بسم اللہ الرحمن الرحیم
میری کامل توجہ اس کی نیلگوں آنکھوں کی جانب مبذول تھی ۔
میں اسے تکے جا رہی تھی اور وہ مجھے ۔
اس کی اماں ٹھیک پندرہ دن بعد بڑی سی چادر میں ملبوس مکمل متانت کے ساتھ
آئیں تھی ۔
کہنے لگیں ۔
آج میرا بچہ سات برس کا ہو چکا ہے ۔
میں نے خوشی سے اس کے گال تھپتپھاتے بولی ۔
واؤ احمد !
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو !
ناگواری کے احساس نے مجھے چونکا دیا ۔
اس کی ماں کی آنکھیں بھی نیلی تھیں ۔ ان میں عجب رعب تھا ۔
اس نے مجھے اپنی پھیلی مسکراہٹ سمیٹنے پر مجبور کردیا ۔
قمری لحاظ سے یہ آج سات سال کا ہوا ہے ، شمسی لحاظ سے نہیں ۔
یوں بھی برتھ ڈے کا تصور مسلمانوں کے ہاں نہیں !
اس کا لہجہ بھی فطری رعب سے لبریز تھا ۔
مسلمانوں کا لفظ سن کر میرا چہرہ سرخ ہو گیا ۔
مجھے لگا میری تذلیل کی گئی ہے ۔
وہ بھی گویا بھانپ گئی ۔
قدرے نرم لہجے میں بولی ۔
اس لیے مجھےامید ہے آپ میں سے کوئی بھی اسے ’’وِش‘‘ نہیں کرے گا ۔
آپ سب ہم سے بہتر ہیں ۔
میرا سانس بحال ہوا ۔
جی جی بالکل ہم نہیں کریں گے وِش!
ہم مسلمان ہیں ۔
یوں ہی یہ عجیب سا جملہ میرے منہ سے پھسل گیا اور دیر تک میری سوچوں کا
محور رہا ۔
میں اس عجیب وغریب ماں کے بلند عزائم کو اس کی آنکھوں میں جواں ہوتا دیکھ
سکتی تھی ۔
اب وہ انتہائی نرم لہجے میں کہہ رہی تھی ۔
میرا احمد سات برس کا ہوچکا ہے ۔
عصر کی نماز کا وقت ٹیوشن کے درمیان میں آتا ہے ۔
لہذا گزارش یہ ہے کہ یہ نماز پڑھا کرے گا، اور آپ اسے نماز کے لیے ’’حکم
دے دیا کریں گی ، سات سالہ بچے کو نماز پڑھنے کا حکم ہے نا ‘‘
آخری جملہ اس اپنائیت سے وہ بولی کہ میرا دل یکدم نرم پڑگیا ۔
اس کے لہجے کا اتار چڑھاؤ حیران کن تھا ۔
میں نے ہامی بھری اور آنکھیں اس معصوم کی آنکھوں میں ڈال لیں ۔
یہ دیکھ لیں ، وہ سبق پورا کرپائے گا پھر ، پہلے ہی اتنا اچھا نہیں ہے
پڑھائی میں ؟؟؟ میں نے دانستہ بے بنیاد اندیشے کا اظہار کیا ۔
نہایت اعتماد سے بولی ۔
وہ نقصان ان شا ءاللہ ہماری ذمہ داری ہے ۔
اللہ کو ایسے ’’نقصانات‘‘ محبوب تر ہوتے ہیں ۔
وہ
ایسے نقصانات کو بے مثال کامیابیوں سے بدل دیتا ہے ۔ ۔
‘‘
اس کا لہجہ قطعی تھا ۔ میں خاموش ہوگئی ۔
مسجد یہاں سے بہت دور ہے ۔ مری خواہش ہے ، اللہ ہمیں مسجد سے قریب گھر دے ،
مرے بچے باجماعت نماز تو پڑھ سکیں ۔
میں پریشان اس بلند اوصاف کی حامل ماں کو تکتی رہی ۔
کبھی اس کے بیٹے کو دیکھتی کبھی اس کی جانب نگاہیں جما لیتی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدا کا ڈھیٹ ، ضدی اور لاپروا احمد اگلے چند مہینوں میں میرا لائق ترین
