ملاقات جو سدا دل کو یاد رہی

ایک دوست کی ملاقات سے منسوب

نکمے ویہلے اور ہالکی جیسے خطابات پانے کے بعد آخر ایک دن دل نادان کے کہنے پر ہم محکمہ برقیات کے ناز و نخرے اٹھانے اور کھوئی رٹہ جانے کے لیے رضا مند ہو ہی گے ۔ اپنی ڈرائیو پر عدم اعتمادی کے باعث نیفیو حسام کو ساتھ لے لیا لیکن پھر بھی شوقیا ضمیر مطمن نہ ہوا تو اس پر اپنی استادی کی دھاگ بٹھانے کے لیے بائیک ڈرائیو خود ہی کیا ۔ اکیلے چلاتے ہوئے تو کبھی اتنی خامیاں محسوس نہیں ہوئیں تھیی جو اس نے منٹ کے کچھ ہی حصے میں گنوا دی ۔ بڑے پاپا آپ یوں کیوں کرتے ہیں ۔ بریک لگاتے ہوئے کلچ کیوں پکڑتے ہیں یوں نہ کرو اف اللہ اس ٹین ایجیز نے کیا کان پکا دیے ۔ ندمت کو چھپاتے ہوئے بریک لگائی، ذرا دیدے گھما کر دیکھا کہ جو ہماری ڈرائیونگ سے متاثر نہیں ہوا ہمارے اس عمل سے دبدبے میں آ جائے گا ۔ بھاری آواز میں اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے کہا آگے آو اور خود چلاو۔ ہمارا حکم سنتے ہی بڑی فرمانبرداری سے سٹیرنگ پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ سوچا تھا ہمارے دبدبے کے باعث کچھ غلطی کرے گا لیکن اس نے اپنی ڈرائیونگ سے ہمیں متاثر کر دیا خاص کر کھنیٹاں والی چڑھائی سے لے کر کاشانہ حسین تک کی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر ۔ جہاں ہم گراتے نہ بھی تو دو تین جھٹکوں کے ساتھ بائیک کا بند ہو جاتا لازمی تھا ۔

کھوئی رٹہ برقیات آفس میں پہنچ ہی گے وہی ہوا جس کا خدشہ ہمیں ایک ہفتے سے تھا وہاں جو بھی ہمارے ہاتھ میں پکڑے کاغذات کو دیکھتا جو کوٹلی سے ہم منظور کروا کے لائے ہوئے تھے راجا صاب سے ملنے کا مشورہ دیتا جب راجا صاب کے پاس جاتے تو وہ اگلے ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا چودھری صاب کو ملیں وہاں سے ملک صاحب اور پھر بٹ صاحب سے ملنے کا حکم ملا یقین جانیے اس دن اتنی ساری برادریوں سے ملنے کے بعد پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ واقعی ہمارے ملک میں مساوات باقی ہے۔ آخر کار ایک مہربان مغل صاحب نے کوٹلی سے منظور شدہ کاغذات پر ایک ابجیکشن لگا کر ہمیں تھما دیا اور ساتھ مسکراتے لبوں سے ایک میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مشورہ بھی دیا کہ اگر آپ چائیں تو یہ ابجیکشن یہاں سے بھی ختم کروا سکتے ہیں بس ۔۔۔ بس کے ساتھ ہی بڑے پیارے انداز میں انہوں نے کلمے والی انگلی پر انگوٹھا رکھ کر ہلایا جسے میری تحریر کا ہر قاری بخوبی سمجھ گیا ہو گا۔ خیر ہم نے نیفیو کی موجودگی میں انگوٹھے والے انٹرنشینل سمبل کو نہ سمجھنے کی اداکاری کرتے ہوئے پھر کبھی آنے کا کہہ کر دفتر سے باہر نکل آئے چونکہ اکثر اوقات اس برخوردار کی موجودگی میں ہم نے وہ لیکچر بھی دیے تھے جن میں انگوٹھے کے اس سمبل کو سختی سے مسترد کیا گیا تھا ۔

