دہشتگرد پھر بھی مسلمان؟

دنیا میں ہمیشہ انسان انسانوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنتے آئے ہیں۔ ہر دور میں طاقتور اقوام اور ممالک نے کمزور اقوام اور ممالک پر مظالم کیے اور بے دریغ قتل عام کیا ہے۔ ماضی شاہد ہے کہ مختلف ادوار میں طاقتوروں کے ہاتھوں کمزوروں کے خون کی ندیاں بہائی جاتی رہیں اور بلامبالغہ کروڑوں لوگ بہیمانہ طریقے سے قتل کیے گئے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آج بھی مختلف ممالک میں مختلف اقوام کے ہاتھوں انسانیت کی انتہائی برے طریقے سے تذلیل کی جارہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی روح کی تسکین کے لیے دوسروں کے خون کی ہولی کھیلنا دنیا کا دستور بن چکا ہے، جہاں کسی قسم کی کوئی روک تھام نہیں۔ یہ دستور بنانے والے دنیا پر جنگل کا قانون رائج کرچکے ہیں، لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ جنگل میں کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے کمزور کسی نہ کسی طرح بھاگ کر جان بچانے میں کامیاب ہوہی جاتا ہے، لیکن ’’مہذب اور تعلیم یافتہ‘‘ انسانوں کی اس دنیا میں قانون بھی کمزور مظلوم کو روندنے کے لیے طاقتور ظالم کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ طاقتور ظالم جہاں اور جو چاہتا ہے، کرتا ہے، اس کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ چاہے تو کمزور انسانوں کی لاشوں کے انبار لگادے، لیکن اگر کمزور صرف اپنی جان بچانے کی کوشش بھی کرے تو اس کو دہشتگرد ڈکلیئر کردیا جاتا ہے۔ دنیا کے اس ظالمانہ دستور کے سب سے زیادہ شکار مسلمان ہیں، جو دنیا کی مظلوم ترین قوم بن چکے ہیں، لیکن پھر بھی ان ہی کو دہشتگرد کہا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد ہر معاملے میں مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ہر دہشتگردی کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور دہشت گردی کی نام نہاد جنگ کی لپیٹ میں صرف مسلمان ہی آتا ہے، جو مسلمانوں کے خلاف بھیانک سازش کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ نہ صرف مسلمانوں کا مذہب اسلام دہشتگردی کی بھرپور مذمت کرتا اور کسی ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے، بلکہ تقریباً تمام مسلمانوں نے بھی ہر دور میں دہشتگردی اور خونریزی کی کھل کر مذمت کی ہے۔

دنیا میں قتل و غارتگری اور ظلم و ستم کا سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے، جس کامطالعہ کیا جائے تو انسانیت کی خونریزی کے ایسے بھیانک مناظر سامنے آئیں گے، جنہیں پڑھ کر ہی انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے گا۔ انقلاب فرانس کے دوران میکس ملن رابسپیری نے 5 لاکھ سے زاید افراد کو گرفتار کیا، جن میں سے 40 ہزار کو قتل کیا گیا اور دو لاکھ سے زاید کو بھوکا رکھ کر مارا گیا تھا۔ ہٹلر نے لاکھوں لوگ قتل کیے۔ جوزف اسٹالن نے 2 کروڑ افراد کو قتل کیا۔ مسولینی نے چار لاکھ افراد کو قتل کیا۔ پہلی جنگ عظیم میں 3 کروڑ 70لاکھ انسان ہلاک ہوئے اور 2 کروڑ 23 لاکھ 79 ہزار53 انسان زخمی ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم میں 6کروڑانسان ہلاک ہوئے۔ امریکا کی جانب سے ایٹم بم گرائے جانے کے نتیجے میں ایک لاکھ 66ہزار انسان ہیروشیما اور 80 ہزار ناگاساکی میں ہلاک ہوئے۔ ماضی کے ان واقعات میں سے کسی ایک میں بھی مسلمان ملوث نہیں تھے اور اگر ہم حال کی بات کریں تو بھی دنیا میں ہونے والی خونریزی میں مسلمان ملوث نہیں ہیں۔ دنیا میں ہونے والی خونریزی میں صرف پانچ فیصد میں اسلام کے نام پر دہشتگردی کرنے والے چند جذباتی نوجوان ضرور ملوث ہوتے ہیں، لیکن ان کی سرپرستی کرنے والے بھی مسلمان نہیں ،بلکہ مسلمانوں کے دشمن ہیں، جنہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے بعض مسلم ممالک میں خود جنگیں مسلط کیں اور کہیں اپنے ایجنٹس کے ذریعے خانہ جنگی کروائی ہے، ان کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا اور مسلم ممالک کو نقصان پہنچانا ہے۔ گزشتہ ایک صدی کے دوران مسلمانوں نے کوئی جنگ نہیں چھیڑی۔ مسلمان ہمیشہ دوسروں کی جنگیں لڑتے رہے۔ دنیا کے کئی حصوں میں بیرونی طاقتوں نے مسلمانوں پر جنگیں مسلط کیں۔

