آپ بیتی مرزا غالب

مرزا غالب کا خاندانی پس منظر ، غالب کی پیدائش اور بچپن، شاعری کا آغاز، شادی، مالی مشکلات، نواب احمد بخش کی عہد شکنی اور غالب کی مایوسی۔

آپ بیتی مرزا غالب
(1825ء تک)

مَیں قوم کا ترک سلجوقی ،اپنی اصل آفرینش میں اُس گروہ کی نسل سے ہوں، جس کی خوش بختی کا سورج، عرصہ ہوا، ڈھل چکا ہے اور مَیں اُس جماعت کے حلقہ میں شامل ہوں، قسمت کا جس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے اور اس پر بھی اب قرن بیت رہے ہیں۔ مَیں ترک نژاد ہوں اور میرا نسب نامہ افراسیاب و پشتگ سے جا کر مل جاتا ہے اور میرے اجداد اِس وجہ سے کہ سلجوقیوں کے ساتھ ہم گوہری کا پیوند رکھتے تھے، اُن کے دَور میں انھوں نے سپہ گری و کشور کشائی کا پرچم بلند کیا۔ جب اس گروہ کی جاہ مندی و خوش نصیبی کا دَور دَورہ ختم ہوا اور بے نوائی و ناپزیرائی کا زمانہ آ گیا تو ان میں سے ایک جماعت تو رہزنی و قزاقی کی طرف مائل ہو گئی اور ایک نے زراعت کو اپنا پیشہ بنا لیا۔ میرے اجداد کی آرائش گاہ سرزمینِ توران کا شہر سمرقند بنا۔ ان لوگوں میں سے میرا دادا [میرزا قوقان بیگ خان] اپنے باپ [ترسم خان] سے ناخوش ہو کر [محمد شاہ (1719ء-1748ء) کے عہد میں] عازمِ ہندوستان ہوا اور لاہور میں [صوبہ دار] نواب معین الملک [1748ء-1753ء] کی ہمرہی اختیار کی۔ جب [قصور میں سکھوں کو شکست دینے کے بعد میر] معین الملک [اپنی بے قابو گھوڑی سے گر جانے سے ۱۷۵۳ء میں انتقال کر گئے اور ان] کی بساطِ دولت بھی وقت نے اُلٹ دی تو میرے جدِ بزرگوار [قوقان بیگ خان] نے دہلی کا رُخ کیا اور [اپریل 1756ء کے بعد مغل حکومت کے شاہی ملازم ہو گیا] ۔ [1763ء میں قوقان بیگ خاں کی شادی ہو گئی اور ] شاہجہاںآباد میں میرا باپ عبداللہ بیگ خاں [قیاساً 1765ء میں ] عالمِ وجود میں آیا ۔
[قوقان بیگ خاں بعد از مئی ۱۷۷۱ء میں مغل کمانڈر اِن چیف ] ذوالفقار الدولہ مرزا نجف خاں بہادُر سے ملا [اوراس کی سرکار میں ملازم ہو گیا] ۔ [مغلیہ] سلطنت ضعیف ہو گئی تھی، [چنانچہ] صرف پچاس گھوڑے نقارہ نشان سے شاہ عالم کا نوکر ہوا۔ ایک پرگنہ سیر حاصل ذات کی تنخواہ اور رسالے کی تنخواہ میں پایا ۔
بعد [نجف خاں کے] انتقال [26؍ اپریل 1782ء ] کے، جو طوائف الملوک کا ہنگامہ گرم تھا، وہ علاقہ [میرے دادا کے قبضے میں] نہ رہا ۔ [30؍ جولائی 1788ء سے قبل قوقان بیگ خاں وفات پا گئے۔ ]
[قیاساً 1793ء میں عبداللہ بیگ خاں کی شادی رئیس آگرہ خواجہ غلام حسین خان کمیدان کی صاحب زادی عزت النسا بیگم سے ہوئی اور وہ خانہ داماد کی حیثیت سے وہیں رہنے لگے۔ ]
[غالباً 1795ھ میں میری بڑی بہن چھوٹی خانم پیدا ہوئی۔ ]

باپ میرا عبداللہ بیگ خاں بہادُر [ستمبر 1797ء سے قبل ] لکھنؤ جا کر نواب آصف الدولہ کا نوکر رہا، [لیکن] بعد چند روز حیدرآباد جا کر [نظام الملک] نواب نظام علی خاں کا نوکر ہوا۔ تین سو سوار کی جمعیت سے ملازم رہا [اور] کئی برس وہاں رہا۔

