ایک ممتازوقدیمی اور عظیم تعلیمی درسگاہ

گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ
(میں بھی اسی سکول کا ایک طالب علم ہوں )

جب بھی سکول کا لفظ زبان پر آتا ہے تو ذہن فوری طور پر گلبرگ ہائی سکول کی جانب لوٹ جاتاہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ گلبرگ ہائی سکول تعلیمی درسگاہ ہی نہیں میری زندگی کا ماحصل بھی ہے ۔جہاں میری زندگی کے بہترین پانچ سال گزرے ۔میں اس وقت1965ء میں سکول میں داخل ہوا تھاجب مجھے کچھ بھی نہیں آتا تھا لیکن جب سکول سے 1970ء میں نکلا تو زندگی کا شعور آچکا تھا ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے سکول کا تعارف کروانا بہت ضروری ہے ۔ لاہور کینٹ سے کراچی جانے والی ریلوے لائن کے مشرق میں میرا یہ سکول واقع ہے ۔ جس کے مغرب میں ریلوے لائن کی دوسری جانب گلبرگ کی ایک پرانی بستی (جناح پارک ) ہے جبکہ مشرقی جانب لاہور کینٹ کا علاقہ ہے ۔ یہ سکول لاہور کنٹونمنٹ بورڈ کے ایریا میں آتا ہے جو تقریبا 20 کینال اراضی پر مشتمل ہے ۔ہمارے زمانے میں اس سکول میں کلاس رومز کی برابر برابر چھ لائنیں ہوا کرتی تھیں ۔ چار لائنوں میں موجود کمروں میں ہائی کلاس یعنی چھٹی سے دسویں جماعت تک کے طلبہ بیٹھا کرتے تھے جبکہ پرائمری حصہ ٗ ہائی سکول سے الگ تھا ۔ اسی سکول سے ملحقہ ایک وسیع گراؤنڈ بھی ہے جہاں اکثر کرکٹ میچز کھیلے جاتے تھے یا آدھی چھٹی کے دوران مارکٹائی کا کھیل بہت مقبول تھا ۔ اسی گراؤنڈکے آخری حصے میں سائنس لیبارٹریز تھی جو اب بھی اپنی اصلی شکل میں موجود ہے۔جہاں سکول کے بچے سائنس ٹیچر سے ایٹم بم بنانا سیکھتے ہیں ۔ سکول کے مغربی جانب پہلے پاکستان آرمی کے ٹرک اور دیگر تنصیبات خار دار تاروں سے واضح دکھائی دیتے تھے جہاں اب برج کالونی بن چکی ہے ۔ اس سکول سے ملحقہ شمال کی طرف ایک صابن بنانے والی فیکٹر ی موجود تھی جو اپنی نوعیت کی واحد فیکٹری تھی ۔اس فیکٹری کی جگہ پہلے بیری احاطہ اور اب فتح آباد موجود ہے ۔سکول کے بالکل سامنے ریلوے لائن تک ایک کشادہ میدان ہوا کرتا تھا جہاں ہر صبح ہم جیسے بچے قطاریں بناکر کھڑے ہوجاتے اور اسمبلی سے اس وقت کے ہیڈماسٹر رانا صاحب خطاب فرمایا کرتے تھے ۔اس وقت رانا صاحب فرمایا کرتے تھے کہ تم ہی نے مستقبل میں ملک باگ ڈور سنبھالی ہے ۔اس وقت ہم ہیڈ ماسٹر صاحب کی اس بات پر دل ہی دل میں ہنساکرتے تھے کہ اگر ہم نے ہی سنبھالناہے تو پھر پاکستان کا خدا ہی حافظ۔

یہ سکول کس قدر خوبصورت اور پھولوں سے لدا ہوا ہوتا جس کی مثال نہیں تھی ۔چھوٹی چھوٹی کیاریوں میں لگے ہوئے رنگ برنگے پھول نہ صرف آنکھوں کو اچھے لگتے بلکہ ان کی بھینی بھینی خوشبو ذہن کو ترو تازہ کردیتی ۔ یہ اپنی نوعیت کا واحد سکول تھا جہاں بچوں کی تعلیمی اور جسمانی نشوونما کے تمام مواقع موجود تھے اور دور دور سے نوجوان ٹرین پر سوار ہوکر پڑھنے آیا کرتے تھے ۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ گلبرگ ہائی سکول کا قیام 1952ء میں عمل میں آیا ۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے آنے والے شیخ محمد عارف نے چند افراد پر مشتمل ایک سوسائٹی بنائی جس کا نام مسلم پبلک ایجوکیشنل سوسائٹی تھا ۔