مجھے میری انا کے خنجروں نے قتل کرڈالا

سمراٹ اشوک اور چانکیہ کے بیچ جس طرح کا تعلق تھا ویسا ہی رشتہ نریندر مودی اور امیت شاہ کے درمیان ہے۔ دونوں کو ایک ساتھ عروج نصیب ہوتا ہے اور دونوں کے ستارے ایک ساتھ گردش میں آجاتے ہیں۔ اگست میں امیت شاہ نے کیرالا میں جن رکشا یاترا نکالنے کا ارادہ کیا اور درمیان میں پریورتن ریلی کی خاطر بنگلور میں دانشوروں کے ساتھ نشست طے کی گئی ۔ یہ دونوں پروگرام ایک ماہ کے لیے ملتوی کیے گئے اوراکتوبر کے اوائل میں کیرالا کی ریلی کوامیت شاہ نے کننور میں ہری جھنڈی دکھائی۔ سات کلومیٹر پیدل چلے لیکن لوگ ساتھ نہیں آئے ۔ اگلے دن وزیراعلیٰ کے حلقۂ انتخاب میں جانا تھا لیکن اچانک درمیان سے سارے پروگرام چھوڑ چھاڑ کے امیت جی دہلی فرار ہوگئے۔ بنگلور جانا تو دور منگلور میں استقبال کے لیے جمع کارکنان سے ملاقات تک نہیں کی۔ سیدھے ہوائی اڈے پہنچے اور یہ جا وہ جا ہوگئے۔

بی جے پی ترجمان نے شاہ کی واپسی کے لیے ذاتی اسباب کا بہانہ بنایا ۔ مبصرین نے عوام کی سردمہری کو ذمہ دار ٹھہرایا لیکن ممکن ہے وہ ذاتی وجوہات جئے شاہ سے متعلق انکشافات رہے ہوں۔ روہنی سنگھ جب سرکاری دفاتر سے معلومات کررہی تھیں تو کسی سرکاری جاسوس نے اس کی اطلاع امیت شاہ کو دے دی ہو گی ۔ اس خطرناک بلی کو تھیلے سے باہر آنے سے روکنے خاطر ساری سرگرمیوں کو لات مار کر شاہجی لوٹتا پڑا ہوگا ۔ امیت شاہ جانتے ہیں کہ ان کا سارا رعب داب صدارت کی کرسی پر منحصر ہے ۔ اس کے چھنتے ہی ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو انہوں نے پہلے والوں کے ساتھ کیا ہے۔سنگھ پریوار میں اپنے پرکھوں کو ’ون پرستھ آشرم‘ یعنی جنگل بیابان میں روانہ کردینے کی روایت پر سختی سے کاربند ہے اور اس کے لیے عمر کی قید نہیں ہے۔

سنسکرت میں ایک کہاوت ہے ’وناش کالے وِ پریت بدھی‘ یعنی ’ برے وقت میں دماغ الٹ جاتا ہے‘۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیرالہ سے بھاگتے ہوئے امیت شاہ نے اپنی جگہ یوگی ادیتیہ ناتھ کو بلا کر ان کی مٹی پلید نہ کراتے۔ کیرالا کے ضمنی انتخابنے یوگی کو نیم چڑھا کریلا ثابت کردیا۔ امیت شاہ کے آگے پیچھے جوکارکنان کسی عہدے کی لالچ میں بھاگتے پھرتے تھے وہ یوگی جی کو دیکھ کر ر فوچکر ہوگئے۔ ادیتیہ ناتھ نے جب یہ اعلان کیا کہ جمہوریت میں سیاسی قتل ناقابلِ قبول ہے تو کچھ ہنسی نہ روک سکے اس لیے کہ اگر وہ خود اس نصیحت پر عمل پیرا ہوتے تو ان کی قائم کردہ ہندو یوا واہنی کو عالمی ادارے جیش کی طرح دہشت گرد تنظیم نہیں قرار دیتے۔ سیاسی مبصرین جو یوگی کے لب و لہجے سے واقف ہیں انہوں نے اس بیان کی یہ مطلب نکالا کہ یوگی کے نزدیک کہ جمہوریت میں غیر سیاسی قتل و غارتگری مباح ہے۔اس لیے سیاسی لوگوں کو چاہیے کہ وہ گائے کے نام پر قتل کریں ، لوجہاد کے بہانے غیر سیاسی بے قصوروں کے خون کی ہولی کھیلیں۔ کیرل سرکار نے بی جے پی کے دفتر سے اسلحہ برآمد کرکے یوگی کی زبان اورچوٹی دونوں کاٹ دی ۔