مَیں [ بروز بدھ 8 رجب] 1212ھ [بمطابق 27؍ دسمبر 1797ء]میں [اکبر آباد میں] پیدا ہوا۔ [حیدرآباد میں میرے والد کی]نوکری ایک خانہ جنگی کے بکھیڑے میں جاتی رہی تو والد نے گھبرا کر [سو سواروں کا ایک دستہ لے کر ] الور [Alwar]کا قصد کیا [اور اس کے والی] راؤ راجا بختاور سنگھ [1791ء -1815ء] کا نوکر ہوا۔
[1799ء کے آخر میں میرا چھوٹا بھائی یوسف علی بیگ خاں پیدا ہوا ۔ابھی] پانچ برس کی میری عمر تھی کہ [1802ء] میرا باپ عبداللہ بیگ خاں عرف مرزا دولھا، مہاراؤ راجا بختاور سنگھ بہادر کی رفاقت میں مارا گیا [اور راج گڑھ میں دفن ہوا۔ یوں] شفیق باپ کا سایۂ عاطفت میرے سر سے اُٹھ گیا۔ سرکار سے میرے باپ کی تنخواہ میرے نام پر جاری ہوئی اور ایک گاؤں ’تالڑا‘ مجھ کو براے دوام ملا؛ [گویا] ادھر دودھ پینا چھوڑا، اُدھر راج کی روٹی کھائی۔

نصر اللہ بیگ خاں بہادُر ،میرا چچا حقیقی، مرہٹوں کی طرف سے اکبر آباد کا صوبے دار تھا۔ [17؍ اکتوبر 1803ء میں ] انگریزی فوج جب اس علاقے میں پہنچی تو نصراللہ بیگ خاں نے اس کی اطاعت قبول کر لی، خود سرکارِبرطانیہ کے ساتھ وابستہ ہو گئے اور جنرل لارڈ لیک صاحب بہادر [Gerard Lake] کی خدمت میں حاضر ہوئے، جنھوں نے آگرہ صوبے کا انتظام ان کے حوالے کر دیا۔

جب مسٹر ولیئرز آگرے کی قلعہ داری کے منصب پر فائز ہوئے تو صوبیداری کی حیثیت وہ نہ رہی، جو سابق کماندار کے زمانے میں ہوا کرتی تھی، چنانچہ نصراللہ بیگ خاں متھرا چلے گئے اور جنرل موصوف کی خدمت میں حاضر ہوئے، جنھوں نے سترہ سو روپے ماہانہ تنخواہ پر چار سو سواروں کے ایک دستے کی رسالداری سونپ دی۔ میرے چچا [اس] جمعیت کے ساتھ صمصام الدولہ [جنرل لارڈ لیک] کے ہمرکاب سرکشوں سے جنگ میں مصروف [رہے]۔

[1805ء میں] بھرت پور کے [راجا کے] ساتھ [انگریزوں کے] دوستانہ مراسم کے قیام اور جنرل موصوف [ولیئرز] کی ولایت کو واپسی طے ہونے کے بعد لارڈ صاحب بہادر نے نصراللہ بیگ خاں کی وفاداری اور خدمات کے صلے میں تاحینِ حیات صوبہ آگرہ کے دو پرگنے سونکھ [Sonekh] اور سونسا [Sonsa] پندرہ ہزار آٹھ سو روپے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عنایت فرمائے، جن کا مالیہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ تھا۔ اس عطیے میں سواروں کے دستے کی رسالداری کے ساتھ، اگر ان کی پنشن کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کی طاقت اور مرتبے میں بڑا اضافہ ہو گیا تھا۔ جنرل صاحب بہادر کی مہر شدہ سند اور وظائف کی بابت نصراللہ بیگ خاں کے نام جنرل موصوف کا پروانہ:

درآں حالیکہ سونک و سونسا پرگنے سے، جو آپ کی دائمی ملکیت ہے، آپ کے یومیہ پنشن داروں کے لیے مبلغ 5,600 روپے بطور ایک امدادی وظیفے کے مقرر کر دیا گیا ہے، جو انھیں ہمیشہ ملتا رہا ہے اور چونکہ یہ رقم سونک اور سونسا کے پرگنہ کے منافع میں سے ہے، لہٰذا یہ آپ کے مقررہ مالیہ کے علاوہ ہے۔ مطلوب ہے کہ ان میں سے ہر شخص کو مذکورہ وظیفہ ادا کرنے کے بعد، آپ ان سے رسید حاصل کریں گے اور اسے سرکاری دفتر میں جمع کرائیں گے۔ اس فیصلے پر ہمیشہ عمل کیا جائے گا اور یہ کہ آپ کسی سے بھی کسی نئی سند کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ اس فیصلے کو قطعی تصور کیا جائے گا۔ (21؍ ستمبر 1805ء)
]لارڈ لیک کے ایک حکم نامہ کی نقل[

