بیگم کلثوم نوا ز نے نواز شریف کی نشست جیت لی (حصہ ١)


17ِ ستمبر2017ء کو لاہور کے حلقہ120میں ایک عام نوعیت کے ضمنی انتخابی معرکے کو الیکٹر ونک میڈیا نے اتنی اہمیت دے دی جیسے ملک کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ پہلے تو سب کے علم میں ہے کہ یہ حلقہ گزشتہ کم و پیش 30سال سے شریف خاندان کا آبائی حلقہ کہلاتا ہے۔۔۔۔
عدلیہ کی طرف سے بنائی گئی جے آئی ٹی نے نواز شریف اور اُنکے خاندان سے ہر پہلو پر سوالات کیئے۔جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ایک تو سوالات سے متعلقہ جوابات میں ابہام تھا اور دوسرا جب سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی پانامہ کیس میں نواز شریف اور اُنکے خاندان سے تفتیش کر رہی تھی اُس دوران میاں نواز شریف کا دبئی کا اقامہ بھی منظرِ عام پر آگیاجو کئی سال پہلے جاری ہونے کے باوجود عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا تھا۔۔۔۔اقامہ نااہلی کی وجہ بن گیا۔۔۔

حلقہ ١ین اے ١٢٠ کے نتائج

17ِ ستمبر2017ء کو لاہور کے حلقہ120میں ایک عام نوعیت کے ضمنی انتخابی معرکے کو الیکٹر ونک میڈیا نے اتنی اہمیت دے دی جیسے ملک کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ پہلے تو سب کے علم میں ہے کہ یہ حلقہ گزشتہ کم و پیش 30سال سے شریف خاندان کا آبائی حلقہ کہلاتا ہے۔دوسرا اس حلقے سے پاکستان کے سابق وزیرِاعظم نواز شریف2013ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہو ئے تھے ۔تیسرااہم نقطہء یہ ہے کہ سب جانتے ہیں کہ ضمنی الیکشن میں اس حلقے سے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز اپنی خاندانی نشست بچانے کیلئے مسلم لیگ (ن( کی طرف سے میدان میں آئیں اور اُنکے مدِمقابل39اور اُمیدوار بھی کھڑے ہوئے جن میں سے تحریکِ انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے فیصل میر بھی تھے۔

اس حلقے میں ووٹرز کی کُل تعداد 321,786ہے اور جن میں سے 61,745 ووٹ حاصل کر کے بیگم کلثوم نواز نے کامیابی حاصل کر لی جس میں اُنکی بیٹی مریم نواز کا ایک اہم سیاسی کردار رہا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد 47,099 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہیں۔دوسرے الفاظ میں14,646ووٹ سے شکست کھا گئیں۔باقی اُمیدواروں کے حاصل شُدہ ووٹ بھی شامل کر لیئے جائیں تو واضح ہو تا ہے کہ 194,926 ووٹر ز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال ہی نہیں کیا اور دوسرا شریف خاندان کو اپنے اس اہم حلقے سے 2013ء کے ووٹوں کے مقابل 30,000ہزار کے قریب کم ووٹ پڑے۔ جبکہ ایک خبر کے مطابق 18سے34سال کی عمر کے53فیصد ووٹرز نے تحریکِ انصاف کو ووٹ دیا۔ اِ سکی وجہ کا جائزہ لینے سے پہلے ایک دفعہ یاددہانی کیلئے یہ زیرِ بحث لا نا ضروری ہے کہ اس حلقے میں ضمنی الیکشن ہو نے کی کیا اہم وجہ تھی ۔

نواز شریف تیسری دفعہ وزیرِ اعظم:
5 ِ جون 2013 ء کو نواز شریف پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم بن گئے تھے جنہوں نے تیسری دفعہ اس عہدے پر اپنی ذمہداریاں سنبھالی تھیں۔لیکن ایک سال بعد ہی سیاسی سطح پر اُنھیں ایک دفعہ پھر مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ جن میں سیاسی جماعت تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کا 2014ء میں اسلام آباد کا دھرنا سب سے اہم رہا۔سیاسی سطح پر عوام میں اس دھرنے کو وہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی جسکی توقع عمران خان اور اُن کی جماعت کے ہنماؤں کی خواہش تھی لہذا اگلے ایک سال تک عمران خان کو عام سیاسی بیانات کے علاوہ کوئی خاص اہمیت حاصل نہ ہو سکی۔ اس دوران نواز شریف کی سیاسی بصیرت اُنکے کام آئی اور وہ تنقید کے باوجود اپنی ذمہدداریاں بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتے رہے۔