شاگرد بن چکا تھا ،
مجھے اس سے ایک منفرد سا لگاؤ ہوچکا تھا ،
میں اس کی حرکات وسکنات کا بغور جائزہ لیتی ۔
پھر مرے ضمیر نے مجھے کچھ یوں جنجھوڑا کہ میں ۔۔۔ اقیموا الصلوۃ کے حکم پر
عمل پیر ا ہوگئی ۔ میں نمازی بن گئی ۔ ۔۔
اس کی کامیابیوں کے چرچے دیگر ماؤں نے سنے تو وہ بھی ام احمد کی اقتدا میں
سرگرم عمل نظر آئیں ۔ اپنے بچوں کو نمازی بناتی دکھائی دیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن سے احمد نہیں آرہا تھا ۔ ۔
میں بے چینی سی محسوس کر رہی تھی ۔
تیسرے روز ٹیوشن ٹائم سے قبل میں گھر کے کام نمٹانے میں مصروف تھی ۔
کال بیل ہوئی ، دیکھا تو ام احمد کھڑی تھیں ۔
وہ
ایک بار پھر میرے سامنے تھیں
گر کوئی چوک ہوئی ہو ، مرے سے یا بچے سے تو معاف کیجئے گا ۔
وہ نرم لہجے میں بولیں ۔
آپ نےاسے بہت سکھایا بہت پڑھایا ہے ۔ نمازوں میں معاونت کی ہے ۔ اللہ آپ
کا یہ عمل رائیگاں نہیں جانے دے گا ۔
کیا مطلب ، میں پریشان تھی ، خطرے کی گھنٹی مرے من میں گونج اٹھی ۔
احمد اب بڑا بڑا لگتا ہے مجھے ۔
شائید اس کی صحبت ایسی ہے جو اسے بڑا بنا گئی ہے ۔ یا شائید یہ عمر سے بڑا
دماغ لے کر پیدا ہوا ہے ۔
میں اس کے لیے اب آپ کو مزید زحمت نہیں دے سکتی ۔ اسے اب ایک مرد استاد کی
ضرورت ہے !!!
وہ ایک بار پھر فیصلہ کن انداز میں بات کررہی تھیں ۔
میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
او مائی گاڈ ام احمد ! آپ کیا سمجھتی ہیں ، ایک صنف نازک آپ کے اس بچے کو
Deal
نہیں کر سکتی ؟
یہ تو شریف بچہ ہے تنگ بھی نہیں کرتا ، مرد استاد کی ضرورت شرارتی لڑکوں کے
لیے ہوتی ہے ، یوں بھی میں ایسے شریروں کو بھی سیدھا کرنا جانتی ہوں ۔
میں قطعا احمد کو نگاہوں سے دور نہیں کرنا چاھتی تھی ، میں اپنے موقف کے حق
میں دلائل دینے لگی ۔
میڈم آپ سجھیں نہیں !
وہ مجھے پہلی بار میڈم کہہ رہی تھیں ۔
ماں اپنے بچے کو بخوبی جانتی ہے ۔
ہاں گر کوئی نہ جاننا چاھے ،صرفِ نظر کرنا چاھے ، حقیقت سے آنکھیں چرانا
چاھے تو الگ بات ہے ۔
آپ کے پاس چودہ پندرہ سال کے لڑکے اور لڑکیاں پڑھتے ہیں ۔
آپکو لگتا نہیں ہے ، وہ چودہ سالہ لڑکے سب کچھ جانتے ہیں ۔
لڑکیوں میں دلچسپی لیتے ہیں اور ان کی باقاعدہ گرلز فرینڈز ہوتی ہیں ۔
جی جی بالکل ، مگر احمد تو ابھی بچہ ہے ۔
میں نے ابرو سکیڑے گویا ان کی معلومات میں اضافہ کیا ۔
ہے تو بچہ مگر یہ بھی سب جانتا ہے ۔
آپ نے پڑھا ہوگا نا سورہ نور میں !
میں ہلکلائی !
جی جی
اللہ فرماتے ہیں نا !
اوالطفل الذین لم یظہروا علی عورت النساء !
