ایڈز، ایک نیا مقدمہ؟

مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے جس طریقہ کار سے اس مرض کو روکا جا رہا ہے اس کے لئے ہزاروں سال بھی کم ہیں۔
ایک جانب اسکے فروغ کے لئے اربوں روپے سالانہ خرچ کئے جا رہے ہیں اور دوسری جانب اسکی روک تھام کا چرچہ ہے۔
کون کس کا حامی اور مخالف ہے کیسے معلوم ہو گا؟

 اسلام آباد۔انور بیگ
دنیا بھر میں ہر سال ماہ دسمبر میں ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ اس مرض سے وابستہ مریضوں کے علاج معالجہ اور حفاظتی تدابیر پر عمل کر کے لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکے۔لیکن حقائق اس کے بل کل بر عکس ہیں اور نئے آنے والوں کی تعداد صحت یاب ہونے والوں سے کہیں زائد ہوتی جارہی ہے جو اس مہم کی ناکامی کی منہ بولتی تصویر ہے۔
پچھلے چالیس سالوں میں اس پراجیکٹ پر اربوں ڈالرز خرچ ہو چکے ہیں تاہم شفا پانے والے کم اور اس شکار ہونے والے زیادہ ہیں۔
ماہرین اس بارے میں سچ جاننے سے یا تو تا حال قاصر ہیں یا وہ دیدہ دانستہ حقائق کو چھپا رہے ہیں۔
ایڈز کیا ہے ، اسکا وجود کیا ہے، یہ کس طرح معرض وجود میں آیا، اس کے پیچھے کیا کوئی محرک ہے یا یہ ہماری دانستہ غلطی کا شاخسانہ ہے پچھلی چار دہائیوں سے اس موضوع کے بارے میں اہل قلم اور ماہرین صحت مسلسل اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں۔
با وجود بے شمار تحقیقی دعوووں کے تا حال اس مرض کا اصل محرک سامنے نہ آسکا ہے اور سبھی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ جان لیوا بیماری ہمیں ورثہ میں ملی ہے۔ابتدائی ایام میں اس کے بارے میں یہ بھی دعوے کیے گئے کہ اس مرض کا اصل محرک و ممبہ افریقہ ہے اور وہاں سے ہجرت کرنے والے افراد اسے اپنے ساتھ یورپ یا امریکہ لائے۔ اس طرح گوروں نے بڑی آسانی کی ساتھ اس سارلے ملبے کو مفلوک لحال افریقہ کے کھاتے میں ڈال دیا۔
ان کی نسلی (genetics) امتیاز کی بنیاد پر تحقیق شرع کر دی گئی اور جس قدر ممکن ہوا الزام ان کے کھاتے میں ڈالا گیا۔ اسکا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ افریقی ممالک سے آنے والے لوگوں پر یورپی ممالک میں پابندیاں لگانے کا ایک موثر جواز مل گیا۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ سماجی برتاؤ میں بھی منفی رویے برتے گئے۔
لیکن ان تما م تر معاملات اور رویوں کے باوجود نہ تو اس بیماری کا اصل محرک سامنے آسکا اور نہ ہی اسکی روک تھام میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع ہو سکی۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق یہ چار لفظی کہانی عرصہ تیس سال پر محیط ہے جس میں ایڈز کی تباہی،جدو جہد اور اس کے ہاتھوں ہونے والے جانی تقصانات کی ایک طویل داستان موجود ہے۔
عالمی سطح کی جانے والی مستقل جستجو،جدو جہد اور تحقیق کے عمل نے موجودہ نسل کو ایک روشن منزل کی جانب لا کھڑا کیا ہے۔جہاں اب اقوام عالم کو اس مرض کے علاج کی دریافت کے لئے مل جل کر کام کرنے اور اس سے لاحق مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کرنے کے مواقع مل سکیں گے۔یہی وجہ ہے کہ ہم اب یہ کہنے کے قابل ہیں کہ اب ہمیں اس موزی مرض سے نجات میسر آسکے گی۔
