کرد قومیت اور عالمی سامراج کی سازش

عراق،شام،ترکی،ایران اور آرمینیا میں بسنے والی کرد قوم کی تخمیناً آبادی تیس سے چالیس ملین ہے اور یہ مشرق وسطی کی چوتھی بڑی قوم سمجھی جاتی ہے ،یہ پانچوں ممالک میں آبادی کے لحاظ سے بکھرے ہوئے مگر زبان اور قوم کے لحاظ سے کردباشندے کہلاتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد کردقوم پرست راہنماؤں نے الگ ریاست کے قیام کی متعدد بار کوششیں کئں مگر کامیاب نہ ہو سکے،جب کہ 2003 میں امریکا کی عراق آمد کے بعد ہی کردوں کوغیر معمولی آزادی دے کر کردوں کی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ کیا ،اور یہیں سے خطے میں رونما کی جانے والی ایک بڑی تبدیلی کی ابتداء ہوتی ہے ،بعد ازاں امریکہ اور ایران کی شراکت سے عراق میں قائم نئی شیعہ حکومت میں کردوں کو ان کے تناسب کے اعتبار سے بھرپور نمائندگی دی گئی جب کہ کرد علاقوں میں علیحدگی پسند تحاریک کو قوت دینا ، شام و عراق کے غیر مستحکم حالات کا پیدا کرنا ،داعش کا ڈرامائی وجود اور پے در پے کرد علاقوں پر ان کا آسانی سے تسلط قائم کروانا ،یقینا ً عالمی سامراجی قوتوں کا عرب خطے میں نئی ریاست کردستان کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ صوبہ کردستان کی سیاسی جماعتوں نے 7 جون2017 کو ایک مشترکہ اجلاس کے دوران آزاد کردستان ریاست کے قیام کے حوالے سے 25 ستمبر 2017ء کو ریفرنڈم کرانے سے اتفاق کیا تھا تاہم کردوں کے اس اعلان کی عراقی حکومت،ترکی اور دیگر کئی ممالک نے مخالفت کی تھی،جب کہ عراقی پارلیمنٹ کی بھاری اکثریت نے کردوں کی الگ ریاست کے قیام کے لیے ریفرنڈم کو مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عراق کی وحدت برقرار رکھنے کے لیے کرد آبادی اور صوبہ کردستان کے جائز مطالبات پورے کرنے کے ساتھ ان کے تحفظات دور کریں۔ نیز صوبہ کردستان کی قیادت اور بغداد کے درمیان بامقصد بات چیت کا آغاز کیا جائے تا کہ عراق کو ٹوٹنےسے بچایا جاسکے۔دوسری جانبترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے 16 ستمبر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ شمالی عراق کے صوبہ کردستان کی حکومت کی طرف سے خود مختار ریاست کے قیام کے لیے اعلان کردہ ریفرنڈم ترکی کے لیے قومی سلامتی کا مسئلہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ ترکی ایسے کسی بھی اقدام کو روکنے کے لیے ہرطرح کا ضروری اقدام کرسکتا ہے،اسی حوالے سے ترکی کے وزیر دفاع نور الدین جانکلی نے کہا ہے کہ ان کا ملک جنوب میں نسلی بنیاد پر کسی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دے گا۔ انہوں نے باور کرایا کہ عراق اور شام کی اراضی کی وحدت کو پامال کرنے سے وسیع پیمانے پر عالمی تنازع کا شعلہ بھڑک سکتا ہے،جب کہ مشرق وسطی میں داعش کےخلاف سرگرم عالمی اتحاد میں امریکی مندوب بریٹ مک گورک نے امید ظاہر کی ہے کہ کردستان حکومت کردستان کی خود مختاری کے اعلان کو کچھ عرصہ کے لیے موخر کردے گی ،ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں مسٹر میک گورک کا کہنا تھا کہ 25 ستمبر کو آزاد کردستان کے لیے ریفرنڈم علاقائی خطرات سے بھرپور ایک قدم ہوگا اور موجودہ حالات میں عالمی برادری اس کی حمایت نہیں کرے گی۔

بلاشبہ سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد پوری مسلم دنیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ،کیونکہ عالمی قوتوں نے مسلم ممالک کو قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا ،جب کہ عالمی منظرنامے میں امریکہ ،اسرائیل روس ،ایران اور دیگر ممالک اپنےمذموم مفادات کے لیے مشرق وسطی کی تشکیل بندی کرنا چاہ رہے ہیں ،جس کی وجہ سے یمن ،سوریا ،لیبیا اورعراق میں غیر یقینی صورت حال پیدا کی گئی،اور تقسیم کے نئے عمل کا آغا ز کیا گیا ، ضرورت اس امر کی ہے کہ او آئی سی ، عرب لیگ اور مسلم ممالک کے دیگر مؤقر پلیٹ فارمز جاندار کردار ادا کرتے ہوئے درپیش مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کریں ،بصورت دیگر امت مسلمہ کی تنزلی کا سفر ۔۔۔مزید تاریکیوں کی طرف جاری رہے گا۔۔۔اور مؤرخ کاقلم ہمارے تذکرہ کے حوالے سے خاموش ہی رہے گا۔

Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 249459 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More