صوبہ آگرہ کے پرگنے سونک سونسا کے چودھریوں، زمینداروں، قانون گوؤں اور اوَرسیئروں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ مذکورہ پورا پرگنہ اپنے تمام محاصل اور چونگی کے ساتھ سواے مالیہ کی، جاگیروں، املاک، عطیات اور باغات وغیرہ پر اس شرط کے ساتھ عطا کر دیا ہے کہ وہ عطیات وصول کرنے والوں سے متعلق احکامات پر برضا و رغبت اور سرگرمی سے عمل کرتے رہیں گے (جن کے نام ایک پروانہ جاری کر دیا گیا ہے) اور مقررہ لگان قسطوں میں باقاعدگی سے ادا کرتے رہیں گے۔ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ پوری خوش دِلی کے ساتھ مرزا موصوف کے نائبین کی خدمت میں حاضر ہوا کریں گے اور حکومت کے واجبات ادا کیا کریں گے اور ہر طرح سے اپنے کام میں خوشنودی کو ملحوظ رکھیں گے اور ان کی خوشی اور تنبیہ کو مقدم تصور کریں گے۔ وہ (مرزا) اپنے حسن سلوک سے ان لوگوں کو مطمئن اور خوش رکھنے کی کوشش کریں گے، تاکہ محاصل کی پیداوار میں اضافہ ہو۔ عزت مآب (ہزایکسی لینسی) کو پورا یقین ہے کہ ظلم و ستم کی کوئی شکایت ان کے کانوں تک نہیں پہنچے گی اور یہ کہ مرزا طے شدہ شرائط پر عمل کریں گے۔ اسے حتمی تصور کیا جائے۔ (26؍ ستمبر 1805ء)
چچا نے جب چاہا کہ ناز و نعم کے ساتھ میری پرورش کرے تو اس کو اجل نے امان نہ دی [اور] جاگیر پر ان کی تقرری کے دس یا گیارہ مہینے بعد [جب وہ] ہاتھی پر سوار جا رہے تھے، اتفاقاً نیچے گرے اور پیر کی ہڈی ٹوٹ جانے اور اندرونی چوٹوں کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا، [گویا اپنے] بڑے بھائی کے مرنے کے بعد خود اس نے بھی اسی کے نقش قدم پر چل کر راہِ مرگ طے کی اور مجھے اس ویرانہ آباد میں تنہا چھوڑ دیا۔ یہ حادثہ کہ میرے لیے نشانِ جاں گدازی اور آسمان کے لیے کینہ سازی کا وقت تھا، 1806ء ؍ 1221ھ میں پیش آیا۔

جس روز یہ واقعہ ہوا، حکومت نے اُسی دن ان کی جاگیر پر قبضہ کر لیا اور کچھ ہی عرصے بعد ان کے چار سو سواروں کے دستے کو بھی سبکدوش کر دیا۔ چونکہ نصراللہ بیگ خاں لاولد تھے، اس لیے [ان] اشخاص کے سوا ان کا اَور کوئی وارث نہ تھا:

1. مَیں خودد کہ نصراللہ بیگ خان کا بھتیجا
2. میرا بھائی [مرزا یوسف علی بیگ خاں]، جو مجھ سے دو سال چھوٹا تھا
3. میری دادی، یعنی نصراللہ بیگ خاں کی والدہ
4. نصراللہ بیگ خان کی تین بہنیں

اُس وقت میری عمر صرف نو سال تھی اور میرے بھائی کی عمر سات سال۔ میری دادی ستر سال کی عمر کو پہنچ چکی تھیں اور بیٹے کی موت کے غم میں ان کی دنیا اندھیر ہو چکی تھی، اسی طرح نصراللہ بیگ خاں کی بہنیں بھی اس ناگہانی آفت کی وجہ سے دل گرفتہ اور مغلوب جذبات تھیں؛ چنانچہ ہم میں سے کوئی اس قابل نہیں تھا کہ نصراللہ بیگ خاں کی چھوڑی ہوئی املاک و جائداد کو سنبھال سکتا اور نہ ہی کوئی اس قابل تھا کہ جنرل موصوف کی خدمت میں حاضر ہو سکتا اور اپنا حال بیان کر سکتا۔

