سیاست کیلئے ملک تباہ مت کیجئے

وطن عزیزکی سیاسی صورتحال اس وقت کس نہج پرچل رہی ہے اس کاادراک سیاست سے شغف رکھنے والے معمولی سمجھ بوجھ کے سیاسی کارکن کوبھی ہے اور بڑے بڑے سیاسی پنڈت بھی اس سے بخوبی آگاہی رکھتے ہیں کہ ملکی سیاست اس وقت سیاسی انتہاپسندی کی جانب راغب ہے یہ کوئی پہلی مرتبہ ایسا نہیں ہورہامگرحالیہ عرصے میں سوشل میڈیااورٹیلیوژن سکرینوں نے ان روئیوں کوبڑھاوادینے میں اہم کرداراداکیاجس سے ملکی سیاست میں قومی ایشوزکونظراندازکرکے نان ایشوزکی سیاست نے فروغ پایاہرکس وناکس فوجی اوردفاعی معاملات کاایکسپرٹ بناہواہے اورفوج کو اپنی سیاست میں گھسیٹنے کارواج عام ہے نوازشریف کی نااہلی کے بعدانکی پارٹی نے برملاسویلین بالادستی کی باتیں کیں اوریہ تاثردینے کی کوشش کی گئی کہ نوازشریف کی نااہلی میں فوج یاعرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کاہاتھ ہے اس سلسلے کو مہمیزاس وقت ملی جب احتساب عدالت میں نوازشریف کی پیشی کے موقع پررینجرزنے عدالت کاکنٹرول سنبھالا اوراپنے ’’باس ‘‘ یعنی وزیرداخلہ احسن اقبال کو بھی اندرجانے نہیں دیاگیاجس پر وزیرداخلہ نے کھل کرفوج پر تنقیدکی اورکہاکہ اب فیصلہ ہوناچاہئے یہ کوئی بناناری پبلک نہیں یہاں سویلین بالادستی ہوگی اور منتخب حکومت کاحکم چلے گااس پر اگرچہ وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق نے احسن اقبال کے ردعمل کو پسندیدگی کی نظرسے نہیں دیکھامگراپوزیشن نے بھی سیاست چمکانے کاموقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اوراس معاملے پر اتناشورمچاکہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی معاملے کو ہائی لائٹ شکل اختیار کرتے دیکھ کر آئی ایس پی آرکے ڈائرکٹرجنرل کو سامنے آکرسیاسی حوالوں سے وضاحتیں دیناپڑگئیں میرے سامنے یہ پہلی بارہواکہ فوج کے ترجمان ادارے کے افسرکوسیاست پربات کرناپڑی اوریہ سب ہمارے سیاستدانوں کی جلدبازی، عدم برداشت اوربے صبرے پن کی وجہ سے ممکن ہواسیاستدان جب بھی منہ کھولتے ہیں یہ بات ضرورکرتے ہیں کہ فوج کاآئینی کردارموجودہے اوریہ کردارملکی سرحدوں کی حفاظت ہے مگریہی سیاستدان سیاسی مفادکیلئے فوج کوسیاست میں گھسیٹتے ہیں اسے دعوتیں دی جاتی ہیں اورمداخلت کی اپیلیں کیجاتی ہیں جمہوریت کاراگ الاپنے والے سیاستدانوں کو گھٹی میں یہ بات کھلائی گئی ہے کہ اقتدارواختیارفوج نے دیناہے اس لئے یہ اٹھتے بیٹھتے فوج کے چلتے پھرتے ترجمان بنے ہوئے ہیں ایک بزعم خودسیاسی راہنماتو فوج کے حوالے سے پیشنگوئیاں کرتے ہوئے نہیں تھکتے انکی 5لاکھ پیشنگوئیوں میں بمشکل کوئی ایک آدھ درست ثابت ہوجائے تو وہ خودکو فوج کے قریب پاتاہے اورتاثردینے کی کوشش کرتاہے جیسے آرمی چیف صبح اٹھ کر سب سے پہلے اسی اعلیٰ حضرت سے ہدایات لیتے ہیں اورانہی ہدایات کے مطابق دنیاکی چھٹی ایٹمی قوت کوچلایاجاتاہے سیاستدانوں کے یہ غلط روئیے ہی ہیں جن کی بدولت اس ملک میں جمہوریت استحکام کی منزل سے کوسوں دورہے فوج نے تو2008میں ہی سیاست سے خودکودوررکھنے کافیصلہ کرلیاتھایہی وجہ ہے کہ مشرف کی رخصتی پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا1999میں بھی شائدفوج اقتدارپرقابض نہ ہوتی اگراس وقت کی اپوزیشن اسے کورس کی صورت میں آوازیں دیکرنہ بلاتی آج تک اس ملک میں جتنی بھی فوجی حکومتیں آئیں ان سب کے پیچھے سیاستدانوں کاہاتھ نظرآتاہے یہی سیاستدان فوجی حکومت کے دست وبازوبن جاتے ہیں وزارتیں سنبھالی جاتی ہیں اورفوجی حکمران کی