استاد یا ماڈل

دیا خان بلوچ،لاہور
مجھے اکثر و بیشتر ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے کہ بچے ہماری بات نہیں سنتے آپ ہی سمجھائیں نا۔اب جب بیچاری استانی ان سے ذرا سختی سے پیش آئے تو آپ خود ہی شکایت لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ایک وقت تھا جب ہم اپنے اساتذہ کی دل و جان سے عزت کیا کرتے تھے اور ان کے ایک بار کہے پر ایسے عمل کرتے تھے جیسے اگر یہ نا کیا تو جانے کیا ہو جانا،حالانکہ ہمارے استاد بھی بہت اچھے ہوا کرتے تھے اور ہماری غلطی کو معاف کر دیا کرتے تھے۔ان کی ان عادتوں کی وجہ سے ہم ہمیشہ ان کی بات مانا کرتے تھے ،کبھی ان کے آگے اونچی آواز میں بات نہیں کیا کرتے تھے۔لیکن اب جب کہ ہم خود استادکی کرسی سنبھالی ہے ،ان ساری چیزوں کو ناپید پایا ہے جن کی وجہ سے ہم نے معلمہ کے شعبے کو چنا تھا۔اب آج کے استاد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ طلبہ کی ہر بری بات کو برادشت کرے ،چاہے وہ جیسے بات کریں آپ انہیں کچھ نا کہیں کہ آپ کی کمپلین ہو جانی ہے۔

اسکول میں کوئی فنکشن ہو تو ان کا کام یہ ہے کہ سج سنو ر کر کھڑی ہوں اور سکول کو سجائیں،جو کام مرد حضرات کے کرنے کے ان کو بھی خود سر انجام دیں اور وہ صرف تماشائی بنے دیکھتے رہیں۔یہ سب کریں گے تو آپ بہت ایکٹیو ہیں ۔لیکن یہ کہاں کے اصول ہیں؟کیا ہمیں یہ سب زیب دیتا ہے کہ ہم اس طرح کے کام کریں۔ہم نے آنے والی نسلوں کو سنوارنا ہے اور اگر ہم خود ہی سیدھی راہ پر نہیں چل رہے تو ان کی کس طرح رہنمائی کر سکتے ہیں۔جب آپ انہیں یہ سکھا رہے ہیں کہ ٹیچر وہ ہے جس کے بال کھلے ہوں ، چہرا میک اپ سے سجا ہو اور مغربی لباس میں ہو،حجاب اور دوپٹے کا نام و نشاں نا ہو تو خودہی بتائیے کہ نسل بگڑے گی یا سنورے گی؟؟ آپ ٹیچر ہیں یا ماڈل اس کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے،بچے ہمیں اسی طرح سے بات کریں گے جس طرح کا رویہ ہم ان سے رکھیں گے۔

آپ کہتے ہیں کی ہماری نسل بگڑ رہی ہے۔جب اس بگاڑ کی وجہ آپ خود ہیں تو آپ دوسروں کو کس طرح کہہ سکتے ہیں۔جب تک آپ برائی کو اس کی جڑ سے ختم نہیں کریں گے تو یہ کیسے ممکن ہوگا کہ معاشرہ سدھر جائے گا۔کس طرح ترقی و کامیابی حاصل ہوگی۔کس طرح ہمارے چھوٹے اپنے بڑوں کی عزت کیا کریں گے ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا کریں گے۔کس طرح سے ان میں محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی والی صفات پیدا ہوں گی۔سوچیں اور غور کریں تب کہیں جا کر کوئی راستہ دکھائی دے گا۔پتا چلے گا کہ ہم کہاں جارہے ہیں کیوں یہ آنے والی نسل اور نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر کھڑی پر ہے۔

سوچنا ہے اور پھر عمل کرنا ہے،یہ جو شکوہ ہے نا کہ عزت نہیں ،احترام نہیں تو یہ سب شکوے خود بخود دم توڑ جائیں گے۔ان سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔صرف ایک بار قدم بڑھائیں پھر دیکھیں کہ کامیابی کس طرح آپ کے قدم چومتی ہے۔بارش کا پہلا قطرہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اگر آپ خود ہی بارش کا پہلا قطرہ بن جائیں تو کیا ہی بات ہے۔ہاں محنت ہوگی،جان جلے گی پر آنے والی ہر نسل گمراہی سے بچ جائے گی۔یہ جو ان کو ہم سے شکوے ہیں کہ کیا دیا ہے یا پھر یہ کہ جو دیا ہے وہ لوٹا رہے ہیں تو یہ ختم ہو جائیں گے کوشش آپ نے کرنا ہے اور پھر دیکھنا ہے کہ جو چاہتے ہیں وہی ہوگا۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے آپ نے ماڈل بننا ہے یا رول ماڈل۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1013664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.