پاکستان کی امریکاپرانحصارختم کرنے کی پالیسی

عرب نیوزکودیے گئے انٹرویومیں وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کاکہناتھا کہ وہ وقت گزرگیا ہے جب پاکستان اپنی فوجی ضروریات پوری کرنے کے لیے امریکا پرانحصارکیاکرتاتھا۔دنیاکوپاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کوتسلیم کرناہوگا۔وزیراعظم کاکہناتھا کہ پاکستان پرکسی قسم کی پابندی لگانانہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کومتاثرکرے گی بلکہ اس سے خطے میں بھی عدم استحکام پیداہوگا۔انہوں نے کہا کہ اگرایک ذریعہ بندہوجائے توپھرہمارے پاس دوسرے ذرائع سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ممکن ہے اس کی لاگت زیادہ ہوہوسکتاہے کہ اس کے لیے ہمیں مزیدوسائل خرچ کرناپڑیں۔لیکن ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے اوریہ کہ ہم نے ان تمام لوگوں پرزوردیا ہے جن سے ہم ملے ہیں۔شاہدخاقان عباسی نے کہا کہ ہماری فوج میں امریکی ہتھیاروں کابڑانظام ہے لیکن ہم دیگرذرائع بھی استعمال کررہے ہیں۔ہمارے پاس چینی اوریورپین سسٹمزبھی ہیں اورپہلی بارہم نے روسی جنگی ہیلی کاپٹرشامل کیے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پرامریکی نائب صدرمائیک پینس کے ساتھ ہونے والی ملاقات بہت تعمیری تھی۔اس موقع پرامریکی صدرٹرمپ کے ساتھ ان کے استقبالیہ میں مختصرملاقات بھی ہوئی تھی۔اکیس اگست کوافغانستان اورجنوبی ایشیاکے لیے اپنے پالیسی بیان میں ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پرسخت تنقیدکے بعددونوں اتحادیوں میں پہلی باریہ اعلیٰ سطحی رابطہ تھا۔ٹرمپ کے ساتھ شیڈول ملاقات طے نہیں تھی درحقیقت نائب صدرپینس کے ساتھ بھی ملاقات کاکوئی شیڈول نہیں تھا۔بلکہ یہ ملاقات ان کی درخواست پرہوئی تھی۔اقوام متحدہ کادورہ بنیادی طورپرجنرل اسمبلی میں اپناموقف پیش کرناتھاوزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے کہا کہ پینس کے ساتھ ملاقات میں جنوبی ایشیاکے بارے میں ٹرمپ کے پالیسی بیان پراپنے خدشات کااظہارکیاگیاکہ اس بیان کے بعدپاکستان اورامریکاکے تعلقات کاکیامطلب ہوگا۔وزیراعظم نے کہاکہ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹیلرسن کے ساتھ ملاقات میں ٹرمپ کی جنوبی ایشیاکی پالیسی پربھی تبادلہ خیال کیااورخواجہ آصف نے ٹیلرسن کوبتادیا کہ تمام دہشت گردوں اورعسکری گروپوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان زیروٹالرنس رکھتا ہے۔شاہدخاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان میں کسی بھی دہشت گردگروپ کی کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اورافغانستان میں امن کے لیے دہشت گردوں کوتباہ کرناہمارے مشترکہ مفادمیں ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم شراکت دارہیں۔اوراقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جس سے بھی ملے ہیں ان سب پرزوردیا ہے کہ افغانستان میں پاکستان سے زیادہ کوئی امن کاخواہاں نہیں ہے۔پاکستان افغانستان کے مسئلے کاپرامن حل چاہتاہے۔انہوں نے خبردارکیا کہ افغانستان کے معاملات میں بھارت کوشامل کرنے کی امریکی خواہش کے سنگین نتائج برآمدہوں گے۔ہم کسی بھئی چیزبالخصوص افغانستان کے مسئلے کے حل میں مدددینے کے لیے پاکستان امریکاکے تعلقات میں بھارت کی شمولیت پریقین نہیں رکھتے۔ہم یہاں پربھارت کاکردارنہیں دیکھتے۔بھارت کے امریکاکے ساتھ تعلقات ہیں یہ تعلقات بھارت اورامریکاکے ساتھ ہوناچاہییں۔پاکستان امریکااورکسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ برابری کی بنیادپررتعلقات یاشراکت چاہتاہے۔ان کاکہناتھا کہ ہماری خواہش ہے کہ امریکاکے ساتھ مل کرعلاقائی اورعالمی مسائل کوحل کیاجائے۔وزیراعظم کہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہاہے۔