تاہم اس کے لئے یہ امر بھی ضروری ہے کہ ہم یہ عہد کریں کہ ہم سب خواہ ایڈز کے مریض ہیں یا نہیں اس کے سد باب میں بابرابر کے شریک ہیں ۔بصورت دیگر ہم اس سے ۲۰۲۰ تک بمشکل نجات حاصل کر پائیں گے۔
گو کہ ہم نے ۲۰۰۱تک اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد میں۳۸ فیصد کمی دیکھی ہے تاہم اس دوران ۲۰۱۳ تک ہم نے اس میں ۲۱ لاکھ افراد کو مذید شامل ہوتے بھی دیکھ لیا ہے۔جبکہ بائیس ملین افراد کو تا حال علاج معالجہ کی سہولتوں تک رسائی حاصل نہ ہو سکی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں شامل ہونے والوں اور اس سے نجات پانے والوں کے اعدادو شمار کو قریب تر کیسے لایا جاسکتا ہے یعنی علاج کے ذریعے شفا پانے والوں کی تعداد میں برابری کیسے لائی جا سکتی ہے۔
UN AIDS REPORT میں ہمارا سب سے بڑا سوال یہی تھا جسے تمام دنیا کے ماہرین کے سامنے موضوع بحث بنایا گیا۔تاکہ اس مسلے پر بھر پور طریقے سے تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
یو این او کی رپورٹوں کے مطابق اس وقت دنیا میں ۳۵ ملین لوگ ایدز کے مرض میں مبتلا ہیں تاہم یہ اعدادو شمار ۱۰۰ فیصد حقایق کی ترجمانی نہیں کرتے۔ جبکہ ۱۹ ملین افراد کو اپنے مرض کی اصل حیثیت کے بارے میں یعنی او پازیٹو کی معلو مات نہیں۔ جبکہ سب صحرا افریقہ میں نوجوان لڑکیوں اور عورتوں میں ہر چوتھا فرد اس مرض کا شکار ہے۔ اس کے برعکس قیدی ایڈز،پھپھڑوں کی امراض اور ہیپا ٹایٹس بی اور سی کا سب سے بڑا شکار ہیں۔
تاہم hivکے زیادہ شکار افراد کو اس کے علاوہ بھی بے شمار مسائل کا سامنا ہے جیسا کہ جوان عورتیں جو اس مرض کا شکار ہیں کو گھراوں سے جبرأ بے دخل کر دیا گیا ہے۔ اس طرح ایک اور سنگین مسلہ جنم لے رہا ہے کہ علاج کی سہولتوں سے کون استفادہ کر رہا ہے اور اس سے کون محروم ہو رہے ہیں۔جبکہ اصل کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ سب کو اس میں شامل کیا جائے۔ ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں اس کامیابی کو حاصل کرنا ناممکن ہو گا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ پانچ سال ۱۵ سالوں کے سفر پر محیط ہوں۔
تاہم مشترکہ طورپر کام کرنے سے aids کے مرض پر قابو پانے کے عہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔
UNAIDS کے ایکز یکٹو ڈائیریکٹر کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں hiv کے شکار افراد کی تعداد میں کمی وقع ہو رہی ہے۔
تاہم ان کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعدادو شمار ناقابل یقین حد تک سمجھ اور عقل سے با تر ہیں مثلأ، پچھلے تین سالوں میں hiv کے نئے شکار افراد کی تعداد میں ۱۳ فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔ جبکہ ۸۲ ممالک میں جن کے بارے میں موزوں معلومات میسر ہیں کے دس ممالک میں ۵۷ فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ دوسرے ۲۷ ممالک میں پچاس فیصد کے قریبhivکے مریضو ں میں کمی ہوئی ہے۔
