’’اب آگے کیا؟‘‘

امریکی جریدے’’دی اٹلانٹک‘‘میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اس نکتے پر بحث جاری ہے کہ تاریخ اور روایات کے اعتبار سے اہم سمجھے جانے والے کسی بھی ملک کی ہیئت تبدیل کرنے میں طاقتور شخصیات کا کیا کردار ہوا کرتا ہے اور کیا ایسا کردار ادا کرنا اب بھی ممکن ہے۔سیاستدانوں اور خاص طور پر نظریاتی سیاست دانوں،کوجلدیا بدیر’’اب آگے کیا؟‘‘کے سوال کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اپریل میں منعقدہ ایک ریفرنڈم میں ترک صدر ایردوان کوغیر معمولی اختیارات حاصل ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن نے ان پر دھاندلی کاالزام بھی عائد کیاہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اب صدراردگان ترک سیاست پر۲۰۲۹ء تک چھائے رہیں گے۔ ترک سیاست، معاشرت اورمعیشت کومکمل طورپرتبدیل کرنے کیلئے ان کے پاس ایک عشرے سے زیادہ وقت ہے۔

اقتدارکے پہلے عشرے کے دوران اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) نے قومی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دورکردیں۔ آزاد منڈی کی معیشت سے متعلق تمام اصلاحات نافذ کی گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ فوج کو بھی، جو جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دے رہی تھی، سیاسی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے غیر موثر کردیا گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیایہی وہ کامیابی ہے جس کاخواب اے کے پی نے دیکھا تھا؟ ایسالگتا ہے کہ اے کے پی اب اپنی ہی کامیابی کے دام میں گرفتارہو چکی ہے۔ ملک میں جس قدرآزادی عوام کوملنی چاہیے تھی،وہ اب تک نہیں ملی۔ جمہوریت کے تحت اداروں کو جس قدر آزادی دی جانی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی۔ صدر اردگان چاہتے ہیں کہ انہیں صرف قومی معیشت وسیاست تبدیل کرنے کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ دیگرحوالوں سے بھی یادرکھاجائے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان میں اتنی بصیرت ہے کہ ترکی کافکری وعملی ڈھانچاہی تبدیل کردیں؟ اس سوال کاجواب نفی میں ہے۔ اردگان ٹیکنوکریٹ ہیں اورکسی بھی ملک کومکمل طورپر تبدیل کرنے کیلئے اتناکافی نہیں ہواکرتا۔ایسا لگتا ہے کہ اردگان کسی اورکو ابھرنے دینے کیلئے تیارنہیں۔ وہ اپنے سامنے کسی اورکابھرپوروجود برداشت نہیں کرسکتے۔ وزیراعظم احمدداؤاوغلوکاجانااس نکتے کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ احمد داؤاوغلونے اے کے پی کی پالیسیاں تیارکرنے اورانہیں عمل کی دنیا میں رکھنے کےقابل بنانے میں کلیدی کرداراداکیاہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کیلئے یہ سوال ہمیشہ اہم رہا ہے کہ کیا شخصیات معاشروں کوتبدیل کرسکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں کوئی حتمی رائے دینا ہمیشہ مشکل ثابت ہواہے۔ تاریخ،روایات اوراقدار کے اعتبار سے مضبوط معاشرہ کبھی کسی ایک آدھ شخصیت کے ہاتھوں تبدیل نہیں ہوا کرتا۔ ترکی بھی ایک ایسا ہی معاشرہ ہے، جس کا پورا ڈھانچا تبدیل کرنے میں کوئی ایک شخصیت کبھی بھرپورکامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ کوئی بھی شخصیت طاقت کے ذریعے تھوڑی بہت تبدیلیاں ضرورلاسکتی ہے مگر حقیقی معنوں میں دیرپا،مثبت تبدیلیاں یقینی بناناکسی ایک شخصیت کے بس کی بات نہیں۔ حقیقی اور غیر جانبدار سیاسی تجزیہ کارکبھی اس نکتے کی وکالت نہیں کرتے کہ شخصیات کورول ماڈل کی حیثیت سے قبول کیاجائے اوران کی ہربات پرآمنّاو صدقنا کہا جائے۔

