فلسفہ ٔ شہادت حسین ؓاور درس کربلا

 اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے ،کبھی بھوک افلاس سے تو کبھی اولاد کی کمی وزیادتی سے، کبھی بے شمار زرق عطاء کرکے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے (کبھی )خوف اور (کبھی)بھوک اور (کبھی) جان ومال اور ثمرات (دنیاوی نعمتوں اور اولاد) کی کمی کے ذریعے ۔اور (ایسے حالات) میں صبر کرنے والوں کو (جنت) کی بشارت دیجئے۔( بقرہ: 155)

ایک ایسا مقام ہے جس کو اﷲ تعالیٰ بہت پسند فرماتے ہیں وہ مقام اﷲ کے عشق میں فنا ہو کر صرف اسی کو راضی کرنے کیلئے اپنی جان کی بازی تک لگا کر مقام شہادت حاصل کرنا ہے ۔ارشاد ہوتا ہے کہ اﷲ کو دو قطرے بہت پسند ہیں ایک اﷲ کے خوف سے آنکھ سے نکلنے والا آنسو کا قطرہ اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اﷲ کی رضا میں زمین پر گرتا ہے ،شہید کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اسے اعلیٰ عطاء کرکے اس کا نظارہ کروا دیا جاتا ہے۔گویامقام شہادت ایک عظیم مرتبے کا نام ہے جو ہمارے شعور سے بالاتر ہے اس مقام کو اﷲ اور شہید ہی بہتر جانتے ہیں ۔

فلسفۂ شہادت پر قرآن مجید فرقان حمید نے متعدد مقامات پربڑے لطیف ،محبت سے لبریز انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو ،بلکہ وہ زندہ ہیں ،لیکن تمہیں(ان کی زندگی کا) شعور نہیں (بقرہ:154) دوسرے مقام پر فرمایا اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں قتل کئے گئے انہیں مردہ نہ سمجھو ،بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جا تا ہے (ال عمران:170)

کیا مقام ہے ان عظیم لوگوں کا جو اﷲ کے راستے پر سردھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں اس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کا پاک ارشاد ہے کہ بلا شبہ جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اﷲ ہے ،پھر اس پر ثابت قدم رہے ،ان پر فرشتے اترتے ہیں (اور بشارت دیتے ہیں )کہ تمہیں نہ تو کسی (آنے والے خطرے )کا خوف ہونا چاہیے اور نہ ہی( کسی گذشتہ بات کا)رنج وملال ،اس جنت کی خوشخبری سنو ،جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ (حم السجدہ:23 )

اسی مقام شہادت کی خواہش ہمارے پیارے آقا ومولا حضرت سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ نے بھی فرمائی، آپ ﷺ نے فرمایا میری آرزو ہے کہ میں اﷲ کی راہ میں شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں ،پھر شہید کیا جاؤں،پھر زندہ کیا جاؤں۔پھر شہید کیا جاؤں۔ (صحیح بخاری ،صحیح مسلم)

