مقدس گائے

بھارت میں یوں تو مسلمانوں کے ساتھ مظالم اور تشدد کے واقعات ایک معمول ہے اور کئی وجوہات کی بنا پر مسلمان آبادی کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں مالی اور جانی نقصان پہنچایا جا تا ہے اور اُنہیں سرعام قتل کر دیا جاتا ہے اس کے لیے کسی خاص وجہ کی ضرورت بھی نہیں بھارت کے یہ بیس کروڑ عوام جب چاہے اس کی ہندو اکثریت کی زد پر ہوتے ہیں۔بھارت اپنی مردم شماری میں مسلمانوں کی تعدادکو اگرچہ بہت کم دکھاتا ہے تا ہم پھر بھی یہ اُسی اعداد و شمار کے مطابق وہاں کی آبادی کا 18%ہیں اگر چہ آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد اس سے کافی زیادہ ہے۔دوسری طرف کم ذات کے ہندو دلت بھی وہ مخلوق ہیں جو اونچی ذات کے ہندوءں کی نفرت کے حق دار ہیں۔ وہ اِن دلتوں کی جان، مال اور عزتوں کے مالک ہیں چاہے تو جان لے لیں ،مال لے لیں اور اِن کی عزتوں کی دھجیاں اڑا دیں۔ہندو یہ سب کچھ اپنے مذہب کے نام پر کرتا ہے لہٰذا کسی پوچھ گچھ کا ڈر بھی نہیں بلکہ یوں کہیے یہ سب کچھ ثواب کے لیے کیا جاتا ہے اور بھارت کی آبادی کے یہ 17%دلت انسانیت کے درجے تک نہیں پہنچ سکتے۔یہی حال دوسری اقلیتوں کا بھی ہے اور یوں بھارت کی چالیس پینتالیس فیصد آبادی ہر وقت اکثریت کی طرف سے خطرے میں رہتی ہے۔بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے گٹر صفائی کے مزدور بینر واڑا ولسن نے کہا کہ دلت کی موت پر خاموش اور گائے کی موت پر ہنگامہ کیوں ہوتا ہے اگر دہلی میں دس گا ئیں مر جا ئیں تو ہنگامہ مچ جاتا ہے لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں جبکہ اسی شہر میں دس خاکروب مر ے لیکن ایک آواز نہیں اٹھی ایسی خاموشی روحانی ایذاکا سبب بنتی ہے۔ دلت کی موت پر تو صرف خاموشی رکھی جاتی ہے لیکن مسلمان کو تو گائے کا گوشت کھانے اور پکانے پر موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے، گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے اور ہر گزرنے والا ہندو اس میں اپنا حصہ برائے ثواب ڈالتا ہے کیونکہ اُسے اپنے اِس فعل پر کسی سزا کا خوف نہیں ہوتا عدالتیں خود اسی خیال کی حامل ہیں کہ گائے انسان سے زیادہ مقدس ہے۔توہم پرست اور عناصر فطرت اور مظاہر قدرت کو پوجنے والا ہندو گائے کواپنی ماں کا درجہ دیتا ہے اور اسے گاؤ ماتا کہہ کر اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتا ہے۔گائے کے یہ پُجاری اکیسویں صدی میں بھی دوسروں کی محتاج ،چارے کے نہ ملنے پر کاغذ ،شاپراورگلی کوچوں میں پڑا ہوا کچرا کھاتی اُس گائے کے اسیر ہیں جس معصوم کو اپنی اس اہمیت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں وہ غریب اُسی طرح جگالی کرتی جھاگ گراتی اپنی دنیا میں مست ہے جیسا کہ باقی دنیا کی گا ئیں کرتی ہیں بلکہ باقی دنیا میں تو اسے رسی سے باندھ کر پھر بھی کسی حد میں حفاظت کے خیال سے محدود رکھا جاتا ہے لیکن بھارت کی گائے آوارہ گھومتی ہے یقیناًجب پوش علاقوں اور بازاروں میں آنکلتی ہوں گی تو بھگا دی جاتی ہونگی ،بے چارہ بے زبان جانور جسے ہندو مذہب اور ذہن نے قتل و غارتگری کی وجہ بنا دیا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے گائے کی پیشاب کے کرامات کے بارے میں ایک ویڈیو میسج وائرل ہوا جس میں ایک صاحب ’’اِس‘‘ کو آب حیات اور آب شفا ء بنا کر پیش کرتے رہے قرار تو دیا اڑتالیس بیماریوں کی دوا لیکن بولتے گئے وہ ہر بیماری،کان کا درد، پیٹ کی بیماری، دل کے امراض، بخار، ہیضہ،وبائی امراض،دردِزہ حتٰی کہ کینسر جیسے امراض کا علاج قرار دیا اور مشورہ دیا کہ گائے کو دودھ کے لیے نہیں بلکہ ’’اِس‘‘ کے لیے پالو۔ ان نامعقول مشوروں کو سن کر کراہت ہی آتی رہی اور یہ سوچ بھی کہ بھارت خود کو جتنا بھی ترقی یافتہ ’’شائنگ اینڈ اِنکریڈیبل‘‘ پیش کرے وہ صبح صبح اٹھ کر ایک گائے کو ہی آداب عرض کرتا رہے گا۔