کمرۂ جماعت میں استاد کا برتاؤا ور طرز تکلم

تعلیم ایک ایسا رواں دریا ہے جس میں ہر گھڑی نت نئے نظریات کے دھارے شامل ہوتے رہتے ہیں۔تعلیم روایتی طریقہ کار پر عمل پیرا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ طلبہ کی شخصیت کی تعمیر اور معاشرے کے پسندیدہ اطوار کو رسمی یا غیر رسمی طریقے سے بچوں میں رواج دینے کا نام تعلیم ہے۔ اسکول رسمی تعلیم کے حصول کا سب سے بڑا مرکز ہوتا ہے۔یہ مردم سازی کا ایک ایسا ادارہ ہے جہاں بچوں کی فطری صلاحیتوں کی نشوونماء اور تکمیل کے ذرائعہمیشہ موجود رہتے ہیں۔یوں تو اسکول کا پورا ماحول بچے کی شخصیت کی تعمیر میں مددگار ہوتا ہے لیکن کمرۂ جماعت کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے جہاں تعلیم وتربیت کے زیر اثر طلبہ کی ذہنی نشوونماء کی بنیادیں استوار کی جاتی ہیں بلکہ ان صلاحیتوں کو فروغ اور پروان بھی کمرۂ جماعت میں ہی حاصل ہوتا ہے۔کمرۂ جماعت میں ہی طلبہ معاشرتی مطابقت کے گرسیکھتیہیں اور ان میں زمانے کے مطلوبہ تقاضوں کی تکمیل کی اہلیت بھی کمرۂ جماعت میں ہی پیدا کی جاتی ہے۔ باغ کا ہر پودا انفرادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے اس کے پھولوں کی مہک ،پھلوں کا ضائقہ اور سایہ و قامت چمن کے دوسرے پودوں سے جداگانہ ہوتے ہیں ۔ مالی پودوں کی فطرت کا خاص خیال رکھتے ہوئے ان کی نگہداشت اور داخت و پرداخت کے لئے ان کی فطرت سے میل کھانے والے عوامل کو احسن طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے چمن کی خوب صورتی اور دلکشی میں اضافہ کرتا ہے۔فروبیل کی نگا ہ میں ایک استاد کی حیثیت بھی ایک باغبان و مالی کی ہے جو فطرت کے مطابق طلبہ کی صلاحیتوں کو عروج دیتا ہے۔جس طرح ہر پودا پھل پھول اور اپنا ضائقہ جداگانہ رکھتا ہے اسی طرح کمرۂ جماعت میں ہر طالب علم انفرادی صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ہر بچے کی ذہنی استعداد و صلاحیت دوسرے بچوں سے جداگانہ ہوتی ہے۔ایک باکمال استاد بچوں کی انفرادیت کا احترام کرتے ہوئے نہ صرف ان کے ذہنی و اکتسابی رجحانات کو پیش نظررکھتے ہوئے تدریسی طریقہ کار وضع و اختیار کرتا ہے بلکہ بچوں کی فطرت کے مطابق ان کی رہنمائی و رہبری کے فرائض انجام دیتا ہے۔استاد کی اثر پذیر ی کا دارو مدارکئیعوامل پر منحصر ہے۔ جن میں استاد کے شاگردوں سے برتاؤ اور ر طرز تکلم کو خاص اہمیت حاصل ہے۔اکتساب اوردرس و تدریس کی کامیاب کا راست تعلق استاد کے طرزعمل (برتاؤ/آمیزش) اور گفت و شنید سے مربوط ہوتا ہے۔ بعض اساتذہ کمرۂ جماعت میں برتاؤ اور طاقت گفتار کے بل پر اپنے عیوب پر با آسانی پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اساتذہ کی جانب سے کمرۂ جماعت میں طلبہ کی خوشی کو ملحوظ رکھنا یا ان کو خوش رکھنے کا نظریہ سود مند نہیں ہوتا ہے۔ اساتذہ طلبہ کے فطری تقاضوں اور ذہنی صلاحیتوں کو مد نظر رکھیں ان سے دوستانہ برتاؤ بھی رواں رکھے لیکن اپنے وقار اور تدریسی مقاصد کو کبھی بھی مجروح نہ ہونے دیں۔طلبہ کو اپنے علم سے مطمیئن کرنے والا استاد دائمی طور پر ان کے دلوں میں گھر کر لیتاہے جب کہ وقتی تفریح فراہم کرنے والے استاد کی حیثیت ایک جوکر اور بھانڈ کی ہوکر رہ جاتی ہے۔