بنا بریں سپہ سالارِ سرکارِ انگلشیہ نے آفتاب کے خوں بہا کے طور پر ہم فقیروں کے کلبۂ تاریک کے لیے چراغ اور ہم بے نواؤں کے لیے جاگیر کے عوض میں مشاہرہ مقرر کیا اور فکرِ معاش اور خار خار جستجو سے فراغ بخشا، [لیکن ] ایک شخص خواجہ حاجی تھا، [جو] نصراللہ بیگ خان کے گھرانے کا ایک ملازم تھا، میدان کھلا پایا تو اس نے بے اصول حاشیہ نشینوں اور طفیلیوں کے ساتھ دوستانہ مراسم بڑھائے اور نصراللہ بیگ خاں کے سارے مال و متاع، فرنیچر، خیمہ، خرگاہ، اونٹوں اور پالکیوں وغیرہ پر قبضہ کر لیا اور ستر اسی سواروں، ایک ہاتھی، مذکورہ بالا لاولشکر اور سامانِ حرب کے ساتھ چل پڑا اور [راؤمہاراجا بختاور سنگھ والی الور کے معتمد اور وکیل؟؂] نواب احمد بخش خان سے جا ملا۔ چونکہ [میرے چچا] نصر اللہ بیگ خاں، نواب احمد بخش کے [بہنوئی] تھے اور ظاہر ہے کہ ہر شخص ان کے [خاندان] اور عزیز و اقارب سے واقف تھا، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ نواب احمد بخش خاں، خواجہ حاجی کو نصراللہ بیگ خاں کا وارث و جانشین اور رشتہ دار سمجھ بیٹھتے؛ خصوصاً اس لیے بھی کہ نصراللہ بیگ خان کی اہلیہ، جو احمد بخش خاں کی [بہن] تھیں، اپنے شوہر [کے انتقال] سے پہلے ہی وفات پا چکی تھیں اور ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، لیکن صرف یہ خیال کرکے کہ اپنے تمام سواروں، ہاتھیوں، لاولشکر اور طاقت کے ساتھ حاجی ایک قیمتی اثاثہ ہے، نواب احمد بخش نے اسے اپنے دوستوں میں شامل کر لیا اور اسے اپنی جگہ چھوڑ کر وہ خود لارڈ لیک صاحب بہادر سے ملاقات کے لیے کانپور چلے گئے۔اسی زمانے میں [لارڈ لیک کے ماتحت تیس سالہ فوجی خدمات کے صلے میں؟؂] فیروزپور جھرکہ، پوناہانا، نگینہ سانکرس اور دوسرے اضلاع حکومت نے بیس یا تیس ہزار روپے سالانہ معاوضے پر احمد بخش خاں اور ان کے وارثوں کو دائمی قبضے پر دے دیے [اور ریزیڈنٹ دہلی کے توسط سے اسے فخرالدولہ، دلاورالملک اور رستم جنگ کے خطابات سے سرفراز کیا؟؂]۔ احمد بخش خاں اور ان کے وارثوں پر لازم قرار دیا گیا کہ وہ یہ رقم [نصراللہ بیگ خاں مرحوم کے وارثوں کو] باقاعدگی سے ادا کرتے رہیں، تاہم [نواب احمد بخش خاں] نے جنرل موصوف سے درخواست کی کہ میرے [بہنوئی] نصراللہ بیگ خاں کا،جو سونک اور سونسا کے جاگیردار تھے، انتقال ہو گیا ہے اور اپنے پیچھے بہت سے عزیز و اقارب اور پچاس سوار چھوڑ گئے ہیں، اگر حکومت اس رقم کی مجھے ادائیگی کرنے دے اور طے کر دے کہ یہ رقم نصراللہ بیگ خاں کے عزیز و اقارب کی گزراوقات کے لیے ہو گی تو وہ بے نصیب محتاج و مفلس لوگ مملکت کی خوش حالی اور فلاح و بہبود کے لیے ساری زندگی دست بدعا رہیں گے اور پچاس سوار ہمیشہ میری سپردگی میں رہیں گے اور جب بھی حکومت انھیں بجاآوریِ خدمات کے لیے طلب کرے گی تو انھیں ہمہ وقت تیار پائے گی۔

