ہندوستان تاج محل کے بغیر !

 شاہ جہاں کا شمار کامیاب اور قابل فخر مغل بادشاہوں میں ہوتاہے ،جہانگیر کی وفات کے بعد 1628 میں شاہ جہاں نے پانچویں مغل بادشاہ کی حیثیت سے تخت پر قابض ہونے میں کامیابی حاصل کی،ان کے دور بادشاہت میں متحدہ ہندوستان نے بے مثال ترقی کی،آج بھی ہندوستان ان کی پالیسوں کا فائدہ اٹھارہاہے اور ان کے کارناموں کی وجہ دنیا بھر میں عزت وعظمت کی نظر سے دیکھاجاتاہے، انہوں نے کئی یادگار عمارتیں بنوائیں،دہلی کی جامع مسجدسمیت متعدد عمارتیں ان کے دوربادشاہت میں بنائی گئیں جس نے ہندوستان کی عظمت وقار میں اضافہ کیاآج بھی انہی عمارتوں کی وجہ سے ملک کو دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل ہے ، پندرہ اگست اور 26 جنوری کو جس لال قلعہ کی فصیل سے وزیراء اعظم اور صدرجمہوریہ جھنڈا لہراتے ہیں،ہندوستان کی عظمت کو سلامی پیش کرتے ہیں اس کی بھی تعمیر اسی شاہ جہاں نے کی تھی لیکن ان سب کے درمیان شاہ جہاں کی جس تعمیر نے سب سے زیادہ عالمگیر شہرت حاصل کی ہے وہ تاج محل ہے ۔
 

image


تاج محل دراصل ان کی بیوی ممتاز محل کا مقبرہ ہے،کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ شیرازی نامی ایک ایرانی انجینئر نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا، لیکن بادشاہ نامے میں لکھا ہے کہ خود شاہ جہاں نے اس کا خاکہ تیار کیا، اس عمارت کی تعمیر1632 میں شروع ہوئی اور 1650میں کل25 سال بعد تعمیر مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر میں ساڑھے چار کروڑ روپے صرف ہوئے اور بیس ہزار معماروں اور مزدوروں نے اس کی تکمیل میں حصہ لیا، تمام عمارت سنگ مرمر کی ہے۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی 130 فٹ اور بلندی 200 فٹ ہے، عمارت کی مرمری دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت پچی کاری کی ہوئی ہے، مقبرے کے اندر اور باہر پچی کاری کی صورت میں قرآن شریف کی آیات نقش ہیں، عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے، عمارت کا چبوترا، جو سطح زمین سے 7 میٹر اونچا ہے ، سنگ سرخ کا ہے۔ اس کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہے اور سامنے کی طرف کرسی کے نیچے ایک حوض ہے جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں ،مغلیہ طرز کا خوبصورت باغ بھی ہے ۔اس مقبرے کے اندر ملکہ ممتاز محل اور شاہجہان کی قبریں ہیں۔ دائیں جانب ایک مسجد ہے ۔ حالیہ دنوں میں وہاں صرف جمعہ کی نماز اداکرنے کی اجازت ہے ۔

یو این ای ایس سی او کی رپوٹ کے مطابق ہندوستان کے سیاحتی مقام میں تاج محل سر فہرست ہے ،اوسطا چالیس لاکھ ہر سال تاج محل کو دنیا بھر سے دیکھنے آتے ہیں،سال 2014 میں سات ملین لوگوں نے تاج محل کی سیر کی تھی ۔سن 1874 میں برطانوی سیاح ایڈورڈ لئیر نے کہا تھا کہ دنیا کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک وہ جنہوں نے تاج محل کا دیدار کیا اور دوسرے جو اس سے محروم رہے۔2007 میں ایک بین الاقوامی مقابلے کے ذریعے طے پانے والے دورِ جدید کے سات عجائبات میں آگرہ کے تاج محل کو بھی شامل کیا گیاہے ۔

یہ تاج محل کی مختصر تاریخ ہے جس نے ہندوستان کی عظمت میں اضافہ کیا ہے ،جس کی بنیاد پر ہندوستان کا شمار ان سات ممالک میں ہوتاہے جہاں عجائب پائے جاتے ہیں،ہندوستان کی اقتصادیات میں یہ اضافے کا ذریعہ بنتاہے ،جس کے دیدار کیلئے دنیا بھر کے سیاح ہندوستان میں آتے ہیں اس تاج محل کو ہندوستان کے شدت پسند عناصر نے بارہامتنازع بنانے کی کوشش کی ہے ،گزشتہ کئی سالوں سے بابری مسجد کی طرح اس کو بھی مندر میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، شدت پسند ہندؤوں کا دعویٰ ہے کہ یہ تاج محل دراصل شیوا مندر ہے جسے راجپوتوں نے شاہ جہاں کو گفٹ کیاتھا ،اسی مندر کے اوپر تاج محل کی تعمیر کی گئی ،ان شدت پسندوں میں بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی اور یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بھی شامل ہیں،اس گروپ کا دعویٰ ہے کہ تاج محل کے نیچے ایسے ثبوت ملے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ مندر کے اوپر ممتاز محل کا مقبرہ بنایاگیاہے ،یہ معاملہ عدلیہ میں زیر بحث ہے ،آگرہ کی عدالت سے اس مقدمہ کو خارج کردیاگیا ہے تاہم تاج محل کو شیوا مندر بنانے والے اپنے دعویٰ پر اٹل ہیں ۔
 