بچوں کو لاحق اس بیماری کے بارے میں دعوای کیا گیا ہے کہ اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی دعوای کیا گیا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک،تمام خطوں اور شہروں میں موجود افراد کو اس بیماری سے نجات میسر اسکتی ہے اور اسکے بڑھنے کے خدشات کو کم کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ دنیا کے تمام ممالک اس جدو جہد میں حصہ لیں۔
unaids کی جانب سے ان دعوون کی کیا حیثیت ہے اس کا اندازہ ان اعداو شمار کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔
۱۔ کل ایڈز کے ۷۵ فیصد افراد کی تعداد دنیا کے پندرہ ممالک مین موجود ہے جن مین چار ممالک سر فہرست ہیں۔
۲۔پندرہ ممالک جہاں کل ایڈز کے ۷۵ فیصد شکار افراد کی تعداد موجود ہے میں ۲۰۱۳ کے اعدادو شمار کے مطابق ۲۱ لاکھ سے زائید ایڈز کے مریض موجود ہیں۔
۳۔سب صحرا افریقہ کے بیشتر ممالک میں تمام بالغ افراد کو سالانہ کی بنیاد پر صرف ۸ کندومز تک رسائی حاصل ہے
۴۔۲۲ لاکھ یا ہر پانچ افراد میں سے ہر تیسرے فرد کو hiv کے علاج کے لیے درکار انٹی ریٹرو وایئرل تھیراپی تک رسائی حاصل نہیں۔
۵۔ہر تین یا چار hiv کے شکار بچے یا۷۶ فیصد کو علاج معالجہ کی سہولت میسر نہیں ۔
۶۔۲۰۱۲ کے اداو شمار کے مطابق سب صحر افریقہ مین گیارہ لاکھ سے زائد یعنی کل تعداد کا ۱۳ فیصد کے قریب hivکے مریض پائے گئے جو علاج نہ ہونے کی وجہ سے ۸ فیصد کے قریب ٹی بی کا شکار ہو گئے۔
۷۔کل hivکے شکار ۳۵ ملین افراد میں سے ۲ سے ۴ ملین ہیپا ٹایٹس بی انفکشن کا شکار ہیں جبکہ ۴ سے ۵ ملین افراد ہیپا ٹایٹس کا شکار ہیں۔
۸۔کل hiv کا شکار عورتوں کا ۱۵ فیصد کی عمر اوسط ۱۵ سال ہے جبکہ جوان عورتوں کی عمر ۱۵ سے م۲۴ سال کے درمیان ہے۔ اور ان کا ۸۰ فیصد کا تعلق سب سحرا افریقہ سے ہے جہاں علاج معالجہ تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔
۹۔یہان عورتیں مردوں کے مقابلہ میں۴ سے ۵ سال قبلhiv کا شکار ہو جاتی ہیں۔
۱۰۔عام عورتوں کے مقابل سیکس ورکروں میں یہ مرض ۱۲ گنا زائد موجود ہے۔
۱۱۔ ایک کروڑ ستائیس لاکھ افراد جو کہ ادویات drugs استعمال کرتے ہیں کا ۱۳ فیصد hiv کا شکار ہیں۔ان افراد کو ڈرگز کے استعمال کے لیے فی کس ۹ سرنجز میسر ہیں جبکہ ۲۰۰ سو سے زائد سالانہ درکار ہیں۔
۱۲۔یہاں ہر سال ۵۰ سال کی عمر کے ایک لاکھ یا اس سے زائد افراد hivکا شکار ہو رہے ہیں۔
۱۳۔ان افراد کو جو hivیا اس سے زیادہ خطرناک بیماریوں کا شکار ہیں کو خصوصی علاج معالجہ کی اشد ضرورت ہے جس کا فقدان ہے۔
۱۴۔مردوں کے مردوں سے باہمی سکس تعلقات پر یہاں ۷۸ممالک میں سزائے موتکا قانون نافذہے تاہم اس پر عملدرامد سات ممالک میں ہو تا ہے۔
۱۵۔دنیا کے ۱۱۶ ممالک میں سکس ورکنگ غیر قا نونی اور جرم تصور کیا جا تا ہے اور ادویات کا استعمال بھی غیر قانونی اور مجرمانہ فعل ہے تاہم اس کے سد باب کے لئے کی جانے والی تدابیر اور اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں جو آج کی دنیا میں اس مرض کے علاج کے لئے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں ہماری سنجیدگی کا سب سے بڑا ثبوت ہیں اور یہی اس مرض کی روک تھام نہ ہونے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
