پیارا ملک ہے پاکستان ۔ایک مطالعہ

’’پیارا ملک ہے پاکستان ‘‘ترکی سیاح ڈاکٹر خلیق طوق ارکا سفر نامہ ہے جو کہ ۲۰۰۷میں شائع ہوا ۔ پاکستان میں ڈیڑھ یا دو ماہ کے قیام کے دوران اپنے تجربات اور مشاہدات کو انہوں نے معراج جامی صاحب کے کہنے پر قلم بند کیا۔ یہ سفر نامہ کتابی صورت میں شائع ہونے سے قبل لندن کے ایک مجلہ ’’پرواز‘‘ میں شائع ہو تا رہا۔ ڈاکٹر خلیق طوق استنبول یونی ور سٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ ہیں ۔ان کی شریک حیات کا تعلق پنجاب سے ہے اس لیے وہ ترکی اور اردو کے علاوہ پنجابی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں ۔ سفرنامہ کاانتساب ترکی اور پاکستان کے ان لوگوں کے نام ہے جن میں باہمی دوستی اور برادری کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔ سفرنامے کا آغاز’ ’اپنی بات ‘‘کے عنوان سے ہوتا ہے جس میں ڈاکٹر خلیق طو ق ار نے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے ۔ ’’سفر ہے شرط‘‘ کے عنوان سے معراج جامی صاحب نے ڈاکٹر خلیق طوق ار کے بارے میں چند ضروری معلومات کے ساتھ ساتھ اس سفرنامے کی اہمیت بھی واضح کی ہے کہ یہ سفرنامہ ایک تاریخی دستاویز بھی ہے ۔ آغاز سفر ۲ اگست ۲۰۰۳ سے ہوتا ہے ۔سفر کے آغاز سے پہلے سامان کی پیکنگ ،فلائٹ مس ہوجانے کے خوف سے چھا جانے والی بد حواسی کا خوب نقشہ کھینچا ہے ۔ جہاز کے آرام دہ ماحول اور جہاز کے عملے کی خوش اخلاقی کو بھی سراہا ہے۔ شبلی نعمانی نے سفرنامہ کی صنف کیلئے ایک اصول یہ بھی بتایا تھا کہ سفر نامہ نگار مقامات کے تاریخی و جغرافیائی پس منظر کو ضرور بیان کرے تا کہ قاری ان مقامات کے متعلق ہر قسم کی معلومات سے با خبر ہو سکے ۔اردو کے بیش تر سفر نامہ نگاروں نے اسی اصول کو پیش نظر رکھا اور ڈاکٹر خلیق طوق ار نے بھی اسی روایت کو اپنایا ۔’’ایہہ وے میرا سوہنا شہر لاہور‘‘میں ڈاکٹر خلیق طوق ار لاہور کو پاکستان کا تہذیبی اور تاریخی گہوارہ پنجاب کا دل اور اپنی محبت کا شہر قرار دیتے ہیں ۔لاہور کے نام کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ’ رام چندرکے بیٹے لو ہونے اس کی بنیاد رکھی تھی اسی مناسبت سے اس شہر کا نام لاہور ہے لیکن’ تحفۃ الوصلین ‘نامی رسالے میں منقول ہے کہ اس شہر کی بنیاد پانڈوں کے خاندان کی اولاد راجہ پریچھت نے رکھی تھی اور بعد میں راجا بکر ماجیت ،سمندر پال جوگی نے اس کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا‘۔ لاہور پر ماضی میں حکومت کر نے والے مختلف خاندانوں مثلاً مچ خاندان ،غوریوں اورمغلوں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ مغلوں کے دور میں علم کا اقتدار بلند ہوا اور شہر میں خوب صورت شہ پارے تعمیر ہونے لگے ۔شالامار باغ ،مقبرہ شاہ جہان ،بادشاہی مسجد وغیرہ مغلوں کے فن تعمیر کی علامتیں ہیں ۔