اﷲ تعالیٰ کو یہ کسی قیمت پر قبول نہ تھاکہ محبوب کائنات پر کسی کی تلوار چلتی اور آپ ﷺ شہید ہو جاتے اور کوئی اﷲ ورسول ﷺ کا دشمن یہ دعویٰ کرتا کہ میں نے اﷲ کے محبوبﷺ کو شہید کیا ہے ۔اس مقام کو عطرت رسول ﷺ،اہل بیت رسول،جگر گوشہ ٔ رسول،خاتون جنت فاطمتہ الزہرہ ؓ کے لخت جگر سیدنا امام حسین ؓ اور اہل بیت عظام ؓ کے مقدر میں لکھ کر اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی خواہش بھی پوری فرما دی۔اس عظیم قربانی کے بارے میں اﷲ کے پیغمبر ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے پہلے ہی آگاہ فرما دیا تھا روایات میں آتا ہے کہ حضرت بی بی ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ پیغمبر اسلامﷺ ؓ امام حسین ؓ کو اپنے سینہ اقدس پر لٹا کر پیار فرما رہے تھے اور اس کے ساتھ روبھی رہے تھے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ رونے کا سبب کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے ام سلمہ ! ابھی جبرائیل وحی لیکر آئے تھے اور ساتھ یہ مٹی بھی لائے تھے اور کہا کہ آپ ﷺ کا یہ نواسہ ؓ تین دن بھوکا پیاسا میدان کربلا میں شہید کردیا جائے گا ام سلمہ ؓ یہ مٹی اسی جگہ کی ہے اسے حفاظت سے رکھنا اور جس دن یہ مٹی سرخ ہوجائے تو سمجھ لینا میرا نواسہ شہید ہوگیا ہے ام سلمہ ؓ نے ایک شیشی میں وہ مٹی ڈال دی ان کا روزانہ کامعمول تھا کہ اس شیشی پر نگاہ کرتیں عاشورہ محرم الحرام کے دن قریب عصر ام سلمہ ؓ نے پیغمبر اسلام ﷺ کو خواب میں دیکھا بہت پریشان ہیں سراقدس پرعمامہ مبارک نہیں ہے اور خاک آلود ہیں عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ آپ ﷺ کی یہ کیفیت کیا ہے ؟ فرمایا تمہیں معلوم نہیں میرا نواسہ حسین ؓ کربلامیں شہید ہوگیا ہے ،ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں گھبرا کر بیدار ہوئی اب جو شیشی پر نگاہ پڑھی تو دیکھا وہ خون آلود ہوچکی تھی۔اسی لئے تو اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں" ، "یعنی حسین ؓمیرے جگر کا ٹکڑا ہے ۔میرے نسب کا امین ہے اور میری برکات اور کمالات کا ظہور انہی سے ہوگا"اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں (یعنی میرا آئین ،میرا نظام،میرا قانون،اپنے اوپر مکمل طور پر لاگو کریں)اس ارشاد کی تکمیل کا عملی مظاہرہ میدان کرب وبلا میں شہدائے کربلاؓ نے احسن انداز سے کیا۔

میدان کرب وبلا میں سیدنا امام حسین ؓ کی قیادت وسیادت میں جس طرح جرات وبہادری کے ساتھ اہل بیت عطام ؓ اور رفقائے امام ؓ نے شہادتیں پیش کیں وہ تاریخ انسانی میں سنہری حروف میں لکھی جاچکی ہیں ۔قیامت تک جب بھی صابرین کا تذکرہ کیا جائے گا تو دنیا کا ہر انصاف پسند صبر حسین ؓ کو سلام پیش کئے بغیر نہ رہ سکے گا ،دیکھئے اس منزل عشق میں امام حسین ؓ کا صبر کس قدر اعلیٰ وارفع درجے کاکامل نمونہ تھا کہ امام حسین ؓ بڑے اطمینان ،صبر وتحمل ،بردباری سے ساتھ ایک ایک کرکے شہدا کو خیموں میں لاتے ہیں مگر صبر کا دامن نہیں چھوڑتے۔دنیا نے بڑے بڑے صابر دیکھے مگر ایک ،دو یا تین اموات کو دیکھ کر حواس کھو بیٹھتے ہیں مگر قربان جاؤں صبرامام حسین ؓ پر کہ بہتر سے زائد لوگ مقام شہادت پاتے جاتے ہیں امام حسین ؓ ہی نہیں بلکہ اہل بیت ؓ کی مقدس،باپردہ،شرم وحیا کی پیکر ،پاک باز خواتین بھی صبر کا عظیم مظاہرہ کرتی ہیں ۔

کربلا کے میدان میں اہل بیت ؓکا عظیم قربانی صبر کرنا درحقیقت انسانیت کو یہ بتانا مقصود ہے کہ شہادت ایک عظیم مقام کا نام ہے اس کے حصول کیلئے تمنا کی جاتی ہے ، شہادت پر ماتم ،نوحہ اور سوگ نہیں کیا جاتا ۔ اسی لئے آج بھی جب کسی کو شہادت نصیب ہوتی ہے تو شہید کے اہل خانہ کو مبارکباد دی جاتی ہے کہ آپ کے فرد خانہ نے شہادت کا مقام پا لیا۔مسلمان شہادت پر فخر کرتے ہیں،شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اس عظیم رتبے کو پانے کے ہر وقت آرزو مند رہتے ہیں۔