image

ہندوستان ٹائمز کی ایک رپوٹ کے مطابق اس تنازع کیلئے اصل ذمہ دار پی این او ک نامی ایک شخص ہے جنہوں نے1989 میں کتاب لکھی تھی’’تاج محل :حقیقی کہانی‘‘ Taj Mahal: The True Story۔اس کتاب میں مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ تاج محل در اصل شیوا مندر ہے جس کی تعمیر ایک راجپوت بادشاہ نے1155 میں مغل بادشاہت کے جود سے بہت پہلے کی تھی جس پر شاہ جہاں نے قبضہ کرکے اپنی بیوی کا مقبرہ بنادیا،یہ شخص خود کو مورخ کہتاہے ،2000 میں اس نے سپریم کورٹ کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا تھا تاہم سپریم کورٹ کو اس دعویٰ میں کوئی سچائی نہیں مل سکی اور پی این اوک کو نامراد ہوکر لوٹنا پڑا۔ تاج محل کو مندر میں تبدیل کرنے کی یہ کوشش ابھی سرد نہیں پڑی ہے ،بر سر اقتدار پارٹی بی جے پی کی جانب سے اس کو مندر میں تبدیل کرنے کی کوشش جاری ہے ،دوسری جانب آر کیا لوجیکل سرے آف انڈیا بارہار یہ ثبوت پیش کرچکی ہے کہ تاج محل کے مندر ہونے کا دعوی بے بنیاد اور محض ایک افسانہ ہے ۔
 

image

اتر پردیش کی یوگی سرکار نے اب تاج محل کو سیاحتی مقامات کی فہرست سے خارج کردیاہے ،وزارت سیاحت سے نو جو کتابچہ شائع کیا ہے اس میں اتر پردیش کے 32 سیاحتی مقامات کا تذکرہ ہے لیکن تاج محل اس میں شامل نہیں ہے ،وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ متعدد مرتبہ یہ بول چکے ہیں تاج محل مندر ہے ،وہ سیاحتی مقامات میں شامل نہیں ہے ،اقتدار ملنے کے بعد انہوں نے اس کاعملی مظاہر ہ بھی کردیا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یوپی سرکار کے اس فیصلے سے تاج محل کی وقعت کم ہوجائے گی ،دنیا کے سات عجائب کی فہرست سے اس کا نام خارج ہوجائے گا ،دنیا کے مقبول ترین سیاحتی مقامات میں اس کا شمار نہیں ہوگا ،دنیابھر کے زائرین کے یہاں آنے کا سلسلہ بند ہوجائے گا ،تاریخ کے صفحات سے تاج محل کا تذکرہ معدوم ہوجائے گا ،شاعروں ،فن کاروں ،مصوروں اور ادیبوں کی دل چسپی اس سے ختم ہوجائے گی ۔ محبت کی علامت تاج کی مثال کی عالمی اہمیت بے وقعت ثابت ہوگی ۔یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ یوگی سرکار کے اس فیصلہ کو کیا نام دیا جائے ،اسے احمقانہ فیصلہ کہاجائے یا پھر اس اقدام کو انتہاء پسندی پر محمول کیاجائے بہرحال جو بھی مشن ہے ،جو بھی ایجنڈاہے وہ ہندوستان کیلئے باعث ذلت اور انتہائی شرمناک ہے ،برطانیہ کے معروف اخبار دی گارجین نے تاج محل کے تعلق سے بی جے پی اور آ ر ایس ایس کی پالیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ آگرہ کاتاج محل پور ی دنیا میں محبت کی علامت ہے ،اس پر کسی بھی طرح کا تنازع عالمی سطح پر ہندوستان کے وقار کو ٹھیس پہونچانے کا سبب بنے گا ،دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت اس کی اقتصادی طاقت ،سیاسی قوت یا جدید ٹیکنالوجی کی وجہ نہیں بلکہ سترہویں صدی میں تعمیر شدہ یہی تاج محل ہے ۔تاج محل کی اہمیت ،لال قعلہ کی وقعت اور جامع مسجد کی عظمت کا تعلق حکومت ہند کے سیاحتی مقامات میں شامل کرنے سے نہیں ہے ،پوری دنیا ان مقامات کو سیاحتی مقامات میں سرفہرست رکھتی ہے ،اس کی عظمت کل بھی تھی آج بھی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گی ۔ سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں تمام قابل فخر اور یادگار عمارتیں مسلم بادشاہوں کی ہی دین ہے ،یا پھر انگریزوں نے کچھ یادگار چیزیں بنوائی ہیں ۔آزاد ہندوستان کے سترسالوں میں ایسا کچھ قابل فخر کارنامہ ہندوستان میں وجود پذیرنہیں ہوسکا ہے جو اسے عالمی شہرت دلاسکے اور کسی کا متبادل ثابت ہوسکے ۔
YOU MAY ALSO LIKE:

It could either be rank ignorance or plain prejudice and I have a hunch I know which it is. The UP government’s attitude to the Taj Mahal is more than negligence. It suggests deliberate disregard. And the chief minister’s belated reassurance – from Kerala of all places – does little to dispel my doubts.