۱۶۔ ۴۲ سے زائد ممالک میں اس مرض کو مخفی رکھنا ، اس کے اظہار اور پھیلاؤ کا سد باب نہ کرنا جرم قرار دیا گیا ہے تاہم ان قوانین پر عملدرامد نہ ہونے کے برابر ہے جو اس مرض کے پھیلاؤ میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔

توقعات یا امیدیں
unaids کی جانب سے اس بارے مین جو توقعات اور امیدین وابستہ کی گئی ہین ان سے بظاہر انکار ممکن نہین لیکن سوال یہ ہے کہunaids کے بقول علاج پانے اور اس میں مزید شمار ہونے والوں کی تعداد میں کم از کم یکسانیت لانے کا جواز کیا معنی رکھتا ہے جبکہ بقول یو این او کے دنیا کے تمام ممالک میں اس کے بچاؤ کے لیے ایک بھر پور مہم چلائی جا رہی ہے جس پر اربوں ڈالرز سالانہ خرچ ہو
رہے ہیں۔
جیسا کہ اس کے علاج کے لئے عالمی سطح پر ۲۰۱۳ تک ڈیڑھ کروڑ کے قریب افراد کو انٹی ریٹرو وائیرل تھراپی کی سہولت مہیا کی گئیں ۔ جبکہ ۲۰۰۶ میں ۹۰ فیصد اور ۲۰۱۳ میں ۶۰ سے ۶۵ فیصد تک اس میں کمی کی ضرورت محسوس کی گئی۔
بارہ عشاریہ نو ملین انٹی ریٹرووائیرل تھراپی کی سہولت حاصل کرنے والوں کی تعداد میں پانچ عشاریہ چھ ملین کا اضافہ ۲۰۱۰ میں ہوا۔
اس علاج کی اشد ضرورت دنیا کے چند ممالک مین درپیش آئی جن میں سے ایک تہائی سہولت حاصل کرنے والوں کا تعلق ساؤتھ افریقہ سے تھا جبکہ ہندوستان ،۷ فیصد،یوگیڈا،۶فیصد،اور نائیجیریا،موزنبیق،تیزانیہ اور زمبابوے ۵ فیصد۔
اس کے علاوہ ہر چار افراد میں سے ۳ افراد جو hivانفیکشن کے علاج کی سہولتیں لے رہے ہیں کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے جہاں اس کے علاج معالجہ کی اشد ضرورت ہے۔
۲۰۱۰ اور۲۰۱۳ کے اعدادو شمار کے مطابق جو ممالک انٹی ریٹرو وائیرل تھراپی کی سہولتیں لے رہے ہیں ان میں ملاوی،۴ فیصد،کینیا،۴،زمبیا،۴،تنزانیا ،۵،موزینبیق ،۵،نائیجیریا،۵،زمبابوے ،۵،یوگینڈا،۶،انڈیا،۷، جبکہ ساؤتھ افریقہ،۳۳ فیصد سہاولتیں حاسل کر رہا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان ممالک کی اگر تمام آبادی کو سامنے رکھا جائے اور اس میں سے اس مرض کے شکار افراد کو تلاش کیا جائے تو کل افراد کی تعدد حیران کن ہو سکتی ہے۔جس کے معنی یہ ہوئے کہ علاج پانے والوں کی تعداد کے مقابل نئے آنے والوں کی تعداد خوفناک حد تک زیادہ ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ نئے آنے والوں کو روکنا کس کا کام ہو گا اور کیا اس کی unaids کے ہاں کوئی اہمیت اور ضرورت بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔تاحال جو بھی اعدادو شمار موجود ہیں انکی روشنی میں ایسا کوئی اشارہ کنائیہ نہیں ملتا کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ unaids نئے آنے والوں کو روکنے پر انتہائی سنجیدہ دکھائی دیتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ سارا کام وولینٹئر کے طور پر ہو رہا ہے یعنی جو آجائے اس کا علاج کر دیا جائے اور جاتے ہوئے اسے ایک دو بول ہدایات کے بھی سنا دئے جائیں یا کوئی ایک ٹریک اس کے حوالے کر دیا جائے۔