قارئین کرام!ماہ محرم الحرام ہرسال جب آتا ہے تو اپنے ساتھ ایک سبق آموز پیغام لاتا ہے جس کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ہرسال اہل ایمان کے اذہان وقلوب پر ایک دستک دی جاتی ہے کہ اے دنیا کے انسانو! تمہارا خالق ومالک اﷲ رب العزت ہے ،اسی کو ہی حاکم مانو ،آئین وقانون ،حکومت (خلافت)اسی کے لئے ہے ،انسانوں کو یہ حق نہیں کہ اﷲ کے مقابلے میں اپنا خود ساختہ نظام حکومت بنا کر لوگوں کو اپنا غلام بنائیں ،ایسا کرنے والے باغی اور طاغوت کہلائیں گے ، اس بغاوت کو دیکھ کر اس کی حمایت کرنے،تماشا دیکھنے والوں کے ساتھ بھی رعائیت نہیں کی جائے گی ۔سزا کے طور پر اﷲ ان سے اپنا نظام واپس لے لیا جائے گا ۔حضرت امام حسین ؓ اور اہل بیت عظام ؓ ودیگر شہدا ء کربلا ؓنے اپنے قیمتی جسموں کو اﷲ کے قیمتی نظام خلافت کی بقاء کی خاطر قربان کردیا تاکہ انسان صرف اور صرف اﷲ کے ہی غلام رہیں کوئی انسان دوسرے انسان کو اپنا غلام نہ بنا سکے ۔اس عظیم کاز کیلئے شہداء کربلاؓ نے عظیم قربانی پیش کرکے ابدی کامیابی حاصل کی ، شہادت کے اس عظیم سفر میں شہدائے کربلا نے قیامت تک آنے والے انسانوں کو یہ درس دیا کہ اے لوگو!اﷲ کے علاوہ کسی کے نظام ،آئین،قانون کو تسلیم نہ کرنا یہی ایک عابد کی سب سے بڑی عبادت ہے ،میرا ضمیر ہر وقت کربلا سے اس درس کی صدا سنتا ہے۔ اے اہل بصیرت !کیا تم بھی اس صدائے حق کو سنتے ہو ؟اگر سنتے ہوتو اس پر عمل کرو اگر نہیں سنتے تو سننے کی کوشش کرو ۔یہ صدائے حق" فمن یکفر بالطاغوت "کے کلمہ حق سے سرشار ہے ایسی لئے ہر انسان یہ کہنے پر مجبور ہے کہ تمہاری جرات وبہادری کو سلام"اے شہدائے کربلاؓ" ۔سارا زمانہ آج کہہ رہا ہے کہ "ہمارے ہیں شہدائے کربلاؓ" مگر افسوس کہ امام حسین ؓ اور شہدائے کربلا ؓ سے والہانہ محبت رکھنے والے مسلمان اسی نظام کو قائم ودائم رکھنے پربضد ہیں جسے شہدائے کربلا ؓ نے اپنی قربانیاں پیش کرکے ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔درس کربلا یہی ہے کہ اے مسلمانو! امر ہونا چاہتے ہوتو اﷲ کی زمین پر اﷲ کا نظام قائم کرنے میں اپنی زندگیاں لگا دو اگر نظام قائم نہ بھی ہو تو تمہاری یہ کوشش تمہارے لئے دنیا وآخرت میں کامیابی کی کلید ثابت ہوگی ۔

قارئین کرام !دنیا میں باطل نظام کا ایک گھپ اندھیرا چھایا ہوا ہے ایسے میں محمد عربی ﷺ کا کلمہ پڑھنے والوں کو فکر شہدائے کربلا ؓکو زندہ کرتے ہوئے میدان عمل میں اترنا ہوگا تا کہ دنیا سے ظلم وستم کی شب تاریک کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔یہ دنیا پھر جنت نظیروادی کا منظر دنیا کے سامنے پیش کرکے بتا سکے کہ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس دنیا میں بھیجا تھا۔

Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244311 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.