استاد کے مزاج میں شگفتگی کے ساتھ سائشتگی کا پایا جانا بے حد ضروری ہے۔ استاد کے برتاؤ میں وقار کے ساتھ محبت اور شفقت کا پایا جانابے حد ضروری تصور کیا گیا ہے۔استاد اپنے ذہنی خلفشار و اضطراب پر ہمیشہ قابو رکھے۔ جذبات کے اظہار میں احتیاط سے کام لے۔اپنے چڑچڑے پن اور افتاد مزاجی کو ظاہر نہ کرے۔استاد کے خراب برتاؤ کا بچوں پر بہت برا اثر مرتب ہوتاہے اور بچے استاد کی شکل دیکھ کر ہی تعلیم سے متنفر ہوجاتے ہیں۔ مختصرا اساتذہ اپنے برتاؤ میں توازن برقرار رکھیں۔ بدمزاجی اور چڑچڑاپن اگر استاد کے مزاج میں پایا بھی جائے تب بھی وہ محض اپنی ایک ادنیٰ کوشش سے اپنے خراب برتاؤ اور حوصلہ شکن طرزعمل پر قابو پاسکتے ہیں۔اپنی پریشانی ،افتادمزاجی اور چڑچڑے پن پر صبر و تحمل اور شگفتگی کا ایک خوش نما پردہ تان دیں۔استاد اگر اپنی بدمزاجی اور اکھڑپن پر قابو نہیں پائے گا تب بچوں کے ذہنوں پر اس کے بہت خراب اثرات مرتب ہوں گے اور بچے سیکھنا تو کجا کمرۂ جماعت میں گھٹن محسو س کرنے لگیں گے۔ استاد کا خراب برتاؤ اور طرزعمل بچوں کے لئے پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں وہ سبق پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے استاد کے عجیب و غریب برتاؤ پر دھیان دینے لگتے ہیں۔بدمزاجی ،بدتمیزی اورخراب برتاؤکا فقدان اور صبر و تحمل استاد کی شخصیت میں پائے جانے والے وہ اعلیٰ اوصاف ہیں جو طلبہ پر صحت مند اثرات مرتب کرتے ہیں۔ انہی اوصاف کی بدولت استاد بچوں کے دل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجاتا ہے۔ استاد کتاب کے ذریعے نہیں بلکہ اپنی شخصیت کے ذریعے طلبہ میں صحت مند نظریات کو فروغ دیتا ہے۔طلبہ کو نصابی معلومات نہیں بلکہ استاد کی شخصیت مرعوب کرتی ہے۔استا د اپنی شخصیت کے ذریعہ موثر تدریس کو ممکن بنا تا ہے۔طلبہ نصابی سوالات کا نہیں بلکہ استاد کے طرزعمل اور برتاؤ کا جواب دیتے ہیں۔ عدم برداشت ، بچوں کی باتوں کو درخور اعتناء نہ سمجھنا یا پھر عدم صبری سے سماعت کرنا،جلد مشتعل ہوجانا(Short-temperedness)،پین یا چاک سے کھیلنا ،ان کو مسلسل حرکت دینا یا اچھالتے رہنا، کمرۂ جماعت میں باربار ادھر سے ادھر گھومنا اور پھرتے رہنا وغیر ہ اساتذہ میں برتاؤ اور طرزعمل کی پائی جانے والی عام خرابیاں ہیں۔

درس و تدریس ہی نہیں بلکہ ہر کامیابی میں سنجیدہ حکمت عملی کا عمل دخل ہوتاہے۔کامیاب اکتساب اور موثر درس و تدریس میں بھی حکمت عملی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ کمرۂ جماعت کے موثر انتظام و انصرام کو موثر تدریس اور کا میاب اکتساب کی دلیل کہا گیاہے۔ حکمت عملی کے زیر اثراستاد کمرۂ جماعت پر قابو اور کنٹرول قائم رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔کمرۂ جماعت اپنی تمام تر نیرنگیوں، رونق اور مسائل کی وجہ سے انفرادی حیثیترکھتا ہے۔تمام ماہرین تعلیم و نفسیات کا اس بات پر اجماع ہے کہ طلبہ اپنے استاد کے برتاؤ، طرزتکلم ، نشست و برخواست کے طریقوں سے راست طور پر یا بلاواسطہ متاثر ہوتے ہیں۔استاد کی اسی اثر پذیری کی وجہ سے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کی اصطلاح میں اسے ’ ’مخفی نصاب ‘‘کہا گیا ہے۔ درس و تدریس اور اکتساب میں استاد کے برتاؤ،انداز گفتگو،لباس ،وضع قطع اور نشست و برخواست کے طور طریقوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔کمرۂ جماعت میں تدریسی سرگرمیوں کے دوران استاد کا محتاط عمل و ردعمل،موثر انداز میں سبق کی تدریس،خاص معلومات کی ترسیل کے لئے سوالات ،افہام و تفہیم سے کام لینا،کمرۂ جماعت کے بوجھل پن کو دور کرنے کے لئے حس مزاح سے کام لینا تاکہ طلبہ استاد سے بات چیت اور سوالات کرنے میں تذبذب اور تامل کا شکار نہ ہونے پائیں یہ ایسے عناصر ہیں جن کو استاد اپنا کر کمرۂ جماعت کی تاثیریت کو فروغ اور اکتساب کو عروج عطا کرسکتا ہے۔اکثر اساتذہ معلومات کی ترسیل اور کمرۂ جماعت کے نظم و نسق میں بات چیت کے ہنر سے نا آشنا ہونے کے وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں۔بات چیت اور طرزتکلم کی بیشتر خرابیوں کی وجہ درجہ ذیل مسائل ہوتے ہیں۔
(1) اساتذہ کھلے ذہن کے مالک نہ ہوتوطلبہ کے مسائل کو ان کے نکتہ نظر سے نہیں دیکھ پاتے ہیں جس کی وجہ سے موثرپیغام رسانی اور تال میل پیدا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
(2)طلبہ کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے یا پھر ان کی باتوں کی سماعت میں عدم برداشت کا مظاہر ہ کر بیٹھتے ہیں۔
(3)طلبہ کے متنوع ومختلف نظریات کو قبول کرنے میں مزاحمت سے کام لیتے ہیں یا پھر تامل سے کام لیتے ہیں جس کی وجہ سے پیغام رسانی میں ناکام ہوجاتے ہیں اور گفتگو تاثیر سے عاری ہوجاتی ہے۔
(4)طلبہ سے گفتگو کے وقت ان کی باتوں پر دھیان اور توجہ نہیں دیتے ہیں ان کی باتوں کو بے دلی سے سنتے ہیں جس کی وجہ سے بچے سوچتے ہیں کہ ان کی گفتگو استاد کے لئے کسی اہمیت کی حامل نہیں ہے ۔بچوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ استاد سے بات کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرتے ہوئے اساتذہ اپنے کمرۂ جماعت کے طرزعمل ،باہمی تعامل اور گفتگو میں بہتری پیدا کرسکتے ہیں ۔کمرۂ جماعت کی سرگرمیوں کو سہل اور موثر انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔
(1)طلبہ کی کسی بھی ناکامی پر ناپسندیدہ ،دل آزار اور حوصلہ شکن تبصرے سے گریز کریں۔حوصلہ شکن منفی فقرے طلبہ کی عزت نفس کو مجروح ،حوصلوں کو پست کردیتے ہیں جس کے بر ے اثرات اکتساب پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
(2) طلبہ کے مسائل کی ہمددرانہ سماعت کو ممکن بنائیں۔کئی موقعوں پر دیکھنے میں آیا ہے کہ اساتذہ نے طلبہ کے اظہار کویا تودرخور اعتنا ء نہیں سمجھا یا پھر ان کی سماعت میں حقیقی دلچسپی نہیں دکھائی۔
(3)طلبہ کو برے اور خراب القاب اور ناموں سے پکارنے سے اجتناب ضروری ہے۔دوسرے بچوں کے سامنے ان پر تنقید کرنے سے باز رہیں۔ استاد کا انداز تخاطب اور عمل تحقیر آمیز نہ ہو۔بچوں کی عزت نفس کا ہرحال لحاظ رکھا جائے۔استاد کا تحکمانہ اور تکلیف دہ برتاؤ استاد شاگرد کے رشتے پر آری کا کام کرتا ہے۔
(4)طلبہ کے سامنے اپنے ساتھی اساتذہ اور دیگر لوگوں کے متعلق شخصی فقرے بازے سے گریز کریں۔بچے عواقب و نتائج سے بے خبر رہتے ہیں اور کمرۂ جماعت میں سنے گئے جملوں کو دیگر اساتذہ یا لوگوں کے سامنے دہراتے ہیں جس کی وجہ سے حالات دھماکو اور ابتر ہوجاتے ہیں۔تعلیمی ماحول کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔
