا۔ شہر میں لوگ ملتے تو باتیں کرتے ۔ رشتہ دار باتیں کرتے لو گ بے وقوف سمجھتے۔ لوگ سمجھتے کہ اسکو تو عقل ہی نہیں ہے۔ تنگی الگ تھی، ذلت الگ تھی مگر وہ اﷲ کا بندہ سچ پر جما رہا۔

دو سال کے بعد پھر اﷲ تعالی نے حالات کو بدلنا شروع کیا۔وہ ایسے کہ جو لوگ سچے مقدمے والے آتے تھے وہ اس کے پاس آتے اور کہتے کہ ہم بالکل سچ پر ہیں یہ ہمارا حق ہے۔ آپ ہمارا مقدمہ لڑیں۔ یہ تحقیق کرتا اور مقدمہ لڑتا۔ کچھ عرصے کے بعد اس علاقے کے ججوں نے محسوس کیا کہ یہ بندہ ویسے ہی ہے جیسے کہ لوگ کہتے ہیں کہ جھوٹ والا مقدمہ لیتا ہی نہیں ہے۔ یہ لیتا ہی ٹھیک مقدمے ہے۔ چنانچہ انہوں نے دیکھا کہ اسکا ایک مقدمہ ٹھیک نکلا۔ دوسرا بھی ٹھیک نکلا۔ یوں جب پندرہ بیس مقدمے انہوں نے چیک کئے تو انکا اعتماد ہوگیا ۔ نتیجہ یہ نکلاکہ جو مقدمہ یہ لے کر جاتا جج اس کے حق میں فیصلہ دے دیتے۔ اب جو سچ پر تھے اور امیر تھے وہ بھی آنے لگ گئے۔ کیونکہ لوگوں کو پتہ لگ گیا تھا کہ یہ جس مقدمہ کو بھی لے کرجائے گا جج اس کی شکل دیکھتے ہی اس کے حق میں فیصلہ کردے گا۔ اﷲ کی شان تیسرے سال اتنا کام آیا کہ جو پہلے دو سالوں میں نہیں کمایا تھا وہ اس نے ایک سال میں کمالیا۔ ابھی ایک سال ہی گزرا تھا کہ اﷲ کی شان حکومت نے ایک پالیسی بنائی جو کہ پرانے وکیل ہیں ان میں سے بعض کو ترقی دی جائے اورجج بنایاجائے۔ چنانچہ جب حکومت کی یہ پالیسی نکلی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے وکیل بتائیں جو اپنی فیلڈ میں ماہرہوں۔ اچھے ہوں۔ انتخاب میں سب سے پہلے نمبر پر اسکا نام آگیا اور اﷲ تعالی نے اس کو وکیل سے جج بنادیا۔ جھوٹ بولتا تو زمین پر کھڑے ہوکر مائی لارڈMy Lord کہتا رہتا۔ سچ بولنے لگا تو اﷲ تعالی نے اس کو جج بناکر اوپر بٹھادیا کہ میرے بندے رزق تو تمہیں میں دیتا ہوں تمہاری جھوٹ پر نظر رہے گی تو میں تمہیں زمین پر رکھوں گا تم سچ کو اپناؤ گے تمہیں تخت پر بٹھاؤں گا۔ اﷲ کرے کے ہمارے عدالتی نظام میں سچ کا بول بالا ہو اور مظلوم کی داد رسی ہو۔ میرا ایک مقدمے کے سلسلے میں عدالت اور وکلاء کے پاس آنے جانے کا سلسلہ گذشتہ چند ماہ سے جاری ہے۔ عدالتوں کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کیسے یہاں پر مظلوم داد رسی کیلئے برسوں ٹھوکریں کھاتا رہتاہے جبکہ ظالم قانون میں موجود سقم کے باعث شیر بنا پھرتاہے۔ قانون ہیر پھیر، جھوٹی گواہیوں، غلط ایف آئی آر، تفتیش ، غلط رپورٹس کے باعث نسلیں مقدمات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ غریب آدمی تو عدالتی سہارے، وکیل رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ ظالم کے مزے ہی مزے، ہمارے تمام عدالتی نظام میں اتنی قباحتیں، مشکلات و مسائل ہیں جس کے باعث مقدمات کا جلد فیصلہ ہونا ناممکن ہے۔ اوپر کی سطح پر عدالتی نظام میں دکھلاوے کی حد تک اور بعض موقعوں پر خلوص نیت کے ساتھ کچھ کام ہوتاہے لیکن نچلی عدالتوں کا برا حال ہے۔ نوٹسز کی پیروی میں گڑ بڑ، تو پیشی دینے میں سفارش ، وکیلوں کے عدالت میں پیش ہونے میں جان بوجھ کر مقدمے کو طول دینے کیلئے سستی کرنا روزکا معمول ہے تمام تر سسٹم کو درست سمت پر گامزن کرنے کیلئے کوئی مثبت ،ٹھوس عملی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ ملک ایک ہے لیکن صوبوں میں الگ الگ قانون چل رہاہے۔ لینڈ ریوینیو ایکٹ میں پنجاب میں اراضی ، جائیداد کی بنہ براری کے بعد اگر مسائل کے حق میں اے سی کی عدالت سے رپورٹ آجاتی ہے تو وہ تحصیلدار، پولیس کے ذریعے فوری طورپر ناجائز قابضین سے قبضہ حاصل کرکے اصل مالک کو دیدیا جاتاہے لیکن کے پی کے میں اہل کمیشن کی رپورٹ کنفرم ہونے کے بعد اے ڈی سی، ایس ایم پی آر کی عدالتوں میں برسوں دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ پھر سول سوٹ کرنا پڑتاہے اتنے عرصے یا تو سائل دنیا سے کوچ کرجاتاہے یا وہ دلبرداشتہ ہوکر مقدمات کی پیروی چھوڑ دیتاہے۔ دوسرے انتظامی افسران اے سی، ڈی سی، ایڈیشنل کمشنر کے پاس ویسے ہی اپنے اتنے کام ہوتے ہیں کہ وہ ان مقدمات کے فیصلوں میں برسہا برس لگادیتے ہیں۔ ہو نا یہ چاہئے کہ انتظامی افسران سے یہ بوجھ ہٹایاجائے تاکہ وہ شہر کے امن و امان، صفائی، پرائس کنٹرول ، کرائم، ذخیرہ اندوزی، دہشت گردی جیسے مسائل کی طرف توجہ مرکوز کرسکیں لیکن ان پر اضافی فوج کے باعث دونوں جانب سے متاثر عوام ہی ہوتی ہے۔ ہمارے عدالتی سستم کو درست سمت پر گامزن کرنے کی تمام تر ذمہ اری صرف اعلی عدالتی، حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی اسکے لئے وکلا برادری، سیاستدان، دانشور، صحافی حضرات، علماء کرام، مفتیان حضرات، اسلامی نظریاتی کونسل سب کو مل کر سوچنا ہوگا۔ اگر انصاف اسی ملک میں نظام میں موجود خرابیوں کے باعث معدوم ہوتاچلاگیا تو نہ صرف اﷲ کی طرف سے پکڑ آئے گی ، دوسرے ناانصافی پر مبنی کوئی بھی ملک، ریاست کا وجود برقرار رہنا مشکل ہوجاتاہے۔ اﷲ کرے کہ ہم نظام عدل سے منسلک تمام تر افراد، سچائی، ایمانداری کو اپنائیں تاکہ ہمیں دین و دنیا دونوں کی کامیابی مل سکے۔
 

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137645 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.