بھارتی فوجیوں کی بڑھتی ہوئی خودکشیاں

بزدل بھارتی فوجیوں کی بڑی تعداد اپنے ہاتھوں ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کررہی ہے اور رپورٹ کے مطابق ہر 3 روز میں ایک بھارتی فوجی خودکشی کرتا ہے۔ بھارتی وزارت دفاع نے یکم جنوری 2014 سے 31 مارچ 2017 تک کی رپورٹ جاری کی ہے جس میں تینوں مسلح افواج میں خودکشی کے بڑھتے رجحان کا جائزہ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ہر 3 دن میں ایک فوجی نے خودکشی کی جب کہ خودکشی کرنے والے 80 فیصد اہلکاروں کا تعلق زمینی فوج سے ہے جن کی کل تعداد 276 بنتی ہے جب کہ اسی دوارنیے میں بحری فوج میں شامل 12 اہلکاروں نے خود اپنی جان لے لی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1185 روز میں 348 فوجیوں نے دوران ڈیوٹی اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ۔ خودکشی کرنے والوں میں بڑی تعداد ان اہلکاروں کی تھی جو عرصہ دراز سے مقبوضہ کشمیر میں تعینات تھے جنہوں نے ذہنی تنا ؤکے باعث زندگی سے تنگ آکر موت کو گلے لگا لیا۔دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے جنوبی علاقے میں تعینات بھارتی فوجی نریندرا نے دوران ڈیوٹی خود کو گولی مار لی جس کی لاش اس کے آبائی شہر پہنچا دی گئی ہے۔اہل خانہ نے نریندر کی موت کی وجہ خودکشی قرار دیا ہے جس کے بعد وزارت دفاع اس فوجی کانام بھی خودکشی کرنے والے اہلکاروں کی فہرست میں شامل کررہی ہے۔

ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر تعینات بھارتی فوجی دستوں کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں جن کی چھ بڑی وجوہات ہیں۔ جن میں سے ایک مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے ہونے والا ڈیپریشن ہے۔ دوسرا بارڈر ایریا میں تعینات فوجیوں کو صرف دو فیصد الاؤنس ملنا۔ تیسرا بھارتی فوجیوں کے ہلاک و زخمی ہونے کے واقعات میں اضافہ۔ چوتھا گھر سے دوری اور بے چینی۔ پانچواں بھارتی فوجی افسروں کا فوجی جوانوں کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اور چھٹی وجہ فوجی جوانوں کی چھٹیوں کی درخواستوں کو عموماً مسترد کرنا بھی بھارتی فوجیوں کی حوصلہ شکنی کا بڑا سبب ہے۔ اسی تناظر میں بھارتی فوجیوں میں خودکشیوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

جس کی ایک مثال ماضی میں مشرقی لداخ کے علاقے سامبا میں 16 ایسٹ کیولیری کے ایک سپاہی نے اپنی سرکاری بندوق سے خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی جس کے بعد باقی سپاہی مشتعل ہو گئے اور انہوں نے بھارتی فوجی افسروں اور اعلیٰ حکام کیخلاف سخت نعرہ بازی کی۔ خودکشی کرنے والے اہلکار ارن وی کا تعلق بھارتی ریاست کیرالہ سے تھا۔ جو ضروری کام کی وجہ سے چھٹی جانا چاہتا تھا لیکن اس کی تمام تر منت سماجت کے باوجود اسے چھٹی نہیں دی گئی جس پر مایوس ہو کر اس فوجی نے خودکشی کرلی جس کے بعد اس کے ساتھی مشتعل فوجیوں نے افسران کو ان کے دفتر کے اندر تالے لگا کر بند کردیا جبکہ بعض افسران نے خود کو اپنے دفاتر میں چھپا لیا۔ کمانڈ اینڈ کنٹرول کی ناکامی کا یہ عالم تھا کہ نویں کور کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اے کے بھالامشتعل فوجیوں کی آنکھوں میں نفرت کے شعلے دیکھ کر جائے واردات سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ 16 کیولیری کے تمام افسران اپنی رہائش گاہوں سے بھاگ کر مختلف میسوں میں جان بچانے کے لئے جا پہنچے۔ فوج کے دو یونٹ ہنگامی طور پر سامبا پہنچے تاکہ صورتحال کو قابو میں لایا جاسکے۔

سابق بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے اعتراف اور انکشاف کیا تھا کہ 2003ء سے لیکر جولائی 2012ء تک 1028 بھارتی فوجیوں نے خودکشیاں کی ہیں۔ یہ بات انہوں نے راجیا سبھا میں ایک تحریری جواب میں کہی ہے۔یاد رہے کہ 1.13ملین بھارتی فوج میں دوسرے ساتھی کو زخمی یا ہلاک کرنے یا خود کشی کے واقعات معمول کے واقعات بنتے جارہے ہیں۔ ڈیفنس انسٹیٹیوٹ آف سائیکالوجیکل ریسرچ کے مطابق بھارتی فوج کے اعلیٰ افسروں کی طرف سے جوانوں کو ہراساں کرنا ، ان کی بے عزتی اور ان کے ساتھ غیر انسانی رویے اپنانے کے نتیجے میں جوان فوجیوں میں خودکشی کے یہ واقعات ذہنی تناؤ اور دباؤ کا نتیجہ ہے ۔

مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارت کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے فوجیوں کی اکثریت ایک بے مقصد جنگ سے تنگ اور ذہنی طور پر شکست خوردہ اور مایوس ہے کیونکہ انہیں کسی بھی وقت کسی طرف سے بھی کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے خوف اور دباؤ میں مسلسل رہنے ، گھر سے دوری ، چھٹیاں نہ ملنے کی وجہ سے گھریلو مسائل میں اضافہ اور بے چینی جیسے واقعات بھارتی فوجیوں میں خودکشی کے رجحان کو فروغ دیتے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں آزاد کشمیریوں کو کوئی فتح نہیں کرسکتا۔ بھارتی دانشور ارون دتی کے مطابق مقبوضہ وادی میں کشمیری آزاد ہوچکے ہیں۔ آزادی کی اس تحریک کو کچلنے اور آزادی کے متوالے کشمیریوں کو دبانے کیلئے بھارت نے بڑے پیمانے پر فوج اور سنٹرل ریزرو پولیس فورس کو تعینات کررکھا ہے مگر بھارتی فوج اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں میں یہ احساس زور پکڑتا جارہا ہے کہ ان کو ایک ایسی بے مقصد جنگ میں جھونک دیا گیا ہے جس میں کبھی فتح حاصل نہیں ہوگی۔ ہر وقت کسی بھی سمت سے اچانک آزادی کے پروانوں کا دھاوا اور انجانی گولی کا خوف ان کے دن کا چین اور رات کی نیند حرام کئے ہوئے ہے۔ بھارتی سیکورٹی اہلکار یہ بھی جانتے ہیں کہ کشمیری اپنی آزادی کی جائز جدوجہد کررہے ہیں جن کا قتل عام انسانی مقام و مرتبے کے سراسر منافی ہے۔ انہیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ ہزاروں کشمیریوں کو لاپتہ افراد کی صورت میں غائب کردینے کے باوجود تحریک آزادی کشمیر میں کمی نہیں آئی اضافہ ہی ہورہا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمشنر ناؤتی تھم یلے بھی واضح کرچکی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں لاپتہ افراد کے کیسز کے سلسلہ میں بھارتی حکومت نے مطلوبہ پیمانے پر تفتیش نہیں کی اور دلچسپی نہیں لی اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اپنے عروج پر ہیں۔

بھارتی سیکورٹی اہلکار اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہزاروں لاپتہ نوجوان کشمیری انہوں نے اعلیٰ افسران کے حکم پر کس طرح قتل کرکے اجتماعی قبروں میں دفنا دیئے گئے جن کا پتہ کسی آرمی کیمپ کے خالی کئے جانے کے بعد شاید لگ سکے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کچھ عرصہ قبل اوڑی سیکٹر کے پاس بھارتی فوج کے خالی کئے جانے والے کیمپ سے کشمیریوں کی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی تھیں۔ بھارتی سیکورٹی اہلکاروں کو انسانی حقوق کا قاتل ہونے کا احساس جرم چین نہیں لینے دے رہا۔ دوسری طرف جب وہ گھروں سے دور بے مقصد جنگ سے چھٹکارا نہ سہی وقفہ حاصل کرنے کیلئے چھٹی مانگتے ہیں تو افسران انہیں چھٹی نہیں دیتے جس کے نتیجے میں بھارتی فوج اور سیکورٹی اہلکاروں کا ایک دوسرے فائرنگ، خودکشی، فوج، پولیس اور سیکورٹی اداروں سے فرار معمول بنتا جارہا ہے۔ اب تک مشتعل ہوکر سیکورٹی اہلکاروں کی ساتھیوں پر فائرنگ اور خودکشیوں کی ان گنت واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران مصدقہ اطلاعات کے مطابق 127 بھارتی فوجی مقبوضہ کشمیر میں خودکشی کرچکے ہیں جبکہ 2009ء میں مارچ کے آخری ہفتے میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے سب انسپکٹر سمیت دو فوجی اہلکاروں نے خود کشی کرلی ہے۔ سی آر پی ایف کی 110بٹالین کے کیمپ میں ایک افسر نے ضلع پلوامہ کے علاقے پانپور جبکہ ایک اہلکار نے جموں کے علاقے گروٹہ میں اپنی سروس رائفلوں سے گولیاں مار دیں جس سی وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔اس طرح مقبوضہ کشمیر میں جنوری 2007 ء سے اب تک خود کشی کرنے والے بھارتی فوجی اہلکاروں کی تعداد 127 تک پہنچ گئی ہے۔

Raja Majid Javed Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Bhatti: 57 Articles with 39052 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.