اس سوسائٹی نے مخیر حضرات سے فنڈز حاصل کر کے لاہور کے مختلف علاقوں میں پانچ تعلیمی ادارے ( سکول) تعمیر کروائے ۔ ان تعلیمی اداروں میں گلبرگ ہائی سکول ٗ ادبستان نورین پرائمری سکول ٗ عارف ہائی سکول دھرم پورہ ٗ مسلم لیگ ہائی سکول ایمپرس روڈ اور ایم پی ای ایس ہائی سکول شاہدرہ شامل ہیں ۔اس اعتبار سے شیخ عارف اور ان کی ٹیم کے دیگر تمام رفقائے کار خراج تحسین کے مستحق ہیں جن کی تعلیمی اور تعمیری کاوشوں کی بدولت ہم جیسے لاکھوں نوجوان زیور تعلیم سے آراستہ ہوئے اور عملی زندگی میں قدم رکھ کر تعمیر وطن میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے تمام سکولوں کو قومی تحویل میں لے لیا اس طرح اس کا نام گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول ہوگیا ۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ سکول اسی نام سے جانااور پہچانا جاتاہے جوبہت جلد ہائر سیکنڈری سکول کا درجہ حاصل کرنے والا ہے۔ قومی تحویل میں لینے کے بعد جواساتذہ کرام بطور ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل صاحبان وابستہ رہے ان کے اسمائے گرامی ملک محمد اشرف ٗ رحمت اﷲ کامران ٗ ریاض احمدٗ محمود اعجاز ٗ محمد رفیق عتیق ٗ سید شبیرحسین شاہ ٗ خالد محمود ٗ محمداکرم طاہر ٗ محمود اعجازٗمظفر علی ٗ حاجی ملک شاہد تنویر اور موجودہ پرنسپل ایاز احمد قریشی شامل ہیں ۔اسوقت اس سکول میں ساڑھے بارہ سو طلبہ و طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہورہی ہیں۔

1971ء میں ٗ میں اسی سکول سے میٹرک کاامتحان پاس کرچکا تھا۔ پرانے وقتوں میں غریب گھرانوں میں میٹرک تک تعلیم ہی کافی تصور کی جاتی تھی کیونکہ کالج میں داخل ہونے اور وہاں کے اخراجات برداشت کرنا غریب والدین کے بس میں نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب میٹرک کا امتحان پاس کرلیا تو والد صاحب نے مجھے ملازمت تلاش کرنے کا حکم دے دیا ۔حالانکہ اس سے پہلے میں ان کے ساتھ مل کر ریل کے ڈبے لکڑیاں اتارا کرتا تھا۔ سارا دن مزدوری کرنے کے بعد بمشکل ایک ڈبہ ہی خالی ہوتااور مزدور ی صرف تین روپے ملتی گویا پورے خاندان کی محنت کا صلہ صرف تین روپے ہوا کرتا تھا ۔ ابتداء ہی سے زندگی مشکلات کا شکار رہی لیکن ہر قدم پر گلبرگ ہائی سکول یادیں دامن گیر رہیں اور وہاں گزارے ہوئے ماہ و سال آنکھوں میں آنسو بھر دیتے ۔ اس کے باوجودکہ ہمارے دورکے اساتذہ کرام اب نظروں سے اوجھل ہوچکے ہیں لیکن دور حاضرمیں بھی جو اساتذہ کرام سکول میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر گلبرگ ہائی سکول کے پرنسپل جناب ایاز احمد قریشی اوروائس پرنسپل شاید تنویر صاحبان کی شفقت اور محبت مجھے اپنے حقیقی اساتذہ کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتی ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ جناب ایاز احمد قریشی اورشاہد تنویر اپنی ذات میں خود انجمن ہیں ۔ان دونوں کی شخصیت ایک
