رب راضی تو جگ راضی

میرے استاد محترم نے کچھ دن ہوئے ایک بہت قیمتی بات شیر کی ، پڑھنے کے بعد محسوس ہوا جیسے بہت سی الجھنیں اچانک سلجھ گئی ہوں اور کئ ایسی باتوں کے جواب مل گئے جنہوں نے کافی عرصہ ہوا ذہن میں تخریب کاری شروع کر رکھی تھی۔

بہرحال ، وہ بات کچھ اس طرح ہے۔

مصر کے مشہور عالم اور ادیب شیخ علی طنطاوی رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں :

جو لوگ ہمیں نہیں جانتے ان کی نظر میں ہم عام ہیں

جو ہم سے حسد رکھتے ہیں ان کی نظر میں ہم مغرور ہیں

جو ہمیں سمجھتے ہیں ان کی نظر میں ہم اچھے ہیں

جو ہم سے محبت کرتے ہیں ان کی نظر میں ہم خاص ہیں

جو ہم سے دشمنی رکھتے ہیں ان کی نظر میں ہم برے ہیں

ہر شخص کا اپنا ایک الگ نظریہ اور دیکھنے کا طریقہ ہے

لہذا دوسروں کی نظر میں اچھا بننے کے پیچھے اپنے آپ کو مت تھکائیے

اللہ آپ سے راضی ہو جائے یہی آپ کے لیے کافی ہے

لوگوں کو راضی کرنا ایسا مقصد ہے جو کبھی پورا نہیں ہو سکتا

اللہ کو راضی کرنا ایسا مقصد ہے جس کو چھوڑا نہیں جا سکتا

تو جو چیز مل نہیں سکتی اسے چھوڑ کر وہ چیز پکڑیے جسے چھوڑا نہیں جا سکتا!!

کتنی گہری بات ، کس قدر سادگی سے کہی گئ ہے!

پس ثابت یہ ہوا کہ ہر کسی کو ، ہر وقت خوش رکھنے کی کوشش کرنا فضول ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ آپ کو دل سے پسند کرتے ہیں ، ان کی نظر آپ کی ذات کی اچھائیوں کی طرف ہوتی ہے، اگر آپ سے کوئ غلطی سرزد ہو جائے، تو وہ آسانی سے درگزر کر دیتے ہیں ، ایسے لوگ آپ کی شخصیت کی تعمیر میں بڑا اہم اور مثبت کردار ادا کرتےہیں ۔ ایسے لوگوں کی قدر کرنے چاہئے۔ ایسے لوگوں کا ہماری زندگی میں ہونا بذات خود ایک نعمت ہے۔

زندگی میں اگر سب اچھ ہی ہوتا تو سیکھنے کے موقع کم ہی ملتے ، سو زندگی میں امتحان بن کر آزمانے والے کچھ ایسے مہربان بھی ملتے ہیں ، جو ، آپ کچھ بھی کر لیں ، آپ کو نا پسند ہی کرتے ہیں ، وجہ خواہ کوئی بھی ہو، ان میں آپ کی کسی خوبی یا صلاحیت کو تسلیم کرنے کا ظرف نہیں ہوتا، دل و دماغ میں وسعت نہیں ہوتی ۔ قصور ، شاید دل میں براجمان اس بغض و عناد کا ہوتا ہے جو ہر روز انا کے پیالے پہ پروان چڑھتا ہے۔ اور اس انسان کو صرف اور صرف اپنے نفس کو خوش رکھنےکی ترغیب دیتا ہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ اہسے انسان کے دل میں منفی جذبات کا ڈیرہ لگا رہتا ہے۔ وہ حسد، دشمنی، رشک، غصہ اور عداوت جیسے جذبات سے ہٹ کر کچھ سوچنےسے قاصر ہوتا ہے۔اس کے وقت کا ایک بڑا حصہ اسی ادھیڑ بن میں گزرتا ہے کہ جو میرے پاس ہے، کسی اور کے پاس نہ ہو اور جو کچھ کسی کو ملا ہے، وہ اس کو نہیں ملنا چاہیے تھا۔ حسد اسی کو کہتے ہیں کہ آپ اللہ کی تقسیم سے راضی نہیں ہوتے۔ اہسے لوگ سکون قلب کی دولت سے محروم رہتے ہیں ۔ اور اگر اپ ایسے کسی انسان سے پسندیدگی کی سند وصول کرنا چاہتے ہیں تو اس خیال کو ذہن سے جھٹک دینا ہی مناسب ہو گا۔ ورنہ آپ ایک شدید الجھن میں پڑ جائیں گے۔

