اکادمی ادبیات پاکستان کے سربراہ اور کچھ سوالات؟

 کافی کچھ لکھنے کو سوچا لیکن وقت نہ مل سکا ـ ڈاکٹر قاسم بھگیو سے بحیثیت ایک قاری تعارف کو تقریبا ایک سال پرانا ہو گیا ہے ـ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نے نئے نئے بلاگ رائیٹر کے لکھنا شروع کیا تھا ـ اس وقت اردو کے الف ب سے بھی واقفیت نہ تھا ـ کچھ عرصہ بیتنے کے بعد میں نے اردو کمپوزنگ کرنا سیکھ لیا تھا ـ گذرتے وقت کے ساتھ میں نے واٹس اپ بھی چلانا سیکھ لیا تو ڈاکٹر قاسم بھگیو کے میسج آنے شروع ہوگئے اور روز ایک پروگرام کی تفصیلات مجھے مل جاتی تھی ـمیں بچپن سے مطالعے کا بہت شوقین رہا ـ اس وقت میں ڈاکٹر قاسم بھگیو کی تحریرں پابندی سے پڑھا کرتا تھا۔ ساتھ میں دوسرے رائیٹرز کو بھی پڑھ لیتا تھا۔جس انسان سے آپ کو محبت ہو، ان کی تحریریں آپ پابندی سے پڑھتے ہوں، ان کی تحریروں کو سنبھال کر رکھتے ہوں، ان کی تعبیرات اور جملوں کو زبانی یاد کرتے ہوں ، ان کے تخیل اور سوچ کی مثالیں دیتے ہوں ان سے ملاقات کی خواہش کیسے نہ ہو مگر وہ میری خواہش آج تک پوری نہ ہوسکی۔ ڈاکٹر قاسم بھگیو کا گاؤں میرے گائوں سے صرف ایک سو پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے مگر ڈاکٹر صاحب کم کم گائوں آتے ہیں اس لئے ملاقات کا شرف نہ ملا۔

ڈاکٹر قاسم بگھیو عمر بھر پاکستان کی آزاد اور جمہوری ثقافت کی ہمت افزائی کرتے رہے ہیں اور مختلف ذرائع بروئے کار لا کر عالمی امن، مساوات ،اخوت اور تحمل و برداشت کے لیے راہ ہموار کرتے رہے ہیں۔ آپ تاریخ، ادب ،عمرانیات اور ثقافت کے حوالے سے انتہائی وسیع المطالعہ شخصیت ہیں اور ایک سماجی دانشور اور ماہر لسانیات کے طور پر بھی مشہور معروف ہیں. ان کے تخیل ، سوچ اور زبان کی مٹھاس اصل سندھی میں ہے ـ

جملے ایسے ہوتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ انہیں کوٹ کر پہن لیا جائے ـ تعبیرات پر سوچ پڑھک اٹھتی ہے، دماغ بار بار پڑھنے پر مجبور کرتا ہے.ان کے مطالعے یا تجربے پر کیا باتیں ہو سکتے ہیں ،وہ ادب پر بہت گہری نگاہ رکھتے ہیں، مقامی ادب کے ساتھ عالمی ادب پر بھی عبور رکھتے ہیں ـ ان کی روح میں سندھ کا اوشو نظر آتا ہے .ڈاکٹر بگھیونے گورنمنٹ کالج لاڑکانہ سے بی اے اور سندھ یونیورسٹی سے ایم۔ اے سندھی ایل ایل بی ا ور ایم اے صحافت میں پاس کیا۔ پھر آپ نے علم زبان اور علم الکلام میں پی ایچ ڈی کی ڈگری یونیورسٹی آف ایسکس(Essex) برطانیہ اور پوسٹ ڈاکٹر یٹ کی ڈگریی یونیورسٹی آف لندن سے حاصل کی۔پروفیسر بگھیو کی خصوصی دلچسپی کا میدان سماجی لسانیات ہے۔ اس سلسلےمیں انھوں نے اردو اور سندھی کے باہمی روابط، طرز کلام اور لسانی تبدیلیوں پر جو کام کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