جنرل صاحب بہادر نے اس درخواست کو منظور کر لیا اور اس کی ایک رپورٹ کلکتہ ارسال کر دی، جہاں گورنر جنرل صاحب بہادر نے بھی اس کی منظوری دے دی؛ چنانچہ گورنر جنرل صاحب بہادر نے [4؍ مئی 1806ء کو] احمد بخش خاں کے نام ایک پروانہ جاری کر دیا، جس میں نصراللہ بیگ خاں کے عزیز و اقارب کی پرورش و کفالت [کے لیے 10,000 روپے؟] اور [15,000 روپے کے عوض؟] مقررہ پچاس سواروں کی خدمات مہیا کرنے کی شرط کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا۔ چونکہ جنرل صاحب بہادر کو احمد بخش خاں کی باتوں پر مکمل اعتماد تھا، اس لیے انھوں نے نصراللہ بیگ خاں کے عزیزواقارب کے حقیقی احوال و حالات کے متعلق تفتیش نہیں کی، بلکہ ان کی درخواست پر خواجہ حاجی کے نام ایک پروانہ جاری کر دیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ نصراللہ بیگ خاں کے عزیزواقارب کی گزراوقات کے لیے جو وظیفہ اور پچاس سواروں کے لیے جو الاؤنس مقرر کیا گیا ہے، وہ احمد بخش خاں کو دی جانے والی جاگیر کے سمجھوتے کی شرائط میں شامل ہے اور یہ رقم ہمیشہ ان سے وصول کی جانی چاہیے۔ آخرکار جب احمد بخش خاں کانپور سے واپس میوات پہنچے، جہاں ان کی جاگیر تھی تو انھوں نے خواجہ حاجی کو ان کے ستر اسی سواروں کے دستے سمیت، جو نصراللہ بیگ خاں چھوڑ گئے تھے، برقرار رکھا اور دستے کو اپنی ملازمت میں لے لیا اور پھر اس کی مدد سے اپنے اضلاع کا بندوبست کیا۔ جب (نواب احمد بخش خاں) اپنی جائیداد کے بندوبست سے مطمئن ہو گئے اور جنرل صاحب بہادر بھی یورپ واپس چلے گئے تو یہ دیکھتے ہوئے کہ نصراللہ بیگ خاں کے ہم دونوں بھتیجے ابھی ناسمجھ ہیں اور یہ جانتے ہوئے کہ [نصراللہ بیگ خاں کی] ماں اور بہنیں گوشہ نشین اور بے علم ہیں، انھوں نے خواجہ حاجی کے ذریعے پہلے پچاس سواروں کے دستے کو برطرف کر دیا اور پھر اس وعدے اور اقرار کے ساتھ خواجہ حاجی سے جنرل صاحب بہادر کے پروانے کا مطالبہ کیا کہ اگر وہ پروانہ حوالے کر دیں تو نصراللہ بیگ خاں کے عزیز و اقارب کے گزربسر کے لیے ملنے والے وظیفے میں وہ انھیں بھی ایک حصہ دار کی حیثیت سے شامل کر لیں گے۔ چونکہ وہ بدبخت اور بدقماش اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں اور نصراللہ بیگ خاں کے ساتھ اس کی کوئی قرابت داری بھی نہیں، یہ سوچ کر نصراللہ بیگ خاں کے خاندان کے ساتھ یہ تعلق اس کی خوش بختی کے لیے ایک نادر موقع ہے، اس نے [7؍ جون 1806ء کو؟] پروانہ احمد بخش خاں کے حوالے کر دیا۔ احمد بخش خاں نے خواجہ حاجی کو چند روز اپنے ساتھ رکھا اور پھر برطرف کر دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اعلان کیا کہ حکومت نے ان کی جاگیر سے 5,000 روپے سالانہ کی جو رقم نصراللہ بیگ خاں کے عزیزواقارب کی کفالت کے لیے مقرر کی تھی، اسے انھوں نے اپنی مرضی سے اس طرح تقسیم کیا ہے: مبلغ 2,000 روپے سالانہ خواجہ حاجی کو، 1,500 سالانہ نصراللہ بیگ خاں کی والدہ کو اور 1,500 روپے سالانہ مجھے۔

[1807ء میں]دس سال کی عمر میں موزونی طبع کے آثار مجھ میں ظاہر ہوئے، یہاں تک کہ شدہ شدہ ’دید و دانست‘ کا سرمایہ فراہم ہو گیا۔ زبان نے اندازِ گزارش اور قلم نے اسلوبِ نگارش کے آداب سیکھ لیے۔

ایک دِن مثل پتنگ کاغذی
لے کے دل ، سر رشتۂ آزادگی

خودبخود کچھ ہم سے کنیانے لگا
اس قدر بگڑا کہ سر کھانے لگا

مَیں کہا ، ’اے دل! ہواے دلبراں
بس کہ تیرے حق میں کہتی ہے زباں

پیچ میں ان کے نہ آنا ، زینہار
یہ نہیں ہے گے کسو کے یارِ غار

گورے پنڈے پر نہ کر ، ان کے نظر
کھینچ لیتے ہیں یہ ، ڈورے ڈال کر

اب تو مل، جائے گی تیری ان سے سانٹھ
لیکن آخر کو پڑے کی ایسی گانٹھ

سخت مشکل ہو گا سلجھانا تجھے
قہر ہے ، دل ان سے الجھانا تجھے

یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر ، اُڑاتے ہیں تجھے

ایک دِن تجھ کو لڑا دیں گے کہیں
مفت میں ناحق کٹا دیں گے کہیں‘

دل نے سن کر ، کانپ کر ، کھا پیچ و تاب
غوطے میں جا کر ، دیا کٹ کر جواب

رشتۂ در گردنم افگندہ دوست
می برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست

[مَیں] بارہ برس کی عمر سے کاغذ نظم و نثر میں مانند اپنے نامۂ اعمال کے سیاہ کر رہا ہوں۔

ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس
یوں کہا ، ’آتی نہیں کیوں اب صداے عندلیب‘

بال و پر دو چار دِکھلا کر کہا صیاد نے
’یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجاے عندلیب‘