کیرالا کے ایک ایسے حلقۂ انتخاب میں جہاں ۲۵ فیصد ہندو رہتے بستے ہیں جملہ ایک لاکھ ۲۶ ہزار ووٹ میں سے بی جے پی کو کل ۵ ہزار ووٹ ملے اور اس کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ یہ سب سرکشا یاترا کے دوران ہوا جس میں بی جے پی کے قومی اور صوبائی رہنماانتخابی مہم چلا رہے تھے۔مرکزی وزیر نتن گڈکری نے کہا تھا کیرالا کی سرزمین سےکمیونسٹوں کے خاتمہ کا آغاز ہوگا اور اس کے سارے رہنما خود ساختہ سبکدوشی یعنی وی آر ایس لے کر گھر بیٹھ جائیں گے ۔ سنگھ پریوار کی تمسخر آمیز شر انگیزی کا سدوھا فائدہ کمیونسٹ پارٹی کوہوا جس کے ووٹ کاتناسب ایک چوتھائی بڑھ گیا ۔ ایس ڈی پی آئیکو(جس پرپابندی کی افواہ پھیلائی جارہی ہے) نے بی جے پی سے ڈیڑھ گنا زیادہ ووٹ حاصل کئے اورکانگریس کی حلیف مسلم لیگ کا ایک غیر معروف امیدوار کامیاب ہوگیا ۔اس طرح ملاپورم ضلع میں وینگارا اسمبلی کے انتخابی نتائج نے بی جے پی کے اسٹار پرچارک کے چہرے پر کالک پوت دی۔

ادیتیہ ناتھ کے سیاسی افق پر نمودار ہوجانے کے بعد اوٹ پٹانگ بیانات پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی اس لیے یہ بی جے پی کی شناخت بن گئی ہے ۔ ان لوگوں کی زبان سے جب کوئی معقول بات نکل آتی ہے تو تعجب ہوتا ہے۔ ادیتیہ ناتھ کے سیاحت کی فہرست سے تاج محل کو خارج کرنے سے اس مایہ ناز یادگار کا توکچھ نہیں بگڑا بلکہ ان کا اپنا چہرہ بگڑ گیا۔ تاج محل ساری دنیا میں ہندوستان کی پہچان ہے۔ہمارے ملک میں لاکھوں ہندو راجہ مہاراجہ گزرے لیکن ان بیچاروں کو نہ تاج محل جیسی کوئی عمارت بنانے کی توفیق ہوئی اور نہ لال قلعہ جیسا کوئی قلعہ ان سے تعمیر ہوا۔ سنگیت سوم کا بے سرا راگ یوگی کے سونے پر سہاگہ بن گیا ۔ سوم نے اقتدار کے نشے میں کہہ دیا کہ تاج محل باپ کو قید کرنے کی تاریخ ہے ۔ شاہجہاں نے اپنے باپ کو قید نہیں کیا تھا بلکہ کیکئی نے اپنے سگے بیٹے کی خاطر سوتیلے بیٹےرام کو ۱۴ سال کے لیے بن باس پر بھج دیا تھا ۔یہ کس کی تاریخ ہے؟ سنگیت سوم نے ہندووں کے قتل عام کا الزام مغلوں پر لگایا لیکن بھول گئے کہ راون نامی براہمن عالم دین کا قتل اور ہندووں کے شہر لنکا کو جلانے کا کام مسلمانوں نے نہیں کیا تھا۔ کسی مسلمان بادشاہ نےاپنی حاملہ بیوی کو سیتا مائی کی طرح گھر بدر نہیں کیا ۔یہ سوال ایودھیا میں سو میٹر اونچا مجسمہ تعمیر کرنے والوں سے ہے۔