پانامہ اسکینڈل:
اپریل 2016ء میں اچانک جب بین الاقوامی سطح پر ے دُنیا بھر میں "پانامہ اسکینڈل" سامنے آیا تو اُس میں دُنیا بھر کے جن بہت سے اہم افراد کا نام آیا اُس میں نواز شریف خاندان کا نام بھی آگیا۔ عمران خان کیلئے یہ اسکینڈل نواز شریف کے خلاف اُنکی سیاسی مہم کا اہم حصہ بن گیا اور الیکٹرونک میڈیا کا کردار بھی ایک اہم خبر کے تناظر میں شور و غوغا کی حیثیت اختیار کر گیا۔

نواز شریف وزیرِ اعظم کے عہدے پر اپنے خلاف یہ اسکینڈل برداشت نہ کر سکے اور مخالف سیاسی جماعتوں اور الیکٹرونک میڈیا کے جال میں پھنس کر قومی اسمبلی میں اپنی خاندانی آمدنی کی تفصیل بھی بیان کر بیٹھے اور ٹیلی ویژن پر تقریر کرتے ہوئے ایک کمیشن بنانے کا عندیہ دے کر اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کر دیا۔

عدالت سے گوڈ فادر اور جے آئی ٹی:
معاملہ عدلیہ کے سامنے پیش ہوا اور کچھ مہینے وکلا ء کے دلائل اور عدالتی طریقے کار کے بعد 20ِاپریل2017ء کو سُپریم کورٹ کے 5ججوں میں 3ججوں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا اور2ججوں کے مطابق وہ آئین کے آرٹیکل62کے تحت صادق و امین نہیں رہے تھے۔اسکے علاوہ عدلیہ نے "گوڈ فادر" جیسے الفاظ استعمال کرتے ہو ئے شریف خاندان کے خلاف مزید تفتیش کیلئے جے آئی ٹی بنا دی۔

عدلیہ کی طرف سے بنائی گئی جے آئی ٹی نے نواز شریف اور اُنکے خاندان سے ہر پہلو پر سوالات کیئے۔جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ایک تو سوالات سے متعلقہ جوابات میں ابہام تھا اور دوسرا جب سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی پانامہ کیس میں نواز شریف اور اُنکے خاندان سے تفتیش کر رہی تھی اُس دوران میاں نواز شریف کا دبئی کا اقامہ بھی منظرِ عام پر آگیاجو کئی سال پہلے جاری ہونے کے باوجود عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا تھا۔

اقامہ نااہلی کی وجہ بن گیا:
اقامہ انکم ٹیکس ریٹرن میں بھی چُھپایا گیا تھا اور ایف بی آر کو آگاہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ بس اس پر 28 ِ جولائی2017کو جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجاز افضل خان۔ جسٹس گلزار احمد، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پانچوں جج سصاحبان نے متفقہ طور پر میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ نواز شریف نے دبئی میں کاروبار چُھپایا لہذا وہ صادق و امین نہیں رہے۔اس لیئے سیاسی جماعتوں کے ایکٹ مجریہ1976ء کے تحت وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کیلئے نااہل ہیں۔اس دفعہ"اقامہ " اُنکی نااہلی کا سبب بن گیا۔بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ" پانامہ کیس میں دبئی میں اقامہ کی معلومات غیر معمولی واقعہ ثابت ہوا" ۔

عدلیہ نے فیصلے میں لندن فلیٹس ،عزیزیہ ملز اور دیگر16 کمپنیوں سے متعلقہ نواز شریف، حسن و حسین نواز شریف ،مریم نواز شریف ، کپیٹن (ر) صفدر اور اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس کا رُخ احتساب عدالت کی طرف کردیا جس کی معیاد کا تعین 6 ہفتے سے 6ماہ کر کے اُس پر نگرانی کیلئے ایک جج بھی مقرر کر دیا۔احتساب عدالت کو جعلی دستاویزات پر کاروائی کا اختیار بھی دے دیا گیا۔