ایسے سایہ دار درخت کی مانندہے جس کے سائے میں آج بھی مجھ جیسے ہزاروں طالب علم ٗ علم کی پیاس بجھا رہے ہیں ۔ میں جب بھی سکول جاتا ہوں تو پرنسپل آفس کے باہر کھڑے ہوکر لمبی لمبی سانسیں لیتا ہوں تاکہ اس سکول کے درو دیوار میں چھپے ہوئے اپنے بچپن کی کہیں سے خوشبو میسر آئے ۔

گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول کے موجود پرنسپل اور فرشتہ صفت انسان جناب ایاز احمد قریشی صاحب سے آپ کا تعارف کرواتا ہوں ۔ اس کے باوجود کہ وہ میرے زمانے کے پرنسپل نہیں ہیں لیکن ان کی شفقت اورمحبت کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتاہے کہ وہی میرے شفیق استاد بھی ہیں۔ جن کی محبتوں اور قربتوں کااحساس میں اپنے دل میں اب بھی محسوس کرتاہوں ۔ بے شک مجھے اپنے زمانے کے استاد اس دنیا میں دکھائی نہیں دیتے اور اگر دکھائی دیں تو میں ان کے قدموں کو چوم لوں ۔ لیکن جناب ایاز احمد قریشی صاحب کی شخصیت میں ہر وہ خوبی موجودہے جو ایک اچھے استاد اور رہنما میں ہونی چاہیئے ۔ وہ شفیق بھی ہیں ٗعظیم بھی ہیں اور ایک باپ کی طرح ہر طالب علم کومحبت کرنے والے بھی ہیں ۔ پہلے تو میں ڈرتا ہی رہاکہ میں جب اپنے سکول جاؤں گا تو کون مجھے پہچانے گا اور کون مجھے پرنسپل آفس میں گھسنے دے گا لیکن جب میں سید شبیر شاہ صاحب ( سابق سنئیر ہیڈماسٹر) کے ساتھ گلبرگ ہائی سکول پہنچا تو قریشی صاحب نے اس قدر شفقت کااظہار کیا کہ میں باقی تمام محبتیں بھول گیا ۔اس لمحے دل سے آواز آئی کہ تم اپنے اساتذہ کو تلاش کرتے ہو جو شاید اس دنیامیں اب نہیں رہے لیکن جو استاد کی شکل میں آپ کے سامنے ہیں انہیں کو اپنا استادمان لو۔مرنے والوں کے ساتھ کوئی نہیں مرتا لیکن جو موجود ہیں ان کو ہی اس قدر عزت اور تکریم دوکہ وہی تمہیں استاد کی محبت دینے لگیں۔ جب میں اپنے اساتذہ کرام کی باتیں کرکے دل کو سکون دے رہا تھا تو خیال آیا کیوں نہ گلبرگ ہائی سکول کے موجود ہ پرنسپل اور اساتذہ کرام کو ہی اپنا استاد تصور کر کے اتنی عزت دوں کہ ان کا دل خوش ہوجائے اور وہ میرے حق میں دعا کریں تو شاید یہی قبولیت کا لمحہ بن جائے ۔ پرنسپل آفس جو کبھی مجھ جیسے نکمے طالب علم کے لیے شجر ممنوعہ تھا ۔جناب ایازاحمد قریشی صاحب کی شفقت کی بنا پر اس کے دروازے مجھ پر کھل چکے ہیں ۔میں جب بھی ان کے پاس جاتا ہوں تو دردیوار سے بھی شفقت کا اظہار ہوتا ہوں ۔ جناب ایاز احمد قریشی صاحب کا مختصر تعارف یہاں کروانا ضروری سمجھتا ہوں۔ آپ 3 جنوری 1958ء کو مزنگ لاہور میں پیدا ہوئے ۔ اس وقت آپ کے والد گرامی محمدانور قریشی لاہور میونسپل کارپوریشن میں ملازم تھے ۔ قرآن پاک کی تعلیم گھر ہی حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول سمن آباد لاہور سے حاصل کی ۔بعدازاں آپ مزید حصول تعلیم کے لیے گورنمنٹ سائنس کالج وحدت روڈ لاہور میں داخلہ لے لیا ۔بی ایس سی کاامتحان گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے پاس کیا۔ایم ایس سی میتھ کی ڈگری بھی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے ہی حاصل کی ۔بچپن سے ہی آپ کو آرمی جائن کرنے کا شوق تھالیکن قدرت انہیں شعبہ تعلیم کی جانب کھینچ لائی ۔ ٹیچر کی آسامیاں نکلیں تو آپ نے بھی اپلائی کردیا ۔اﷲ کاکرم ایسا ہوا کہ آپ کسی مشکل میں پڑے بغیر ہی بطوراستاد منتخب ہوگئے اور سنٹرل ماڈل ہائی سکول لوئر مال سے ملازمت کا آغاز کیا ۔پھر مختلف سکولوں سے ہوتے ہوئے آپ گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ پہنچے جہاں آپ یکم جون 2016ء سے بطور پرنسپل 20 گریڈ میں تعینات ہیں ۔والدین کے علاوہ آپ اپنے سب سے بڑے بھائی امتیاز احمد قریشی سے بہت متاثر ہیں جنہوں نے نہ صرف آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا کیا بلکہ عملی زندگی میں سب بھائیوں کو مالی طور پر اس قدر سپورٹ کیا جو کہ ایک مثال بنتی ہے ۔ آج انہی کی کاوشوں کے سبب ایاز احمد قریشی سمیت تمام بھائی اعلی عہدوں پر فائزہیں ۔گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ایاز قریشی صاحب کو والدہ سے بے انتہا ء محبت تھی اور ان کی کمی آج بھی وہ شدت سے محسوس کرتے ہیں ۔ والدین کے ایصال ثواب کے لیے وہ ان دنوں قرآن پاک کا لفظی اور بامحاورہ ترجمہ تحریر کررہے ہیں جو کہ انتہائی آسان زبان میں پہلی مرتبہ اردو پڑھنے والوں کے لیے ایک نایاب نسخہ ثابت ہوگا ۔ وہ اپنی شخصیاتی خوبیوں کا تمام تر کریڈٹ اپنے والدین اور بڑے بھائی کو دیتے ہیں ۔

حاجی ملک شاہد تنویر ( وائس پرنسپل )
اگر گلبرگ ہائی سکول کا ذکر ہو اور وائس پرنسپل جناب ملک حاجی شاہد تنویر صاحب کا ذکر نہ ہوتو بات نہیں بنتی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ شاہد تنویر گلبر گ ہائی سکول کے روح رواں ہیں تو یہ بات غلط نہ ہوگی ۔کیونکہ ان کا شمار سب سے پرانے اساتذہ کرام میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے سکول کی پرانی عمارت کی بوسیدگی بھی دیکھی ٗ پھر نئی عمارت کو اپنی آنکھوں سے بنتا ہوا بھی دیکھا ۔ کتنے ہی اساتذہ کرام ان کی آنکھوں کے سامنے سکول سے رخصت ہوئے اور کتنے ہی نئے اساتذہ سکول میں تدریسی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے تشریف لائے ۔ ہزاروں کی تعداد میں طلبا گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول میں داخل ہوئے اور یہاں تعلیم سے آراستہ ہوکر کتنے ہی نوجوان عملی زندگی میں کامیابی سے قدم جما چکے ہیں ۔ میں جب گلبرگ ہائی سکول جاتا ہوں تو یاد گارکے طورپر ایک تصویر ضرور بنواتا ہوں ۔ میں دل کی گہرائیوں سے ممنون ہوں کہ جناب قریشی صاحب اور جناب شاہد تنویر صاحب میری درخواست پر سخت دھوپ میں کھڑے ہوکر بھی تصویر بنواتے ہیں جب یہ تصویریں فیس بک پر اپ لوڈ کرتا ہوں ۔اپنے اپنے اساتذہ کرام کو دیکھ کر دنیا بھر میں ملازمت کے لیے گئے ہوئے گلبرگ ہائی سکول کے سابقہ طالب علم بہت خوش ہوتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں وہ دیکھو تصویر میں میرے استاد بھی نظر آرہے ہیں ۔ جس طرح انسان اپنی ماں کو نہیں بھولتا ۔اسی طرح استاد بھی ں نہیں بھولتا ۔ انسان جتنا چاہے بڑا ہو جائے جتنے بڑے عہدے پر بے شک فائزہوجائے اپنے استاد سے بڑاکبھی نہیں ہوسکتا ۔ جب بھی دنیا کی بھیڑ میں کبھی استاد سے آمنا سامنا ہو ہے تو پھر زندگی ماضی کی طرف لوٹ جاتی ہے اور آنکھوں میں پھر وہیں تصویریں دوڑنے لگتی ہیں جن میں انسان کا اپنا بچپن چھپا ہوتا ہے ۔

