معاشرہ کو کون بنائے گا۔۔۔؟

زندگی بھی کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے ۔؟جس طرف دیکھو افراتفری ،بدامنی اور بے چینی کی فضا دیکھنے کومل رہی ہے۔معاشرہ کے دواہم کردار ایک دوسرے کو ننگا کرنے پر تلے ہوئے ہیں،دنیا کے سامنے جینے مرنے اور ایک ساتھ زیست کا کٹھن سفر طے کرنے والے یکا یک ایک دوسرے کے ابدی دشمن بن جاتے ہیں۔ایک طوفان سا دیکھنے کوملتا ہے اور پھر سمندرکی جھاگ کے جیسے سب کچھ بیٹھ جاتاہے،جڈبات پر قابو پالیا جاتاہے اور پھر پچھتاواساری زندگی کا روگ بن جاتاہے۔یارا۔۔ہم بھی کتنے بدھوں ہیں جو آپ جناب کو صرف معاشرہ کا ایک روپ دکھا نے کی کوشش کررہے ہیں۔کیونکہ معاشرہ میں اچھائیاں بھی ہیں پیاروں۔۔جیسے۔۔بچہ ،بچی کسی کے آنگن میں جنم لیتے ہیں۔۔دیکھتے ہی دیکھتے ان کے قد کاٹ کچھ اس قدربڑھ جاتے ہیں کہ والدین کو ان کی شادی کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ایسے میں کبھی لڑکا حالات کے ساتھ سمجھوتا کرلیتاہے تو کبھی کسی کے گھرکی لکشمی کو بھگا کرخاندانوں کی عزت داؤ پر لگادیتاہے۔دوسری جانب عورت ذات جسے معاشرہ کا معصوم کردار کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا (مردحضرات سے معذرت کے ساتھ)کیونکہ عورت ہی ہمیشہ مرد کے ہاتھوں کا کھلونا رہی ہے ،لیکن ایسا خال خال ہی ہے۔دنیا اور خاص طورسے ہمارے معاشرہ میں مرد حضرات عورت کی عزت وتعظیم میں اپنا تن من دھن بلکہ سب کچھ قربان کرجاتے ہیں۔لیکن اگر عورت اپنے مردوں کو قدر نہیں جانتی تو جیسے بقول شاعرکہ
جب سے عینک لگی نظروالی
زہر لگنے لگی ہے گھروالی
والے شعرباآسانی ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔تاہم ہمارے معاشرہ میں ایسی عورتیں بھی بہ کثرت پائی جاتی ہیں جو مردوں کی ایک لمحہ کے لئے بے عزتی اور بے توقیری برداشت نہیں کرسکتیں۔انہی چند عورتوں کی اکٹھ گزشتہ روز پشاورکی معروف جامعہ (شہید بے نظیر یونیورسٹی پشاور) میں منعقد ہوئی۔ہرچند کہ مذکورہ اکٹھ میں خواتین مردوں کے معاشر ہ کے لئے موجودہ کردارسے نالاں نظرآئیں،ان کے مطابق آج کے مرد عورت کوان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھتے ہیں۔انہیں وراثت سے یکسر محروم کردیتے ہیں،انہیں دیوارسے لگانے میں ذرا برابر دیر نہیں کرتے۔تاہم اس کے جواب میں یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرخدیجہ عزیز کاکہنا تھاکہ’’ میں بحیثیت عورت ایسے الزامات کو یکسر مسترد کرتی ہوں کیونکہ میں خود ایک پختون معاشرہ میں پلی بڑھی ہوں ،میں آج مقام پر ہوں اپنے والد،بھائی اور شوہر کی وجہ سے ہوں ۔انہی کرداروں کی بدولت آج میں معاشرہ کی عزت دا رخاتون کہلاتی ہوں۔میں ان کے تعاون کے بنا کچھ نہیں‘‘۔