زہریلی خوراک ٗ بیماریوں کی یلغار اور عوام کی حالت زار

پنجاب فوڈ اتھارٹی اس لیے قائم کی گئی تھی کہ کم ازکم پنجاب کی سطح پر عوام کو غیرمیعاری خوراک ٗ آلودہ پانی اور کیمیکل ملے دودھ سے نجات دلا کر صحت مند معاشرہ تشکیل دیاجاسکے ۔اتھارٹی کو قائم ہوئے کتنے ہی برس گزر چکے لیکن عوام کی صحت اور معاشرتی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ جیسے ہی چھوٹے اور بڑے گوشت کی قیمت حد سے زیادہ بڑھی تو عام لوگوں کا رخ مرغی کے گوشت ( برائلر ) کی جانب ہوگیا ۔ برائلر کے بارے میں چند فکرانگیز اور تکلیف دہ انکشافات سامنے آئے ہیں جو نہایت تکلیف دہ ہیں۔ تحقیق کے مطابق مرغیوں کو جو خوراک دی جاتی ہے اس سے مرغی کو ہارٹ اٹیک کا خطرہ رہتا ہے ۔زیادہ مقدار میں ہلاکتیں بھی اسی بیماری سے ہوتی ہیں۔ نقصان سے بچنے کے لیے ہر برائلر مرغی کو سنکھیا کا انجکشن لگایا جاتاہے سنکھیا ایک خطرناک زہر ہے یہ خوراک اور ہڈی کے درمیان مزاحم ہوکر جسم میں ہمیشہ موجود رہتا ہے ۔ جس سے بے شمار بیماریاں انسانی جسم میں منتقل ہوتی ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سوفٹ ڈرنکس میں بھی ایسے کیمیکل استعمال کیے جارہے ہیں جو سینکھیا کے برابر کام کرتے ہیں ۔ایک اور رپورٹ کے مطابق سوفٹ ڈرنکس میں درج ذیل مقدار سے پیسٹی سائیڈ یعنی کھاد شامل کی جاتی ہے ۔ نیسلے جوس 7.2ٗ کوک 9.4ٗ سیون اپ 12.5ٗ مرینڈا 20.7 ٗ پیپسی 10.9 فینٹا 29.1 سپرائیٹ 5.3 فروٹی 24.5 مزا جوس 19.3فیصد ۔ یہ کیمیکل کھاد انسانی صحت پرنہایت مضر اثرات کے ساتھ ساتھ گردوں ٗ پھیپڑوں ٗ دل اور کینسر کے امراض پیدا کرتے ہیں۔ حکومت پنجاب نے14 اگست 2017ء سے پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں انرجی و کولا ڈرنکس پر مکمل پابندی عائد کردی تھی ۔ حکومت کے مطابق کاربونیٹڈ کولااور انرجی ڈرنکس میں موجود فاسفورک ایسڈ اور کیفین بچوں کی نشو ونما خصوصا ہڈیوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ پنجاب کے تمام پلک پرائیویٹ سکولزٗ کالجز ٗ یونیورسٹیز ٗ پرائیویٹ اکیڈیمی اور کوچنگ سنٹرز میں کار بونیٹڈ کولا اور انرجی ڈرنکس کی فروخت پر مکمل پابندی عائدہے ۔جبکہ سکولوں میں گولی ٹافی اور سپاری پر بھی بہت جلد ی پابندی عائد کرنے کی خبریں مل رہی ہیں۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار احمد خود تسلیم کرچکے ہیں کہ موبائل نٹ ورک کے ٹاور جو ہمیں گلی محلوں میں جا بجا دکھائی دیتے ہیں وہ اپنی ریڈی ایشن کے ساتھ ساتھ کینسر کی ریز چھوڑ تے ہیں جو قرب و جوار میں رہنے والوں کو کینسر کے امراض میں مبتلاکرتے ہیں۔ دودھ کوصحیح حالت میں رکھنے اور گاڑھاکرنے کے لیے نہ جانے کیا کیا کیمیکل ملائے جاتے ہیں ۔ایک ٹی وی رپورٹ میں ٗمیں نے خود دیکھا کہ مختلف کیمیکل کو ملاکر دودھ بنایاجارہا ہے جو گاڑیوں میں بھرکر لاہور میں سپلائی کیاجاتاہے۔ ڈبوں کا دودھ انسانی صحت کے لیے کس قدر خطرنا ک ہے ٗ سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں فوڈ اتھارٹی نے خود بیان دیا کہ دودھ میں یوریا اورگنے کارس شامل ہوتا ہے ۔