عبد الواہاب خان سلیم بھی رخصت ہوئے

علم و ادب کی معروف شخصیت عبدالوہاب خان سلیم 7اکتوبر2017کو امریکہ میں انتقال کر گئے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ وہاب صاحب 70کی دہائی میں امریکہ چلے گئے تھے پھر وہ وہیں ۔ وہا ب صاحب کو پاکستان کی بے شمار علمی و ادبی حلقے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ رہتے امریکہ میں تھے لیکن پاکستان کے علمی و ادبی لوگوں سے ان کے بھائیوں کی طرح مراسم تھے۔ میرے کلاس فیلو تو نہیں البتہ میں جامعہ کراچی کے ایم اے سال اول میں تھا جب کہ وہ فائنل ائر میں تھے۔ اس حوالے سے وہ میرے بیج میٹ تھے۔ پنجاب سے ایم کرنے کراچی آئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب جامعہ کراچی میں داخلے کے لیے عمر کی قید نہیں تھی۔ وہاب صاحب بھی عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے۔ جب موقع ملا تعلیم مکمل کرنے آگے۔ میرے ان سے خط و کتابت کا تعلق تھا ۔ میں نے وہاب صاحب کا خاکہ’’ عبد الوہاب خان سلیم۔ایک کتاب دوست :شخصی خاکہ‘‘جنوری 2011میں لکھا تھا جو میری خاکوں کے مجموعے ’’جھولی میں ہیرے اور موتی‘‘ میں شامل ہے ۔ یہ خاکہ آن لائن بھی ہے اورگوگل پر سرچ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد وہاب صاحب سے مراسم رہے۔ وہ اوروں کو بھی فون کیا کرتے مجھے بی کیا کرتے تھے، وہ اپنی عادت کے مطابق اوروں کو بھی تحفے بھیجا کرتے تھے ، میں بھی ان کی فہرست میں شامل تھا۔ 2015میں ہندوستان کے ایک ادیب وقار مانوی نے ان پر ایک کتاب ’’وہاب نامہ ‘‘ مرتب کی ، پاکستان میں جامعہ کراچی سے یہ کتاب مجھ تک پہنچی ، وہاب صاحب نے مجھے اس پر تبصرہ کرنے کو کہا میں نے اس کتاب پر تبصرہ کیا جس کا عنوان ’’ پاکستانی ۔ امریکن‘ پر مرتب تصنیف ’وہاب نامہ ‘ ۔ایک مطالعہ‘‘۔ یہ تبصرہ بھی گوگل پر سرچ کیا جاسکتا ہے۔ ہماری ویب پر میرے تقریباً تمام ہی مضامین وائرل ہیں۔ آج فیس بک پر وہاب صاحب کے سانح�ۂ ارتحال کی خبر فیس بک پر معراج جامی صاحب نے وہاب صاحب پر اپنے ایک طویل مضمون کے ساتھ دی۔ جامی صاحب سے وہاب صاحب کے تعلقات کا تسلسل تھا۔ مجھے بھی اکثر جامی صاحب سے ہی ان کی خیریت مل جایا کرتی تھی۔ اب یہ خبر ملی انتہائی دکھ اور افسوس ہوا۔یہ دنیا فانی ہے ، ہم سے نے ایک نہ دن چلے جانا ہے، آج وہ کل ہماری باری ہے۔کسی نے کہا
دنیا کے جو مزے ہیں ہر گز وہ کم نہ ہوں گے
چرچے یوں ہی رہیں گے افسوس ہم نہ ہوں گے

ذیل میں وہاب کی کتاب پر کیا گیا تبصرہ دیا جارہا ہے۔ ساتھ ہی وہ خاکہ جو ان کی زندگی میں لکھا گیا جسے انہوں نے بہت پسند بھی کیا پیش خدمت ہے۔ اس دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ وہاب صاحب کے درجات بلند فرمائے ، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ آمین

’وہاب نامہ‘ مؤلف ۔وقار مانوی
