ذوالنورینؓ

قبول اسلام سے پہلے حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دامن ہر بُرائی سے پاک تھا۔ بچپن سے راست بازی ، ایمان داری اور اعلیٰ کے بلند درجات پر فائز تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں جب پڑھے لکھے لوگوں کی کمی تھی، اس وقت آپ ؓ کا شمار تعلیم یافتہ لوگوں میں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قبول اسلام کے بعد آپ ؓ نے کتابت وحی کے فرائض بھی انجام دئیے۔جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنی فطری شرافت، ایمان داری ، راست بازی اور حق پرستی کے باعث فوراً اسلام قبول کیا۔ یہدور اسلام قبول کرنے والوں کے لئے بڑا مشکل تھا۔ آپ ؓ کا خاندان بنو امیہ اسلام کا سخت ترین دشمن تھا۔ جب آپ ؓ نے اسلام قبول کیا تو آپ ؓ کے لئے بڑی مشکلات کھڑی کی گئیں۔ آپ ؓ کے خاندان والوں نے آپؓ سے منہ موڑ لیا اور آپؓ کو طرح طرح کے مظالم دینے لگے۔ آپؓ کا چچا آپؓ کو رسی سے باندھ کر مارتا پیٹتا اور کہتا ۔ ’’میں تجھے اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک تو اس مذہب کو ترک نہیں کرے گا‘‘۔لیکن آپؓ صبر و برادشت سے یہ سارے مصائب جھیلتے اور آپ ؓ کا ایک ہی جواب ہوتا۔ ’’بخدا، میں اس دین کو کبھی نہیں چھوڑوں گا اور نہ اس سے جدا ہوں گا‘‘۔ جب چچا بھتیجے کا یہ اصرار اور استقلال دیکھتا تو ہار مان کر رسیّاں کھول دیتا۔

جب کفار مکہ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ پر اذیتوں اور مصائب کا دائرہ تنگ کیا تو آپؓ نے اپنی اہلیہ حضرت رقیہ ؓ اور دیگر مسلمانوں سمیت حضور ﷺ کے حکم سے حبشہ کی طرف اسلام کی پہلی ہجرت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت لوط ؑ کے بعد ایک ساتھ ہجرت کرنے والا یہ پہلا جوڑا ہے‘‘۔ چند برس بعد جب یہ غلط خبر حبشہ پہنچی کہ قریش مسلمان ہوگئے تو اکثر مہاجرین کے ہمراہ آپؓ بھی واپس مکہ آگئے۔ قریش کی روز افزوں ایذارسانیوں اور ظلم و ستم کے باعث حضور ﷺ نے اپنے تمام اصحاب کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی تو آپؓ بھی اپنے اہل و اعیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے۔ یوں آپؓ نے حبشہ اور مدینہ کی دونوں ہجرتوں میں شرکت فرمائی اور آپ ؓ نے ذوالھجرتین کا لقب حاصل کیا۔ اس کے آپ ﷺ کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ ؓ اور حضرت اُم کلثوم ؓ یکے بعد دیگرے آپ ؓ کے نکاح میں آئی تھیں۔ اس وجہ سے آپؓ کو ذوالنورین یعنی دو نوروں والا بھی کہا جاتا تھا۔

حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ہر مشکل گھڑی میں اسلام کی دل کھول کر مدد کی۔ جب مسلمانوں نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو وہاں مہاجرین کو میٹھے پانی کی سخت تکلیف تھی کیوں کہ شہر کے وسط میں میٹھے پانی کا صرف ایک کنواں تھا اور وہ ایک یہودی کی ملکیت میں تھا۔جو پانی فروخت کرتا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ’’اگر کوئی مسلمان اس کنویں کو خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کردے تو میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں‘‘۔ آپؓ نے اس کنویں کو منہ مانگی قیمت پر خرید لیا اور عام مسلمانوں کے لئے وقف کردیا۔

آپ ؓ غزوہ بدر میں اپنی شریک حیات حضرت رقیہ ؓ کی علالت کے باعث حضور ﷺ کی ہدایت کے مطابق شریک نہ ہوئے۔ اس کے علاوہ تمام معرکوں میں جان و مال سے شریک رہے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر سخت گرمی کا موسم اور قحچ سالی کا دور تھا۔ یہ دور مسلمانوں کے لئے انتہائی تنگ دستی کا زمانہ بھی تھا۔ حضور ﷺ نے جب اسلامی لشکر کے لئے مالی امداد کے لئے صحابہ کرام ؓ سے اپیل کی تو آپؓ نے مسلمانوں کی تیس ہزار فوج کا ایک تہائی ساما ن و خرچ تنہا اپنے ذمہ لیا۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق غزوۂ تبوک کی مہم میں تیس ہزار پیادے اور دس ہزار سوار شامل تھے۔ آپؓ نے دس ہزار سے زائد فوج کے لئے سامان مہیا کیا۔ اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار دینار بھی پیش کیے۔آپؓ کو 18ذی الحجہ 35 ھ قرآن مجید کی تلاوت کے دوران شہیدکیا گیا۔ اس وقت آپؓ کی عمر اسّی برس تھی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 262384 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.