جناب شاہد تنویر ایک پروقار شخصیت کے حامل انسان ہیں ۔وہ 22 اکتوبر 1961ء کو لاہور کے مشرق میں واقع ایک تاریخ گاؤں " کرباٹھ" میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد الحاج ملک دلدار احمد سکول ٹیچر تھے ۔پھر وہ ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب چلے گئے ٗ جہاں آٹھ سال تک قیام پذیر رہے ۔ آپ کی آئیڈیل شخصیت والدہی قرار پاتے ہیں ۔شاہد تنور صاحب جس قدر خوش باش قسم کے انسان نظر آتے ہیں انہیں دیکھ کر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ان کے والد بھی کس قدر پروقاراور شاندار شخصیت کے حامل انسان ہوں گے ۔

گاؤ ں کی تہذیب اور کلچر کی جھلک جناب شاہد صاحب کی شخصیت میں واضع دکھائی دیتی ہے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول لاہورکینٹ سے حاصل کی اور ایف ایس سی کی سند گورنمنٹ شالیمار کالج باغبانپورہ لاہور سے حاصل کی ۔ ایم اے ٗ ایم ایڈ کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے نمایاں پوزیشن میں حاصل کی ۔1986ء میں بطور ٹیچر گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول میں ہی ملازمت کا آغاز کیا ۔31 سال سے آپ اسی سکول میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ اتنے عرصے میں تو دو نسلیں جوان ہوجاتی ہیں ۔ لیکن جناب شاہد تنویر صاحب اب بھی جوان بلکہ نوجوان دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی شخصیت اس قدرہر دلعزیز ہے کہ ملنے والا ہر شخص ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ پرنسپل جناب ایاز احمد قریشی صاحب اگر سکول میں نہ بھی موجود ہوں تو شاہد تنویر صاحب پرنسپل صاحب کے حصے کی محبت بھی مجھے دینا نہیں بھولتے ۔ پہلے گنے کی رو پلاتے ہیں پھر چائے اور بسکٹ کااہتمامبھی آنکھوں ہی آنکھوں میں کرلیتے ہیں ۔مجھے اس وقت پتہ چلتا ہے جب میرے سامنے یہ تمام چیزیں آراستہ ہوجاتی ہیں ۔ اتنی محبت کون کرسکتا ہے یقینا وہی شخص اتنی محبت کرسکتاہے جو ہر طالب علم کو اپنے جسم کا حصہ تصور کرتاہے ۔ اﷲ تعالی نے انہیں دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی نعمت سے بھی نواز ا ہے ۔یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ بھی اپنے والد کی طرح ایک اچھے اور پروقار انسان ثابت ہوں گے ۔ اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں مزہ تو تب ہے کہ دوسروں کے دکھ دردمیں ساتھی بنے ۔ شاہد تنویر صاحب میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجودہیں ۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ میں جتنی محبت اپنے سکول سے کرتا ہوں اتنی ہی چاہت مجھے جناب شاہد تنویرصاحب سے بھی ہے ۔ جو میرے سکول کے نگہبان ہیں ۔

میڈم نزہت امبرین ( ہیڈمسٹریس گورنمنٹ پرائمری سکول )
گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ میں ایک حصہ پرائمری سکول کے لیے بھی مخصوص ہے جس میں ننھے منے بچے اور بچیاں دوڑتی بھاگتی اور کھیلتی دکھائی دیتی ہیں ۔ اس پرائمری سکول کی ہیڈ مسٹریس کا نام میڈم نزہت امبرین ہے ۔ یہ پرائمری حصے کی انچارج ہیں ۔ شخصیت پروقار ٗ گفتگو میں بلا کااعتماد اور تعلیمی حسن باکمال دکھائی دیتا ہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ وہ ایک آئیڈیل شخصیت کی مالک خاتون ہیں ۔وہ 14 مئی 1964ء کو مصطفے آباد ( دھرم پورہ ) لاہور میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد مرزا اختر بیگ اس وقت پاکستان ریلوے کے آڈٹ ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سی ڈی جی ایل سکول دھرم پورہ لاہور سے حاصل کی ۔ میٹرک کاامتحان گورنمنٹ تنویر اسلامیہ ہائی سکول دھرم پورہ سے پاس کیا ۔ایف اے اور بی اے کاامتحان پاس کرنے کے بعد 1984ء میں ٹیچنگ کی تربیت حاصل کرکے 1988ء گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول سے ہی بطور استاد ملازمت کا آغاز کیا ۔ انہیں گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول میں ملازمت کرتے ہوئے 29 سال ہوچکے ہیں۔اب پرائمری حصے کی ہیڈمسٹریس ہیں ۔ پرائمری سکول کا رزلٹ ہمیشہ اچھا ہی آتا ہے ۔یہ سب کامیابیاں انہی کی مرہون منت ہیں ۔

آغا رضوان علی (ٹیچر )
جب بھی گلبرگ ہائی سکول میں داخل ہوتا ہوں توایک ہنستا مسکراتا چہرہ دکھائی دیتا ہے ۔ اگر وہ مجھے دیکھ لیں تواس قدر والہانہ انداز میں وہ میری جانب کھینچے چلے آتے ہیں کہ میرے پورے جسم میں خوشی کی لہر سی دوڑ جاتی ہے ۔ دل سے دعا نکلتی ہے کہ خدایا یہ کس قدر اچھے اور پرخلوص انسان ہیں جو مجھ سے اس قدر محبت کرتے ہیں ۔ نہ وہ میرے ساتھ پڑھتے رہے ٗ نہ بچپن اور جوانی میں مجھے ان کی رفاقت حاصل ہوئی پھر بھی وہ اس قدر والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں جو یقینا میرے لیے اعزاز بنتا ہے ۔ مجھے اپنے ساتھ لے کر پرنسپل آفس جاتے ہیں وہاں آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ سمجھتے ہیں اور کچھ سمجھاتے ہیں پھر ہمیں پرنسپل ایاز احمد قریشی صاحب کے روبر و بٹھا کر خود چند لمحوں کے لیے غائب ہوجاتے ہیں ۔ جب دوبارہ نمودار ہوتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں کولڈ ڈرنکس کی ڈیڑھ لیٹر والی بوتل ہوتی ہے ۔ جسے وہ اپنے ہاتھ سے گلاسوں میں ڈال کر ہمیں پیش کرتے ہیں ۔ دوران گفتگو چند مسکراہٹیں بکھرنے کے بعد وہ بھر کچھ دیر کے لیے منظر سے غائب ہوجاتے ہیں لیکن جب دوبارہ نمودار ہوتے ہیں تو چائے تیار اور بسکٹ اورنمکو ہمارے سامنے آراستہ ہوتی ہے ۔ بھلا اتنی محبت کون کرسکتا ہے ۔ یہ محبت آغا رضوان علی صاحب ہی کرتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ ان کی اس والہانہ محبت اور شفقت کو دیکھ کر دل چاہتا ہے ایک بار پھر اسی سکول میں ان کا طالب علم بن کر بینچوں پر بیٹھ جاؤں اور ان کی شخصیت کی تمام خوبیوں کو اپنے اندر سموکر ایک بار پھر عملی زندگی میں قدم رکھوں ۔