دفتر سے نکلتے ہی ایک کالم نگار سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا ۔ سوچا کھوئی رٹہ تو یوں بھی آئے ہیں کیوں نہ اس پتر کار سے ملتے چلیں ۔ لیکن چلیں کے بعد فوراً ہی خود پہ جس بات سے غصہ آیا وہ یہ تھی کہ ہمارے پاس موصوف کا اس کے سوا کوئی اتا پتا نہ تھا کہ موصوف کھوئی رٹہ ہوتے ہیں۔ کچھ سوچ ہی رہے تھے کہ نیفیو نے پوچھ لیا بڑے پاپا کیا سوچ رہے ہیں ۔ اس کے اس سوال پر دل میں دبی جستجو ملاقات کے متعلق سب کچھ بتا دیا اور ساتھ اس المیے سے بھی آگاہ کیا کہ ہمارے پاس ان کا کوئی اتا پتا نہیں ہے ۔ اس نے ہماری لاچارگی کو دیکھ کر کچھ سوچتے ہوئے کہا آپ انکل شفیق(شفا لیب والے) سے کیوں نہیں مل لیتے ۔ قدرے بیزاری سے میں نے کہا کیا بلڈ ٹیسٹ کرانا ہے ؟ کہنے لگا نہیں وہ تقریباً ہر کسی کو جانتے ہوتے ہیں شاید آپ کا معمہ بھی حل ہو جائے۔ بات اس نے خوب کہی تھی اس لیے کہا چلو پھر انہی کے پاس چلتے ہیں ۔

تقریباً پلک جھپکتے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔ شفیق صاحب جو اس وقت لیب میں کام کرنے والے لڑکوں کو کوئی ہدایات دے رہے تھے ہمیں دیکھتے ہی مختصر کر دی اور بڑی خندہ پیشانی سے ویلکم کیا ۔ ہمیشہ کی طرح بھائی جان کہہ کر ہم سے حال احوال پوچھتے ہوئے ساتھ ہی لڑکے سے چائے کا آرڈر دینے کو کہا ۔ بجلی کی بندش سے لیب کے اندر کا ماحول قدرے گرم ہی تھا اس لیے انہوں نے ہینڈ میڈ پنکھا اٹھا کر جھلنے لگے ۔ ہم نے ان کا فطری خلوص دیکھتے ہوئے تبسم کے ساتھ شکریہ بجا لاتے ہوئے کہا اس کی ضرورت نہیں ۔ اور روایتی جملہ ادا کرتے ہوئے کہا اتنی گرمی نہیں ۔ ساتھ ہی ہم نے اپنے آنے کا مدعا پیش کرتے ہوئے کہا آپ پروفیسر مقبول آزاد کو جانتے ہوں گے ۔ سنتے ہی انہوں نے تین بار جاننے کا اقرار کیا۔ ہم نے کہا ہم ان سے ملنا چاہتے ہیں ۔ قدرے ہنستے ہوئے کہنے لگے ابھی آپ کی خواہش پوری کی جاتی ہے۔ یہ کہتے ہی انہوں نے موبائل نکال کر کال ملائی دو تین بل جانے کے بعد کال اٹینڈ ہونے پر شفیق صاحب نے انہیں لیب پر آنے کی دعوت دی جو انہوں نے بخوشی قبول کر لی اور پانچ منٹ میں آنے کا کہہ کر کال ڈراپ کر دی۔

چائے والے کے ساتھ ہی ہمارے مقصود نظر نے بھی قدم رنجہ فرمایا ۔ بائیک پر آنے کی وجہ سے زلفیں منتشر ہو چکی تھیں گرم لو کی وجہ سے بائیک سے اترنے کے بعد پسینہ کا آ جانا فطری عمل ہے اب جو پسینہ بہنے لگا تو آستین کے بٹن اور گریبان کے بٹن کھول کر کالر قدرے پیچھے کو کیے اور شفیق صاحب کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا تو شفیق صاحب ہماری سمت اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے یہ ہمارے بھائی جان ہیں آپ سے ملنا چاہتے تھے ۔ یہ سن کر انہوں نے نظریں ہم پر جماتے ہوئے مصحافے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو ہم نے اپنا نام لیتے ہوئے معانقے کے لیے بازو لچکدار کمر کے گرد لپیٹ لیے۔ ہمارے منہ سے ہمارا ہی نام سنتے ہوئے کہنے لگے ہو ہو سیری نالا بان (میری سیری نالا بان پر لکھی گی تحریروں کا نام لیتے ہوئے) والے؟ جی جی وہی شفیق صاحب نے تصدیق کر دی ۔