غیر معمولی واقعہ اور مجھے کیوں نکلا گیا:
نواز شریف کو وزارتِ عُظمیٰ کے عہدے کے ساتھ قومی اسمبلی نشست سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اور مسلم لیگ (ن) کے پارٹی عہدے سے بھی محروم ہو گئے۔فی الوقت قانون کے مطابق تاحیات نااہلی کاحکم سمجھا گیا ۔ اُنکی طرف سے کر پشن کے الزامات ثابت کرنے کی بجائے اقامہ پر نکا لنا اگر ایک غیر معمولی واقعہ تھا ۔ لہذااُنھوں نے اگلے چند روز بعد ہی اسلام آباد سے لاہور براستہ جی ٹی روڈ عوامی رابطہ کرتے ہو ئے اپنی تقریر وں میں زور زور سے کہا کہ " مجھے کیوں نکالا گیا،مجھے کیوں نکلا گیا" ۔دِلچسپ یہ ہو اکہ یہ سوال بھی "غیر معمولی واقعہ" بن گیا۔

پا کستان کے نئے وزیر اعظم مسلم لیگ (ن) کی تحلیل ہو نے والی کابینہ کے وزیر شاہد خاقان عباسی بنے اور اُنھوں نے نواز شریف کی مشاورت سے نئی کابینہ تشکیل دینے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومتی پالیسیاں جاری رکھنے کا اشارہ دیا۔

شہباز شریف سے کلثو م نواز:
شاہدخاقان عباسی کو 45دِن کیلئے وزیر اعظم رہنے کے بعد وزیرِ اعلی پنجاب شہباز شریف کو حلقہ120سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑوا کر وزیرِ اعظم بنانے فیصلہ سامنے آیا ۔لیکن پھر اچانک تما م مستقبل کی سیاسی منصوبہ بندی پر اندھیرے چھا گئے ۔ اس دوران مریم نواز جو گزشتہ چار سالوں سے اپنے والد کی زیرِ نگرانی ملکی معاملات میں حصہ لے رہی تھیں اور اپنے میڈیا سیل کی وجہ سے بھی ملک کے اہم حلقوں اور اداروں میں جانی پہچانی جارہی تھیں نے ایک نعرہ لگا دیا "روک سکو تو روک لو" ۔ساتھ ہی حلقہ 120کیلئے بیگم کلثوم نواز کا نام سامنے آگیا جنہوں نے اپنے خاوند نواز شریف کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی نشست سے الیکشن لڑ نا تھا۔

کلثوم نواز کو کینسر اور مریم نواز کی آمد :
بیگم کلثوم نوا ز تو اپنی نامزدگی کے فوراً بعد ہی گلے میں کینسر کے علاج کیلئے لندن روانہ ہو گئیں اور مریم نوا ز نے اُنکی طرف سے حلقہ120 میں اپنی والدہ کی کامیابی کیلئے انتخابی مہم چلانے کا اعلان کر دیا۔

تفتیش کیلئے طلبی و نظر ثانی کی اپیلیں:
شریف فیملی نے ایک طرف حلقہ120 میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے قدم بڑھا دیا اور دوسری طرف عدالت میں اپنے خلاف آئے ہوئے فیصلوں پر نظر ثانی کی اپیلیں دائر کردیں۔ اس دوران اگست کے آخری عشرے میں نیب نے 3دفعہ شریف فیملی کو مزید تفتیش کیلئے طلبی کے نوٹس جاری کیئے ۔لیکن اُنھوں نے نیب کے سامنے پیش ہو نے کی بجائے صاف کہہ دیا کہ پہلے وہ نظر ثانی اپیلوں پر عدلیہ کا فیصلہ دیکھ لیں۔ چند روز بعد نواز شریف بھی اپنی بیوی بیگم کلثوم نواز کی بیماری کے باعث لندن چلے اور شریف فیملی کی طرف سے اُنکے وکلاء کے اس اعتراض پر کہ پانامہ کیس کا فیصلہ 5رُکنی لارجر بنچ نے سُنایا ہے تو نظر ثانی اپیلوں کی سماعت کیلئے 3رُکنی کیوں؟ جس پر سُپریم کورٹ کا 5رُکنی بنچ قائم کر دیا گیا۔۔ (جاری ہے)

Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 307574 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More