مدح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں آج کل جمہوریت اورعوامی حقوق کے ایک خودساختہ چیمپئن نے ایک فوجی آمرکودس مرتبہ باوردی صدر بنوانے کاعندیہ بھی دیاتھا تبدیلی اورجمہوریت کے ایک علمبردارکوجب آرمی چیف کی جانب سے بلاواآیاتووہ اپنے بھرے پرے جلسے کوچھوڑکرراولپنڈی جاپہنچاجاتے وقت انکے منہ پر جو پرمسرت مسکراہٹ تھی اسے تین سال گزرجانے کے باوجودمیں بھلانے سے قاصرہوں وطن عزیزکے پاسبان سیاستدانوں اورنگہبان فوجی آمروں نے مل کراس ملک کو جونقصان پہنچایاہے اس کے ازالے کیلئے ہمیں شائدکئی صدیاں درکارہونگیں مزیدنقصان سے بچنے کیلئے خلوص نیت سے کام کرنے کی ضرورت ہے خطرات کسی بھوکے گدھ کی طرح پاکستان کے آسمان پر منڈلارہے ہیں مگرہم ابھی تک فوج کے آئینی اورغیرآئینی کردارپربحث میں پھنسے ہوئے ہیں یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ یہ ملک سیاستدانوں کے بغیرچلنے کے قابل ہے اورناہی یہ فوج کے بغیرچل سکتاہے فوج کے لوگ بھی اسی ملک سے تعلق رکھتے ہیں اورسیاستدانوں کاتعلق بھی لاطینی امریکہ سے نہیں جب سب اسی ملک کے باشندے ہیں اسی ملک کی سربلندی کیلئے تن من دھن کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے تو پھر مسئلہ کیا ہے ؟ مسئلہ محض اناکاہے سیاستدان سمجھتے ہیں کہ اس ملک کیلئے قربانیاں ہم نے دی ہیں لہٰذا ہم ہی اسکے سیاہ وسفیدکے مالک ہیں جبکہ فوجی ذہن کاخیال ہے کہ جوان ہمارے شہیدہورہے ہیں ، قربانیاں ہم دے رہے ہیں اسلئے ملک پرحکمرانی ہماراحق ہے چاہے یہ حکمرانی پس پردہ رہ کی جائے یا آئین کوطاق نسیاں کی زینت بناکراپناایل ایف او لایاجائے دنیاکہاں سے کہاں پہنچ گئی اورہم ابھی چارپانچ سو سال پرانے زمانے والے اقتدارکی لڑائیوں میں الجھے ہوئے ہیں ضرورت اس امرکی ہے کہ اس ملک کے تمام’’ سٹیک ہولڈرز‘‘ ہوش کے ناخن لیں آپس کی غیرضروری عداوتوں اوراناؤں کی قربانی دیں اوراس ملک کی بقاکیلئے سب ایک پیج پرآجائیں جس کے بغیرہم کچھ بھی نہیں ہم اگر فوجی ہیں تو اس ملک کی وجہ سے ہیں ہم اگرسیاستدان ہیں اپوزیشن میں، یاحکومت میں ہیں تو بھی ہم اس ملک کی وجہ سے ہیں اوراس ملک کوآج چاروں جانب سے خطرات نے گھیررکھاہے دنیاکے کسی ملک کی ایٹمی پروگرام پرحملے یاقبضے کے بارے میں باتیں نہیں ہوتیں ہم ہی ایک بدقسمت ملک ہیں جس کے ایٹمی پروگرام پرحملے کی ریہرسلز ہورہی ہیں بڑی طاقتوں کے تھنک ٹینکس اس کیلئے فکرمند ہورہے ہیں اورانکی راتوں کی نیندیں صرف اس وجہ سے حرام ہورہی ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کس بہانے سے نشانہ بنایاجائے حالانکہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں اورپروگرام کے بارے میں پاکستان جس قدر حساسیت کامظاہرہ کررہاہے دنیاکاکوئی اورملک اسکے عشرعشیرتک بھی نہیں پہنچ سکتااب بھی کچھ زیادہ نہیں بگڑا ہم میں سے ہرشخص اورہرادارہ اپنی حدودمیں رہ کرکام کرے، اپناآئینی اورقانونی کرداراداکرے اوراتحادویکجہتی کامظاہرہ کرکے دشمن قوتوں کو یہ پیغام دیں کہ پاکستان لوہے کاوہ چناہے جسے ناہی اگلاجاسکتاہے اور ناہی نگلاجاسکتاہے یہ اسی طرح دنیاکے نقشے پر قائم ودائم رہ کر دشمنوں کاخون خشک کرتارہے گااور انکے سازشی سینوں پرمونگ دلتارہیگااس منزل کوپانے کیلئے تمام فریقوں سے گزارش ہی کی جاسکتی ہے کہ خدارا سیاست ملکی استحکام کی خاطرکیجئے سیاست کیلئے ملک کوتباہ مت کیجئے ۔
 

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 51692 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.