اب ہم بجائے آمنے سامنے کے دائیں بائیں بیٹھے تھے چونکہ ہم اکثر ان کی تصویر صفر نامہ ( اس نام سے ان کا کالم میں چھپتا ہے) میں دیکھتے رہتے تھے اس لیے مذید معائنے سے اجتناب ہی برتا بس وہی تصور والی ٹیڑھی سی ناک کثرت سگریٹ نوشی سے سیاہی مائل ہونٹ ہماری ہی طرح کے پیچکے ہوئے گال اور درمیانی سی جسامت کے مالک لیکن کالم نگاری کے بےتاج بادشاہ۔ وہ نہ صرف عبارت میں موتی پرونے کے ماہر تھے بلکہ نہایت ہی شائستہ گفتگو کا ہنر بھی رکھتے تھے۔ طریقہ تخاطب بڑا مہذب سا تھا ۔ آنکھوں میں انجانی سی چمک ماتھے پر گہری سوچوں کی غمازی کرتی دو باریک سی شکنیں گفتگو کے دوران رموز و اوقاف کا بہترین استعمال شخصیت کو مزید اجاگر کر رہا تھا ۔ گریبان کے کھلے بٹن اور ڈھیلی ڈھالی سی شلوار کسی عمیق خیال مفکر کا حال بیان کر رہی تھی ۔ شاید ہمیں سننے کے لیے انہوں نے ہمارے نیفیو کو دیکھتے ہوئے پوچھا یہ بطور ڈرائیور ہوں گے ۔ ہم سے پہلے ہی شفیق صاحب نے تائید کر دی تو یوں وہ ہماری جی بھی وہ سن نہ پائے ۔ ہم نے بس دس منٹ کی مختصر سی ملاقات میں صرف کالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے "صفر" کا پوچھا کہ یہ کون سا صفر ہے جس کے جواب میں انہوں نے دلکش سے تبسم سے نوازا اور نگاہوں کا زاویہ اتنا ہی اونچا کر دیا جتنا صفر کے بائیں چھ لگانے سے بن جاتا ہے ۔ اس کے بعد وہ لندن میں مقیم سرفراز موسی صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے ہمارے غائبانہ تعارف کے متعلق شفیق صاحب سے ذکر کر رہے تھے جب کے ہم ان کے تخلص آزاد کے متعلق سوچ رہے تھے ۔ بس یوں ہی سمجھ لیے جیسے ہم انجم لکھ کر چمک نہ سکے اسی طرح وہ آزاد لکھنے کے باوجود آزاد نہیں لگ رہے تھے۔ انہوں نے باتوں باتوں کے دوران ہی کلائی پر بندھی گھڑی پر نگاہ ڈالی پھر موبائل کو قمیض کے دامن پر یوں پھیرا جیسے پسینہ خشک کر رہے ہوں ۔ پھر او کے کی پریس کی دوبارہ ٹائم دیکھا اور جانے کی اجازت چاہی ۔ جو ہم نے بھی ان کی گونا گوں مصروفیات کے پیش نظر جلد ہی عطا فرما دی۔ وہ چلے گے لیکن آج بھی ان کی مختصر سی ملاقات آج بھی دل کو یاد ہے۔ ہم نے کیا کچھ پوچھنا چاہتے یا سنانا چاہتے تھے بقول ناصر کاظمی :-

حاِل دل ہم بھی ُسناتے لیکن
جب وہ ُرخصت ہوا تب یاد آیا۔

Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 55953 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.