اس کرہ ارض پہ بسنے والا ہر انسان صرف اور صرف ایک ہی چیز کا متلا شی ہے اور وہ ہے ، قلبی سکون۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ ہم سب کے نزدیک سکون حاصل کرنے کے طریقے مختلف ہیں، سکون کن چیزوں سے حاصل ہوتا ہے ہو معیار بھی یقیناً مختلف ہے۔

اصل سکون ، تسلیم کرنے میں ہےکہ میں ایک عاجز انسان ہوں، مجھے دی گئی ہر ہر چیز، ایک عطا ہے، جو اگر وہ ذات باری تعالی نہ چاہتی تو ہرگز نہیں مل سکتی تھی۔ سکون نام ہے، اس تکبر کو روند ڈالنے کا، کہ میری ہر خوبی، ہر صلاحیت میرے کسی ذاتی کمال کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے وجود میں آئی ہے، اور اگر اللہ نہ چاہے تو انسان اپنی کسی بھی خوبی کا کبھی بھی ادراک تک نہ کر پائے۔

جب دل میں یہ یقین پختہ ہو جائے گا تو خودبخود اس آحساس برتری سے چھٹکارہ مل جائے گا جو ساری زندگی ہمیں ذات کا قیدی بنائے رکھتا ہے، "میں" کے جھگڑے سے نجات مل جائے گی!
انسان دوسرے کو جانچنےاور پرکھنے کی عادت بھی چھوڑ دے گا۔اور یہ بات ہر انسان پر ایک ہی طرح لاگو ہوتی ہے۔ خدا سب کا خدا ہے ، جو ہمیں ملا اللہ کے حکم اور کسی حد تک ہماری کوشش سے ملا اور جو نہی ملا وہ بھی اللہ کی مرضی کے تابع ہے۔ اس ایک بات پہ راضی ہونا، شکر گزاری کی ہی صورت ہے۔ کسی کو کیا ملا ، کتنا ملا اور کیوں ملا ، ہمیں اس سے کوئی سروکار نی ہونا چاہئے۔

کہتے ہیں، کوئ سواری انسان کو اتنی تیزی سے خدا کی طرف نہیں لے کر جاتی جتنی تیزی سی عاجزی لے کر جاتی ہے۔ اور میرے مطابق، عاجزی اختیار کرنے کا یہی طریقہ ہے، کا انسان دو باتیں اچھی طرح سمجھ لے۔

پہلی یہ کہ اپنی ذات کو پوجنا چھوڑ دیں ، لوگوں کی ذات میں اچھائ تلاش کریں ۔ لیکن اپنی توقعات کا دائرہ جتنا ہو سکے، محدود رکھیں ۔ اور اللہ کی دی گئی ہر نعمت، کو ایک احسان عظیم سمجھیں ، for granted کبھی مت لیں ۔

دوسری اور آخری بات ، اللہ کی ذات وہ واحد ہستی ہے، جو ہر غرض سے بالاتر ہے، جو صرف اور صرف دینا جانتی ہے ، دنیا اور اس میں بسنے والی ہر چیز عارضی ہے، اس سے ملنے والی خوشی اور دکھ بھی عارضی ہیں ۔

اگر کوئی عمل باقی رہے گا اور مرنے کے بعد بھی ہمارےساتھ جائے گا تو وہ یہ ہے کہ آپ نے خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا کیا؟ کتنے لوگوں سے اللہ کی خاطر محبت کی ؟ ان کی زندگی میں آسانی پیدا کی ؟ ان کو معاف کر کے، ان کو اچھا انسان بننے میں مدد کر کے؟ ان کی غلطیوں کی تشہیر کی بجائے پردہ پوشی کر کے؟

یہ سب کہنا مشکل نہی ، لکھنا اور بھی آسان اور عمل کرنا بے حد کٹھن ہے۔
لیکن ۔۔۔
جس وقت انسان ، انتہائی عاجزی اور خلوص دل کے ساتھ اپنی نیت کا رخ الل کی جانب موڑ دیتا ہے، اور کوئی بھی ارادہ اللہ کی خوشنودی کے لئے کرتا ہے، عمل کی توفیق آتے دیر نہیں لگتی! دلوں کے پھرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا!
 

Aisha
About the Author: Aisha Read More Articles by Aisha: 13 Articles with 25953 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.