۲۰۰۱ء کے ایک مضمون میں ڈین بائمین اورکین پولاک نے اس نکتے پربحث کی تھی کہ اداروں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے شخصیات کوبچایاجائے۔ان کا استدلال یہ تھاکہ بہت سی انتہائی غیرمعمولی شخصیات بھی اداروں کی طاقت کے سامنے بجھ سی جاتی ہیں اوراس کے نتیجے میں وہ ایسابہت کچھ نہیں کر پاتیں جو وہ بخوبی کرسکتی ہیں۔ مگرخیر،یہ بھی ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ بہت سی سیاسی اورعسکری شخصیات اپنی طاقت میں اضافے کیلئے اداروں کوجان بوجھ کرکمزورکرتی جاتی ہیں اورکبھی کبھی تووہ اداروں کوتحلیل کرنے سے بھی گریزنہیں کرتیں۔ ڈین بائمین اورکین پولاک نے لکھاتھا کہ انتہائی غیر معمولی، طلسماتی شخصیت اداروں سے زیادہ طاقتورثابت ہوسکتی ہے اوربہت سی مثبت تبدیلیاں بھی لاسکتی ہے۔اردگان میں بھی ایساکرنے کی صلاحیت تھی۔ انہیں ایسی قوتوں کا سامنا تھا جو کھل کر سامنے تھیں بھی اور نہیں بھی تھیں۔ ترکی ایک زمانے تک فوج، عدلیہ اورسکیورٹی کے اداروں کے چنگل میں پھنسارہا۔ کئی عشروں تک عوامی اداروں کے پنپنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی گئی۔ فوج نے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا اور عدلیہ نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ عوام کی خواہشات اور جذبات کو کنٹرول کرنے کیلئے اندرونی سلامتی کے نیٹ ورک سے بھرپور مدد لی گئی۔

اردگان نے متعددمواقع پراپنے آپ کومصطفی کمال اتاترک کے پائے کارہنمابناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مارچ ۲۰۱۴ء میں ایک کلیدی پریس کانفرنس سے قبل اے کے پی نے اردگان کو ترکی کے نئے معمار کی حیثیت سے پیش کیا اور پھر ایک وڈیو میں اردگان نے کہا کہ وہ ترکی کی دوسری جنگ آزادی کی قیادت کر رہے ہیں۔

میں نے اپنی ایک کتاب کی تیاری کے سلسلے میں اردگان اوردیگرشخصیات کی صلاحیت وسکت کے حوالے سے بہت سوچاہے۔عبداللہ گل ہی کی مثال لیجیے۔ وہ اردگان کیلئے ایک بڑے حریف کی شکل میں ابھرسکتے تھے اورابھر رہے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگراردگان کی جگہ عبداللہ گل جیسا نرم خو معاشیات کا پروفیسراے کے پی کاسربراہ بن جاتاتوکیاہوتا؟عبداللہ گل کے سابق مشیرکے مطابق عبداللہ گل کارجحان مذہب کی طرف زیادہ تھا۔وہ غیر معمولی حد تک حقیقت پسند تھے۔ انہیں یہ پسند نہ تھا کہ عوام کے بپھرے ہوئے جذبات کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کیا جائے۔ اگر انہیں کسی اقدام کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے کچھ زیادہ امید نہ ہوتی تو وہ اس معاملے میں آگے بڑھنے پریقین نہیں رکھتے تھے۔عبداللہ گل اس بات کے بھی سخت خلاف تھے کہ بڑھک آمیز باتیں کرکے لوگوں کو تقسیم کیاجائے۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگروہ ہوتے تومذہبی اورسماجی رجعت پسندی کوبنیاد بناکر معاشرے میں کسی حقیقی بنیادی تبدیلی کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ضرور ادا کرتے۔

