موت آساں ہے، نہ زندگی……روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خون کی ہولی تاحال کھیلی جارہی ہے۔ موت کا رقص ابھی جاری ہے۔ مساجد، مدارس اور بستیوں کو آگ لگائی جارہی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو ذبح کیا جارہا ہے۔ خواتین کی عصمت دری کرکے قتل کیا جارہا ہے۔ بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کو زندہ دفنایا جارہا ہے۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ہر وہ ظلم کیا جارہا ہے، جو برما کے بدھسٹ درندے کرسکتے ہیں۔ عالمی دباؤ کے باوجود روہنگیا مسلمانوں پر حملوں اور جلاو گھیراؤ میں رتی بھر کمی نہیں آئی، بلکہ اضافہ ہوگیا ہے۔ ایمنسٹی نے تازہ رپورٹ میں باریک بینی سے سیٹلائٹ تصاویر کے ذریعے پانچ گاؤں کی نشاندہی کی جہاں جلاؤ گھراؤ ثابت کیا گیا ہے۔ بات یہیں ختم ہوجاتی تو دل شاید اتنا افسردہ نہ ہوتا، لیکن دھماکے کی اطلاع کے فوری بعد بنگلادیشی حکام نے تصدیق کی کہ تقریبا جمعہ کے روز سے ہی مزید روہنگیا مسلمانوں کی بنگلادیش آمد نہیں ہورہی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنے ذرائع، عینی شاہدین اور دیگر طریقوں سے معلومات یکجا کرکے بتایا ہے کہ بنگلا دیش آنے والے راستے میں بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہیں۔ رپورٹ میں مزید دل دہلانے والی بات یہ تھی کہ روہنگیا گاؤں پر حملے سے قبل بھاگنے والے راستوں پر بھی بارودی سرنگیں لگائی گئیں۔ رپورٹ پڑھ کر کسی بھی شخص کا پیمانہ صبر لبریز ہوسکتا ہے کہ کسی بھی غیر قانونی کارروائی میں ملوث فرد کو قرار واقعی سزا دینا تو صحیح ہوسکتا ہے، لیکن پوری کمیونٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی پالیسی کہاں کا انصاف ہے؟ رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ ارکان میں روہنگیا مسلمانوں کی منظم نسل کشی کے بعد جان بچاکر بھاگنے والوں کو باروی سرنگوں کے ذریعے موت کی نیند سلایا جارہا ہے، جو درندگی و سفاکیت کی انتہا ہے۔ برما کے دہشتگرد بدھسٹ روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں زندہ نہیں دیکھنا چاہتے، یہی وجہ ہے کہ وہ زندہ بچ کر بھاگ جانے والوں کو بھی قتل کر نے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق جمعہ سے ارکان میں روہنگیا مسلمانوں کی بستیاں جلانے میں تیزی آگئی ہے۔ حیوان صفت برمی رندے جنرل مے انگ لینگ کے اراکان کے دورے کے بعد مسلمانوں کے بقایا تمام آبادیوں کو جلانے کی مہم میں تیزی آگئی ہے۔ بوتھی ڈونگ کی پچاس فیصد آبادی پہلے ہی نذرآتش کی جاچکی ہے اور اب بقیہ آبادیوں میں آگ اور خون کا حیوانی کھیل شروع ہو گیا ہے۔ شاید اب کسی کو بھاگنے بھی نہیں دیا جارہا، سب کو جتماعی طور پر قتل کیا جارہا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ جمعہ سے بنگلادیش میں پہنچے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔

مصدقہ اطلاعات ہیں کہ ارکان صوبے میں برما کی خونخوار درندہ فوج اور پولیس بدھ دہشتگروں کے ساتھ مل کر اسی طرح روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے جس طرح پہلے کر رہی تھی، اس میں کوئی کمی واقعی نہیں ہوئی۔ اب بھی پہلے کی طرح ان کی بستیوں اور زندہ انسانوں کو جلایا جارہا ہے اور خواتین کی عصمت دری کے بعد انہیں قتل کیا جارہا ہے۔بنگلا دیش میں مہاجر کیمپوں میں روہنگیا مسلمانوں کا علاج کرنے والے اقوام متحدہ کے ڈاکٹروں اور طبی ماہرین نے بتایا کہ انہوں نے درجنوں روہنگیا خواتین کے جسموں پر خوفناک جنسی تشدد کے نشانات دیکھے جنہیں دیکھ کر حیوان بھی شرما جائیں۔ اقوام متحدہ کے طبی ماہرین کے اس انکشاف کے بعد میانمار کی مسلح افواج کی جانب سے روہنگیا خواتین پر جنسی تشدد کی تصدیق ہوگئی ہے۔ اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرین (آئی او ایم) کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ انہوں نے سیکڑوں خواتین کا اعلاج کیا جن کے جسموں پر جنسی حملوں کے خوفناک گھاؤ تھے۔ برمی فوجی مسلمان خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان پر تشدد بھی کرتی ہے۔ برمی فوجیوں نے روہنگیا خواتین پر جس بہیمانہ طریقے سے جنسی تشدد کیا ہے، اس کو دیکھ کر شیطانیت بھی شرمسار ہے۔ اقوام متحدہ کے ڈاکٹرز اور امدادی کارکن عموما کسی ملک کی مسلح افواج کے ہاتھوں جنسی زیادتیوں پر بات نہیں کرتے، لیکن روہنگیا خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی درندگی کا مظاہرہ اتنا سنگین ہے کہ وہ بھی بولنے پر مجبور ہوگئے۔ امدادی تنظیموں کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ زیادتی کا شکار 350 سے زاید افراد کی حالت اتنی خراب تھی کہ انہیں جان بچانے والی طبی امداد فراہم کرنی پڑی۔

میانمار میں وحشیانہ مظالم کرکے روہنگیا مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے۔ ایک بڑی تعداد جنگلوں میں پناہ لیے ہوئے ہے اور بہت سے لوگ سمندر کی لہروں کی نذر ہوگئے ہیں۔ پانچ لاکھ افرا جان بچا کر بنگلا یش پہنچے ہیں، جن میں سے شاید ہی کوئی خاندان مکمل ہو۔ کسی کا باپ قتل ہوگیا تو کسی کا بیٹا ذبح کریا گیا، کسی کی ماں کو زندہ جلادیا گیا تو کسی کی بہن کو برما کی بدھسٹ درندوں نے عصمت دری کے بعد قتل کردیا ہے۔بنگلادیش کے کیمپوں میں بھی مہاجرین کی حالت اچھی نہیں۔ بنگلادیش حکومت کی طرف سے روہنگیا مہاجروں کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا جارہا ہے، وہاں ان کے پاس نہ رہنے کی کوئی جگہ ہے اور نہ ہی پہننے اور کھانے کے لیے کچھ ہے۔ کھلے آسمان تلے بے یارومددگار لاکھوں روہنگیا امداد کے منتظر ہیں، لیکن بنگلادیش حکومت کی طرف سے امدادی تنظیموں کو امداد کی بھی کھلی اجازت نہیں ہے۔ بنگلادیش میں روہنگیا مسلمانوں کو جہاں اور بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے، وہیں بنگلادیش نے روہنگیا پناہ گزینوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے موبائل فون کے استعمال پر پابندی عاید کردی ہے، تاکہ وہ اپنی مشکلات کے بارے میں کسی کو بتا نہ سکیں۔ بنگلادیشی حکومت نے ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کو روہنگیائی افراد کو موبائل فون کنکشن فروخت کرنے سے سختی سے منع کردیا ہے اور اس بات کا پابند کیا ہے کہ کسی بھی پناہ گزین کو سمِ فروخت نہ کی جائے، جب کہ حکومت نے موبائل کنکشن فراہم کرنے والی کمپنیوں کو مذکورہ پابندی کی خلاف ورزی پر جرمانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میانمار حکومت کی مسلم کش کارروائیوں کے بعد ریاست راکھائن سے پانچ لاکھ روہنگیا ہجرت کرکے بنگلادیش میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جنہیں خوراک کی کمی ،ادویات کی عدم فراہمی اور رہائش کی مشکلات درپیش ہیں۔

تارکین وطن سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلپو گرانڈی نے کہا ہے کہ بنگلا دیش کے کوکس بازار کے خیموں میں جن حالات میں انہوں نے روہنگیا مسلمانوں کو رہتے ہوئے دیکھا ہے، اس سے انہیں کافی صدمہ پہنچا ہے۔ انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات چیت میں کہا کہ سب سے بڑا چیلنج انہیں رہنے کے لیے ایک مناسب جگہ فراہم کرنا ہے۔ جس علاقے میں ان لوگوں نے عارضی کیمپ قائم کیے ہیں، وہ بہت چھوٹی جگہ ہے اور وہاں پہلے ہی سے بہت گھنی آبادی ہے۔اے این این کے مطابق بنگلا دیش آنے والے روہنگیا مسلمانوں کے مسائل ختم نہیں ہو رہے، میڈیکل کیمپ میں مریضوں کی تعداد زیادہ جبکہ ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ ضلع کوکس بازار کے کوتوپالونگ کیمپ میں ڈاکٹروں کی کمی نے روہنگیا مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ڈاکٹر عبدالرزاق کا کہنا ہے کہ لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ پیٹ کی بیماریاں عام ہیں۔ بچے غذائیت اور جسم میں پانی کی کمی کا شکار ہیں، جو جان لیوا ہو سکتی ہے۔ طویل سفر پیدل کرنے کی وجہ سے مریضوں کی اکثریت شدید بخار میں مبتلا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے خبردار کیا ہے کہ بنگلا دیش میں کاکس بازار میں قائم پناہ گزین کیمپ میں ہیضہ کی وباء پھوٹنے کے خدشات لاحق ہیں، جہاں ساڑھے 4 لاکھ سے زاید افراد مقیم ہیں۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن بارڈر کے قریب موجود 68 کیمپ جو کہ تیزی سے دنیا کی بڑی مہاجر بستی میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ لوگوں کو پینے کے صاف پانی و غذا اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔ پانی سے پیدا بیماریوں میں سب سے زیادہ ہیضہ کی وبا پھوٹنے کا خطرہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا مزید کہنا ہے کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے اقدامات جاری ہیں، تا ہم صورتحال تشویشناک ہے۔ مزید برآمد موبائل میڈیکل سینٹر تشکیل دے دیے گئے ہیں۔ بنگلا دیشی حکام صحت کے مطابق ایک ماہ میں4500 اسہال کے مریضوں کا علاج کیا گیا ہے، جبکہ 80,000 بچوں کو خسرہ اور پولیو کی ویکسیئن دی گئی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق گندے پانی اور صاف پانی کی قلت کی وجہ سے صحت کی صورتحال بہت خراب ہے۔ نوجوان مر رہے ہیں، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب بھارتی حکومت نے بھی روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک سے دور رکھنے کے لیے اقدامات کرلیے ہیں۔ بھارت نے بنگلادیش سے ملحق سرحد پر سیکورٹی میں اضافہ کردیا ہے۔ سیکورٹی فورسزکو پناہ گزینوں کا داخلہ روکنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کھلی اجازت دے دی گئی ہے۔اس کا مقصد میانمار سے بنگلادیش میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کو بھارتی سرحد میں داخلے سے روکنا ہے۔ اس سلسلے میں سیکورٹی فورسز مرچوں کے اسپرے کے علاوہ اسٹن گرینیڈ بھی استعمال کررہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت نے بھی روہنگیا مسلمانوں پر حملے شروع کردیے ہیں۔ گاندھی جی کے ملک کی حکومت کا کہنا ہے کہ نہتے روہنگیا اْن کے لیے ’’سیکورٹی رسک‘‘ ہیں، صرف یہی نہیں، بلکہ بھارتی حکومت پہلے سے موجود 40 ہزار روہنگیا مسلمانوں کو بے دخل کرنے کے درپے ہیں۔ بھارت نے اپنے ہاں پناہ گزیں روہنگیا مسلمانوں کو بے دخل کرنے کے لیے انہیں پاکستانی ایجنسی اور شدت پسند تنظیم داعش کا ایجنٹ قرار دے دیا۔ بھارت میں تقریبا 40 ہزار سے زاید روہنگیا مسلمان کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جو جان بچاکر بنگلادیش اور بھارت میں پہنچ چکے ہیں، وہ زندگی کو حاصل کرنے میں ناکام ہیں، کیونکہ یہاں انہیں اتنی مشکلات ہیں کہ روز مرتے ہیں۔ بے بس و لاچار روہنگیا مسلمانوں پر وحشیانہ حملوں کے بعد روہنگیا کے لاچار مسلمانوں کے پاس شاید صرف ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ صرف موت کا انتظار کریں اور انتخاب کریں کہ سب سے آسان موت گولی لگنے سے ہوتی ہے یا جلائے جانے سے، کلہاڑیوں کے وار سے ہوتی ہے یا سنگسار کرنے سے، گہرے دریا میں پھینک کر ڈوبنے سے ہوتی ہے یا گہرا گڑھا کھود کر زندہ دفن کرنے سے۔ اجتماعی زیادتی کے بعد چاقوؤں کے وار سے ہوتی ہے یا کسی ماں کا شیر خوار بچہ دریا میں پھینک کر ماں کا گلا گھونٹنے سے، خوف سے جنگلوں میں بھاگ کر بھوکے پیاسے مرنے سے یا بارودی سرنگوں سے ٹکرانے سے۔ مرنے کے لیے اتنے وسیع طریقے شاید دنیا میں روہنگیا مسلمانوں سے قبل کسی گروہ کو دستیاب نہ ہوسکے ہوں۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں پر تاریخ انسانی کا بدترین مظالم کیے جارہے ہیں، لیکن مسلم ممالک سمیت عالمی براری یہ مظالم رکوانے میں بری طرح ناکام ہے۔ جدید دنیا میں روہنگیا انسانوں کے لیے وحشیانہ موت کے آپشنز کے علاوہ دینے کو کچھ نہیں بچا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور اقوام متحدہ بھی بے بس نظر آ رہی ہیں، جو ان سب کے کرادار پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 630512 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.