نہ صرف یہ بلکہ اکٹھ میں شریک خاتون کی اکثریت اپنے والد ،بھائی اور بیٹوں کے بھرپور دفاع میں موجود تھیں،ان میں کسی کو بھی ان کی عزت سرے محفل تارتار گوارہ نہ تھی،اور ہوتی بھی تو کیسی کیونکہ وہ ایک پختو ن معاشرہ میں سانس لے رہی ہیں۔انہیں ان تمام روایات کا لحاظ پاس ہے کہ جس سے جڑ کرہی وہ معاشرہ اوردنیامیں ترقی کرسکتی ہیں۔یادرہے کہ خاتون کی مذکورہ اکٹھ پاک کونسل آف ورلڈ ریلجنز(PCWR)کے بینر تلے بڑی تند دہی اور دلجوئی سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ان خواتین میں مختلف یونیورسٹیز کی پروفیسرز،لیکچرزاورسکول وکالجز کی پرنسپلزشامل ہیں۔معاشرہ کو جہاں خواتین کی ترقی وبہبود کے لئے ایک بہترین پلیٹ فارم کی اشدضرورت ہے وہاں پی سی ڈبلیو آرکی سرکردہ خواتین اپنے اپنے طور معاشرہ کے امن میں مثبت کرداراداکررہی ہیں۔یقینا آج کے اس پژمردہ معاشرہ کو کچھ ایسی ہی باصلاحیت خواتین کی اشد ضرورت ہے کہ جن کے مثبت کردارکی بدولت معاشرہ ترقی کے منازل طے کرسکتاہے۔یہ خواتین اپنے اپنے شعبہ میں امن کے پیغام کو پھیلنے میں سرگرداں ہیں،انہیں معاشرہ کو صحیح سمت دینے اور اسے پٹڑی پر لانے کا گر اچھے سے آتاہے۔وہ آج کی ان تمام متنشر خواتین کو راہ راست پر لانے کی خواہاں ہیں کہ جن سے نسل نو نے امیدیں وابستہ کررکھی ہیں۔بہرحال معاشرہ جہاں مرد کاہے وہاں عورت کابھی ہے۔اگر تو مرد اپنے حالات کا سنوارچاہتاہے تو اسے ضروربالضرور اپنے ساتھی کردا ریعنی کا بھر پور ساتھ دینا ہوگا۔اسے عورت کی حیثیت تسلیم کرنا ہوگی۔اسے عورت کے وجود کو وہ جلا بخشنا ہوگی کہ جس کی بدولت عورت امن کے پیغام کوپھیلانے میں دقت محسو س نہ کرے۔آج کا مرد تعلیم یافتہ ،سمجھ دار اور خودمختار تبھی اپنے آپ کو مان سمجھ سکتاہے جب اسے عورت کے مختلف کردار کو سمجھنا ،ماننا اور تسلیم کرنا اچھے سے آتاہو۔اسے ایک کامیاب مرد بنانے میں عورت کے مختلف کرداروں کوملحوظ خاص رکھنا ہوگا تاکہ عورت اسی ایک خوشی کو اپنے جینے کامقصد سمجھ کر اس کی مزید معاون ومددگار ثابت ہوسکے۔ٹھیک اسی طرح عورت کو بھی اپنے مختلف کرداروں کی حقیقت کا سمجھنا اورتسلیم کرنا ہوگا،اگر وہ ما ں کے روپ میں بیٹے کی خوشی چاہتی ہے تو اسے ساس کے روپ میں بہو کے وجود کو تسلیم کرناہوگا۔۔اگر وہ سکھ وچین کی زندگی چاہتی ہے تواسے بیٹی کی تربیت کچھ اس ڈھنگ سے کرنی ہوگی کہ جس سے وہ کسی گھر کی لکشمی کہلائے ۔تبھی ہمارامعاشرہ ترقی کرسکتاہے۔بصورت دیگرکیا ہوگا ہم سب جانتے ہیں۔

Waqar Ahmad Awan
About the Author: Waqar Ahmad Awan Read More Articles by Waqar Ahmad Awan: 65 Articles with 46408 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.