مذہبی رجعت پسندی اجتماعی ہی نہیں انفرادی سطح پر بھی بہت اہم ہے۔ ذہن میں اس حوالے سے کم ہی شک ہے کہ اردگان بھی عام ترکوں کو مذہبی رنگ میں رنگا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ۲۰۱۱ء کے بعد سے ان کی سوچ میں واضح تبدیلی رونما ہوئی۔ ۲۰۱۱ء میں اردگان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ اس کے بعد سے انہوں نے موت کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ ہر مسلمان کی طرح ان کے ذہن میں بھی یہ نکتہ موجود ہے کہ ایک دن اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اور اردگان کو صرف اپنا ذاتی حساب نہیں دینا بلکہ قومی لیڈر کی حیثیت سے عام ترکوں کیلئے کیے جانے والے اقدامات کا حساب بھی دینا ہے۔ اور اس سے ایک قدم آگے جاکر اسلامی دنیا میں ترکی کے بڑھتے ہوئے قائدانہ کردار کے حوالے سے بھی ان پر شدید جوابدہی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک حدیث بھی ہے جس کامفہوم کچھ یوں ہے کہ’’ہم میں سے ہرایک کو کسی نہ کسی حوالے سے ذمہ داربنایاگیاہے‘‘یعنی کچھ لوگوں کی ذمہ داری ہمارے سروں پر ڈالی گئی ہے اورآخرت میں ہم سے اس ذمہ داری کے حوالے سے سوال کیا جائے گا۔

اردگان نے ریاستی قوت کے ذریعے لوگوں میں تقوٰی کی طرف مائل ہونے کا رجحان پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ عمل بالواسطہ رہا ہے۔ انہوں نے کسی پر اسلامی قوانین مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ عوام کو تحریک دی ہے کہ وہ اپنے معاملات درست کرنے پر توجہ دیں اور اس معاملے میں اللہ سے ڈریں۔ شراب پر پابندی عائد کرنا ایک دشوار فیصلہ ہوتا۔ اور آئین میں بھی مذہبی بنیاد پر شراب کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کی گنجائش نہیں ۔ اردگان انتظامیہ نے شراب پرٹیکس بڑھادیے اوررات دس بجے کے بعدشراب کی فروخت پرپابندی عائد کردی۔ ترک معاشرےمیں جلد شادی کرنے کارجحان نہیں تھا۔اس کے نتیجے میں خرابیاں پیداہورہی تھی۔اردگان نے جلد شادی کرنے والے جوڑوں کیلئے مالی اعانت کااعلان کیا۔آبادی میں اضافے کیلئے بھی فیصلہ کیا گیا کہ تین بچے پیدا کرنے والے جوڑوں کی مالی اعانت کی جائے۔

اسقاطِ حمل کے حوالے سے بھی اردگان کے ہاں کم ہی لچک ہے۔ بعض اوقات اردگان کارویہ باپ کاساہوتاہے۔ ان کاکہاہواہرلفظ قانون کادرجہ تونہیں رکھتا مگر وہ معاشرے کی حقیقی اصلاح چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ نئی نسل بری عادتیں ترک کردے۔ کئی مواقع پراردگان بالکل واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ کسی انسان کوختم کرنااوررحمِ مادرمیں پلنے والے بچے کوختم کرنادونوں ہی قتل ہیں۔

اردگان اسلام سے متعلق اپنے نظریات کوباضابطہ شکل میں پیش کرکے نافذ کرنے کے معاملے میں بہت محتاط ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی رجعت پسندانہ سوچ تھوپی نہ جائے بلکہ مرحلہ وارمتعارف کرائی جائے۔ اگرعوام قبول کریں تو ٹھیک،ورنہ معاملات کوجوں کاتوں رہنے دیاجائے اورموزوں وقت کا انتظارکیا جائے۔ ترکی میں ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے جواسلامی بنیادیں رکھتی ہے۔ ایسی جماعت اگرترک آئین کے خلاف جائے توحیرت کی بات کیاہے۔ ترک آئین میں سیکولراِزم کوباضابطہ نام کے ساتھ احترام بخشاگیا ہے اورمذہبی نظریات کاسرعام اظہارکرنے پرپابندی عائد کی گئی ہے۔۲۰۱۶ء میں پارلیمنٹ کے اسپیکر اور اے کے پی کی کلیدی شخصیت اسماعیل کہرمان نے تجویز پیش کی تھی کہ ترک آئین سے سیکولرازم کے احترام کااہتمام ختم کر دیاجائے مگراردگان نے ان کی رائے سے خودکو فوراًالگ کرلیا۔ ان کاکہنا ہے کہ آئین کے حوالے سے فی الحال کوئی مہم جوئی نہیں کی جاسکتی۔