اگر دیکھ جائے تو پچھلے ۴۰ سالوں سے غالبأ یہی کچھ ہو رہا ہے۔
ہم سب ان معلو مات سے باخبر ہیں جو اس موزی مرض کے لاحق ہونے کا سب سے بڑا ذرئعیہ اور سبب ہیں۔
مثلأ افراد کے مابین illicitاور غیر شرعی اور غیر قانونی رشتے ناطے،مردوں کا مردوں کے ساتھ سیکس ریلیشن اور عورتوں اور مردوں کے مابین بائی سیکس چوئل تعلقات اور سیکس کے فروغ کے لئے استعمال میں لائی جانے والی ادویات اور ان تک عام آدمی کی کھلی رسائی۔
اس کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک میں سیکس منڈیوں و مارکیٹوں بازاروں کا قیام اور اور ان کے فراغ اور پھلاؤ کے لئے دنیا بھر کے مفلوکالحال ممالک سے عورتوں،بچوں،کم عمر لڑکیوں کی کھلے عام تجارت اور امیر ممالک میں ان عورتوں اور بچیوں کی کھلے عام عصمت دری کے بازاروں کا اجرا اور ان بازاروں کی حفاظت کے لئے تمام سرکاری وسائل کا استعمال وہ ناقابل تردید ثبوت ہیں جن کی روشنی میں ایک جاہل آدمی بھی پیش گوئی کر سکتا ہے کہ اس موزی مرض پر قابو نہ پایا جا سکے گا بلکہ آنے والے ہر لمہے اور پل میں اس میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔
آئیے اس مسلے کو ایک اور سادہ مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
open societyنامی ایک امریکی تنظیم پچھلی کئی دہائیوں سے دینا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں عورتوں،جوانوں،لڑکیوں اور کم عمر بچوں اور بچیوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔
اس تنظیم کے دین ایمان کے مطابق یا اس کے مینی فیسٹو کے مطابق یہ تمام افراد جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح سیکس انڈسٹری یا سیکس مارکیٹ سے ہے کے تمام تر حقوق کی بحالی ا ور ان کے فروغ کے لئے کروڑوں ڈالرز سالانہ خرچ کر رہی ہے۔ اس برادری یا کمیونتی کا مختصر نامLGBTIہے،یعنی،lesbian, gay, bisexual, transgender, and inter sex اوپن سوسائیٹی کے مطابق اس کا یہ دعواہ ہے کہ lgbtiبرادری سے منسلک تمام افراد کے بنیادی حقوق دوسرے عام شہریوں کے برابر ہیں او ر تمام معاشروں میں انکی بھی اتنی ہی عزت و تکریم ہونی چاہیے جنتی کہ کسی عام شہری کی متوقعہ ہے۔ یعنی انکے بھی شہری حقوق دوسرے شہریوں کے برابر ہیں جنہیں کسی صورت پامال نہیں کیا جا سکتا۔
open societyکی جانب سے ان افراد کے حقوق کی مسلسل و متواتر ہر ایک فورم پر جنگ جاری ہے اور اس کے تحفظ کے لئے سالانہ کروڑوں ڈالرز خرچ کئے جا رہے ہیں۔
آپکو جان کر حیرت ہو گی کہopen societyاس بات پر بھی بضد ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کو ایسا ہی رکھنا اور دیکھنا چاہتی ہے یعنی lgbti۔جبکہ راقم کا خیال ہے کہ ان لوگوں کو اس حالت میں رکھنے کا دعواہ محض ایک ڈھونگ ہے۔ اور اس مین کوئی حقیقت نہیں کیونکہ یہ مطالبہ غیر علمی اور زیادہ تر جہالت کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے جس کے کامیابی کے امکانات عشاریہ میں بھی ملنا محال ہیں۔
