سننے میں شاید یہ عجیب لگے لیکن بحران کے شکار قطر کو
اپنی خودمختاری پر کسی قسم کے سمجھوتے سے بچنے کے لیے جہاں دیگر سیاسی و
غیر سیاسی عوامل کو یقینی بنانا ہے، وہیں اسے بڑی تعداد میں گائیں درکار
ہیں۔
ان کے بغیر 27 لاکھ افراد کی آبادی والا یہ چھوٹا سا خلیجی ملک اپنے شہریوں
کی خوراک کی ضروریات مقامی ذرائع سے پوری نہیں کر پائے گا۔ یعنی قطر کو
حالیہ بحران کے دوران خوراک کے لیے دوسرے ملکوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔
ماضی میں قطر کی اسی کمزوری کو اس کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ
تین ماہ سے زائد عرصے سے جاری بحران کی وجہ سے قطر کا سعودی عرب کے ساتھ
واحد زمینی رابطہ ختم ہو چکا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اس کے
ساتھ قطع تعلق کر رکھا ہے۔
|
|
صورتحال کا اعادہ کرتے ہوئے ایسا نظر آتا ہے کہ قطر اب جلد از جلد خوراک
میں خود کفالت چاہتا ہے۔ حال ہی میں دوحہ کے مضافات میں صحرا کے عین وسط
میں واقع بلدنا نامی ایک ڈیری فارم نے یورپ اور امریکہ سے ہولسٹین نسل کی
650 سے زائد گائیں درآمد کی ہیں جنہیں قطر ائیر ویز کی پروازوں کے ذریعے
دوحہ لایا گیا۔
انہیں خصوصی طور پر تیار کیے گئے ایئر کنڈیشنڈ گھروں میں رکھا گیا ہے جبکہ
آئندہ ماہ کے آغاز تک ایسی 3000 مزید گائیں دوحہ لائی جائیں گی۔ سنہ 2018
کے آغاز میں بھی 10 ہزار ہولسٹین نسل کی گائیں قطر کا ہوائی سفر کریں گی۔
بلدنا کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر جان جوزف ڈور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے
بتایا کہ آنے والے جانوروں کے لیے نئی عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں جو رواں
برس کے اختتام تک مکمل ہو جائیں گی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ بلدنا میں خطے کا سب سے بڑا روٹری پارلر بھی نصب کیا
جائے گی جہاں بیک وقت 100 گائیوں کے دودھ دوہنے کی سہولت میسر ہو گی۔ اس کے
علاوہ 80 پوائنٹس والے تین مزید پارلر بھی تعمیر کیے جائیں گے۔جان جوزف ڈور
نے بتایا کہ ڈیری فارمنگ سے متعلق تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں جن میں
نئی فیکٹریاں لگانا اور بچھڑوں کی افزائش کے لیے جگہوں کی تعمیر بھی شامل
ہے۔ ان کے مطابق اس پورے منصوبے پر تقریباٌ تین ارب قطری ریال کی سرمایہ
کاری کی جائے گی۔
اگر ان منصوبوں پر وقت پر عمل درآمد ہوا تو قطر رواں برس کے اختتام تک
یومیہ سو ٹن دودھ جبکہ آئندہ برس جون کے مہینے تک قطر14000 گائیوں سے 300
ٹن یومیہ دودھ حاصل کرنے کا ہدف پورا کر لے گا۔ اس طرح تازہ ڈیری کے لیے
قطر کا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر انحصار مکمل طور پر نہ صرف ختم
ہو جائے گا بلکہ وہ ڈیری اشیا برآمد کرنے کے قابل بھی ہوگا۔ بحران سے قبل
قطر پچاسی فیصد تک ڈیری اشیا کی ضروریات انہی دو ملکوں سے پوری کرتا تھا۔
|
|
بلدنا ڈیری فارم کے چیف ایگزیکٹیو کہتے ہیں کہ 'خوراک میں خود کفالت کے
حوالے سے قطر میں شعور پہلے سے موجود تھا۔ ہم بھی اس حوالے سے منصوبے پر
کام کر رہے تھے لیکن حالیہ بحران کی وجہ سے اس میں تیزی آ گئی ہے اور ہم
موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار تھے۔'
