ان کی عمر محض 17 برس ہے مگر اپنے سائنسی تحقیقاتی مضمون
سے انھوں نے دورِ حاضر کے عالمِ طبعیات کو نہ صرف حیران کیا بلکہ تحقیق کے
لیے ایک نیا زاویہ فراہم بھی کیا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے رہائشی محمد شہیر نیازی کی برقی
چھتوں یعنی 'الیکٹرک ہنی کوم' پر کی گئی تحقیق پر مبنی مضمون گذشتہ ماہ
رائل سوسائٹی اوپن سائنس جنرل نے شائع کیا ہے۔
|
|
یہ جریدہ دنیا بھر سے سائنس، ریاضی اور انجینیئرنگ کے میدان میں ہونے والی
تحقیقات شائع کرتا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اے لیول کے طالبِ علم
شہیر نیازی نے فخر سے بتایا کہ کم عمری میں سائنسی تحقیق شائع کرنے کے
اعتبار سے انھوں نے ماضی کے مشہور سائنسدان اور ماہرِ طبعیات آئزک نیوٹن کو
پیچھے چھوڑ دیا۔
'نیوٹن کا پہلا تحقیقاتی مضمون بھی اسی رسالے میں شائع ہوا تھا، اس وقت ان
کی عمر 17 برس تھی۔ جب میرا مضمون گذشتہ ماہ شائع ہوا تو تب میں 16 برس کا
تھا۔' شہیر نے گذشتہ ستمبر کی 25 تاریخ کو 17ویں سالگرہ منائی۔
ماہرِ طبعیات برقی چھتے کے رحجان سے کئی دہائیوں سے واقف ہیں۔ تاہم یہ برقی
چھتہ ہوتا کیا ہے اور شہیر کی تحقیق نے ایسے کون سے پہلو عیاں کیے ہیں جس
پر دنیا کے سائنسدان ان کے معترف ٹھہرے؟
گھنے گھنگھریالے بالوں کے ساتھ ناک پر چشمہ بٹھائے دبلے پتلے قد و قامت
والا نوجوان سائنس دان بخوبی جانتا ہے کہ اس سے یہ سوال ضرور کیا جائے گا۔
ان کے گھر میں داخل ہو تو لاؤنج ہی میں ایک میز پر ڈبوں میں برقی تاروں اور
سرکٹس کا ڈھیر لگا ملتا ہے۔ یہاں بیٹھ کر وہ تجربے کرتے ہیں۔
انتہائی تحمل کے ساتھ، ٹھہرے ہوئے لہجے میں شہیر برقی چھتوں کے تصور کی
وضاحت کرتے ہیں۔
|
|
'سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کائنات میں ہر چیز کو توازن چاہیے۔
برقی چھتے اسی رجحان کو ظاہر کرتے ہیں کیونکہ ان کی شش پہلو شکل کائنات میں
سب سے متوازن ساخت ہے۔'
سائنسی تجربے میں دو الیکٹروڈز ہوتے ہیں، ایک سوئی اور دوسری آہنی پلیٹ۔ اس
پلیٹ پر تیل ڈال دیا جاتا ہے۔ تیل میں سے بجلی نہیں گزر سکتی۔ ایک الیکٹروڈ
یعنی سوئی سے جب ہائی وولٹیج گزرتی ہے تو وہ ایک چھوٹے پیمانے پر ایسا ہی
عمل ہوتا ہے جیسے آسمانی بجلی گرتی ہے۔
جب برق پاروں کا دباؤ تیل پر زیادہ بڑھ جاتا ہے تو وہ انھیں راستہ دے دیتا
ہے اور وہ دوسرے الیکٹروڈ سے جا ملتے ہیں۔ تاہم تیل نہیں چاہتا کہ اس کی
شکل بگڑے اس لیے جب وہ توازن دوبارہ حاصل کرتا ہے جس کے نتیجے میں شہد کی
مکھیوں کے چھتے کی شکل کے ڈھانچے بنتے ہیں۔
شہیر کے مطابق کائنات میں توازن کے تصور کے اس مخصوص رجحان پر تحقیق ہوئی
ضرور تھی مگر زیادہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی والدہ نے سنہ 2016 میں ان
کے لیے روس میں ہونے والے بین الاقوامی نوجوان ماہرِ طبعیات کے ٹورنامنٹ،
جسے علمِ طبعیات کا ورلڈ کپ بھی کہا جاتا ہے، میں مقابلہ کرنے کا موقع تلاش
کیا تو وہاں انھیں یہی اسی سائنسی مسئلے پر کام کرنے کو کہا گیا۔
شہیر کی تحقیق جس نئے پہلو کو سامنے لائی وہ تھا تیل کی سطح پر حرارت کا
فرق۔ شہیر نے اس عمل کی تصویر کشی بھی کی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
اس وقت انھیں ویسا ہی احساس ہوا جیسا انھیں بچپن میں پہلی دفعہ گھر کی چھت
پر کیے گئے کیمیکل تجربے کی کامیابی پر ہوا تھا۔
|
|
’مجھے معلوم تھا کہ ایسا پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا۔ میں نے اس حوالے
سے ماضی میں کی جانے والی تحقیقات پر مضامین پڑھ رکھے تھے۔‘
روس سے واپسی پر انھوں نے اس تحقیق کو دنیا کہ کسی اچھے رسالے میں شائع
کرنے کی ٹھانی جس کے لیے انھیں مزید ایک سال تحقیق کرنی پڑی۔
اس دوران انھوں نے انٹرنیٹ کی مدد حاصل کی اور تجربوں کے لیے وہ لاہور
یونیورسٹی آف مینیجمینٹ اینڈ سائنسز کی لیبارٹری استعمال کرتے رہے۔
شہیر کو علم اور تحقیق سے دوستی کا ماحول گھر ہی سے ملا۔ ان کے والد اور
دادا کی دلچسپی سائنس اور خصوصاٌ علمِ طبعیات میں تھی۔ 11 برس کی عمر سے وہ
انٹرنیٹ پر موجود مختلف موضوعات پر باقاعدہ کورس کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک
مشہور آن لائن پورٹل ’کورسیرا‘ پر وہ اب تک 25 کے قریب کورس کر چکے ہیں۔
’میں سکول میں پڑھائی جانے والی چیزوں سے جب بیزار ہو جاتا ہوں تو آن لائن
کورسز کا رخ کرتا ہوں۔ اس طرح آپ اچھی یونیورسٹیوں سے گھر بیٹھے تعلیم حاصل
کر سکتے ہیں۔‘
ہر سائنسدان کی طرح شہیر کے ذہن میں تجسس کی رو ہر وقت موجود رہتی ہے۔ تاہم
ساتھ ہی وہ ٹھہراؤ کے بھی متلاشی رہتے ہیں۔ ان کی والدہ کہتی ہیں شہیر
موسیقی سے بھی دلچسپی ہے۔ گھر میں ان کا ایک عدد پیانو موجود ہے جسے بجانا
بھی انھوں نے انٹرنیٹ سے سیکھا ہے۔
|