اردو کے پہلے شاعر مسعود سعد سلمان کا ذکر کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اس شہر کے قید خانوں میں زندگی بسر کی تھی ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ لاہور شہر کا ذکر ہو اور شاعر مشرق کو یاد نہ کیا جائے ۔ ڈاکٹر خلیق طوق ار بھی انہیں یاد کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اس شہر میں تعلیم پائی اور اپنے تصورات کی روشنی پھیلائی اور یہیں دفن ہوئے ۔ مختلف تاریخی مقامات پر گزرے حسین لمحات کو یادگار بنانے کیلئے اپنے اہل خانہ اور سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ بنائی گئی تصاویر بھی سفرنامہ میں شامل ہیں۔ باغ جناح کی سیر کر تے ہوئے وہ اس باغ کے قیام کی تاریخ بھی بتاتے ہیں کہ یہ باغ ۱۸۵۷ میں بنایا گیا اس کا پہلا نام گورنمنٹ ایگری ہارٹی کلچر گارڈ ن رکھا گیا ۔۱۹۱۵ میں اس کا نام تبدیل کر کے کرنل لارنس کے نام پر رکھا گیا ۔ ۱۹۴۷ میں ڈائریکٹر ایگریکلچر نے اس کا نام لارنس گارڈن سے بدل کر باغ جناح کر دیا اور قائد اعظم لائبریری کا سنگ بنیاد بھی رکھا ۔یہ پاکستان کا واحد نباتاتی باغ ہے جس میں شعبہ نباتات سے متعلق طلبہ اور اساتذہ کی تربیت اور تحقیق کی سہولیات دستیاب ہیں ۔ا س باغ میں دنیا کے ہر خطے کے درخت موجود ہیں ۔پھر’ جلو پارک ‘کی سیر سے لطف اندوز ہونے کے بعد ’شالیمار باغ‘ کی سیر کے دوران اس کی تاریخی اہمیت بھی بیان کر تے ہیں کہ اس باغ کا سنگ بنیاد شاہ جہان نے ۱۶۳۴ میں رکھا۔ اس باغ کا معمار خلیل اﷲ خان تھا اس باغ کی تعمیر میں کشمیر کے بادشاہی باغات کا طرز تحریر استعمال کیا گیا تھا۔ پنجاب میں سکھا شا ہی کا زمانہ شروع ہوا تو لہنہ سنگھ نے اس باغ کی قیمتی اشیاء کو فروخت کر دیا۔ رنجیت سنگھ نے مر مر کے حصوں کو اکھڑوا کر امرت سر اور گووندہ گڑھ کی عمارتوں میں استعمال کرایاجس کے نتیجے میں شالیمار باغ اجاڑ سا علاقہ دکھائی دینے لگا ۔انگریزوں نے لاہور پر قبضے کے بعد باغ کی از سر نو مرمت کرائی۔ لاہور کے انار کلی بازار بھی جاتے ہیں اور اس نام سے جڑی داستان کا بھی ذکر کر تے ہیں۔ ’’مغل اعظم ‘‘نامی فلم کی کہانی بھی بیان کر تے ہیں جو شہزادہ سلیم اور انار کلی کے گرد گھومتی ہے ۔ ڈاکٹر خلیق طوق ار نے مختلف حوالوں سے یہ ثابت کر نے کی کوشش کی ہے کہ انار کلی اور شہزاد ہ سلیم کی داستان محبت محض فرضی تھی اس میں کوئی سچائی نہیں ہے ۔اس بازار کے متعلق یہ معلومات بھی فراہم کر تے ہیں کہ یہ علمی و ادبی لحاظ سے بے حد اہم مرکز ہوا کر تا تھا۔ انار کلی بازار میں ’’پیسہ اخبار ‘‘کا علاقہ انتہائی مردم خیز تھا ۔یہاں اقبال ،یگانہ، ساحر لدھیانوی،اختر شیرانی اور بہت سے دیگر نامور شعر ادبا رہائش پذیر تھے ۔ پیسہ اخبار کا اجرا مولوی نجیب عالم نے کیا تھا۔ قطب الدین ایبک کا مزار بھی انار کلی بازار میں ہے ۔ قطب الدین ایبک کی خدمات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ۔ پاکستانی دکانداروں کی چرب زبانی کا بھی بہترین نقشہ کھینچتے ہیں کہ بات بات پر قسمیں کھانا ان کا معمول بن چکا ہے ۔ پاکستان میں شادیوں پر جو دکھاوا اور ظاہر داری کی جاتی ہے بالخصوص جہیز کے حوالے سے اس کا موازنہ وہ ترکی سے کرتے ہیں کہ وہاں بعض پسماندہ علاقوں میں لڑکی والے لڑکے والوں سے پیسے لیتے ہیں اور یہاں لڑکی والے پیسے دیتے ہیں یہ دونوں برتاؤ اسلامی اور انسانی لحاظ سے غلط ہیں ۔ہمارے ہاں ’’دوکان‘‘ اور ’’دکان‘‘ میں کوئی فرق نہیں کیا جا تا جگہ جگہ’’ دوکان ‘‘لکھا دیکھ کر خلیق طوق ار حیرت کا اظہار کر تے ہیں ۔ ڈاکٹر خلیق طوق ار کا واسطہ ایک پاکستانی ڈاکٹر سے بھی پڑتا ہے جو یہ جاننے کے باوجود کہ وہ اردو سمجھ اور بول سکتے ہیں انگریزی میں بات کر نا ترک نہیں کر تے ۔ ویسے یہ ایک ڈاکٹر کا ہی نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے انگریزی زبان اونچی سوسائٹی کے لوگوں کا ’’سٹیٹس سمبل ‘‘جو ہے ۔’’چھانگا مانگا‘‘ کی سیر کر تے ہوئے اس کے دیدہ زیب مناظر کے علاوہ پارک کے اطراف میں جو جنگل ہے اس کی بابت بتاتے ہیں یہ انسانوں کے ہاتھوں سے لگایا گیا پہلا جنگل ہے ۔ ’’لاہور میوزیم‘‘ بھی جاتے ہیں اور وہاں کی اہم تاریخی باقیات جن میں وادی سندھ ،ہڑپا، برما اورچین وغیرہ کے آثار عتیقہ کا ذکر بھی کر تے ہیں ۔میوزیم کے سامنے مال روڈ پر تاریخی توپ ’’زمزمہ ‘‘کو دیکھتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کر تے ہیں کاش دنیا میں موجود تمام اسلحے ’زمزمہ ‘کی طرح بے کار ہوجائیں اور کسی کو گزندنہ پہنچائیں۔ ڈاکٹر خلیق طوق ار کے سسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ’’بزم اقبال‘‘ کے ڈائریکٹر تھے اس لیے انہیں وہاں جانے کا موقع بھی ملتا ہے ۔ ڈاکٹر خلیق طوق ار اپنے قاری کی معلومات کیلئے بتاتے ہیں ’’اقبال اکیڈمی‘‘ کاتصور اقبال کی زندگی میں ہی راغب احسن نے ’’نیرنگ خیال ‘‘کے خصوصی شمارہ نمبر ۱۹۳۲ میں پہلی بار پیش کیا۔ ’’اقبال اکیڈمی‘‘ کا عملاً آغاز ۱۹۵۵ میں ہوا اس کے قیام کا مقصد شاعر ملت کے پیغام کو زندہ رکھنا ہے۔ سفرنامہ نگار لاہور کو ترکی کے شہر استنبول کے جیسا علم و فن کا بڑا مرکز قرار دیتے ہیں ۔ پنجاب یونی ور سٹی کا دورہ بھی کرتے ہیں جو کہ پاکستان کی سب سے قدیم اور برصغیر پاک و ہند کی چو تھی یونیورسٹی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کا قیام ۲۱ اکتوبر ۱۸۸۲ کو معرض وجود میں آیا اورینٹل کالج بھی جاتے ہیں اس کا قیام ۱۸۷۰ میں ہوا۔ لاہور کے تیرہ تاریخی دروازوں کے حوالے سے بھی تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔ ملکہ کوہسار مری اور راولپنڈی کے سفر کی جزہیات بھی بیان کر تے ہیں ۔ وادی کا غان کے سیر کے دوران لالہ زار کی خوب صورتی کے ساتھ ساتھ لالہ زار سے جڑی لوک داستان کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ ’’جھیل سیف الملوک‘‘،شوگراں، سری پاے، بالا کوٹ اور اسلام آباد کی سیر کا بھی بہترین انداز میں احوال پیش کر تے ہیں ۔ ’’شاہی قلعہ ‘‘کی سیر کے بعد اقبال کے مزار پر حاضری دیتے ہیں اور چاک گریباں سے اقتباس پیش کر تے ہیں کہ اقبال کو اس جگہ دفنانے کیلئے ان کے احباب کو کافی بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ ’’بادشاہی مسجد‘‘ اور داتا گنج بخش کے مزار پر حاضری کے بعد ان کے سفر کا رخ لاہور سے پھر کراچی کی طرف ہوتا ہے جہاں معراج جامی اور ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کے ساتھ کچھ دن بسر کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر نگار سجاد کی فرمائش پر یونی ورسٹی شعبہ اسلامی میں ایک لیکچر بھی دیتے ہیں اور سفر نامے میں وہ پورا لیکچر بھی درج ہے۔ اس سفر نامے کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کا مطالعہ کتنا وسیع ہے ۔ تقریباً ہر تاریخی مقام کے پس منظر کیلئے انہوں نے حوالوں کا سہارا لیا ہے اور مختلف کتب سے اقتباس نقل کیے ہیں ۔اردو کے کلاسیکل شعرا داغ ،غالب، میر، اقبال اور رند لکھنوی وغیرہ کا ایک ایک بر محل شعر بھی ان کے وسیع مطالعے کا غماز ہے ۔روز مرہ کے واقعات اور مختلف تاریخی مقامات کی عمدہ منظر نگاری کی ہے ۔منظر نگاری میں تشبیہات کی حیثیت روح کی مانند ہوتی ہے ۔ خوب صورت مناظر کو جان دار بنانے کیلئے وہ تشبیہات کا استعمال کر تے ہیں جیسا کہ ’’ جھیل سیف الملوک واقع وادی کاغان کے پہاڑوں کے ماتھے پر بسنے والے ایک جھومر کی مانند حسین ہے‘‘۔’’سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے بہنے والے دریائے کنہار اور آگے ہمارے سامنے وادی کاغان ‘‘ ۔محاورات کا استعمال بھی کر تے ہیں مثلاً ’’خدا خدا کر کے‘‘، ’’سونے پر سہاگا ‘‘وغیرہ ۔مثل کا استعمال بھی نظر آتا ہے جیسے ’’آگے کنواں پیچھے کھاء ی‘‘، ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘وغیرہ ۔جزہیات نگاری سے کام لیتے ہوئے کسی بھی واقعے کے تمام پہلوؤں کو بیان کر تے ہیں ۔مختلف مقامات پر جاتے ہوئے راستوں کے باہر دیدہ زیب مناظر ،ماہم کی تھکن ، تنویر کے ساتھ ہنسی مذاق وغیرہ سب کچھ عمدا انداز سے بیان کیا ہے ۔ ’’پیارا ملک ہے پاکستان ‘‘میں اسلوب کی شگفتگی اور مزاح کی چاشنی نے سفر نامہ کی قد ر و قیمت کو بڑھا دیا ہے۔ وہ خود بھی اپنی حس مزاح کا اعتراف کر تے ہیں اور مختلف مزاحیہ جملے قاری کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتے ۔مثلاً ’’نوجوان اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں ہو آج کل لڑکیاں باڈی بلڈنگ کو نہیں بٹوہ بلڈنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے شریک حیات چن لیتی ہیں‘‘۔ یہ سفر نامہ واقعی کسی تاریخی دستاویز سے کم نہیں اور اس سفرنامے کی سب سے اچھی خوبی یا سفرنامہ نگار کی خوبی کہہ لیں کہ انہوں نے صرف اچھی چیزوں پر لکھا ہے اور خود کہا ہے کہ میں صرف اچھائیاں ہی دیکھتا ہوں پاکستان میں منفی تنقید کر نے والوں کا قحط تو نہیں ہے جن میں ایک ترک کا اضافہ کیا جائے ۔

Talhat jabeen
About the Author: Talhat jabeen Read More Articles by Talhat jabeen: 3 Articles with 5383 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.