جان ڈور بنیادی طور پر آئرلیندڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔ گزشتہ کئی برس سے ڈیری
فارمنگ کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور اس خطے میں کام کرنے کا وسیع تجربہ
رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہولسٹین نسل کی گائے قطر میں لا کر پالنا
کاروباری لحاظ سے زیادہ سود مند ہوگا۔
ان کے مطابق 'ہر ایک کلو خوراک کے بدلے گائے آپ کو دو کلو دودھ دے گی۔ اور
پھر لوگوں کو تازہ دودھ اور دیگر مصنوعات گھر میں ہی میسر ہوں گی۔ میری نظر
میں یہ ہر طرح سے جیت کا سودا ہے۔'
ڈیری کی مصنوعات کے علاوہ قطر روزمرہ استعمال کی زرعی اجناس خصوصاً سبزیاں
یورپ اور دیگر ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ قطر جیسے صحرائی ملک میں بھی
کاشتکاری ممکن ہے، یہاں موجود تقریباً 1400 زرعی فارمز میں سے صرف 300
پیداواری لحاظ سے کارآمد ہیں اور ان میں بھی موسمی کاشتکاری ہوتی ہے جس سے
حاصل ہونے والی پیداوار سے ملک کی ضرورت کا 10 فیصد بھی پورا نہیں ہو پاتا
ہے۔
قطر کے جنوب میں واقع ایگری کو نامی زرعی فارم کے مینیجنگ ڈائریکٹر نصر
الخلف نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ گزشتہ تین برس سے کامیابی کے ساتھ اپنے
فارم پر تمام اقسام کی سبزیاں اُگا رہے ہیں۔
|
|
ان کا کہنا تھا ' قطر میں اپریل کے مہینے سے لے کر اکتوبر تک موسم انتہائی
گرم، خشک اور مرطوب رہتا ہے۔ ان مہینوں میں کاشتکاری ممکن نہیں ہو پاتی۔
لیکن ہمارا یہ پہلا فارم ہے جہاں سارا سال کاشتکاری کی جاتی ہے۔'
120000 مربع میٹر کے رقبے پر پر پھیلا یہ فارم گرین ہاؤس گھروں پر مشتمل ہے
جن میں جدید سائنسی طریقوں کے استعمال سے کھنمبیاں، ٹماٹر، لہسن، پیاز
وغیرہ اگائے جا رہے ہیں۔ آئندہ برس نصر الخلف اسے دُگنا کرنے کا ارادہ
رکھتے ہیں۔ سبزیوں کے علاوہ وہ پھل کاشت کرنے کا تجربہ بھی کر چکے ہیں جس
میں پپیتے کی فصل نے اچھے نتائج دیئے ہیں جبکہ سنگترے اور انار کی فصلوں کے
نتائج آنا باقی ہیں۔
نصرالخلف سمجھتے ہیں کہ قطری حکومت مقامی کاشتکاروں کے لیے آلات کی فراہمی
کے عمل اور جدید طریقوں کے حصول کو آسان اور سستا کرنے کے منصوبے پر عمل کر
رہی ہے۔
ایگری کو نامی زرعی فارم کے مینیجنگ ڈائریکٹر کہتے ہیں ' ہم بھی دیگر فارمز
کے ساتھ جدید تکنیک اور معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ آئندہ چند برس محنت
کرنی پڑے گی لیکن مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں ہم خود قطر کو خوراک مہیا کر
سکیں گے۔'
|
|
ان کا خیال ہے کہ مزید تین سے پانچ برس میں قطر سبزیوں کی پیداوار میں
خودکفیل ہو جائے گا تاہم وہ تمام تر اجناس جیسے کہ گنا یا مکئی نہیں اُگا
سکتے۔
نصر الخلف کہتے ہیں بڑے بڑے گودام بنا کر خوراک کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔
قطر کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق قطر کی حکومت ایسے گودام بنانے کا ٹھیکہ
ایک مقامی کمپنی کو دے چکی ہے۔
ان گوداموں میں تقریباٌ 30 لاکھ افراد کے لیے دو سال تک کی خوراک ذخیرہ کی
جا سکے گی۔ نصر الخلف کہتے ہیں کہ سنہ 2022 میں جب لوگ قطر میں ہونے والے
فٹ بال کے عالمی مقابلے دیکھنے آئیں گے تو انہیں مارکیٹ میں پھلوں اور
سبزیوں کی مقامی فصلیں ملیں گی۔
(بشکریہ : بی بی سی) |