’وہاب نامہ ‘کے عنوان سے ہندوستان کے معروف شاعر وقارمانوی کی مرتبہ کتاب نئی دہلی سے اسی سال 2015میں منظر عام پر آ ئی ۔ اس کی ایک کاپی مجھے بھی بھجوائی گئی۔ کیسے؟ یہ مجھے بھی نہیں معلوم ، رائیٹرز کلب کے میرے ایک دوست نے کہا کہ ایک کتاب آپ کے لیے آئی ہے جامعہ کراچی میں کسی کے پاس ہے ان سے لے کر آپ کو پہنچا نا ہے۔ کتاب ملی جس پر درج ہے ’ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کے لیے ،منجانب عبدا لوہاب خان سلیم ‘ ۔ کتاب دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ یہ تو وہی عبدا لوہاب خان سلیم ہیں ‘ جن کا خاکہ میں نے 2011 میں ’ایک کتاب دوست ‘ کے عنوان سے لکھا تھا اُس وقت مَیں جامعہ سرگودھا میں تھا۔ہاسٹل میں رہائش تھی ، یہ مضمون وہیں پر تحریر کیا گیا تھا۔ یہ مضمون پاکستان لائبریری وانفارمیشن سائنس میں شائع ہوا ۔ یہ خاکہ میری خاکوں پر مشتمل کتاب ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘میں بھی شامل ہے ۔ خاکوں کا یہ مجموعہ 2013میں شائع ہوا تھا۔ یہ خاکہ اردو کی معروف ویب سائٹ’ ہماری ویب‘ پر اور اب میری ’ای بک ‘ جو ہماری ویب کے تحت قائم ’رائیٹرز کلب‘ نے مرتب کی میں بھی شامل ہے۔ یہ’ ای بک‘(E-Book) آن لائن ہوچکی ہے۔اس کا یو آر ایل (https://hamariweb.com/articles/ebook/Dr-Rais-Samdani) ہے۔’وہاب نامہ ‘میں شامل مضامین پر نظر دوڑائی تومیرا یہ خاکہ بھی اس میں شامل پایا اور زیادہ خوشی ہوئی۔ اُسی وقت ارادہ کر لیا کہ اس کتاب پر اپنی رائے تحریر کروں گا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ میں چند دن بعد ہی ایک ماہ کے لیے سعودی عرب کے شہر جدہ آگیا۔گزشتہ پانچ سالوں سے مجھے یہ سعادت مل رہی ہے کہ میں تقریباً ہر سال ہی یہاں آتاہوں۔ بلاوے کی بات ہے۔ عمرہ و زیارت تو یہاں رہتے ہوئے زندگی کا لازمی حصہ ہوتا ہے میں یہاں لکھنے ، لکھانے کا عمل بھی جاری رکھتا ہوں، جو کام کرنا ہوتا ہے اس سے متعلق کتب اپنے ہمرہ لے آتاہوں، لیب ٹاپ اب میرا ساتھی ہے۔ اس بار دیگر کتب کے علاوہ’ وہاب نامہ‘ بھی میرے سفر میں میرا شریک تھا ، سفر میں بھی اس کا مطالعہ کیااور جدہ شہر میں ہی اس کتاب کے بارے میں یہ تحریر لکھی گئی۔

2013کی بات ہے میں جدہ ہی میں تھا نیٹ پر اردو ویب سائٹ کی تلاش میں ’ہماری ویب‘ سے ملاقات ہوگئی، جہاں پر مضامین کا بھی ایک شعبہ قائم ہے جہاں پر لکھنے والوں مضامین ان کے نام کے تحت آن لائن ہوتے ہیں۔ میں بھی اس ویب سائٹ کا حصہ بن گیا اور یہاں سے جو مضمون سب سے پہلے ہماری ویب کو بھیجا وہ عبد الوہاب خان سلیم پر میرا لکھا ہو ا خاکہ تھا جو آن لائن کردیا گیا۔ بعد میں ہماری ویب نے ’رائیٹرز کلب ‘ تشکیل دیا تو اس ناچیز کو اس کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ رائیٹرز کلب کے مقاصد میں آن لکھنے والوں کی حوصلہ افزئی کرنا، برقی کتب تیار کرکے آن لائن کرنا بھی ہے۔چنانچہ اس سلسلے کی اولین کوشش 15لکھاریوں کی ای بک ترتیب دی گئیں جن میں راقم الحروف کی ای بک بھی سرِ فہرست تھی۔ 8اپریل کو ان برقی کتب کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی، معروف شاعر سحر انصاری اس کے مہمان خصو صی تھے۔ المختصر وہاب صاحب کا خاکہ اسی شہر جدہ سے 2013میں آن لائن ہوا اور اب ان پر مرتب کی جانے والی کتاب وہاب نامہ کا مطالعہ و تجزیہ بھی اسی شہر جدہ میں لکھا گیا اور آن لائن بھی ہوا۔ شاید اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے وہاب خان صاحب کواس سرزمین سے بے پنا ہ محبت و عقیدت ہے ویسے تو ہر مسلمان کی یہی خواہش اور تمنا ہوتی ہے کہ وہ اﷲ کے گھر خانہ کعبہ پر حاضری دے اور روضہ رسول ﷺ پر بار بار حاضر ہوتا رہے خان صاحب کئی سالوں سے ہر سال یہاں آتے ہیں عمرہ ادا کرتے ہیں ۔ اپنے دوستوں اور اہل علم سے ملاقات کرتے ہیں۔عبد الوہاب خان سلیم کا ذکر چھڑنا لازمی تھا حالانکہ میرا موضوع ’وہاب نامہ‘ ہے اور وہاب نامہ ہے عبد الوہاب خان سلیم کی زندگی کی داستانِ حیات ۔ ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نے درست لکھا کہ عبد الوہاب خان سلیم کا ذکر چھیڑ یے تو یہ مصرع یاد آئے گا کہ: ’’سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے‘‘
’وہاب نامہ‘ کے مطالعہ کے حوالے سے لفظ ’پاکستانی امریکن‘ میری یا کسی اور مصنف کی اِخترا نہیں بلکہ وہاب صاحب نے اپنے ایک مکتوب بنام پروفیسر نگار سجاد ظہیر (صفحہ 99)میں از خود لکھا کہ ’مَیں پاکستانی امریکن ہوں‘۔ میں نے خان صاحب کے اِسی جملے کو اپنی تحریر کے عنوان کا حصہ بنا یا ہے۔حالانکہ وہ صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ وہ’ ہندوستان کے بعد پاکستانی امریکن‘ ہیں ۔ اس لیے کہ وہ بنیادی طور پر ہندوستانی ہیں ، انہوں نے پہلے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی پھر پاکستان سے امریکہ کی سرزمین کو اپنا مسکن بنایا۔اور اسی سرزمین سے لکھاریوں کی خدمت کررہے ہیں۔ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ نے اپنے مضمون میں لکھا’ عبد الوہاب خان سلیم نہ تو دانش ور ہیں نہ ہی حکیم و عبقری ، اس کے باوجود خان صاحب دانشوروں ، حکما اور عباقر کے چہیتے‘۔ عظیم اختر نے اسی بات کو اس طرح کہا کہ ’اردو دنیا میں ایک ایسا اردو والا بھی موجود ہے جو بنیادی طور پر شاعر ہے نہ ادیب، پروفیسر ہے نہ نقاد ، بس اردو لکھنے ، پڑھنے اور بولنے والا ایک عام سا اردو والا ہے ، جس کواردو رسائل و جرائد اور کتابیں پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق ہے ‘ ۔ وہاب صاحب اردو کی ہزاروں کتابیں امریکہ جیسے شہر میں جمع کر چکے ہیں جہاں پر لوگوں کو سر چھپانے کے لیے ایک کمرہ مشکل سے نصیب ہوتا ہے یہ شخص ہزاروں کتابوں کا ذخیرہ کیے ہوئے ہے۔یہ نہ صرف اپنے لیے کتابیں جمع کرتا ہے بلکہ دنیا میں جس کو کتاب کی ضرورت ہوئی اس نے اسے وہ کتاب اپنے خرچ سے پہنچانے کو اپنا فرض سمجھا۔ ہندوستان سے کتابیں پاکستان ور پاکستان سے کتابیں ہندوستان کے کتب خانوں میں محٖفوظ کرنا اس فرشتہ صفت انسان کا محبوب مشغلہ ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی لائبریری میں میری متعدد کتابیں اگر موجود ہیں تو صرف اور صرف اس شخص کی وجہ سے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس نے یہ کتابیں خرید کر وہاں پہنچائیں۔ ایسی صفات اور خصوصیات کا مالک دنیا میں شاید ہی پایا جاتا ہوں۔تحفہ میں کتاب بھجوانا، کتاب ہی نہیں بلکہ دیگر چیزیں پہنچانا بھی اس شخص کا محبوب مشغلہ ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے عبد الواہاب خان سلیم کے خاکے میں لکھا کہ وہاب’’ہندوستان ‘ پاکستان بلکہ یورپین ممالک سے کتابیں اور جرائد خریدتا اور پڑھتا رہتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اردو دنیا کے تمام اہل قلم سے ٹیلی فون پر رابطہ رکھتا ہے۔ آپ پاک و ہند کے کسی بھی بڑے ادیب اور دانشور کا نام لیں، و ہ وہاب کا دوست نکلے گا اور اس سے بھی بڑی بات.... جس کے لیے حوصلہ ‘ ظرف ا ور زر کی ضرورت ہے... یہ ہے کہ جو کتاب اسے پسند آجائے اسے خرید کر احباب اور معزز اہل قلم کو بطور تحفہ پیش کرتا ہے اور سنیے ... ابھی اور بھی بتانے کو بہت کچھ ہے۔ گرما کے آغاز میں نیویارک میں بیٹھے وہاب کی جانب سے روح افزا کی نصف درجن بوتلیں حاضر اور جولائی میں آم۔ خود شوگر کا مریض مگر دور بیٹھا احباب کی تواضع کا اہتمام کررہا ہے‘‘۔

عبد الوہاب خان سلیم کے ہم وطن قمر سنبھلی (ندوۃ العلما لکھنؤ، یوپی) نے اپنے مضمون ’ایک منفرد عاشقِ اردو اور علم دوست شخصیت‘ میں لکھا کہ ’ وقار مانوی صاحب نے کچھ اس ڈَگر سے ہٹ کر کتابی صورت میں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک ایسی ہستی کو منتخب کیا ہے جو نہ اپنی شاعری کے لیے جانی جاتی ہے نہ کسی افسانہ نگاری کی حیثیت سے اہل علم کے حلقوں میں موضو ع گفتگو ہے ۔ بلکہ جو اپنی علم دوستی ، ادب پروری اور اہل علم کی قدر افزائی کے حوالے اور اردو کی ترویج و اشاعت میں تن ، من، دھن سے اپنی پوری توانائی عمرِ عزیز کا بڑا حصہ صرف کر چکی ہے اور پیرانہ سالی کے باوجود جس کا اردو سے ، اردو والوں سے ، علم سے اور علم والوں سے عشق شباب پر ہے وہ عظیم ہستی ہے الحاج عبد الوہاب خان سلیم صاحب مدظلہ العالی کی جن کا وطنی تعلق تو یوپی کے ایک مردم خیز خطہ سنبھل مراد آباد سے ہے لیکن جو تقسیم ملک کے بعد پاکستان ہجرت کرگئے اور پھر وہاں سے 1973میں نیویارک امریکہ جابسے اور اب وہیں سے اردو کی مخلصانہ خدمت میں مصروف ہیں۔‘

مَیں عبد الوہاب خان سلیم پر لکھے گئے اپنے خاکے میں ان کی تمام تر خصو صیات ، حالات و واقعات اپنے تعلق کے حوالے سے بہت تفصیل سے لکھ چکا ہوں یہاں ان پر مرتب کی جانے والی کتاب میرا موضوع ہے۔ کتاب کی سرِ فہرست خصو صیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ یہ پاک وہند کے نامور لکھاریوں کے تاثرات، افکار اور انعکاسات کا مجموعہ ہے۔ کتاب کی تدوین ہندوستان میں ہوئی،ایک معروف و معتبر شاعر نے کی اور ہندوستان ہی سے یہ کتاب اشاعت پذیر بھی ہوئی اس وجہ سے عبد الوہاب خان سلیم پر لکھنے والے احباب تعداد کے اعتبار سے ہندوستان سے زیادہ ہیں۔ یعنی 36کا تعلق بھارت سے ہے جب کہ پاکستانی مصنفین بشمول راقم کے تعداد صرف 8ہے۔ دو پاکستانی امریکن بھی ہیں۔ اس طرح مضامین کی کل تعداد 46 ہے۔

ادیب ، دانشور اور شاعر ملکوں کی تقسیم سے ماورا ہوتا ہے ، وہ صرف لکھاری ہوتا ہے خواہ دنیا کے کسی خطہ میں بھی رہائش رکھتا ہو۔ پاکستانیوں کے لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ ایک پاکستانی کتاب دوست کے ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اتنے دانشور عاشق ہیں۔عبد الوہاب خان سلیم نے بھی ہندوستانی دانشوروں ، ادیبوں اور شاعروں کو اسی طرح ٹوٹ کر چاہا جیسے انہوں نے پاکستانیوں سے تعلق روا رکھا۔ امریکہ میں بیٹھ کر دونوں ممالک کے دانشوروں سے جس طرح تعلق انہوں نے رکھا وہ قابل تقلید مثال ہے۔ اب جب کہ ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے وہ رابطوں کے لیے موبائل تو استعمال کرتے ہیں لیکن روایتی خطوط نویسی کو وہ اب بھی ای میل طریقہ کار پر ترجیح دیتے ہیں۔ اگر کوئی عبد الوہاب خان سلیم کے خطوط پاکستان و ہندوستان کے دانشوروں کے نام کے حوالے پر تحقیق کرے گا تو اسے ہزاروں کی تعداد میں بے شمار اور معروف دانشوروں کے پاس ان کے خطوط مل جائیں گے۔ یقیناًعبد الوہاب خان سلیم کے پاس بھی دنیا کے نامور ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے خطوط بھی بڑی تعداد میں محفوظ ہوں گے۔ خطوط نویسی کا ذکر اس کتاب میں متعدد لکھنے والوں نے کیا ہے۔ بعض نے تو عبد الوہاب خان سلیم کے خطوط بھی نقل کردیے ہیں۔ راقم کے نام بھی خان صاحب کا یک خط محفوظ ہے جو انہوں نے فروری 1983میں امریکہ ہی سے لکھا تھا۔ میں نے بھی اسے ان کے خاکے میں نقل کردیا ہے۔وہاب صاحب مکتوب نویسی کے حوالے سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔ خط لکھنا ان کا محبوب مشغلہ رہا ہے ، جواب نہ آئے تو گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔خط لکھ کر جواب کے منتظر رہتے ہیں۔امریکہ جیسے ملک سے موبائل پر گھنٹو گفتگو کرنا منفرد مثال ہے۔گفتگو کرتے وقت اس بات کا قطعناً خیال نہیں کرتے کہ فون پیسوں سے ہورہا ہوتا ہے۔ جن دنوں میرا خاکہ چھپا انہوں نے کئی بار فون کیا اور بہت اطمینان اور طویل گفتگو کیا کرتے۔ وہاب خان سلیم نے از خود کیا لکھا ، کہاں لکھا، کیسا لکھا، کیا وہ خود بھی لکھاری ہیں یا نہیں ؟ اس کی تفصیل کسی جگہ نہیں ملتی لیکن دنیا کے معروف اور بڑے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کو اپنے قلم سے مخاطب کرنے والا ، ہزاروں کی تعداد میں انہیں خط لکھنے والا خود لکھاری نہ ہو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ایک ایم اے تو انہوں نے مجھ سے دو سال قبل جامعہ کراچی سے کیا تھا ۔ یہ بات ہے 1970-71کی وہ سینئر اور میں جونئیر تھا، اس سے قبل انہوں نے اردو میں جامعہ پنجاب سے ایم اے کیا۔ تب ہی تو ان کے خطوط شائستہ اور نفیس جملوں سے آراستہ نظر آتے ہیں، لکھاریوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ وہ جب ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ طویل ہوتی ہے ان کا لب و لہجہ شیریں، محبت ، احترام اور شائستگی سے بھر پور ہوتا ہے۔ممکن ہے خان صاحب کسی بھی وقت اپنی آپ بیتی کا دھماکہ کردیںیا پھر اپنے کیے ہوئے بے شمار حج و عمرہ کا سفر نامہ منظر عام پر لے آئیں۔ کیونکہ انہیں حج و عمرہ کے سفر ناموں سے دیوانگی کی حد تک عشق ہے۔ لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ ان کے پاس اس قسم کے جس قدر سفرنامے محفوظ ہیں شاید ہی دنیا میں کسی جگہ پر ہوں۔

وہاب نامہ میں ہندوستان کے متعدد نامور شاعر، ادیب اور دانشور شامل ہیں جب کہ پاکستانی ادیب و دانشوروں نے بھی وہاب صاحب کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ کتاب کے مرتب وقار مانوی نے کتاب کی تدوین کے لیے بطورخاص ہندوستان اور پاکستان کے احباب سے خان صاحب پر لکھنے کے لیے درخواست کی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مضامین بطور خاص اس کتاب کے لیے ہی لکھے گئے ہیں۔ سید جمیل احمد رضوای جنہوں نے خان صاحب پرایک کتاب بعنوان ’ عبد الوہاب خان سلیم ۔پیکرِجودو عطا‘، بھی مرتب کی، وہاب نامہ کے لیے مضمون تحریر کیا۔