آغا رضوان علی صاحب 26 مارچ 1971ء میں اندورن شہر موچی گیٹ لاہور میں آغا باقر حسین کے گھر پیدا ہوئے ۔ والدگرامی اس وقت واپڈا میں ملازم تھے ۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول لوئر مال سے حاصل کی ۔ میٹر ک کا امتحان میں 850 میں سے 723 نمبر حاصل کرکے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا ۔ یہیں سے آپ نے تاریخ(History ) میں ماسٹر ڈگری( گولڈ میڈلسٹ ) حاصل کی اور پولیس میں ملازمت کی خواہش کا اظہار کیا لیکن والدہ کی خواہش کے سامنے آپ کو سرجھکانا پڑا جو آپ کو استاد بنانا چاہتی تھیں ۔جب سلیکشن کا مرحلہ آیا تو آپ بیک وقت دو سکولوں ( وطن سکول اور گلبرگ ہائی سکول ) کے لیے منتخب ہوگئے ۔ چنانچہ 2001ء میں آپ نے گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول سے بطور ٹیچر ملازمت کا آغاز کردیا ۔تب سے اب تک گلبرگ ہائی سکول میں ہی تدریسی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور ہزاروں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا فریضہ انجام دے چکے ہیں ۔ اس بات کا میں خود شاہد ہوں کہ جب بھی میری ان کے ساتھ تصویر فیس بک پر اپ لوڈ ہوتی ہے تو دوبئی ٗ لندن اور سعودیہ میں ملازمت کے لیے ٹھہرے ہوئے نوجوان اپنے استاد کی تصویر دیکھ کر نہ صر ف کمنٹس کرتے ہیں بلکہ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ بے شک استاد ایک ایسی ہستی ہے جو ماں کی طرح بچے کے ذہن میں ہمیشہ محفوظ ہوجاتی ہے ۔ جس طرح انسان اپنی ماں کونہیں بھولتا اسی طرح کوئی بھی انسان اپنے استاد کونہیں بھولتا ۔اور جو استادکو بھول جاتے ہیں زمانہ ان کو بھول جاتاہے ۔ ان کے طالب علموں میں کامیابی کی شرح ہمیشہ 90 فیصد سے اوپر ہی رہتی ہے ۔ان کے بقول ہمارے مسائل کا حل اتفاق اور اتحاد ہے ہمیں اپنی ذاتیات سے باہر نکل کر وطن عزیز کی خدمت کے لیے جستجو کرنا ہوگی ۔ زندگی میں کامیابی کے لیے ہمیشہ بڑوں کی عزت اور وقت کی قدر کریں گے تو کامیابی مل جائے گی ورنہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا ۔اس سوال کے جواب میں آپ نے اپنے سکول کے آئیڈیل ٹیچر کانام بھٹی صاحب بتایا اور گورنمنٹ کالج کے پسندیدہ پروفیسر کانام افتخار صاحب بتایا ۔ آپ گورنمنٹ کالج کی کرکٹ ٹیم کے کامیاب کپتان بھی رہے ہیں اور چوکے چھکے لگانے کے ماسٹر بھی ۔ میں سمجھتا ہوں گلبرگ ہائی سکول ایسے ہی خوش مزاج اور خوش گفتار اساتذہ کے دم قدم سے ایک مثالی علمی درسگاہ کا روپ دھار چکا ہے ۔ پسندیدہ شخصیت کا جب ذکر آیا تو انہوں نے کہا ہم نے تو اپنے ہر سینئر کا حکم قانون سمجھ کر مانا ہے لیکن آئیڈیل شخصیت کی حیثیت سے نام رحمت اﷲ کامران صاحب کا ہی آئے گا ۔ جو ایک مثالی اور آئیڈیل پرنسپل تھے اور ایاز احمد قریشی جیسے خوش اخلاق اور خوش گفتار پرنسپل نہیں دیکھے ۔جو ایک شفیق باپ کی طرح اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ دوران گفتگو پیش آتے ہیں ۔

علی نواز صاحب(ٹیچرو انچارج دہم بی کلاس)
