فاٹا کا انضمام اور چند حقائق

فاٹا کا انضمام۔۔ عالمی نکتہ نظر سے اس مسئلہ کا پس منظر فوائد اور نقصانات کیا ھوں گے نیز پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ھونی چاھئیے اور چودہ سو سال قبل یہ پالیسی کس نے اور کن خطوط پر بنائی ھے مستقبل کا نفسہ کیا بن رھا ھے پاکستان کا تحفظ کیسے ممکن ھے۔۔ ان تمام سوالات کے لئے کالم کا مطالعہ ضروری ھے

پہلے یہ اھم بات سمجھنے کی ھے کہ افغانستان کے جو علاقے قندھار خوست پکتیا پکتیکا ننگرھار جلال آباد وغیرہ ھیں یہی اھم ھیں اور ھر دور میں اصل لڑائی ان ھی علاقوں میں ھوتی ھے یہاں مستحکم قبضہ کے بغیر تخت کابل کچھ بھی نہیں اسی چکر میں یار دوست آتے ھیں اور تخت کابل بھی ھاتھ سے نکل جاتا ھے
اور یہ علاقےاکثر ھمارے قبائلی علاقوں کے سامنے ھیں

انگریز نے افغانستان پر قبضہ کرنے میں ناکامی کے بعد ھندوستان پر حکومت کو بچانے کیلئے اس علاقہ کے ساتھ ڈیورنڈلائن کاگیم کھیلا اور آج لگتاھے دوسرے کابل پر قبضہ کو بچانے کیلئے دوسری طرح کا گیم کھیل رھے ھیں
واللہ خیر الماکرین

قبائلی علاقہ جات دو طرح کے ھیں پاٹا صوبائی منتظم شدہ اور فاٹا .. فیڈرل یعنی وفاقی منتظم شدہ..جو خیبر، کرم، شمالی جنوبی وزیرستان، اورکزئی، مھمنداور باجوڑ وغیرہ پر مشتمل ھے ان میں بعض علاقے پہلے یاغستان بھی کہلاتے تھے غزنوی غوری ابدالی سے لےکر سید احمد شھید تک..شیخ الھند کی تحاریک سے سوویت یونین اور امریکہ مخالف جہادی تحریکوں تک ان علاقوں پراھل حق اور باطل دونوں کی نظر رھی.... اور ھر دور میں حق کیلئے پہلے سے بڑھکر جان ومال اور نصرت وایثار کی قربانیاں دیتے آرھے دین پرعمل تو سب کرتے ھیں مگر جب بات دین کیلئے قربانی کی آتی ھے تو وہ یہیں کے لوگ دیتے ھیں
ھندوستان اور افغانستان دونوں کی دینی قیادت ھر تحریک کے وقت اسی جگہ کو دیکھتی ھے

گذشتہ 35سالوں سے افغان جہاد کی کامیابی ظاھری نقشوں میں اسی علاقہ کی مرھون منت ھے یہ نہ ھوتے تو کچھ بھی نہ ھوتا...دنیاوی اعتبار سے پیچھے تو دینی اعتبار سے سب سے آگے ھیں

اس کی وجہ انگریز کی باقیات سیئہ( جدید عصری تعلیم اور جمہوریت.. عیش پسندی کی شھری سھولیات وغیرہ)سے دوری ھے...اگر غربت دین سے محبت اور قربانی کی وجہ ھوتی تو عرب کے شہزادے اور مالدار تورابورا کے غاروں کارخ کبھی نہ کرتے ان علاقوں کو ضم کر کے ان کی قبائلی حیثیت ختم کرنا کم ازکم دینی اعتبار سے نہایت نقصان دہ ھے یاد رھے کہ مشرف کے دور میں بھی ضم کرنے کی بات شروع ھوئی تھی اس پس منظر ھی میں سمجھدار کیلئے اشارہ موجود ھے

اگر چہ آج عالمی جہادی قیادت کی اکثریت جدید تعلیم یافتہ ھے مگر پھر بھی اس کے برےاثرات سے انکار ممکن نہیں ھے