یا وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہ ہوں ( ان سے پردہ نہیں ہے
)
یعنی وہ ’’بچے‘‘
جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہوں ،ان سے پردہ ہے ۔
آیت کا پڑھنا تھا میں ایک لمحے میں بات سمجھ گئی ۔
میڈم ، ہم برملا کہتے ہیں نا ، آج کل کا بچہ سب جانتا ہے ۔
تو ہمیں برملا یہ بھی کہنا چاھئے کہ ان بچوں سے پردہ بھی ضروری ہوتا ہے ۔
ہمارے ہاں ۱۵ سالہ لڑکے بھی بچے ہوتے ہیں ،
اور وہ خواتین کے محافل میں بے دریغ پھرتے ہیں ، خواتین کو تکتے نظر آتے
ہیں ۔
مجھے لگا وہ مجھے آئینہ دکھا رہی ہیں ۔
میرے ذہن میں دس سالہ
ذیشان اورتیرہ سالہ عمار کا چہرہ گھوم گیا جو واقعی میرے حسین چہرے
کوگھورتے رہتے تھے ۔
اور بے جا بے تکلفی چاھتے تھے ۔
اس کے ساتھ ہی علیزے اور علیشنا کا چہرہ بھی جو ہر وقت ذیشان اور عمار سے
اشارے کی زبان سے باتیں کرتی نظر آتیں تھیں ۔
ہم اپنے بچوں کی معصومیت کا جنازہ خود نکالتے ہیں ۔
انہیں
Co education
کا ماحول دے کر ۔
جوانی میں کو ایجو کیشن تو زہر قاتل ہے ہی ، ہم بچوں کو پچپن سے ہی اس زہر
کا عادی بنانا چاھتے ہیں ۔
وہ روانی سے بولتی جارہی تھی ۔
میں آپ کو گنہگار نہیں کرنا چاھتی اپنے بچے کی وجہ سے
اس لیے
اجازت چاھتی ہوں !
میں نے ان کا ہاتھ تھام لیا !
ٹھیک ہے ، لیکن میں کیا کروں !
آج کل یہ تو بڑا مسئلہ ہے ۔
میں باھر حجاب کرتی ہوں ۔
اگر ان لڑکوں کو فارغ کروں تو میرا گھر کا خرچہ کیسے نکلے گا ؟
میں نےگویا ان کے سامنے دل الٹ دیا ۔
میڈم فرحین !
من ترک للہ شئیا عوضہ اللہ فی الدنیا والاخرہ ۔
( مسند احمد ، حسن)
جو اللہ کے لیے کوئی چیز چھوڑدیتا ہے ، اللہ اسے دنیا اور آخرت میں اس سے
بہتر عطا کرتا ہے ۔
یقین رکھئے ، اللہ آپ کو ایسے عمل کا بے مثال صلہ دے گا ۔
قدم بڑھایئے ، آنکھیں بند کر کے
اللہ کی مان جایئے ۔ سوچئے نہیں
فیصلہ کیجئے
اللہ آپ کو اس جگہ سے رزق دے گا جہاں سے آپ کا گمان بھی نہ ہوگا !
ام احمد کا لہجہ یقین سے لبریز تھا ۔
میں نے وہیں بیٹھے فیصلہ کر لیا ۔
کتنے سال تک کے بچے رکھوں ؟
لڑکیوں کو پڑھائیں ۔
’’ٹیوشن فار گرلز‘‘ ہو !
یہی بہترین ہے۔
زیاہ بات ہے تو ’’ننھے معصوموں‘‘ کو پڑھالیا کریں ۔ سمجھدار ہوشیار لڑکوں
کو لڑکیوں سے بھی دور رکھیں ، خود سے بھی محفوظ رکھیں ۔
ایک بار میں پھر کشمکش میں تھی ۔
وہ اٹھی ، میرے گلے سے لگی ،
خالص فصیح لہجے میں بولی ۔
من ترک للہ شئیا عوضہ اللہ !
ولمن خاف مقام ربہ جنتن !
آپ کو جنت چاھیے نا میڈم !
اب وہ خود کو مجھ سے الگ کر کے پوچھ رہی تھیں ۔
ہاں ہاں !
مجھے جنت چاھئے ۔
بے اختیار میری آنکھیں بھیگ گئیں ۔
وہ پھر میرے گلے لگیں !
مجھے دعائیں دینے لگیں
۔
اور اللہ کی امان میں سپرد کے کے چل دیں !
مجھے لگا وہ میری استاد تھیں !
ان کا بچہ بھی میرا استاد تھا ،
میرا ننھا استاد!
جس نے نمازوں کی پابندی اپنے عمل سے سکھلائی تھی ،
میرےشاگردوں کو ، شاگردوں کی ماؤں کو بتلائی تھی ۔
میں دس سالوں میں ایسے تجربے سے پہلی بار ہمکنار ہوئی تھی ۔
میں اس درازقد خاتون کو پر وقار قدم اٹھاتا دیکھ رہی تھی ،
جس نے اردگرد خوشبو بکھیردی تھی ،
ایسی خوشبو جو میرے پورے گھرانے کو معطر کررہی تھی۔
میرے شاگردوں کے گھرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی ! |