[1810ء کے دَوران مَیں مولوی محمد معظم کے مکتب میں زیرِ تعلیم رہا۔ اسی عرصے میں] 7؍ رجب 1225ھ [بمطابق 9؍ اگست 1810ء] کو [نصراللہ بیگ خاں کے سسر نواب احمد بخش خان کے چھوٹے بھائی اور کہنہ مشق شاعر، الٰہی بخش خان معروف کی گیارہ سالہ بیٹی امراو بیگم سے میرا نکاح کر کے] میرے واسطے حکمِ دوامِ حبس صادر ہوا۔ [یوں] ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی اور دلّی شہر کو زنداں مقرر کیا اور مجھے اس زندان میں ڈال دیا۔

اُٹھا اِک دِن بگولا سا جو کچھ ، مَیں جوشِ وحشت میں
پھرا آسیمہ سر ، گھبرا گیا تھا جی بیاباں سے

نظر آیا مجھے اِک طائرِ مجروحِ سربستہ
پٹکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے

کہا میں نے کہ ’او گمنام! آخر ماجرا کیا ہے‘؟
پڑا ہے کام تجھ کو کس ستم گر آفتِ جاں سے

ہنسا کچھ کھل کھلا کر پہلے ، پھر مجھ کو جو پہچانا
تو یہ رویا کہ جوے خوں بہی پلکوں کے داماں سے

کہا ، ’مَیں صید ہوں اس کا کہ جس کے دامِ گیسو میں
پھنسا کرتے ہیں طائر روز آ کر باغِ رضواں سے

اُسی کی زلف و رُخ کا دھیان ہے شام و سحر مجھ کو
نہ مطلب کفر سے ہے اور نہ ہے کچھ کام ایماں سے

بچشم غور جو دیکھا ، مِرا ہے طائرِ دل تھا
کہ جل کر ہو گیا یوں خاک میری آہِ سوزاں سے

[والی رام پور، نواب کلب علی خاں کے ایک سوال کے جواب میں مَیں نے لکھا تھا کہ]اکابرِ پارس میں سے ایک بزرگ [ملا عبدالصمد 1226ھ بمطابق 1811ء میں] یہاں وارد ہوا اور اکبر آباد میں فقیر کے مکان پر دو برس رہا اور مَیں نے اُس سے حقائق و دقائق زبانِ پارسی کے معلوم کیے، [حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ] فن شعر میں مجھے مبدأ فیاض کے سوا کسی سے شرفِ تلمذ حاصل نہیں۔ مَیں سوادمعنی کو اپنے گوہرِ جاں کی روشنی سے فروغ بخشتا ہوں اور اس معاملہ میں میری گردن کسی کے بارِ منت سے خم نہیں ہے اور نہ کسی کے احسان کا لبادہ میرے دوش پر ہے اور عبدالصمد محض ایک فرضی نام ہے۔ چونکہ مجھے لوگ بے استادا کہتے تھے، اُن کا منہ بند کرنے کو مَیں نے ایک فرضی استاد گھڑ لیا ہے۔

غالب بگہر زدودۂ زاد شمم
زاں رو بصفائی دم تیغ ست دمم

چوں رفت سپہ بُدمی ز دم چنگ بشعر
شد تیرِ شکستۂ نیاگاں قلمم

[اے غالب! اپنے خاندانی سلسلہ کے اعتبار سے مَیں زادشم کے گوہر سے ہوں، اس لیے صفائی اور تیز روی میں میرا نفس دمِ تیغ کی طرح ہے۔ جب سپہ گری کا زمانہ ختم ہو گیا تو مَیں نے شاعری کو اختیار کر لیا اور اس طرح میرے اجداد کا تیر شکستہ میرا قلم بن گیا۔]

[اکبر آباد] کہ وہ ویرانۂ آباد اور آباد ویرانہ [دلّی نقل مکانی سے قبل] مجھ ایسے مجنوں کی بازی گاہ رہا ہے اور ہنوز اس بقعہ زمین کی ہر کف خاک میں میرے خونِ آرزو کا چشمہ بہہ رہا ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ اس گُل زمیں میں سواے ’مہرگیا‘ اَور کوئی سبزہ نہ اُگتا تھا اور شاخِ دل کے سوا کوئی اَور شجر بارآورنہ ہوتا تھا۔ نسیم صبح گاہی اپنے خرامِ ناز اور روشِ مستانہ کے ساتھ اس گل زمین میں چلتی تھی تو والہانہ کیف و سرشاری کا دِلوں پر وہ عالم ہوتا تھا کہ پارسا، نیت غاز اور رِندانِ قدح خوار جرعۂ صبوحی کو بھول جائیں۔

ابتداے فکرِ سخن [1812ء] میں بیدل و اسیر و شوکت کے طرز پر ریختہ لکھتا تھا، چنانچہ ایک غزل کا مقطع یہ تھا:

طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے

[14؍ رجب 1231ھ بمطابق 11؍ جون 1816ء کو 239؍ غزلیات اور گیارہ رباعیات پر مشتمل اپنا دیوان خود اپنے قلم سے مرتب کیا، جس کی پہلی غزل یہ ہے]:

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

کاوکاوِ سخت جانی ہاے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا ، لانا ہے جوے شیر کا

جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

آگہی ، دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

شوخی نیرنگ ، صد وحشت طاؤس ہے
دام ، سبزے میں ہے ،پروازِ چمن تسخیر کا

لذتِ ایجادِ نیاز ، افسونِ عرضِ ذوقِ قتل
نعل ، آتش میں ہے تیغِ یار سے ، نخچیر کا

خشت پشت دست عجز و قالب آغوشِ وداع
پُر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا

وحشت خوابِ عدم ، شورِ تماشا ہے ، اسد!
جو مژہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا

بس کہ ہوں ، غالب! اسیری میں بھی آتش زیرِ پا
موے آتش دیدہ ہے ، حلقہ مِری زنجیر کا

جب مَیں جوان ہوا تو مَیں نے دیکھا کہ [منشی شیونرائن کے پردادا] منشی بنسی دھر، [میرے نانا خواجہ غلام حسین] خاں صاحب کے ساتھ ہیں اور انھوں نے جو کٹھیم گاؤں اپنی جاگیر کا سرکار میں دعویٰ کیا تو بنسی دھر اُس امر کے منصرم ہیں اور وکالت اور مختاری کرتے ہیں۔ مَیں اور وہ ہم عمر تھے۔ شاید منشی بنسی دھر مجھ سے ایک دو برس بڑے ہوں یا چھوٹے ہوں۔ انیس بیس برس کی میری عمر اور ایسی ہی عمر اُن کی۔ باہم شطرنج اور اختلاط و محبت، آدھی آدھی رات گزر جاتی تھی۔ چونکہ گھر اُن کا بہت دُور نہ تھا، اس واسطے جب چاہتے تھے، چلے جاتے تھے۔ بس ہمارے اور اُن کے مکان میں مچھیا رنڈی کا گھر اور ہمارے دو کٹرے درمیان تھے۔ ہماری بڑی حویلی کے دروازے کی سنگین بارہ دری پر میری نشست تھی اور پاس اُس کے ایک کھٹیا والی حویلی اور سلیم شاہ کے تکیے کے پاس دوسری حویلی اور کالے محل سے لگی ہوئی ایک اَور حویلی اور اس کے آگے بڑھ کر ایک کٹرا کہ وہ گڈریوں والا مشہور تھا اور ایک کٹرا کہ وہ کشمیرن والا کہتا تھا، اُس کٹرے کے ایک کوٹھے پر مَیں پتنگ اُڑاتا تھا اور راجا بلوان سنگھ سے پتنگ لڑا کرتے تھے۔

پندرہ برس کی عمر سے پچیس برس کی عمر تک مضامینِ خیالی لکھا کیا۔ دس برس میں بڑا دیوان جمع ہو گیا، [جس کی کتابت حافظ معین الدین خوش نویس 5؍ صفر 1237ھ بمطابق یکم نومبر 1821ء کو مکمل کی ]۔ آخر جب تمیز آئی تو اس دیوان کو دُور کیا، اَوراق یک قلم چاک کیے۔ دس پندرہ شعر واسطے نمونے کے دیوانِ حال میں رہنے دیے۔

شعرا میں فردوسی اور فقرا میں حسن بصری اور عشاق میں مجنوں۔ یہ تین آدمی، تین فن میں سردفتر اور پیشوا ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہو جائے، فقیر کی انتہا یہ ہے کہ حسن بصری سے ٹکر کھائے، عاشق کی نمود یہ ہے کہ مجنوں کی ہم طرح نصیب ہووے۔ مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں، اُس کو مار رکھتے ہیں۔ مَیں بھی مغل بچہ ہوں، عمر بھر ایک بڑی ستم پیشہ ڈومنی کو مَیں نے بھی مار رکھا ہے۔ [افسوس! بعد ازاں اس نے خودکشی کر لی۔؟] یہ کوچہ چھٹ گیا، اس فن سے مَیں بیگانہ محض ہو گیا، لیکن اب بھی کبھی کبھی وہ ادائیں یاد آتی ہیں۔ اُس کا مرنا زندگی بھر نہ بھولوں گا۔

درد سے میرے ، ہے تجھ کو بے قراری ، ہائے ہائے
کیا ہوئی ، ظالم! تِری غفلت شعاری ، ہائے ہائے

تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تُو نے پھر کیوں کی تھی میری غمگساری ، ہائے ہائے

کیوں مِری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال
دشمنی اپنی تھی ، میری دوست داری ، ہائے ہائے