تاریخ کا ذکر نکلے تو مہابھارت کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔دریودھن نے اپنی بھابی دروپدی کے ساتھ بھری محفل میں جو سلوک کیا ویسی ایک مثال بھی سنگیت سوم مسلمانوں کی تاریخ سے پیش نہیں کرسکتے۔ مہابھارت میں جتنے ہندو مارے گئے اتنے تو مغلوں کی ساری جنگوں میں قتل نہیں ہوئے ہوں گے جبکہ کوروکشیتر میں دونوں جانب چچا زاد بھائی تھے اور کرن اور ارجن توسگے بھائی ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ ادیتیہ ناتھ نے گجرات میں اعلان توکردیا کہ جس طرح کرشن جی متھرا سے دوارکا یعنی اترپردیش سے گجرات آئے تھے اسی طرح میں بھی آیا ہوں ۔ بہتر ہوتا کہ وہ گجرات میں جاکر مہابھارت کا پاٹھ پڑھانے کے بجائے سنگیت سوم کو اس کے اتہاس سے واقف کراتے تاکہ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملتا کہ مودی جی لال قلعہ سے قوم کو کیوں خطاب کرتے ہیں اور صدر مملکت انگریزوں کے تعمیر کردہ محل میں کیوں رہتے ہیں؟ بی جے پی کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جہالت کے اظہار کو وہ اپنا طرۂ امتیاز سمجھتی ہے اس لیے اصلاح کا باب ہی نہیں کھلتا ۔ اس بیماری کے لیے سنگھ کے احمقانہ سنسکار ذمہ دار ہیں ۔

بی جے پی کے لیے شرم کی بات ہے گجرات کے رہنے والے مودی اور شاہ اپنی ڈوبتی ناو پار لگانے کے لیے ادیتیہ ناتھ جیسے چھٹ بھیا سیاستداں کے محتاج ہوگئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یوگی کے بجائےنتیش کمار کو گجرات بلاتے تاکہ ان کی مدد سے پٹیل برادری کا غم وغصہ کم کیا جاتا اور گجرات میں رہنے والے بہاری رائے دہندگان پر ڈورے دالے جاتے لیکن امیت شاہ کو ان کے اپنے ہم مذہب پروین توگڑیا سے پریشانی ہے جو آئے دن حافظ سعید کی طرح کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑ کر بی جے پی پر ہلہ بول دیتے ہیں ۔ بی جے پی کو چاہیے کہ سرحد پار ہونے والی اشتعال انگیزی کے بجائے اپنے دہشت گردوں پر توجہ دے ورنہ پھر لوگ چراغ تلے اندھیرا کا طعنہ دیں گے۔ امیت شاہ نے پروین توگڑیا کا اثرات کو زائل کرنے کے لیے یوگی کو میدان میں تواتاردیا لیکن یوگی اور توگڑیا کی یہ مہابھارت گجرات میں میں بھی گورداسپور کا سماں پیدا کرسکتی ہے۔

پنجاب میں گورداسپورکو بی جے پی گڑھ مانا جاتا ہے ۔ ممبئی میں رہنے والے ونود کھنہ چار مرتبہوہاں سے کامیابی حاصل کرچکے تھے۔ان کے بعد بی جے پی کو تقریباً دولاکھ ووٹ کے فرق سے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ کاش کہ شاہ جی وہاں بھی پر چار کے لیے یوگی ادیتیہ ناتھ کو روانہ کرتےتاکہ دولاکھ کا فرق بڑھ کر تین لاکھ ہوجاتا۔یوگی جی کو کیرالا اور گجرات جانے کے بجائے الہ باد جا کر اے بی وی پی کوسماجوادیوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے بچانا چاہیے تھا ۔ مشرق کا آکسفورڈ کہلانے والی یہ یونیورسٹی اشتراکیوں کا نہیں بلکہ زعفرانی سیاست کا اڈہ تھی ۔ اکھلیش کے راج میں یہاں سارے اہم عہدے اے بی وی پی کے حصے میں آتے تھے لیکن یوگی جی مہربانی سے طلباء اور نوجوان اس قدر بیزار ہوگئے ہیں کہ ۵ میں ۴ نشستوں پر اسے سےشکست فاش سے دوچار کر دیا۔ یوگی جی یاد رکھیں کہ اگر اپنا گھر شعلوں کی لپیٹ میں ہو پڑوسی کی آگ نہیں بجھاتے۔

