ہتک عزت اور سائبر کرائم (قسط وار)

سیاسی پنڈت اور مذہبی مشائخ کا دوسروں کی عزت نفس کو پامال کرنا ایک رائج کلچر کی صور ت اختیار کررہا ہے ۔ سیاست کے علمبردار جو پہلے مذہبی و دینی ملاؤں کو کوستے تھے اور تشدد ، دہشت گردی ، عدم برداشت اورغیر ریاستی امور کا تانا دیتے نہیں تھکتے تھے اب وہ اسلام کے ٹھیکداروں سے بھی زیادہ سخت گیر اور متشدد مزاج پائے جاتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ماؤں بہنوں اور بیٹوں کی پگڑیاں اچھالتے نظر آتے ہیں۔عزت و نفس کو مجرو ح کرنے کا عجیب و غریب کلچر پاکستا ن میں ترویج پا رہا ہے۔ قائد اعظم کو بانی پاکستان ماننے والے اور علامہ اقبال کی شاعری پر روح کو گرمانے والے مدر پدر آزاد خیال معاشرے میں لتھڑے رہتے ہیں ۔اردو زبان کے محافظ ، کلمہ گوہ اور اور نبی ﷺ کی محبت میں گرفتار جب ٹی ٹاک شوز اور پریس کانفرنسز میں مقابلہ بازی کی دوڑ لگاتے ہیں تو پراگندگی بلکہ بے حیائی بھی شرما جاتی ہے ۔ہتک عزت اور سائبر کرائم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سائبر کرائم ہر جگہ ہو سکتا ہے چاہے وہ گھر ہو باہر ہو، سکول ہو کالج یا یونیورسٹی ہو ، ڈیجیٹل میڈیم کی مست دنیا ہو یا قومی اسمبلی و سینٹ کا بیرونی احاطہ، ایوان زیریں ہو یا بالا، کمرہ عدالت ہو یا نیب کورٹ، ایوان صدر ہو یا وزیر اعظم ، غرض ہر جگہ سائبر کرائم اٹیک ہو سکتا ہے ، لہذا صرف سائبر کرائم کا بہانہ بنا کر انٹرنیٹ پر حکومتی عہدیداروں پر چڑھائی کرنے والوں کو نشانہ عبرت بنانا اور جہالت کو برقرار رکھنے کے لیے آزاری اظہار رائے پر قدغن لگانا قطعی قبیح فعل ہے۔ 2002ء کے ترمیم شدہ ایکٹ 2004ء میں بے شمار فلاز ہیں جس کی بناء پرDefamation Act کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کر کے صرف مذہبی لوگوں کو ہتک عزت کا ذمہ قرار دیا گیا ہے اور سیکشنز 295,295A,295B اور 295C کومذہبی آؤٹ فٹس کے ساتھ بے وجہ نتھی کردیا گیا ہے ، حالانکہ ہتک عزت والے معاملے پر سب سے بڑے قصووار سیاسی دانشورہیں۔