اردگان کے پاس معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ایک وژن ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ وژن ہراعتبارسے درست اوربہترین ہو۔اے کے پی کے پاس حقیقی علماء شاذونادرہی رہے ہیں۔اسلامی علوم پرگہری نظراوردسترس رکھنے والے علماء کی اس پارٹی میں کمی رہی ہے۔ ابراہیم کلین اس حوالے سے استثناء کادرجہ رکھتے ہیں۔ وہ اردگان کے مشیراوردستِ راست رہے ہیں۔ انہوں نے واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پڑھایاہے۔تمام اسلامی علوم پران کی گہری نظررہی ہے۔ انہوں نے معاملات کودرست اندازسے چلانے کی بھرپور کوشش کی ہے اورکسی حدتک کامیاب بھی رہے ہیں۔ انہوں نے معروف شیعہ عالم ملاصدر کی سوانح بھی لکھی۔ وہ اسلامی علوم پرغیرمعمولی نظررکھتےہیں۔ وہ اردگان کاغیرمعمولی احترام کرتے ہوئے انہیں ایک خاص حدتک ہی قائل کر پائے ہیں۔ یعنی اس حد سے آگے جانا ان کیلئے ممکن نہیں۔

اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجا سکتاکہ اردگان کے ذہن میں بہت کچھ رہاہے۔وہ معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں اوراسلامی اقدارکافروغ بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہے مگریہ سب کچھ جبلّی یافطری سطح پرہے،علمی اورعقلی سطح پرنہیں۔اردگان کے ذہن میں جوکچھ ہے وہ ان کے اپنے تجربات کی روشنی میں پروان چڑھا ہے۔ وہ ایک خاص حدسے آگے جاکرنہیں سوچ سکتے۔اگروہ معاشرے کی اصلاح اوراسلامی اقدارکے فروغ کے حوالے سے واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تولازم ہے کہ مستندعلماء کے ساتھ بیٹھیں،انہیں اپنی رائے اورارادوں سے آگاہ کریں اورپھران سے رائے طلب کریں۔اسی صورت کسی مستند نظام کے حوالے سے کچھ کیا جاسکتا ہے۔

اردگان نے مذہبی امورسے متعلق وزارت دیانت کوعمدگی سے بروئے کارلانے کی کوشش کی ہے۔اس وزارت کے تحت مساجدکانظم ونسق بھی ہے اورائمہ کی تربیت بھی۔ مذہبی اسکول یامدارس بھی اسی وزارت کے ماتحت ہیں۔اردگان کی واضح ہدایات کی روشنی میں اب اسکولوں میں مذہبی تعلیمات کی کلاسیں لازم کردی گئی ہیں۔ ۲۰۱۵ء کی ایک تقریر میں اردگان نے اس بات کو بہت فخریہ انداز سے بیان کیا کہ ہائی اسکول کی سطح کے سرکاری مدارس میں انرولمنٹ ۶۵ ہزار سے بڑھ کر ۱۰ لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ترکی کی نئی نسل اپنی روایت اور ثقافتی ورثے کو زیادہ عمدگی سے سمجھنے کے قابل ہو سکے گی۔
اردگان نے ’’نیا ترکی‘‘ کا نعرہ بھی دیا ہے۔ یہ نعرہ اب محض نعرہ نہیں رہا، منصوبہ بن چکا ہے۔ ترکی میں بہت سوں کی نظر میں اردگان ایک روحانی لیڈر کی حیثیت رکھتے ہیں اور بات کچھ غلط بھی نہیں۔ انہوں نے اب تک متعدد مواقع پریہ جتایاہے کہ وہ ترکی کیلئے محض مادّی نہیں،روحانی اور معاشرتی ترقی بھی چاہتے ہیں یعنی معاشرے میں صرف دولت کی ریل پیل نہ ہوبلکہ اخلاقی اقدار بھی تیزی سے پروان چڑھیں، لوگ پوری دیانت کے ساتھ جئیں، ان کے ضمیر پر کوئی غیر ضروری بوجھ نہ ہو، وہ گناہوں سے آلودہ ہوئے بغیر پرسکون زندگی بسر کریں۔ اردگان کے طریقوں سے، سوچ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وہ پورے معاشرے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے غیر اسلامی نظریات اور تصورات کو ختم کرنے کے حوالے سے اچھی تیاری کی ہے مگر اس حوالے سے عوام پر زیادہ دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام پر کوئی بھی رائے تھوپی نہ جائے بلکہ وہ اپنے طور پر آگے بڑھیں اور وہ کر گزریں جو ان کیلئے بہتر اور ضروری ہو۔ ترکی میں اسلام پسند عناصر کسی بھی معاملے میں مرحلہ وار تبدیلی یقینی بنانے کے عمل کیلئے لفظ project استعمال کرتے ہیں۔ اردگان بھی چاہتے ہیں کہ معاشرہ مرحلہ وار تبدیل ہو۔ کوئی بھی تبدیلی اگر راتوں رات رونما ہو تو صرف خرابیاں پیدا کرتی ہے۔

