احباب کیا کہتے ہیں۔۔.؟ قسط نمبر (۱)

گزشتہ کئی سالوں مختصر عنوانات کے ساتھ خاطراتِ دل احباب و قارئین کے گوش گزار کرتا آرہا ہوں۔ ان سالوں میں کروڈوں الفاظ لکھے لیکن ان کا کوئی ریکارڈ نہیں۔اب ارادہ کیا ہے کہ آئندہ خاطراتِ دل کو محفوظ کرکے شائع کروادوں۔اسی غرض سے تین چار مختصر تحریروں کی ایک قسط بنا کراحباب کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔ہر مختصر تحریر کے ساتھ تاریخ بھی دی جائے گی کہ یہ تحریرکب لکھی گئی ہے تاکہ سیاق و سباق اور پیش منظر و پس منظر سے بھی آگاہی حاصل ہوتی رہے۔(امیرجان حقانی)

امیرجان حقانیؔ لکھتے ہوئے احباب سے مخاطب ہیں۔فوٹو

گزشتہ کئی سالوں مختصر عنوانات کے ساتھ خاطراتِ دل احباب و قارئین کے گوش گزار کرتا آرہا ہوں۔ ان سالوں میں کروڈوں الفاظ لکھے لیکن ان کا کوئی ریکارڈ نہیں۔اب ارادہ کیا ہے کہ آئندہ خاطراتِ دل کو محفوظ کرکے شائع کروادوں۔اسی غرض سے تین چار مختصر تحریروں کی ایک قسط بنا کراحباب کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔ہر مختصر تحریر کے ساتھ تاریخ بھی دی جائے گی کہ یہ تحریرکب لکھی گئی ہے تاکہ سیاق و سباق اور پیش منظر و پس منظر سے بھی آگاہی حاصل ہوتی رہے۔(امیرجان حقانی)
(1) کمپرومائز نہ کریں۔
15/08/2017
:
دنیا کے کامیاب ترین لوگوں نے ان چیزوں پر کبھی بھی کمپرومائز نہیں کیا ہے۔ آپ کسی بھی کامیاب ترین انسان کی ہسٹری ریکارڈ دیکھ لیں۔اس میں یہ تمام چیزیں پاتی نظر آئیں گی۔ اس نے کبھی بھی ان دس چیزوں پر کمپرومائز نہیں کیا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک پر بھی کمپرومائز کرتا ہے تو یاد رکھیے ، وہ بظاہر تو کامیاب دیکھائی دے رہا ہے مگر اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے۔۔اگر ہم ان دس اصولوں کو اپنانے میں کامیاب ہوئے تو پھر کامیابیوں سے بھری زندگی ہمارا منتظر رہے گی۔
۱۔ صحت پرکبھی بھی کمپرومائز نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے
۲۔کام اور شوق میں کمپرومائز نہ کریں۔
۳۔ وقت ضائع کرنے پر کبھی بھی کمپرومائز نہ کریں۔
۴۔فیملی لائف ڈسٹرب کرنے پر کبھی بھی کمپرومائز نہ کریں۔
۵۔جائز خوشیوں اور ذہنی سکون پر کمپرومائز نہ کریں۔
۶۔اپنی عزت اور شناخت پر کمپرومائز نہ کریں۔
۷۔ذاتی اور شخصی بہتری پر کمپرومائز نہ کریں۔
۸۔اچھے اصولوں اور اقدار پر کمپرومائز نہ کریں۔
۹۔اچھے اور مخلص دوستوں پر کمپرومائز نہ کریں۔
۱۰۔ایمان باللہ، وتعلق مع اللہ پر کبھی بھی کمپرومائز نہ کریں۔
تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔۔؟
…………………………………………………….