پاکستان دنیا کے ان 42ممالک میں شامل ہے جن کے پاس سائبر کرائم کے لئے کسی نہ کسی شکل میں قانون ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔سائبر کرائم خواہ بینکنگ ہو یا انٹرنیٹ سے وابستہ مختلف شعبہ جات میں ہونے والی غیر قانونی سرگرمیاں،اسی طرح کمپیو ٹر سسٹم کو نقصان پہنچانا،اکاونٹس کی ہیکنگ، انٹر نیٹ دہشت گردی،فیس بک پر ہراساں کرنا، شہرت کو داغدار کرنا، جعلی شناخت ظاہر کرنا،ممنو عہ و حساس معلومات تک رسائی و ڈیٹا چوری یا سوشل میڈیا کے ذریعے انتہا پسند تنظیموں کی معاونت، فرقہ پرستی، نفرت انگیزی یا مذہبی منافرت پھیلانے کا قبیح فعل،غیر قانونی سم کارڈ کا اجراء،یہ سب سائبر کرائم کے زمر ے میں آتے ہیں۔ایف آئی اے پاکستان الیکٹرک کرائم آرڈیننس 2007ء کے تحت سائبر کرائمز پر کاروائی کرنے کا خصوصی اختیار رکھتا ہے جبکہ دوسرا قانون الیکٹرانک ٹرانسیکشن آرڈیننس 2002 ء ہے۔ بل کے مطابق21جرائم پر ضابطہ فوجداری کی30دفعات لاگو ہو سکتی ہیں۔ کسی بھی شخص کے خلاف مقدمہ متعلقہ عدالت میں بھیجنے سے پہلے ایک تحقیقاتی عمل ہو گا۔سکیورٹی ایجنسیوں کی مداخلت کی روک تھام کے لئے اقدامات کیے جائیں گے۔ قانون سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں ہوگا۔سائبر کرائم بل 2016ء کے تحت جرم کے دائرہ کار میں آنے والے عوامل میں نفرت انگیز تقریر، تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش یا مذہب اور فرقے کی بنیاد پر نفرت پھیلانے پر 5سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ،بنیادی حساس معلومات کی نقل یا منتقلی پر 5سال قید اور 50لاکھ روپے جرمانہ،کسی شخص کو تشہیر کی غرض سے پریشان کن پیغام بھیجنے پر50ہزار روپے جرمانہ اور جرم دوہرا ہونے کی صورت میں 3ماہ قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ، منفی مقاصد کیلئے ویب سائٹ قائم کرنے پر 3سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ،کسی شخص کو غیر اخلاقی حرکت کے لئے مجبور کرنے،کسی کی تصویر بغیر اجازت شائع کرنے،بے ہودہ پیغامات بھیجنے یا سائبر مداخلت پر ایک سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ،حساس ڈیٹا انفارمیشن سسٹم میں مداخلت پر سات سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ،ممنوعہ معلومات تک غیر قانونی رسائی پر 3ماہ قید اور 50ہزار روپے جرمانہ،کسی شخص کی شناختی معلومات حاصل کرنے فروخت کرنے یا اپنے پاس رکھنے پر 3سال قید اور 50لاکھ روپے جرمانہ،غیر قانونی طریقے سے سم کارڈ کے اجراء پر 3سال قید اور 5لاکھ روپے جرمانہ،غیر قانونی طریقے سے وائرلیس سیٹ یا موبائل فون میں تبدیلی کرنے پر 3سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ اور کسی شخص کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے پر بھی 3 سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔(جملہ معترضہ) بہرحال سابقہ پیراگراف تو صرف بیان میں اچھا لگتاہے۔

جس طرح 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان درجنوں کاالعدم تنظیموں کے خاتمے کے بغیر ایک نامکمل اینجنڈ اہے ، اسی طرح70سے زائد دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث گمنام آؤٹ فٹس کے باقیات کے کچلے جانے تک چین نصیب ہونا مشکل ہے ہے ۔ سائبر کرائم ایکٹ کی تمام شقوں پر عمل پیرا ہو کر ہی لوگوں کی عزتوں کی محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی سطح پر ہتک عزت کا ارتکاب کرنے والوں کو سائبر کرائم بل کے حوالے سے شعور دیا جائے تا کہ وہ جانے انجانے میں خلاف ورزی کے مرتکب ہو کر کسی پریشانی کا شکار نہ ہو جائیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ سائبر کرائم ایکٹ باقی بنائے گئے یا ترمیم کیے گئے قوانین سے مختلف ثابت ہوگا اور لوگوں کے دکھوں کا مداوا کریگا ۔ سائبر کرائم ایکٹ کی ناقابل عمل شقیں اور عملی تدبیرں کالم ہذا کی دوسری قسط میں شامل ہوں گی۔
 

Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 99362 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.