اے کے پی اگر طویل مدت تک حکومت کرنے کی تیاری کر رہی ہے تو یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کیونکہ جو کچھ وہ کرنا چاہتی ہے اس کیلئے طویل مدت درکار ہے۔ معاشرے کو مکمل طور پر اور کسی واضح خرابی کے بغیر تبدیل کرنے کیلئے طویل مدت درکار ہوا کرتی ہے۔ اردگان اپنی تقاریر میں کہہ چکے ہیں کہ ’’اے کے پی ایک نسل کی تحریک کی صورت میں نمودار ہوئی مگر یہ کسی ایک نسل تک محدود نہیں‘‘۔ یعنی جو کچھ اے کے پی کرنا چاہتی ہے وہ کئی نسلوں کا کام ہے اور یہ کام کئی نسلیں مل کر ہی کرسکتی ہیں۔

سیمیوئل ہنٹنگنٹن نے اپنی معرکہ آراء کتاب ’’دی کلیش آف سویلائزیشنز‘‘ میں ترکی کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ اگرچہ نظریاتی اعتبار سے ایک منتشر ملک ہے لیکن اگر اتا ترک کی وراثت کو نظر انداز کرے تو متحد ہوکر اسلامی دنیا کا رہبر بن سکتا ہے۔ مگر اس کیلئے لازم ہے کہ وہ اتا ترک کی وراثت کو اس جذبے سے بڑھ کرنظراندازکرے جس جذبے سے روس نے لینن ازم کو نظر اندازکیاہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ترکی کیلئے ایک نئے اندازسے ابھرنا اور ایک نئی شناخت کے تحت عالمی سطح پر کام کرنا انتہائی ممکن ہے۔ اور شاید اب یہ عمل شروع بھی ہوچکا ہے۔ اردگان اور ان کی پارٹی نے ترکی کو ایک نئی شکل میں دنیا کے سامنے لانا شروع کردیا ہے۔

یورپی یونین نے ترکی کورکنیت دینے سے اب تک گریزکرکے یہ پیغام دیا ہے کہ اُسے ایساترکی کسی حال میں قبول نہیں جواسلامی روایت اورشناخت کاحامل ہو۔ ایسے میں اردگان اوران کے رفقاءکے پاس صرف یہی آپشن رہ جاتا ہے کہ وہ مل کرترکی کوایک نئی شناخت دیں،اسلامی دنیامیں نمایاں مقام دلائیں اوریورپی یونین کی رکنیت سے متعلق اپنی تمام امیدوں کاگلا گھونٹ کرخودکواسلامی دنیا کےلیڈرکے طورپرآگے لائیں۔

