ٹوٹا جوتا

 بہت سال ہوئے بصرہ میں ایک بزرگ رہتا تھا جس کا اندازِ زندگی نہایت سادہ اور عامیانہ تھا۔ اسے دیکھ کے ایسے لگتا تھا جیسے اس پر دنیاکی ہوا کبھی چلی ہی نہ ہو۔اس کے کپڑے صاف ستھرے ہوتے لیکن وہ کبھی زیبائش پسند نہ کرتا۔ اس کی درویشی اور بزرگی کی آہستہ آہستہ دھوم مچنے لگی۔ راہِ طریقت کے راہی اس کے گرد حلقہ بگوش رہنے لگے۔ کوئی صبح آتا تو کوئی شام ۔ اس کے مرید اس کے لئے کبھی کبھی کچھ تحائف بھی لے آتے۔ اور وہ ان تحائف کو قبول کرتے ہی اپنے سے کم تر حیثیت والے مریدوں میں بانٹ دیتا ۔ اس طرح اس کی شہرت میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا۔

اس کے سادہ لباس اور جوتوں پر اس کے غلاموں کی نظر پڑتی اور وہ اپنے بزرگ کو دبے لفظوں میں مشورہ بھی دیتے کہ لباس اور جوتوں پر بھی توجہ دی جائے اور ان کی حالت بھی بہتر کی جائے، کیوں کہ مخالفین ، جو کہ قریباً ہر شخص کے ہوتے ہیں، اس بات پر طعنے دیتے ہیں کہ ان کے پیر کے کپڑے اور جوتے انتہائی بوسیدہ اور گھسے پٹے ہیں، اسے کوئی اچھا لباس پہنایا کرو۔ مریدوں کو یہ بات بہت ناگوار گزرتی کہ کوئی ان کے پیر کے خلاف زبان درازی کرے۔ مریدوں کی طبیعتوں پر بوجھ محسوس ہوتا اور وہ آپس میں بات چیت کرتے کہ اس مسئلے کا کیا حل تلاش کیا جائے، جب کہ ان کے بزرگ ان کی کوئی بات ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

انہوں نے ایک دن اپنے بزرگ سے اتنی زیادہ سادگی کی وجہ پوچھی۔ بزرگ نے دنیا کی بے ثباتی کا قصہ چھیڑ لیا اور پھر مریدوں کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ ان کے لئے بھی سادہ لباس ضروری قرار دے دیا گیا۔ کیوں کہ سادگی اور انکساری تصوف میں پسندیدہ خواص شمار ہوتے ہیں اور دکھاوا اور بڑائی کا تصور بھی راہِ سلوک میں گوارا نہیں ۔

ایک بار بزرگ کا جوتا جو کہ باقی لوگوں کے جوتوں کے ساتھ ہی پڑا تھا، اتفاقاً الٹا ہو گیا،اس پر ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ جوتے کا تلوادرمیان سے کریک تھا، یقینی بات ہے کہ وہاں سے پانی پاؤں کے تلوے تک ضرور سم جاتا ہو گا۔

یہ صورتِ حال مریدوں کے لئے کپڑوں کی سادگی سے بھی زیادہ گھمبیر تھی۔ اگر کسی کو پتہ چل جائے تو وہ ان مریدوں کو کیا کیا طعنے دے گا۔ مریدوں نے فوری طور پر اس جوتے کے سائز کے برابر اسی ڈیزائن کا ایک نیا جوتابازار سے منگوا لیا ،اور پرانے جوتے کو کہیں چھپا دیا ، اس خیال سے کہ اگر اس جوتے کے متعلق پوچھا جائے گا تو کہاجائے گا کہ وہ جوتا کہیں گم ہو گیا ہے۔

جب وہ بزرگ اٹھ کر جوتا پہننے لگے اور اپنے پرانے جوتے کہ جگہ ایک چمکدار نیا جوتا پایا، تو پریشان ہو گئے۔ مریدوں نے عرض کیا کہ حضور نیا جوتا ہی زیبِ قدم فرما لیں۔ آپ کا پرانا جوتا کوئی غلطی سے پہن کر لے گیا ہے۔ بزرگ نے مریدوں کے ارادے بھانپ لئے۔ اس نے نہ صرف صاف صاف انکار کر دیا ، بلکہ ننگے پاؤں ہی باہر چلے جانے کی دھمکی لگا کر ، مریدوں کو اس کا ہی پرانا جوتا فراہم کر دینے پر مجبور کر دیا۔

مریدوں کی سب تدبیریں یکے بعد دیگرے ناکام ہوتی گئیں۔انہوں نے مشورہ کیا کہ وہ اب دنیا دار لوگوں کی باتوں میں آکر اپنے پیر پر اعتراض کرنے کی بجائے اس کے لباس کی سادگی اور جوتے کے ٹوٹے ہونے کی وجہ جان لیں، شاید ان کو بہتر سوچ مل جائے۔

انہوں نے اپنی ضد کو خیر باد کہا اور پیر صاحب کے گرد حلقہ بگوش ہو کر عرض کی کہ ان کو اپنی سادگی کی وجہ سے آگاہ فرمائیں کہ آخر اس میں کیا راز ہے۔

بزرگ نے جب دیکھا کہ اس کے مرید طالبِ رازو نیاز بن چکے ہیں، اس نے اپنی سادگی اور دنیا سے بے رغبتی کی وجہ بتانا دینا مناسب سمجھا۔ اس نے اپنے مریدوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا :
سادگی ، بندگی کا حسن ہے، بندہ اپنے مالک کے حضور ایسے رہے جیسے غلام اپنے آقا کے سامنے ہوتا ہے۔ بوسیدہ کپڑے جو کہ پھٹ چکے ہوں یا پھٹنے کے خوف میں مبتلا ہوں، انسان کو زندگی کی بے ثباتی یاد دلاتے ہیں۔ اسی طرح میں اپنا جوتا ٹوٹا رکھتا ہوں جو کہ جب کسی گیلی جگہ پر پڑتا ہے تو مجھے زندگی کا کریک جو ایک دن پڑنا ہے یاد دلاتا ہے۔ زندگی کا چمڑا بھی ایک دن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا ہے، ٹوٹا ہو ا جوتا موت کی یاد دلانے میں معاون ہے۔ پاؤں کا پُر سکون ہونا ذہن کو مغرور کر دیتا ہے۔ اسی لئے عبادات میں جوتا اتارنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پاؤں کی بے سکونی ذہن کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ میں اپنا جوتا اس لئے ٹوٹا رکھتاا ہوں کہ اس کے نیچے سے سرایت کرنے والی نمی مجھے قبر اور موت کی یاد دلاتی رہے!

مریدوں نے جب اپنے بزرگ کی یہ ہدایت سے بھری گفتگو سنی تو اس کی آنکھیں موتیوں سے بھر گئیں۔ اور وہ محبت و عقیدت بھری آنکھوں سے اپنے مرشد کو تکتے گئے!

بزرگوں کی باتوں میں حکمت ہوتی ہے جب کہ دنیا دار اسے اپنے زاویئے سے دیکھتے ہیں۔ ہر بات کسی نہ کسی طرح خدا کی یاد میں محو رکھنے کا ذریعہ ہوتی ہے، جس سے اﷲ والے اپنے قلب و روح کی غذا پاتے ہیں۔۔۔۔

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 283326 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More