ڈاکٹر بگھیو ملک کے کئی اہم اداروں کے ساتھ بطور اساسی رکن ، سکالر ، ماہراور ممبر مجلس نظماوابستہ رہے ہیں۔جن میں ایچ ای سی (ہائی ایجوکیشن کمیشن)، سندھی ادبی بورڈ، سندھی لینگوئج اتھارٹی(مقتدرہ سندھی زبان)، انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی، سندھ پبلک سروس کمیشن، یونیورسٹی آف کراچی، اورقائداعظم یونیورسٹی ، اسلام آباد جیسے ادارے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر قاسم بھگیو ادب لسانیات اورتعلیم کے شعبوں کے خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں حکومت پاکستان کی طرف سےصدارتی تمغہ ٔ امتیاز سمیت کئی ملکی اور غیر ملکی انعامات و اعزازات سے نوازا جا چکا ہے ۔میری ان سے چند گزارشات ہے کہ پاکستانی زبانوں اور ادب کے فروغ اور ملک میں اہل قلم کی برادری کی فلاح و بہبود کے متعلق پالیسی پر وفاقی حکومت سے بات کرے اور چند چیزوں پہ عمل درآمد کیلئے جدوجہد شروع کریں ۔

ہر صوبے میں اکادمی ادبیات پاکستان کے دفاتر میں رائیٹرز کنوینشن رکھیں ۔

لوکل زبانوں پہ تحقیقاتی منصوبوں بنائیں جائیں اور ان منصوبوں پر کام شروع کیاجائے۔

ادب کی دنیا کے غریب ہیروز کو مالی امداد فراہم کیئے جائے۔

رائیٹرز کیلئے اعزازیہ اور اعزازی کاپیاں ہر میگزین کے ایڈیٹر پہ لازم و ملزوم کیئے جانے پہ جدوجہد کیا جائے۔

پاکستانی ادب کی دنیا میں غیر ملکی رائیٹرز کو بلوایا جائے اور ان کی تقریر ریکارڈنگ کر کے سوشل میڈیا پہ دی جائے ۔

رائیٹرز کیلئے رہایش کے انتظام پورے ملک میں کیئے جائے رائیٹرز گھر بنائیں جائے اور ان گھروں کی تعداد تمام ہر صوبوں میں برابر ہو۔

نئے کتاب متعارف کرنے کے لیے موزوں اقدامات کیئے جائے یا ان سے متعلق اشتہارات ڈھونڈی جائے۔

ہر صوبے سے الگ اکادمی ادبیات پاکستان کا شمارہ یا ادبی رسالے شائع کیا جائے ۔

ہر صوبے میں مختلف ادبی انعامات اور اعزازات کے لیے مستحقین کو دی جائے۔

نئے اہل قلم کی تحقیقی تحریروں کی اشاعت کابندوبست کیا جائے ۔

حاجت مند اہل قلم کی مالی مدد کرے گی اور اہل قلم کے مفادات کی نگہداشت کرے گی۔

ملک میں طباعت و اشاعت کی صنعت کی ترویج کے لیے اقدامات تجویز کرے گی۔

پاکستان میں مختلف اسامیوں پہ ادیبوں کا کوٹہ پیدا کرنے کیلئے اقتدامات کیئے جائے۔

ادیبوں کیلئے بھی وزیر رکھنے کیلئے جدوجہد کیا جائے ۔

اخبارات میں ادبی صفحہ یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جانے کی ضرورت ہے ۔

دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اہل قلم سے تحاریر لکھوائیں جائیں ۔

ہر اخبار میگزین رسالہ جات پہ لازم و ملزوم ہو کہ وہ اپنے رائیٹرز کو اعزازی کاپی اور اعزازیہ مہیا کریں ۔

ٹی وی چینلز پر مختلف سیاستدان تو امن و امان کے حوالے سے پروگرام کرتے نظر آتے ہیں لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ معاشرے کو سدھارنے ادیب نظر نہیں آتے ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں ادبیوں یا اہل قلم کو مدعو کیے جانے کیلئے ایک کوٹہ مہیا کرنے میں مدد کیا جائے اس حوالے سے پیمرا سے بات کی جائے ۔ان تمام چیزوں کے حوالے سے ایک نشت وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ وادبی ورثہ عرفان صدیقی کے ساتھ اکادمی ادیبات پاکستان رکھے ۔کیونکہ ہمیشہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کتاب قلم اور علم سے ہی ممکن ہوا ہے۔

Karmal Jamali
About the Author: Karmal Jamali Read More Articles by Karmal Jamali: 2 Articles with 1652 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.