اردگان سے اختلاف کرنے والوں کی اب بھی کمی نہیں۔ پانچ سال پہلے تک ترک ماڈل کی باتیں ہورہی تھیں۔ اب بہت سے لوگ ترک ماڈل کے ذکرکوزیادہ فخر سے برداشت نہیں کرتے۔ بات یہ ہے کہ اردگان حکومت نے صحافت کے ہاتھ پیر باندھنے کی کوشش بھی کی ہے اور چند ایک معاملات میں شہری آزادیوں کو بھی حدود میں رکھنے پر بضد رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں اختلاف کرنے والے بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ایک خطرناک رجحان یہ ہے کہ اسلام پسند عناصر مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق چلتارہے۔ یہ خطرناک ہے۔ جو لوگ کسی بھی حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں ان کے اطمینان کیلئے ان کی بات سننا لازم ہے۔ ایسا کرنے ہی سے معاملات کو درست رکھنے میں خاطر خواہ حد تک مدد مل سکتی ہے۔ احمد داؤ اوغلو کے ایک مشیر کے مطابق ’’کچھ لوگ اب تک اتا ترک کی لاش کے ساتھ جی رہے ہیں۔ ہمیں اتا ترک کی لاش کو قبر میں واپس ڈالنا ہی پڑے گا‘‘۔

اتا ترک نے ترکی کو تبدیل کردیا تھا مگر یہ سب کچھ طاقت کے ذریعے تھا۔ اس نے ساری طاقت اپنی ذات میں مرتکز کرکے ترک معاشرے کی بنیاد ہی بدل ڈالی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام پسندوں کیلئے ذرا بھی گنجائش نہ رہی کہ اپنی بات پیش کرسکیں، منواسکیں۔ اتا ترک نے جو کچھ کیا تھا وہ طاقت کے ذریعے تھا اس لیے سات عشروں کے بعد سب کچھ بدل گیا اور جیسے ہی گنجائش پیدا ہوئی، اسلام پسندوں نے اپنی بات منوائی اورخوب منوائی۔اب اسلام پسندبھی چاہتے ہیں کہ اپنی حیثیت کابھرپورفائدہ اٹھائیں۔سیکولرازم کی بات کرنے والوں کوہرمحاذ پر مشکلات کاسامناہے۔ یہ فطری سامعاملہ ہے۔ ترکی معاشرے کاڈھانچاایک بارپھر تبدیل ہورہاہے۔ اگریہی حال رہاتوایک ڈیڑھ عشرے میں سیکولراِزم کی بات کرنے والوں کیلئے مشکلات اتنی بڑھ جائیں گی کہ وہ کسی بھی معاملے میں کھل کر اپنی رائے کااظہاربھی نہیں کرسکیں گے۔

اتاترک نے جوکچھ کیاتھااس کے اثرات زائل کرنے کیلئے اب اردگان اوران کے رفقاءغیر محسوس اندازسے اپنے ارادوں کوعملی جامہ پہنارہے ہیں۔ ترک عوام کیلئے ایک نئی زندگی بسرکرنے کاماحول پیداکیاجارہاہے۔ سیکولراِزم کودیس نکالادینے کی تیاری کی جارہی ہے مگریہ سب کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ اردگان اوران کے رفقاءچاہتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں طاقت غیرضروری طورپر بروئے کارنہ لائی جائے۔ سوشل انجینئرنگ غیرمحسوس طریقے سے کی جا رہی ہے۔ سب کچھ مرحلہ وارہورہاہے۔ کسی بھی معاملے میں پورے معاشرے سے ٹکرانے کی تیاری نہیں کی گئی اورنہ ہی اب بھی ایساکچھ دکھائی دے رہا ہے۔ ہیڈ اسکارف کے معاملے میں بھی اے کے پی نے غیرلچک داررویہ نہیں دکھایا۔ سب کچھ عوام کی مرضی سے ہواہے۔اے کے پی کے رجعت پسندرہنماؤں کورام کرنے پرتوجہ دی گئی ہے تاکہ وہ بپھرکرکچھ ایسا نہ کربیٹھیں کہ کیے کرائے پر پانی پھرجائے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349363 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.