پروفیسر ایمریٹس عبدالحق ، شعبہ اردو دیلی یونیورسٹی نے درست لکھا کہ ’’معاش و مفاد کے دورِ ناہنجار میں قرطاس و قلم کی آبرو کا احترام اور حفاظت مردِ نیکو کار ہی کرسکتا ہے‘‘۔مرتب وقار مانوی نے اس مجموعے کو’’ ایک علم دوست ، ادب نواز کی شخصیت اور ان کے ادبی اور فلاحی کارناموں کا ایک اشاریہ کہا ہے‘‘۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کا کہنا ہے کہ ’وہاب خان سلیم کی شخصیت کے لیے کوئی کلیدی لفظ (یا ترکیب) تلاش کرنا چاہیں تو ’اہلِ کتاب ‘ سے زیادہ موزوں ترکیب نہیں ملے گیِ ، کتاب سے ان کا عشق دیرینہ بیماری کی طرح مزمن ہے‘۔پروفیسرمرزاخلیل احمد بیگ نے وہاب صاحب کی شادی کی پچاس ویں سالگرہ کی رپورتاژ اچھوتے انداز میں تحریر کی ہے۔وقارؔ مانوی نے اسی موضوع کو دعائیہ مبارک باد اچھے انداز سے نظم کی ہے۔

ڈاکٹر سلیم اختر کا مضمون ’’دوستی کا گلِ سر سبز‘‘ بہت پہلے لکھا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب عبد الوہاب خان سلیم کے ابتدائی دنوں کے ساتھی اور دوست ہیں۔ ان کا مضمون وہاب صاحب پر سیر حاصل مواد فراہم کرتا ہے۔ در حقیقت مجھے وہاب صاحب پر لکھنے کا حوصلہ ڈاکٹر سلیم اختر کے اسی مضمون سے ملا۔سید معراج جامی کا مضمون ’دردِ دل کے واسطے پیدا کیا گیا وہاب کو‘ ۔ جامی صاحب کا مضمون بہت جامع متعدد لکھنے والوں کی آرا سے مزین ہے ۔ اس میں تقریباً دس حوالے ہیں ۔ یہ مضمون میرے مضمون کے بعد لکھا گیا کیونکہ اس میں جامی صاحب نے میرے مضمون کا حوالہ بھی دیا ہے۔و ہاب خان سلیم پر دیگر لکھنے والوں میں پرورفیسر مرزا خلیل احمد بیگ، سید ضمیر حسن دہلوی، ڈاکٹر محمد فیروز دہلوی، ڈاکٹر ظفر مراد آبادی، تصور حسین جنجوعہ، پروفیسر سلیم قدوائی، پروفیسر خالد حسین خان، فیروز الدین احمد فریدی، پروفیسر توقیراحمد خان، ڈکٹر صلاح الدین دہلوی، ڈاکٹر تابش مہدی، مودود صدیقی، پروفیسر فیروز احمد، ڈاکٹر عطا خورشید، ڈاکٹر عقیل احمد ، ابرار کرت پوری، نرگس سلطانہ، ڈاکٹر محمد شہاب الدین، ڈاکٹر معصوم شرقی، ڈاکٹر مفتی محمد عامر صمدانی، مہر الہٰی ندیم، محمد عارف اقبال، ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری، سہیل انجم، فاروقی جائسی، شمس رمزی، ڈاکٹر مشیر احمد، انور نزہت، راشد خلیل، تفسیر حسین، شفیق احمد، ماسٹر نثار احمد منیر انجم شامل ہیں۔

مرتبِ کتاب وقار مانوی صاحب قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے ایک کتاب دوست، اردو دوست، دانشور دوست، ادیب دوست کو خوبصورت انداز سے متعارف کرایا۔ کتاب ہر اعتبار سے قاری کو دعوت مطالعہ دیتی ہے۔ عبد الوہاب خان سلیم کو بھی مبارک باد کے ان کی تمام زندگی کے سرمائے کو ، محنت کو، علم و ادب سے محبت کو، لکھاریوں سے محبت اور معاونت کو اچھے اخلاق اور اعلیٰ انسانی اقدار کو لکھنے والوں نے بھی اس کا جواب اسی جذبے سے ، لگن سے ، عقیدت سے، محبت سے دیا۔ اﷲ تعالیٰ وہاب صاحب کی علم و ادب اور ادیبوں کی خدمت کو قبول فرمائے اور ادیبوں کے اس جذبہ وہاب کو بھی شرف قبولیت کا درجہ عطا ہو۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 850 Articles with 1260956 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More