اگر انصاف کی عینک سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ آج دنیا میں ہونے والی 95فیصد دہشتگردی میں مسلمان ملوث نہیں ہیں، بلکہ مسلمان تو ہر جگہ مظلوم اور متاثر ہیں، جن کے خلاف منظم انداز میں ریاستی اور غیر ریاستی دہشتگردی کی جارہی ہے۔ اس وقت مسلمان دنیا کی سب سے مظلوم قوم بن چکی ہے، جس کے خلاف مختلف جابر اور ظالم ریاستیں انسانیت کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر ٹوٹ پڑی ہیں۔ دنیا بھر میں مظلوم اور ریاستی دہشتگردی کا نشانہ مسلمان بنتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں مسلمان زیر عتاب اور دہشتگردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ فلسطین سے لے کر کشمیر تک، افغانستان سے لے کر عراق تک، شام سے برما اور یمن سے پاکستان تک لہو لہو اسلامی دنیا مغرب کی استعماری پالیسیوں کی تباہ ناکی کی داستان سنا رہی ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ عراق، افغانستان، برما، کشمیر، فلسطین، صومالیہ، چیچنیا، کو سوو، نائجیریا، بوسنیا، الجزائر، بلغاریہ، انڈونیشیا، فلپائن، چین، البانیہ، سری لنکا اور بھارت میں ہونے والے مظالم اور وحشت و درندگی کا نشانہ صرف مسلمان بنے ہیں، لیکن اگر مسلمان صرف اپنے حق کے لیے آواز بھی اٹھاتا ہے تو دہشت گرد قرار پاتا ہے۔ مسلمانوں کے معاملے میں عالمی برادری نے ہمیشہ منافقت سے کام لیا ہے۔

میانمار میں مسلمانوں کی حالت زار ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ وہاں مظلوم مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی سیکڑوں بستیوں کو جلادیا گیا ہے۔ عبادگاہوں کو جلایا گیا۔ لاکھوں افراد جان بچانے کے لیے ہجرت کرگئے ہیں۔ ایسا کونسا ظلم ہوگا جو نہتے و مظلوم روہنگیا مسلمانوں پر بدھسٹ دہشتگردوں نے نہ کیا ہو۔ سوشل میڈیا پر برما میں مسلمانوں پر مظالم کی ویڈیوز دیکھ کر پتھر دل انسان بھی روئے بغیر نہیں رہ سکتا اور برما میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ چند سالوں سے نہیں، بلکہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔ اقوام متحدہ روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی مظلوم ترین قوم قرار دے چکی ہے، اس کے باوجود ان کو جینے کا حق دینے کے لیے دہشتگرد بدھسٹ تیار نہیں ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر ہونے والی درندگی بھی ساری دنیا کے سامنے ہے کہ کس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمین پر قابض ہوکر ان کا ہی جینا حرام کر رکھا ہے۔ اسرائیل جب اور جہاں چاہے، امریکا سمیت عالمی بدمعاشوں کی سرپرستی میں کمزور فلسطینیوں پر بمباری شروع کردیتا ہے۔ غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے، بلکہ پورا فلسطین ہی جیل بنا ہوا ہے، جہاں مسلمان آزادی کے ساتھ رہ نہیں سکتے۔ فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد جیلوں میں قید ہے۔ بھارت نے کشمیر میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ بھارتی فورسز برسوں سے کشمیر میں سفاکیت و درندگی کی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔ بے گناہوں لوگوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالا جارہا ہے اور باپردہ خواتین کی عزتیں تک محفوظ نہیں ہیں۔ گزشتہ ساٹھ سالوں میں 96 ہزار کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت پاچکے اور امریکا تین درجن سے زاید ممالک کو ساتھ ملا کر پہلے افغانستان پر چڑھ دوڑا اور لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کی زندگیاں چھین لیں، افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر کھنڈرات میں تبدیل کردیا اور پھر عراق پر حملہ کر کے وہاں لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔عراق کو کھنڈرات میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ امریکا کے عیسائی، اسرائیل کے یہودی، میانمار کے بدھسٹ اور بھارت کے ہندو مسلمانوں کا قتل عام کریں تو عالمی برادری کی نظر میں وہ دہشتگردی نہیں ہے، لیکن اگر مسلمان صرف اس ظلم کے خلاف آواز بھی اٹھاتا ہے تو دہشت گرد قرار پاتا ہے۔ دنیا کی اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہوسکتی ہے؟

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629679 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.