اورہم نے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے دولاکھ افواج کوتعینات کررکھا ہے۔اس جنگ میں ہماری فوج کے ۵۶ ہزارجوان اورافسران شہیدہوئے ہیں۔اس کے علاوہ پولیس اہلکاروں سمیت اکیس ہزارشہریوں نے بھی اپنی جانوں کی قربانی دی ہے۔تقریبا۵۳ہزارافرادشدیدزخمی ہوئے ہیں۔وزیراعظم کاکہناتھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم سے زیادہ کسی نے قربانیاں نہیں دیں۔جب کہ ہم یہ جنگ اپنے وسائل سے لڑرہے ہیں۔اس جنگ میں پاکستان نے ایک سوبیس ارب ڈالرسے زیادہ مالی نقصان اٹھایا۔یہ ایک بہت مشکل جنگ ہے۔لیکن ہماری افواج بہتراندازسے لڑرہی ہے۔ اس سے پہلے مری میں ایک کالج کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کاکہناتھا کہ آج ملک کومختلف مسائل درپیش ہیں مگراللہ کاکرم ہے کہ ہماراشماردنیاکے ان ممالک میں ہوتاہے جن کودنیامیں عزت اوروقارسے دیکھاجاتاہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہماری اولین ترجیح ہے کہ ملک میں جمہوری اقدارکومضبوط کیاجائے اورہم ان کے ذریعے ہی ملک وقوم کودرپیش مسائل کاحل چاہتے ہیں۔ان کاکہناتھا کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے۔ہم نے اپنی محنت سے یہ طاقت حاصل کی ہے۔ہم ملک کادفاع کرناجانتے ہیں پاکستان دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑرہاہے۔امریکی محکمہ خارجہ ترجمان نے بلوچستان میں جھلی مگسی مین واقع فتح پورشریف کے صوفی بزرگ کے مزارپرخودکش حملے کی مذمت کی ہے۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ خطے بھرمیں انسداددہشت گردی کی جاری کوششوں میں امریکاحکومت پاکستان اوراپنے دیگرشراکت داروں کے ساتھ مل کرکام کررہاہے۔دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں ہم پاکستان کے عوام اوروسیع تر جنوبی ایشیاکے خطے کے ساتھ کھڑے ہیں۔وائس آف امریکاکی طرف سے پوچھے گئے اس سوال پرآیاپاکستان افغان سرحدکی مشترکہ نگرانی کے نظام کی پیشکش کے بعدکیامشترکہ آپریشن کابھی خیرمقدم کرسکتاہے وزیرخارجہ خواجہ آصف کاکہناتھا کہ ہم یہ پیشکش پہلے ہی کرچکے ہیں۔ہم نے تین دن پہلے ہی جب ہمارے چیف آف آرمی سٹاف کابل کے دورے پرتھے ان کوپیشکش کی کہ وہ ہمارے ساتھ معلومات کاتبادلہ کریں۔ہم ان کواپنے ساتھ ہیلی کاپٹرپربٹھائیں گے وہ ہمیں بتائیں جہاں جاناہے۔ہم جائیں گے ،اگروہ ہم سے چاہتے ہیں ہم ان کاکھوج لگائیں ہم لگائیں گے۔اگروہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف ہم کوئی ایکشن لیں توہ جوبھی اقدام تجویزکریں گے ہم وہ اقدام لیں گے۔لیکن انہوں نے کہاکہ محض کھوکھلے الزامات قابل قبول نہیں۔اگرافغان ایسے ایکشن کاحصہ بنناچاہتے ہین تومشترکہ ہوجانے دیں۔وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ پوری یکسوئی سے دہشت گردوں کوہدف بنارہے ہیں۔امریکادہشت گردوں کے مقامات کی نشاندہی کرے ہم بمباری کریں گے۔یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم ولی ہیں شایدماضی میں ہم سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں لیکن صرف پاکستان کوموردالزام نہ ٹھہرایاجائے۔خواجہ آصف کاکہناتھا کہ ملااخترمنصورپرحملہ امن بات چیت کوسبوتاژکرنے کے لیے تھا۔درون حملے میں لیڈرکی موت کے بعدسے طالبان پرپاکستان کااثرکم ہواہے۔طالبان اتنااثرنہیں رہاجتناہواکرتاتھا۔وزیرخارجہ نے کہا کہ امریکاکے ساتھ باہمی احترام پرمبنی تعلقات چاہتے ہیں۔پاکستان اورامریکاخطے میں امن، استحکام اورخوش حالی کے مشترکہ مقصدکے لیے کام کررہے ہیں۔پاکستان دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہوں بارے بہت فکرمندہے۔دہشت گردوں کی زیادہ ترمحفوظ پناہ گاہیں افغانستان کے غیرمنظم علاقوں میں ہیں جوملک کاچالیس فیسدسے زائدہے۔ وزیرخارجہ کاکہناتھا کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے کئی حملوں کے تانے بانے افغانستان میں ملتے ہیں۔جب کہ ہماری مسلح افواج نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں بہت اچھاکام کیاہے۔دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں پاکستان جیساعزم اورکامیابیاں کسی دوسرے ملک کی نہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ انہوں نے اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹیلرسن سے کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستانی سرحدکاچھ سوچالیس کلومیٹرعلاقہ ایساہے جس میں افغانستان کی طرف سے کوئی نگرانی نہیں کی جارہی ہے۔اوریہ پاکستان کے لیے باعث تشویش ہے۔اس وجہ سے پاکستان نے افغانستان کے ساتھ پوری سرحدپرباڑلاگانے کافیصلہ کیا ہے۔ان کاکہناتھا کہ باڑلگانے اورافغان پناہ گزینوں کوواپس افغانستان بھجواکرآبادکرنے میں امریکاکومالی وسائل فراہم کرنے چاہییں۔وزیرخارجہ نے ماضی کی متعددمثالیں دیتے ہوئے امریکاکوخبردارکیا کہ امریکاویت نام کی جنگ میں بھی شکست سے دوچارہواتھاا وراسے افغانستان میں بھی شکست کاسامناہے۔اوراب وہم خفت میں پاکستان پربلاوجہ الزام لگارہا ہے۔خواجہ آصف نے لاس ویگاس میں ہونے والے حالیہ قتل عام کے وقعے کاذکرکرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑاالمیہ ہے۔تاہم امریکااسے دہشت گردی کاواقعہ قرارنہیں دیتااوریہ بات ناقابہل فہم ہے۔پاکستان امریکاسے کسی مالی یامادی فائدے کاخواہاں نہیں۔لیکن پاکستان چاہتاہے کہ امریکادہشت گردی کوختم کرنے اورعلاقے میں قیام امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کااعتراف کرے۔پاکستان میں موجودمدرسوں کاذکرکرتے ہوئے خواجہ آصف نے انہیں دنایکی سب سے این جی اوزقراردیا۔ان کاکہناتھا کہ اس وقت پاکستان میں بیس ہزارکے لگ بھگ مدرسے موجودہیں جنہوں نے بچوں کورہائش ،خوراک اورتعلیم فراہم کرکے گراں قدرخدمات انجام دی ہیں۔قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پرپی ٹی آئی کی خاتون راہنماشیریں مزاری نے کہا کہ وزیرخارجہ نے امریکاکوحقانی نیٹ ورک کے خلاف مشترکہ آپریشن کی پیشکش کی ہے۔جب کہ دوسری جانب امریکاانڈیاکااسٹرٹیجک پارٹنرہے۔انہوں نے خدشہ ظاہرکیاکہ اگرامریکاکے ساتھ مشترکہ کارروائی کی گئی توتمام حساس معلومات امریکابھارت کوفراہم کردے گا۔پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی کاکہناتھا کہ وزیرخارجہ ایوان کوبتائیں کہ کس طرح امریکاکویہ پیشکش کی گئی۔جب کہ امریکاپاکستان کودہشت گردقراردے رہاہے۔توپھرہم ایسی پیش کش کس حیثیت سے کررہے ہیں۔

ایک طرف وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کہتے ہیں کہ اب وہ دن نہیں رہے جب پاکستان امریکاپرانحصارکیاکرتاتھا دوسری جانب وزیرخارجہ خواجہ آصف امریکاکومشترکہ آپریشن کی پیش کش کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔بظاہرتویہی معلوم ہوتاہے کہ پاکستان کے وزیراعظم اوروزیرخارجہ میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ظاہری طورپردونوں وزراء کے خیالات وبیانات میں بہت بڑاتضادنظرآرہا ہے۔جب پاکستان نے امریکاپرانحصارختم کردیا ہے تووزیرخارجہ نے کس لیے مشترکہ آپریشن کی پیش کش کی ہے۔وزیراعظم کی امریکاپرانحصارختم کرنے اوروزیرخارجہ کی امریکاکومشترکہ آپریشن کی پیش کش پرغورکیاجائے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں وزراء کی باتوں میں کوئی تضادنہیں ہے۔بلکہ وزیرخارجہ کی پیش کش پرمزیدغورکیاجائے توخواجہ آصف نے بھی وہی بات کہی ہے جوشاہدخاقان عباسی نے کہی ہے۔دونوں وزراء کی اس بات میں فرق یہ ہے کہ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے یہ بات واضح اوردوٹوک الفاظ میں کہہ دی ہے جب کہ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے یہی بات ایک اوراندازسے کہی ہے۔