ملٹی نیشنل کمپنی کے دودھ سے بھی فارمولین برآمد ہوا ہے ۔چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھاکہ بچوں کو خالص دودھ بھی نہیں دے سکتے تو کام کرنے کا کوئی حق نہیں۔ لیکن ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ان الفاظ کے بعد بھی زہر ملا کھلا اور ڈبہ بند دودھ فروخت ہورہا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو بڑے پیمانے پر شہروں اور صنعتوں کا کیمیکل شدہ پانی زراعت میں استعمال کررہے ہیں ۔ یہ تحقیق اینوائر نمٹل ریسرچ لیٹرز نامی جریدے میں شائع ہوئی ۔ بطور خاص جن سبزیوں کا نام شامل ہے ان میں پیاز ٗ بینگن ٗ پالک ٗ پودینہ ٗگاجر ٗ مولی ٗٹماٹر اور گندم وغیرہ شامل ہیں۔جبکہ پینے کاپانی لاہور جیسے بڑے شہرمیں بھی صاف نہیں ملتا اس میں بھی سنکھیا اور آرسینک زہر کی آمیزش اور سیوریج کی ملاوٹ کے ثبوت ملے ہیں۔ حکومت پنجاب جگہ جگہ صاف پانی کے ٹریٹمنٹ پلانٹ تو لگا رہی ہے لیکن ان عوامل کے خاتمے کی جانب توجہ نہیں دی جارہی جو پانی کو زہریلا کررہے ہیں ۔ شاید انہی وجوہات کی بنا پر پاکستان میں گردوں کے مریضوں کی تعداد اڑھائی کروڑٗ کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ 60لاکھ ٗ ہیپاٹائٹس میں مبتلا 2کروڑ ٗ دل کی بیماریوں میں مبتلا 4 کروڑ ہیں۔ معدے ٗ سینے ٗ ہڈیوں کے امراض ٗتپ دق ٗ شوگر ٗ بلڈ پریشر اور دماغی امراض میں مبتلا افرادکی تعداد کا یہاں ذکر اس نہیں کیا کہ ہر تیسرا چوتھا پانچواں شخص شوگر ٗبلڈپریشر اور جوڑوں کے درد ٗ بینائی اور سماعت میں کمی کا مریض بن چکاہے ۔گویا فوڈ اتھارٹی اور متعلقہ انتظامی اداروں کی لاپرواہی سے معاملات اس قدر بے قابو ہوتے جارہے ہیں کہ ہر گھر کے دروازے پر کوئی نہ کوئی موذی بیماری دستک دے رہی ہے۔ کیا بازار میں جگہ جگہ بکنے والے برائلر گوشت کی کوالٹی اور خوراک کو چیک کرنا فوڈ اتھارٹی کی ذمہ داری نہیں ۔ کولڈ ڈرنکس جسے ہر چھوٹا بڑا بہت شوق سے پیتا ہے بلکہ ہر مہمان کو اعزاز کے طور پر پلایا جاتا ہے۔اگر اس میں پیسٹی سائیڈ یعنی کھاد اور کوئی زہریلا کیمیکل ڈالا جارہاہے تو ایسا کولڈ ڈرنکس بنانے والی فیکٹریوں کو بندکیوں نہیں کردیاجاتا۔ زہریلے کیمیکل ملے ڈبہ بند اور کھلے دودھ کی فروخت کی روک تھام کیوں نہیں کی جاتی ۔ اسی طرح کہا جارہا ہے سیوریج ملے اور فیکٹریوں کے آلودہ پانی سے سبزیاں اگا نے پر پابندی کیو ں لگائی جاتی۔نہروں اور دریاؤں میں صرف زہریلا پانی صاف کیے بغیرکیوں ڈالا جاتاہے۔ حدیث نبوی ﷺ ہے جس نے ایک شخص کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی ہے ۔پھر فوڈ اتھارٹی اور دیگر انتظامی ادارے خواب غفلت سے کیوں بیدار نہیں ہوتے اور ان عوامل کو جڑسے کیوں اکھاڑ نہیں پھینکتے جو عوام کی رگوں میں زہر انڈیلتے ہیں اور بیماریوں کی افزائش کا باعث بنتے ہیں ۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 660123 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.