(2) آپ اختلاف کرنا پسند کریں گے یا اتفاق۔۔؟
16/08/2017
:
یہ چار لائینیں ہیں۔ میں ان کی مفصل تشریح کرسکتا مگر میں نہیں کرونگا، بہت سادہ سی باتیں ہیں۔ تم خود غور کرلیجیے گا۔یہ باتیں اداروں کے لیے بھی کارآمد ہیں اور انجمنوں اور ملکوں کے لیے بھی۔۔ملاحظہ ہوں
۱۔کم ظرفوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جائے تو اشراف کی عزت و توقیر میں کمی آجاتی ہے۔
۲۔صاحبان ہنر کی قدر نہ کی جائے تو بے ہنری کو فروغ ملتا ہے۔
۳۔لیڈر کے پیچھے چلنے کی بجائے لیڈر کے پیچھے پڑنا عقل مندی نہیں۔
۵۔انسان کی زندگی میں اپنے اور بیگانے ہر وقت دکھ دینے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
……………………………..
(3) حریفانہ چال نہیں حلیفانہ سلسلہ
17/08/2017
:
۱۔ مجھے تسلیم ہے کہ میں ذہین نہیں لیکن انتھک محنت سے اپنی صلاحتیوں کو اجاگر کرنے اور آگے بڑھنے کی امنگ دل کے کینیوس میں سجائے رکھتا۔
۲۔ مجھے وہ ہم عصر بہت ہی اچھے لگتے ہیں جو مجھے مدمقابل نہیں سمجھتے بلکہ مجھ سے سیکھنے اور مجھے سکھانے کے عمل میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان کے ساتھ حریفانہ چالوں کی بجائے حلیفانہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
۳۔ میری دلی خواہش ہوتی ہے کہ میری تحریر ایک طرزنگارش سے زیادہ ایک طرز ِ حیات ہو۔
۴۔ ہزار کمزوریوں کے باوجود ہار نہ ماننے کی ضد ہمیشہ سے غالب رہتی ہے۔
۵۔ میں سمجھتا ہوں کہ بے راہ روی کی طویل مسافتیں طے کر نے کے بعد ہی صراط مستقیم ممکن ہے۔
۶۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک تنگ نظر اکثریت کے بوجھ تلے دبی ہوئی اقلیت کا ایک کمزورآواز ہوں۔کبھی کبھی یہ آواز اتنی دبتی ہے کہ قریب بیٹھے آدمی کو بھی سنائی نہیں دیتی۔
۷۔ تم اپنے ذوق کی پرورش کریں دنیا کی ساری مسرتیں سمٹ کو آپ کے ماتھے کو چوم لیں گے اور راحتیں آپ کا ہاتھ پکڑ لیں گی۔
تو احباب کیا کہتے ہیں۔۔؟
……………………………..
(4)
جی بی : جے یو آئی اور پی پی کی قیادت کو ایک مشورہ
:
گلگت بلتستان میں گزشتہ حکومت پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کولیشن سے بنی تھی اور مدت مکمل کی اوریہ دونوں پارٹیاں 2015ءکے الیکشن میں بری طرح ہار گئیں اور ن لیگ کے ہاتھ حکومت لگ گئی۔ ن لیگ کیا کرتی ہے اور کیا کرنا چاہیے وہ سردست ان کا اپنا معاملہ ہے۔مجھے پی پی اور جے یو آئی کی قیادت سے ایک ’’خیال‘‘ شیئر کرنا ہےجس کا اچانک ورود ہوا۔میں سمجھتا ہوں کہ جے یو آئی اور پی پی نے تین سال ضائع کیے ہیں۔ مزید ان کے پاس دو سال رہتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کی قیادت کو چاہیے کہ وہ فضول قسم کی اخباری بیانات پر گزارہ کرنے کی بجائے گلگت بلتستان کے بیس لاکھ لوگوں میں صرف ایک ہزار انٹیلکچول (جن میں بیوروکریٹ، ججز، پروفیسرز، صحافی،علماء،مختلف شعبوں کے ماہرین و محققین وغیرہ) کی ایک ٹیم یعنی تھنک ٹینک بنائے۔اور اس ٹیم کے ذریعے انتہائی سنجیدگی سے اپنے پانچ سالہ دور کی ناکامیوں کی جائزہ رپورٹ بھی مرتب کروائے اور جی بی کے تمام بنیادوں مسائل کی نشاندہی اور آنے والے دنوں میں انکے حل کی راہ بھی نکالے۔اپنی بنائی ہوئی اس ٹیم کی مرتب کردہ پالیسوں کو اپنی دل وجان کا حصہ بنائے اور آنے والے دنوں میں جی بی کی تقدیر بدلنے کا منصوبہ واضح بنیادوں پر قوم سے شیئر کریں۔اور جب انہیں دوبارہ موقع ملے تو ماضی کی طرح رنگ ریلیاں منانے کی بجائے ڈیلیور کرنا شروع کریں۔ مجھے امید ہے کی جی بی کی تقدیر بدل جائے گی بصورت دیگر۔۔۔۔یادرہے یہ مواقع روز روز نہیں ملتے۔ اللہ کی طرف سے عنایت کردہ ان مواقعوں کو کڑھتے کڑھتے ضائع کرنے کے بجائے تعمیری کام میں لایا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔؟
……………………….