اس شک نہیں کہ مودی جی فی الحال گجرات کی بابت فکر مند ہیں یہی وجہ ہے گزشتہ ۳۲ دنوں میں انہوں نے چار مرتبہ گجرات کا رخ کیا اور ۲۲ اکتوبر کو پانچویں بار آنے وعدہ کرکے لوٹے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پردھان منتری نےپوری طرح پرچار منتری کا روپ دھار چکے ہیں اور انکے پاس کوئی کام ہی نہیں ہے۔ گجرات میں جاکر ہربار وہ راہل گاندھی کے الزامات کا جواب دیتے تھے لیکن اس بار تو راہل ان کے اعصاب پر سوار ہوگئے تھے۔ انہوں نے کانگریس کے خلاف جو کہا وہ کسی وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا ۔مودی جی نے سیاسی اور نظریاتی اختلافات کو خالص علاقائی عصبیت میں بدل دیا ۔ اس کی اولین وجہ تو یہ ہے کہ جس جلسہ عام میں بی جے پی نے ۷ سے دس لاکھ لوگوں کی توقع کی تھی اس میں صرف ایک لاکھ لوگ آئے۔اس پر بھی یہ ہوا کہ مودی جی کی تقریر کے دوران لوگ اٹھ کر جانے لگے ۔ بی جے پی والوں نے اس سردمہری کے لیے سورج کی گرمی کا بل پھاڑ ا حالانکہ اصل وجوہات دو ہیں۔ اول تو عوام مودی جی کی بے پرکی سے اوب چکے ہیں دوسرے مودی جی ٹیلی ویژن کے چکر میں ہندی بولتے ہیں۔اس کے خلاف احتجاجاً عوام چلتے پڑتے ہیں ۔ مودی جی کو اگر گجرات کا انتخاب جیتنا ہے تو قومی قیادت کے مقام بلند سے اتر کر علاقائی رہنما بننا پڑے گا۔

مودی جی نے گاندھی پریوار پر الزام لگایا کہ اس نے گجراتیوں پر ظلم کیا ۔ ولبھ بھائی سے لے کر مرارجی دیسائی تک سب کے ساتھ ناانصافی ہوئی اور ان کو وزیراعظم نہیں بننے دیا گیا۔ کیا نریندر مودی اتر پردیش میں جاکریہ کہیں گے کہ وہاں کے رہنما نااہل تھے جنہوں نے گجرات کے قابل لوگوں کو وزیراعظم بننے سے روک دیا ۔ خود مودی جی گجرات کے بڑودہ پر اتر پردیش کے وارانسی کو کیوں ترجیح دے ۔ انہوں نے خود گجرات کا نہیں اتر پردیش کا وزیراعظم کہلانے کو ترجیح دی ۔ اس سوال یہ ہے کہ کیا کسی قومی رہنما کو یہ لب ولہجہ زیب دیتا ہے؟ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ ولبھ بھائی پٹیل کے من میں کانگریس کو چھوڑنے کا خیال بھی نہیں آیا ۔ مرارجی دیسائی کو اتر پردیش کے لوگوں نے وزیراعظم بنایا اور ان کی حکومت کو گاندھی پریوار نے نہیں بلکہ چودھری چرن سنگھ اور بی جے پی نے گرایا۔مودی جی بھول گئے کہ مرارجی دیسائی کی جنتا پارٹی کے خلاف بغاوت کا بگل اٹل اور اڈوانی نے بجایا تھا۔