اس کے گاندھی جی اسی گائے کو اپنی ماں کہتے تھے اور اس کا مودی بھی یہی کہتا ہے اور کہیں یہ گائے مرے تو یہ انسانوں کو مار دیتے ہیں لیکن اگر کسی گائے نے کسی انسان کو سینگ مار کر ہلاک کر دیا تو عدالتیں کیا حکم سناتی ہو گی یہ بھی ایک سوال ہے۔متذکرہ ویڈیو کو دیکھنے اور سننے کے بعد بہت سارے مشورے حکومت پاکستان اور پاک فوج کے لیے ذہن میں آئے کہ اسی گائے کو دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اگر پاک انڈیا بارڈر کے ساتھ سو کلومیٹر کا علاقہ ٹیکس فری کاؤ فارمنگ قرار دیا جائے اور حکومت پاکستان اس مقصد کے لیے بارڈر بیلٹ کے لوگوں کو معاشی اور ماہرانہ مدد فراہم کرے تو بھارت کی سرحدی خلاف ورزیوں اور اچانک حملہ کرنے کی کسی بھی کوشش کو روکا جا سکتا ہے اور شاید بھارت کی پاکستان دشمنی میں بھی کوئی کمی آجائے بہر حال اگر اس کو ایک تفریحی یا ازراہ مذاق مشورہ بھی سمجھا جائے لیکن بھارت کے حالات کو دیکھ کر اتنا بھی ناقابل عمل نہیں ۔ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے گائے کے فضلے کو بھارت کو تحفتاََ دے دیا جایا کرے۔میرے قارئین یقیناًسوچ رہے ہوں گے کہ میں ایسی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیوں کر رہی ہوں تو عرض یہ ہے کہ ایک معاشرہ اور ایک مذہب اگر اس طرح کے غیر سنجیدہ اور غیر معقول نظریات رکھے گا تو اس کے لیے ایسے ہی مشورے دیے جا سکتے ہیں۔مذہبی طور پر بھارت جو چاہے کرے لیکن دوسروں کو اس غیر معقولیت کی بھینٹ نہ چڑھائے۔ہریانہ کا سولہ سالہ جیند خان ہو یا آسام کے ابو حنیفہ اور ریاض الدین علی یا راجھستان کا پہلو خان یا دہلی کا اخلاق سب اس جانور کے نام پر ہلاک کیے گئے۔مالیگاؤں کے فسادات کی وجہ بھی یہ گائے ہی تھی یہ قصہ کوئی نیا نہیں1870 میں بھی ایسے فسادات ہوئے ،1893میں سو لوگ اس جانور پر قربان ہوئے اور اکیسویں صدی میں 2017 میں بھی یہ صرف بھارت کے غیر فطری نظریات اور عقائد کی بنیاد پر ہوا،2015سے2017تک معلوم ہلاک شدہ گان کی تعداد دس ہے اور نا معلوم اس کے علاوہ ہیں۔ انسانوں کو بچانے کے لیے وزارتِ صحت کا ہونا تو ظاہر ہے کہ ضروری ہے وزارت زراعت بھی ضرورت ہے تاکہ فصلوں اور مال مویشیوں کی دیکھ بھال ہو سکے ماحولیات والے بھی معدوم ہوتے جانداروں کی حفاظت کے لیے سر گرم ہوتے ہیں لیکن بھارت کی ریاست راجھستان میں وزارت گاؤ پوری دنیا میں واحد مثال ہے جو کسی ایک جانور کی حفاظت کے لیے بنائی گئی ہے۔بھارت کا یہ بھی دیگر انوکھے ریکاڈوں کی طرح ایک ریکارڈ ہے اور اسے بنانے والے نریندرمودی نے اسے ا پنے سیاسی حلقے اور آبائی ریاست راجھستان میں بنایا یعنی اگرکسی آوارہ گھومتی گاؤ ماتا کی شان میں گستاخی کی گئی تو قابل سزا جرم ہو گا۔بھارت اپنی تہذیب اور مہذب ہونے کا ڈھنڈورا تو پوری دنیا میں پیٹتا ہے لیکن اُس کی نظر میں انسان سے زیادہ ایک جانور کی اہمیت ہے۔بھارت اپنے مذہب کی رو سے سے گائے کو اہمیت دیتا ہے تو دے لیکن انسانوں کو اس پر قربان نہ کرے۔

یہ عظیم جمہوریت جو اپنی جمہوری روایات کے گن گاتا رہتا ہے اگر اپنے بیس کروڑ مسلمانوں کو اپنی مرضی سے کھانے کا حق نہیں دے سکتا تو کیسی جمہوریت،جمہوریت اگر صرف اکثریت کے لیے ہو تو کیا وہ جمہوریت کہلائے گی۔بھارت میں مسلمان مجبور، دلت محروم،عیسائی غیر محفوظ تو پھر کیسی جمہوریت اور کونسی جمہوریت ۔ایک درخواست پاکستانیوں سے بھی کہ بار بار بھارت کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے اس کی جمہوریت کی تعریف میں رطب للسان نہ ہو ا کریں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو دنیا کے سامنے لاتے ہوئے اس کا اصل چہرہ دنیا کو دکھائے اور یہ حقیقت بھی بتائے کہ بھارت میں تسلسل جمہوری نہیں سیاسی حکومت کا ہے اور ضروری نہیں کہ سیاسی حکومت جمہوری بھی ہو کم از کم بھارت کے بارے میں تو یہی حقیقت ہے اور یہ حقیقت دینا کو معلوم ہو نی چاہیے۔
 

Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 507311 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.