(6)
راما کے دامن سے۔۔۔ (ٹریکنگ ٹو راما)
06/09/2017
:
عیدگاہ استور کا ہیڈکوارٹر ہے۔ عید سے راما تک تقریبا ۱۲ کلومیٹر کی مسافت ہے۔ اور بہت ہی چڑھائی ہے۔ برادرم قاسم علی(لائبیریرین انٹرکالج استور) کی معیت میں عیدگاہ قلب علی چوک سے راما کے چشمے تک پیدل سفر کیا۔۱۲ کلومیٹر کی مسافت طے کرنے میں پورے تین گھنٹے لگے۔ چونگرہ کےدرمیان سے ہوتے ہوئے راما پہنچے۔ راما فیسٹول ۱۲ ستمبر کو منعقد ہوگا، اس میں بھی شرکت کی جائے گی۔راما میں ایک بڑی تعداد میں ٹینٹ ہوٹل قائم کیے گئے ہیں جہاں کھانے پینے کے ساتھ رات گزارنے کے لیے چھوٹے بڑے ٹینٹ رینٹ پر ملتے ہیں۔ پی ٹی ڈی سی موٹل بھی راما پولو گروانڈ کے ساتھ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ پی ڈبلیو ڈی کا ریسٹ ہاوس بھی ہے۔۲۰۱۴ ء میں اس ریسٹ ہاوس میں ایک رات گزارنے کا اتفاق ہوا ہے۔ بہرصورت ستمبر کے پہلے عشرے میں بھی راما اور اس کے مضافات میں چہل پہل دیکھنے کو ملی۔ کئی لوگ موٹرسائیکلوں کی ریلیوں میں دیکھے گئے یو یقینا پنجاب سے آئے ہوئے تھے۔ گلگت کے اسکولوں سے اسٹدی ٹور پر آئے طلبہ بھی ٹینٹ ہوٹلوں کے پاس گل غپاڑے کرتے دیکھے گئے۔ عصر کے وقت ہلکی ہلکی بارش نے موسم دوبالا کردیا تھا۔دائیں بائیں سبزہ ہی سبزہ تھا، دور پہاڑیوں پر ، جہاں چرواہے اپنی مال مویشوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ دور پہاڑیوں پر سبزہ زردی مائل ہوچکا تھا۔یوں لگتا تھا کہ پورا چراگاہ مہندی نما نظر آرہا تھا۔ بچے بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ نیچے اتر رہے تھےا ور کچھ بچے بچیاں گدھوں پر گھاس اور لکڑیاں لادتے ہوئے نشیبی علاقوں کی طرف رواں دواں دکھائی دیے ۔ ان کی پیٹھ پر لسی کی بوتلیں تھی جو انہوں نے چرواہوں سے لائے تھے۔۔بہر صورت واپسی بھی پیدل ہی چلے۔ پانچ گھنٹوں میں پچیس کلومیٹر کی مسافت طے کی۔حسین مناظر نے تھکاوٹ اور اترائی و چڑھائی کا احساس ہونے نہیں دیا۔قدرت کی ان حسین وادیوں دور دور تک پیدل چلنے کا اپنا الگ مزہ ہے۔بڑھاپے میں جوانی کے یہ دن یاد کرکے لطف اندوز ہوناپڑتا ہے۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔؟
نوٹ: جاری ہے۔۔۔۔۔۔اگلی قسط ایک بریک کے بعد۔۔۔

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 443 Articles with 383176 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More