عمر بھر کا تُو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا؟
عمر کو بھی تو نہیں پائداری ، ہائے ہائے

زہر لگتی ہے مجھے آب و ہواے زندگی
یعنی ، تجھ سے تھی اسے ناسازگاری ، ہائے ہائے

گل فشانی ہاے نازِ جلوہ کو کیا ہو گیا؟
خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ، ہائے ہائے

شرمِ رُسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ، ہائے ہائے

خاک میں ناموسِ پیمانِ محبت مل گئی
اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسمِ یاری ، ہائے ہائے

کس طرح کاٹے کوئی شب ہاے تارِ برشکال؟
ہے ، نظر ، خوکردۂ اختر شماری ، ہائے ہائے

گوش مہجورِ پیام و چشم محرومِ جمال
ایک دل ، تس پر یہ نا اُمیدواری ، ہائے ہائے

عشق نے پکڑا نہ تھا ، غالب! ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ، ہائے ہائے

گر مصیبت تھی تو غربت میں اٹھا لیتا ، اسد!
میری ، دلّی ہی میں ہونی تھی یہ خواری ، ہائے ہائے

[3؍ مئی 1823ء کو نواب احمد بخش خان پر قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے۔ ]

مَیں نے ہر ممکن طریقے سے اپنے دعاوی کا مسئلہ اُٹھانے کی کوشش کی اور وقتاً فوقتاً کبھی تحریر اور کبھی زبانی اپنا مقدمہ [نواب] احمد بخش [خان] کے سامنے پیش کیا اور ان سے عرض کیا کہ جنابِ عالی! آخر کون سا محرک ہے، جس نے آپ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ آپ نے ایک اجنبی کو عزیزواقارب کے زمرے میں شامل کر لیا اور ایک حقیقی بھیجتے [مرزا یوسف علی بیگ خاں] کو اس زمرے سے خارج کر دیا؟ اگر آپ خواجہ حاجی کے کاموں سے بہت خوش ہیں تو اسے اپنی جیب خاص سے دیں یا نصراللہ بیگ خاں کے دستے میں سے دو تین سواروں کا وظیفہ ان کے لیے مقرر کر دیں۔ اس کے کیا معنی ہوئے کہ نصراللہ بیگ خاں کے عزیزواقارب کے وظیفے میں سے خواجہ حاجی کو تنخواہ دی جا رہی ہے۔ احمد بخش خاں مجھے خط کے ذریعے بھی جواب دیا کرتے تھے اور اپنے دعوے کے حق میں جھوٹی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے، ’مَیں کیاکر سکتا ہوں؟ مَیں عزت مآب جنرل صاحب بہادر کو بتا چکا ہوں کہ خواجہ حاجی، نصراللہ بیگ خاں کے عزیزواقارب میں شامل نہیں اور میری غلطی سے ان کا نام سرکاری ریکارڈ میں درج کیا جا چکا ہے۔ [مجھ سے کہتے کہ] اب مجھے ذلیل و رسوا نہ کرو اور چند روز صبر کرو، خواجہ حاجی کے انتقال کے بعد مَیں یہ 2,000روپے تم دونوں بھائیوں کو دیا کروں گا۔ چونکہ احمد بخش خاں دو طرح سے میرے بزرگ اور عزیز تھے؛ اوّل اس طرح کہ میرے چچا نصراللہ بیگ خاں ان کے [بہنوئی] تھے، دوسرے یوں کہ مَیں ان کے بھائی الٰہی بخش خاں کا داماد تھا۔ ان واقعات و حالات کے بارے میں مَیں نے احمد بخش خاں کی بزرگی اور ان کے ساتھ قرابت داری کا احترام کیا اور خود بھی اپنے ساتھ کی گئی ناانصافیوں کی اذیت کو خاموشی سے برداشت کر لیا، [بلکہ] مَیں نے اپنے بھائی [مرزا یوسف علی] کو بھی باز رکھا کہ وہ بھی اپنی شکایت کا اظہار نہ کرے اور نہ ہی حکومت سے دادرسی کا طالب ہو۔ اس طرح ایک زمانہ گزر جانے کے بعد [1825ء میں] خواجہ حاجی کا انتقال ہو گیا۔ مَیں نے سوچا کہ اس سال کی آمدنی مجھے ملے گی، لیکن جب تنخواہ تقسیم ہوئی تو احمد بخش خان کی ریاست سے 2,000 روپے کی رقم فوراً خواجہ حاجی مرحوم کے بچوں کو ادا کر دی گئی۔


[اکتوبر 1825ء میں میرا بھائی مرزا یوسف علی بیگ خاں دیوانہ ہو گیا۔ ]

Khalid Nadeem
About the Author: Khalid Nadeem Read More Articles by Khalid Nadeem: 14 Articles with 39736 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.