وزیراعظم نے جن الفاظ میں یہ بات کہی ہے وہ توسب کوسمجھ آگئی ہے جب کہ وزیرخارجہ نے جوبات کہی ہے اس کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔خواجہ آصف نے کہا ہے کہ امریکادہشت گردوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی کرے ہم کارروائی کریں گے۔اگرامریکاکوہم پراعتمادنہیں کہ ہم اس کے بتائے گئے ہدف پرکارروائی نہیں کریں گے تووہ ہمارے ساتھ جہازمیں بیٹھ جائے جہاں وہ کہے گاوہاں ہی کارروائی کریں گے۔خواجہ آصف نے کہا ہے کہ امریکانشاندہی کرے ہم کارروائی کریں گے یہ نہیں کہا کہ امریکاخودکارروائی کرے۔ہم خودکارروائی کریں گے کہہ کروزیرخارجہ نے امریکاسے کہہ دیا ہے اب اسے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پرازخودکارروائی کرنے کاکوئی اختیارنہیں۔اب وہ دہشت گردوں کوختم کرنے کے لیے ڈرون حملے کرسکتاہے اورنہ ہی کوئی اورکارروائی۔خواجہ آصف نے بھی زبان سے الفاظ نکالے بغیرامریکاکوواضح پیغام دے دیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں پاکستان امریکاپرانحصارکرتاہے اورنہ اعتماد۔پہلے بھی ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردوں کے خلاف اپنی بنائی گئی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے خودکارروائی کرتے ہوئے واضح کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ہماراملک ہے، ہمارے علاقے ہیں، ہم خودہی کارروائی کریں گے۔امریکاکوپاکستان میں مداخلت کاکوئی اختیارنہیں ہے۔البتہ امریکاکومشترکہ آپریشن کی پیش کش بارے شیریں مزاری کے خدشات درست ہیں۔سچ تویہ ہے کہ پاکستان نے امریکاپرانحصارختم کرنے کی پالیسی کا آغازوزیراعظم شاہدخاقان عباسی کے اعلان کے ساتھ ہی نہیں کردیا بلکہ اس پالیسی کے تحت ہم نے اس وقت بھی امریکاپرانحصارختم کردیاتھا جب پاکستان کی امدادکے لیے اس کابحری بیڑاپاکستان کی حدودمیں بروقت نہ پہنچاتھا۔پاکستان نے امریکاپرانحصاراس دن بھی ختم کردیاتھا جب پاکستان نے ایٹمی پروگرام کاآغازکیاتھا۔پاکستان نے امریکاپرانحصاراس دن بھی ختم کردیاتھا جب پاکستان نے امریکی دباؤاورلالچ کومستردکرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرکے دنیاکی پہلی اسلامی ایٹمی قوت ہونے کااعزازحاصل کیاتھا۔ پاکستان نے امریکاپرانحصاراس دن بھی ختم کردیاتھا جب اس وقت کے صدرآصف علی زرداری نے کئی سالوں کے بعدپہلی مرتبہ روس کادورہ کیاتھا۔ ہم نے امریکاپرانحصاراس دن بھی ختم کردیاتھاجب ہم نے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیاتھا۔ہم نے امریکاپرانحصاراس دن بھی ختم کردیاتھا جب پاکستان اورچین نے اقتصادی راہداری منصوبے پردستخط کیے تھے۔پاکستان نے امریکاکے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اورورلڈ بینک پرانحصاربھی ختم کردیاہے۔دوسروں پرانحصارختم کرکے ہی قومی حمیت اوروقارکودنیاکے سامنے منوایاجاسکتاہے۔سی پیک کی تکمیل کے بعدکسی پرانحصارکرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔امریکامیں تعینات پاکستانی سفیراعزازچوہدری نے ڈپلومیٹ میگزین کے زیراہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکادہشت گردی کے خلاف جنگ میں حساب کتاب کی باتیں کرتاہے۔اس نے افغان جنگ میں ہماری بندرگاہ ۔ہماری سڑکیں، انفرانسٹرکچر استعمال کیالیکن ہم نے کبھی حساب کتاب نہیں کیا۔اعزازچوہدری نے بھی کہہ دیا ہے کہ امریکادہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی طرف سے دی گئی سہولتوں کونظراندازکرتے ہوئے حساب کتاب کی باتیں کرتاہے اس لیے امریکاپرانحصارکیاجاسکتاہے اورنہ ہی اس پرانحصارکریں گے۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 301372 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.