راقم کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اگر ان لوگوں کی قسمت کا فیصلہ دانشمندانہ طریقے سے کیا جائے تو ان کی قسمت بدل سکتی ہے اور انہیں تمام معاشروں میں دوسرے لوگوں کی طرح عزت اور وقار کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اور اس کے حصول کا انتہائی سادہ طریقہ یہ ہے کہ ان کے روزگار کے طریقہ کار کو بدل دیا جائے اور ان تمام افراد کو انکی مرضی کے مطابق مختلف انواع کے ہنر سکھائے جائیں اور ان کے لیے روزگار کے مزید مواقعے پیدا کئے جائیں اور انہیں یقینی بنایا جائے تاکہ اس لعنت سے وابستہ افراد کو جلد از جلد رہائی میسر آسکے اور وہ اپنی منشا اور پسند کے مطابق نئے کام کاج اورآمدنی سے نئی زندگی کا آغاز کر سکیں۔
مثلا آج کا ایک سیکس ورکر کل کا ایک خوبصورت درزی بن سکتا ہے،ایک اچھا پلمبر بن سکتا ہے،ایک اچھا ایلیکٹریشن بن سکتا ہے، ایک اچھا کک بن سکتا ہے۔ اسی طرح ایک عورت جو اس سے قبل ایک سیکس ورکر کے طور پر کام کرتی تھی اور دو وقت کی روٹی کے لئے کم از کم دس افراد کو اپنی عزت بیچنے پر مجبور تھی اب وہ ایک اچھی استانی بن گئی ہے،ایک اچھی آیا بن گئی ہے،ایک اچھی کک بن گئی ہے،ایک اچھی درزی بن گئی ہے،ایک اچھی دوکاندار بن گئی ہے،ایک اچھی ماں بن گئی ہے،ایک اچھی دایا بن گئی ہے۔
اس انقلابی تبدیلی کے باعث بتدریج ان لوگوں کا ان کے معا شرے میں تعارف بھی بدل جائے گا یعنی اب سب لوگ اس بات پر مجبور ہوں گے کہ کس طرح ایک استانی کو ایک سیکس ورکر کے طور پر یاد کیا جائے یا اسے اسی کام کے لئے پکارا جائے۔
یہ تبدیل لانا کوئی مشکل کام نہیں اگر ہم سب کے دلوں میں خوف خدا ہو اور اندر سے ہم دلال نہ ہوں اور قانون اس سارے عمل میں بے رحم ہو۔
تاہم اس کے برعکسopen society کے مطابق یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر کوئی شخص سیکس ورکر کے طور پر کام کر رہا ہے تو اسے ہم ایک اچھے استاد کی جگہ ملازمت دے دین یا اسے ایک اچھے استا دکی طرح عزت اور وقار کے ساتھ خوش آمدید کہیں۔
ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہین کہ تمام معاشروں میں ہر شخص کا یک سوشل سٹیٹس social satatus) (ہو تا ہے اور وہ شخص اسی عہدہ کے حوالے سے جانا ور پہچانا جا تا ہے ،مثلأ استاد،درزی،پلمبر،آیا،دوکاندار،کک،ڈاکٹر وغیرہ۔
اس طرح ہم اس نتیجے پر پہہچتے ہین کہ دینا بھر میں ایک جانب اس لعنت کو ختم کرنے کی باتیں زوروں پر ہیں اور دوسری جانب اس میں آئے روز اضافے کی جدو جہد کی جا رہی ہے۔
کیا ایسا تو نہیں کہ کچھ طاقتیں اس سارے المیے سے خوب مال کمانے کاطویل تر منصوبہ لئے بیٹھی ہیں جیساکہ ایک جانب اس کا علاج معالجہ کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب اس میں اضافے کی منڈیاں سجائی جا رہی ہیں اور یہ سب کچھ سر عام ہو رہا ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Salman Baig
About the Author: Salman Baig Read More Articles by Salman Baig: 20 Articles with 13007 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.