(5)درس و تدریس میں جوش و ولولہ ،غلطیوں کا اعتراف،خوش مزاجی،سنجیدگی اور متانت،حس مزاح وغیرہ اظہارکے ایسے وسیلے ہیں جو طلبہ کے جذبے ،شوق اور اشتیاق کو فروغ دیتے ہیں۔استاد کے یہ اوصاف اسے طلبہ میں پسندیدہ اور مقبول بنادیتے ہیں۔
(6)کمرۂ جماعت میں وقت پر پہنچے ۔ہر حال میں تاخیر سے بچیں۔اگر حالات آپ کو کبھی کمرۂ جماعت میں وقت پر حاضری سے باز بھی رکھیں تب طلبہ کو تاخیر سے پہنچنے کی اطلاع دیں اور انھیں اپنی حاضری تک کسی سرگرمی میں مشغول رہنے کی واضح ہدایات بھی پہنچادیں۔
(7)طلبہ کو ان کے نام لے کر مخاطب کرنے سے استاد اور شاگرد میں شخصی روابط مستحکم ہوتے ہیں۔ استاد جب طلبہ کو ان کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے کوئی پیغام یا ہدایت باہم پہنچاتا ہے تب طلبہ اس ہدایت کو شخصی پیغام سے تعبیر کرتے ہوئے توجہ دیتے ہیں۔اساتذہ ہمیشہ تما م طلبہ کے نام یا د رکھے اور ان کو ان کے صحیح نام سے پکاریں۔
(8)بیتے دن کی تمام ناگوار باتوں ،یادوں اور واقعات کو پس پشت ڈال کر ہر نئے دن کا جوش ولولے اور خوشی سے استقبال کریں۔ہر دن کو گزشتہ دن سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
(9)ہمیشہ اپنے تدریسی اور انتظامی امور میں ہی الجھے نہ رہیں۔طلبہ سے گفت و شنید کے لئے وقت نکالیں تاکہ طلبہ میں اعتماد کی فضاء بحال کی جا سکے اور طلبہ محسوس کریں کہ ان کا استاد ان کی ضرورت کے وقت ہمیشہ موجو د رہتا ہے۔

استاد کے تدریسی تجربات ،برتاؤ ،انداز گفتگو وغیرہ پر طلبہ کے اکتساب کا دارو مدار ہوتا ہے۔ دراصل تعلیم استاد کے تدریسی تجربات اور طلبہ کے اکتسابی تجربات کا دوسرا نام ہے۔درس و تدریس کی تاثیر اور اکتساب کی کامیابی کا استاد کی شخصیت پر انحصارہوتا ہے۔تدریس اس وقت ہی موثر اور کامیاب ہوتی ہے جب استاد طلبہ کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوتاہے۔پیشہ تدریس ایک مقدس پیشہ ہے اور اس میں نام اور کمال حاصل کرنے کے لئے خود کو علم کے سمندر میں غرقاب کرنا ضروری ہے۔اپنے پیشے سے دلچسپی رکھنے والے اساتذہ ہی درس و تدریس میں کامیابی حاصل کر تے ہیں۔ایک دیانت دار اور فرض شناس استاد درس و تدریس کو محض ایک نوکر ی یا کام سمجھ کر انجام نہیں دیتا بلکہ درس و تدریس اس کی زندگی کا مقصد اور شعار ہوتا ہے۔درس و تدریس کی غیر افادیت میں پیشہ سے اساتذہ کی عدم دلچسپی بھی ایک اہم وجہ ہے۔تدریس کو دلچسپ بنانے میں استاد کی دل کش شخصیت کا بڑا دخل ہوتاہے۔ایک لائق استاد ہی اپنے شاگرد وں کی صلاحیتوں کو جلا دے سکتا ہے۔اساتذہ کے لئے طلبہ کی تعلیم و تربیت سے پہلے اپنی تعلیم و تربیت اور تنظیم ذات پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف
کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سو

farooq tahir
About the Author: farooq tahir Read More Articles by farooq tahir: 131 Articles with 237550 views I am an educator lives in Hyderabad and a government teacher in Hyderabad Deccan,telangana State of India.. View More