آپ کا اصل نام علی نواز ہی ہے آپ کے والد ارشاد علی ایک بزنس مین تھے۔ آپ لاہور میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے پرائمری تعلیم ایم سی بوائز سکول قلعہ لچھمن سنگھ سے حاصل کی ۔ پانچویں جماعت میں آپ نے وظیفے کا امتحان پاس کیا ۔ وظیفے کی رقم مبلغ 540/- روپے جب والدگرامی کو لاکر پیش کی تو والد صاحب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے ۔ ان کا خواب تھا کہ میں پڑھائی میں نمایاں پوزیشن حاصل کروں جو میں نے سچ کردکھایا۔ میٹرک کاامتحان آپ نے سنٹرل ماڈل سکول لوئر مال سے پاس کیا۔بعدازاں آپ نے ایف سی کالج میں داخلہ لے لیا اور یہاں سے ایف ایس سی اور بی ایس سی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ایم ایڈ کا امتحان علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے پاس کیا ۔ شعبہ تعلیم سے والہانہ لگاؤ بچپن سے ہی تھا اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ شعبہ تعلیم سے وابستہ استاد اپنے شاگردوں کی بہترین تربیت اور کریکٹر سازی میں اہم کردار اداکرسکتا ہے یہی نوجوان آگے چل کر قوم کی شکل اختیار کرتے ہیں ۔ دوران تعلیم بھی آپ نویں اور دسویں جماعتوں کے لڑکوں کو پڑھایا کرتے تھے ۔ درس و تدریس کا وہ شوق جو آپ کو بچپن ہی سے تھا وہی شوق اب پروفیشن بن کر زندگی کا مستقل حصہ بن چکا ہے ۔ آپ کے آئیڈیل استاد محمد ادریس ہیں جن کی شخصیت اور طریقہ تدریس آپ کو بے حد پسند ہے ۔انہی کو دیکھ کر استاد بننے کا خیال دل میں پیدا ہوا وہ جس شفقت اور محبت سے پڑھایا کرتے تھے اس اعتبار سے انہیں مثالی استاد قرار دیاجاسکتا ہے ۔ اپنی زندگی کے یادگار واقعے کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ جب میں پانچویں جماعت میں تھا توان دنوں مجھے ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ ایک دن میں ڈائجسٹ پڑھنے میں اس قدر مصروف تھا کہ ٹیویشن کا وقت گزر گیا۔ شام ڈھلے جب والد صاحب گھر آئے تو والدہ نے بتایا کہ آج آپ کا بیٹا ڈائجسٹ پڑھنے میں اس قدر محو تھا کہ اسے ٹیویشن جانا یاد ہی نہیں رہا ۔یہ سن کر والد صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا انہوں نے مجھے سخت لہجے میں ڈانٹا اور فرمایاتم ڈائجسٹ پڑھنا چھوڑ دو اور اپنی تمام تر توجہ پڑھائی پر مرکوز کرو اور بڑے انسان بن جاؤ کہ لوگ تمہیں رشک کی نظر سے دیکھیں ۔ والد کی ڈانٹ نے آپ کی شخصیت کو ایک ایسے موڑ پر لاکھڑا کیا جہاں آپ نے ڈائجسٹ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیااور درسی کتابوں پر مکمل توجہ مرکوز کردی ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ جناب علی نواز صاحب گورنمنٹ گلبرگ ہائی سکول کی دسویں بی کلاس کے انچارج ہیں جس کلاس کے بینچوں میں بیٹھ کر کبھی میں پڑھاکرتا تھا ۔ اس لیے مجھے بطور خاص دسویں بی اور اس کے انچارج علی نواز بے حد اچھے لگتے ہیں ۔ علی نواز صاحب حقیقت میں بہت شفیق اور ہمدرد انسان ہیں وہ اپنے شاگردوں سے اپنے حقیقی بچوں جیسا سلوک کرتے ہیں اور غلطیوں کو درگزر کرکے ان کی اصلاح کرتے ہیں ۔ان کا ہنستا اور مسکراتا چہرہ ان کی شخصیت کی بہترین پہچان ہے ۔ اگر انہیں مثالی استاد کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 659553 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.