کانگریس نے ان دونوں گجراتی رہنماوں کے خلاف جو کیا سوکیا لیکن خود مودی جی نے سنگھ پریوار کے گجراتیوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ اپنے کرم فرما کیشو بھائی پٹیل کو بی جے پی چھوڑ کر علٰحیدہ پارٹی بنانے پر کس نے مجبور کیا؟ اپنے جگری دوست سنجے جوشی کو پارٹی سے ذلیل کرکے کس نے نکلوایا؟ واگھیلا کو کانگریس کے شرن میں کس نے بھیجا؟ سنگھ کے پرانے ہمدرد ہرین پنڈیا کے والد نے اڈوانی جی سے یہ کیوں کہا کہ میں اپنے بیٹے کے قاتل کے ساتھ اسجیگ پر نہیں بیٹھ سکتا۔ ایل کے اڈوانی بھی تو گاندھی نگر کے ایم پی ہیں خود ان کے اپنے حلقۂ انتخاب سے انہیں کس نے کنارے کردیا؟ کیا گجراتی رہنماوں کے ساتھ ایسی سفاکی کا مظاہرہ کرنے والوں کو گجرات کی عوام بخش دیں گے ۔اب جو مودی ونشواد (وراثت کی سیاست )کی بات کرتے ہیں تو عوام کی آنکھوں میں اجئے شاہ کا چہرہ گھومنے لگتا ہے ۔ کیا وہ امیت شاہ کا بدعنوان بیٹا نہیں ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے مودی جی کی قیادت میں گجرات کے بی جے پی کا گراف گرتا رہا ہے۔ ؁۲۰۰۲ میں بی جے پی نے ۸۵ء ۴۹ فیصد ووٹ کے ساتھ ۲۲۷ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ ؁۲۰۰۷ کے اندر اس میں معمولی کمی آئی ۔ووٹ کا تناسب۱۲ء۴۹ فیصد پر آگیا اور نشستوں میں ۱۰ کی تعداد کم ہوئی ۔ ؁۲۰۱۲ میں بی جے پی کی مزید ۲ نشستیں کم ہوگئیں لیکن ووٹ گھٹ کر ۸۵ء ۴۷ پر پہنچ گیا ۔ اس بیچ کانگریس ۵۱ سے بڑھ کر ۵۹ اور ۶۱ پر پہنچی لیکن اس کا ووٹ ۳۹ فیصد پر قائم رہا۔ کانگریس اور بی جے پی کے ووٹ کا تناسب میں ۹ فیصد کا فرق تھا۔ بی جے پی کا سب اہم ووٹ بنک پٹیل برادری تھی جن کی تعداد ۱۲ فیصد ہے اگر اس کے نصف بھی بی جے پی کو چھوڑ کر کانگریس کی جانب آجائے تو بی جے پی ۴۲ فیصد اور کانگریس ۴۵ پر پہنچ جائیگی ۔ اسی کے ساتھ گجرات کا سیاسی منظر نامہ کچھ اس طرح بدلے گا کہ ؁۲۰۱۹ سے قبل بی جے پی مودی کا متبادل ڈھونڈنے پر مجبور ہوجائیگی۔ مودی جی نیند اسی خوف نے اڑا دی ہے ۔انہیں ڈر ہے کہ کہیں کفیل آذر کا یہ شعر ان پر صادق نہ آجائے؎
مجھے میری انا کے خنجروں نے قتل کرڈالا
بہانہ یہ بھی ایک بیچارگی کا تھا بہانوں میں

کہاں تو پورے ملک میں ایک ساتھ پارلیمانی اور صوبائی انتخاب کروانے کے خواب دیکھے جاتے تھے تاکہ یکلخت ہر طرف کمل کھلا دیا جائے اور کہاں ہماچل پردیش کے ساتھ گجرات میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنے سے کترا جانا کہ کہیں اپنے گڑھ میں ہی لٹیا نہ ڈوب جائے ؟ اس صورتحال کو معروف جریدے آوٹ لوک نے اپنی شاہ سرخی میں اس طرح سمیٹ دیا’ Tunnel at the end of light‘ ۔ عام محاورہ تو یہ ہے کہ ’Light at the end of tunnel‘ ۔راہل کے ساتھ گجرات میں چونکہ یہ ہورہا ہے اس لیے ظاہر ہے کہ مودی کی بساط کو الٹنا ہی ہے۔ سیاست کا جھولا ترازو کے پلڑوں کی طرح ہوتا ہے کہ ایک کے اوپر جانے سے دوسرا ازخود نیچے آجاتا ہے۔ مشیت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں وہ طوفان نوح کے لیے تنورّ کا انتخاب کرتی ہے یعنی وہ جگہ جہاں پانی کا امکان بالکل مفقود ہو لیکن اس کی لغت میں ’انہونی‘ کا لفظ نہیں پایا جاتا ۔ اس کے ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ بس بات یہ ہے وقت کا تعین انسانوں کی مرضی سے نہیں ہوتا ۔ انہیں صبرو سکون کے ساتھ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بعید نہیں کہ مودی اور شاہ کے گھر سے پھوٹنے والا یہ طوفان جلد یا بہ دیر
سارے سنگھ پریوار کو لے ڈوبے گا؟

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1207707 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.