جدید نظام تعلیم کا فرق دیکھناھو تو ان علاقوں کا دینی موازنہ مردان چارسدہ وغیرہ سے کریں تو معلوم ھو گا کہ زمین وآسمان کا فرق ھے دین پرعمل تو سب کرتے ھیں مگر جب بات دین کیلئے قربانی کی آتی ھے تو وہ یہیں کے لوگ دیتے ھیں
ان کی کامیابی کاراز جرگہ سسٹم اور پرانی وفطری اسلامی روایات کے مطابق سادہ زندگی گزارناھے اسی کو نشانہ بنانے کیلئےترقی وحقوق کے نام پر انضمام کی باتیں کی جارھی ھیں

اب تک کاتجربہ یہی ھےکہ جوعلاقہ جات اب تک ضم کئےگئے وھاں باطل مختلف شکلوں خوشنمانعروں کی آڑ میں گھس آیا جبکہ کل تک اسے ھمت نہ تھی اور جمہوریت کی برکات سے قومی وحدت اتفاق واتحاد پارہ پارہ ھوجاتاھے اور باطل کو مقابل کے بجائے اندر سے حامی مل جاتے ھیں

انگریز کے دئیے ھوئے ایک کالے قانون کی جگہ ھم اپناقانون جسکی بنیاد بھی انگریزی قوانین پرھے نافذ کرکے کون سا تیر مار لیں گے ھماری عدلیہ میں عدل کے سوا سب کچھ ملتاھے اس سے تو جرگہ سسٹم میں مساوات کے ساتھ سستااور فوری انصاف مل جاتا ھے

مولانا فضل الرحمن صاحب صرف سیاسی آدمی ھوتے تو ان کی مخالفت پھر بھی وزن رکھتی کیونکہ وہ بھی اسی علاقہ کے قریب رھتے ھیں یہاں کےحالات کو بھی سمجھتے ھیں اور سیاست کو بھی... مگر سیاسی شخصیت کے ساتھ وہ ایک عالم دین بھی ھیں اور ان سب حالات کو دینی نظر سے بھی اچھی طرح سمجھتے ھیں
ان کی مخالفت کی وجہ سیاسی ھے یا مذھبی؟ وھی بہتر سمجھتے ھوں گے... کوئی بھی یہاں کے لوگوں کو جائز حقوق ملنے کی مخالفت نہیں کرسکتا مگر دینی تشخص کا خاتمہ ھوجائے..تو یہ گھاٹے کاسوداھے
مگر مستقبل میں ھندوستان.. پاکستان ...اور افغانستان کے لوگ کس علاقہ کو امید بھری نظروں سے دیکھیں گے؟ یہ سوال ذیادہ اھم ھے

کسی شاطر دماغ نے باریک بینی سے بہترین منصوبہ تیار کیا ھے
جسکی کامیابی میں دینےطبقے کی ناکامی ھے

اگر واقعی تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ھے.... تو کچھ بھی ھو تاریخ یہاں بھی اپنے آپ کو دھرائی گی.. غزوہ ھند اور امام مھدی کی احادیث ، شاہ نعمت اللہ کی پیشن گوئیاں پڑھ لیں

ھم لاکھ بار انڈیا کے ساتھ تجارت کرکے پسندیدہ ملک قرار دیکر دوستیاں بنائیں ھندو ھمارا دشمن تھا ھے اور رھے گا ھم کتنی ھی پالیسیاں بنائیں ھماری خارجہ پالیسی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو سال پہلے بناکر بتاچکے ھیں اور وہ ھے غزوہ ھند.... یقین ھے کہ ایک بار پھر سومنات کے پجاری غازیان سرحد کی تکبیریں ضرور سنیں گے جیسا کہ وہ پہلے بارھاسن چکے ھیں

یہ تو وقت ھی بتائےگا یہ علاقہ دوسروں کےرنگ میں رنگتا ھے یا دوسرے اس کے رنگ میں رنگتے ھیں
اللہ کی ذات پر حسن ظن کے ساتھ دینی طبقہ کو انتظار کے بجائے آئندہ کی تیاری ابھی سے شروع کر دینی چاھئیے.. اسلام کی بقا پاکستان کےتحفظ اور امت مسلمہ کے دوبارہ عروج کیلئے ھمیں جاگنا، اٹھنا ھوگا
کہیں دیر نہ ھوجائے..... بقول اقبال
وقتِ فرصت ھے کہاں کام ابھی باقی ھے
نورِ توحید کا، اتمام ابھی باقی ھے
 

نواب فاتح
About the Author: نواب فاتح Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.