آپریشن رد الکرپشن ۔۔۔صوبہ سندھ!!

صوبہ سندھ پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے جس میں سب سے زیادہ سن انیس سو سینتالیس کو پاکستان کے معروض وجود میں آنے کے بعد ہجرت کرکے آباد ہوئے، ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو قبل از پاکستان وہ بھارت میں اعلیٰ تعلیم کےزیور سے آراستہ رہے، فن و ہنر کے میدان میں کمال رکھتے تھے، علم و ادب سے مالا مال تھے ، تہذیب و معاشرے کے اصول پر کاربند تھے، قانون کی پارسداری اورمنصب کے ساتھ مکمل انصاف برتنے والے تھے، تعمیر پاکستان اور ترقی پاکستان میں ان لوگوں کا بہت بڑا کردار رہا ہے، ان لوگوں میں زیادہ تر اتر پردیش کے لوگوں نے نمایاں کردار ادا کیا وہیں بہار کے پڑھے لکھے لوگوں نے بھی اپنی خدمات سے چار چند لگادیئے، اگر تاریخ کے آئینہ میں نظر ڈالیں تو حقیقت اور سچائی بیان کرتی ہے کہ پاکستان نیک، سچے، مخلص، جرائت مند، با اصول ،با ضمیر اور با عزت کے مالک لوگوں نے دین اسلام کے سائے میں رہ کر بہترین معاشرہ اور بہترین نظام مروج کیا ہوا تھا،ماضی میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اُ س زمانے میں تعلیم، صحت، پولیس، عدالت، لوکل گورنمنٹ، وفاق و صوبائی حکومتیں اور ریاست پاکستان شفاف انداز میں تھی۔۔۔! معزز قارئین!! انیس سو اڑتالیس کوبانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اپنی ٹی بی بیماری کے باعث دنیائے فانی سے کوچ کرگئےیہ وہ وقت تھا جب پاکستان کو بنے صرف ایک سال کا عرصہ ہوا تھا پھرقائد ملت لیاقت علی خان کو سولہ اکتوبر انیس سو اکیاون کو راولپنڈی کے گراؤنڈ لیاقت باغ میں ایک جلسے کے دوران شہید کردیا گیا، انہیں قائد ملت اور شہید ملت کے خطابات سے نوازا گیا ،لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے جو سن انیس سو سینتالیس سے لیکر سن انیس سو اکیاون تک رہے۔۔۔ ان دو اہم ترین شخصیات کے بعد چند اور شخصیات پاکستان کے حکمرانوں میں شامل رہی ہیں جن کا کردار شفاف اور با کردار تھا لیکن سن انیس سر انہتر کے بعد سے پاکستان بد قمست رہا کہ اس پر جو حکمران برجمان ہوئے انہیں سوائے اپنی ذات کے پاکستان اور پاکستانی قوم سے قطعی دلچسپی نہیں رہی، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پاکستان میں کرپشن، بدعنوانی، لوٹ مار، اقربہ پروری ، نا اہلیت اور قابلیت کا جنازہ نکالا گیا، قومی خذانے کا بے دریخ استعمال ،بیرونی ممالک کے قرضوں کا بے شمار استعمال، ملک کو بد سے بدتر صورتحال سے دوچار کیا گیا۔۔۔ اس ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں حقیقی معنوں میں جمہوریت پنپنے نہیں دی گئی، گندی سیاسی کو پروان چڑھایا گیا، اہل اور قابل لوگوں کو پسپا کیا گیا، اداروں کی روح اور اساس کو نہ صرف تباہ کیا بلکہ اداروں کے درمیان تصادم اور خلیج پیدا کی گئیں ۔۔۔ سب سے عجیب اور بدترین عمل ذوالفقار علی بھٹو نے ہی شروع کیا وہ واحد سیاسی رہنما تھے جو جمہوریت کا آلاپ لگانے کے ساتھ ساتھ پہلے سول فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز ہوئے ، بھٹو نے ہی اداروں کو تہس نہس کیا، سندھ میں اس قدر بد نظمی اور بے انصافی کا عمل شروع کیا جس کی بھاری قیمت آج تک سندھ کے عوام بھگت رہے ہیں، بھٹو کے ہی دور حکومت میں کرپشن، لوٹ مار، بد عنوانی، لا قانونیت کو آزادی میسر آئی، تعلیمی اداروں میں نقل کا رجحان اُسی کے دور حکومت میں شروع ہوا، کسی ایک قوم کو زبردستی پروان چڑھانے کیلئے تمام ضابطوں کو توڑا ، لوگوں میں تعصب کا بیج بویا گیا ، اپنے اقتدار کی خاطر اپنے مخالفین کو کسی طور نہیں بخشا ، تمام اخلاقی اقدار کو نظر انداز کیا گیا، پھر کیا ہونا تھا کہ نہ وہ رہا نہ اس کی اولاد رہی لیکن اس کے زہریلے بیج آج سندھ سمیت پورے پاکستان میں نا اہلی کا ثبوت پیش کررہے ہیں، سندھ کے ایوان کرپٹ ممبران پر مشتمل ہیں، لوٹ مار، بد عنوانی، لا قانونیت آج بھی دندناتی پھر رہی ہے۔۔۔ معزز قارئین!! جس ملک کے کسی بھی حصے یا صوبے میں کرپشن کا زاویہ تیس فیصد سے زیادہ ہوجاتا ہے وہاں پر بد نظمی، بے انصافی اور ظلم و شدد کا راج ہوجاتا ہے، اس خطے میں دہشت گردی، عداوت، غم و غصہ ، نفرت پروان چڑھتی ہے، ایسے خطے میں لوگوں کے احساس و جذبات منفی رخ اختیار کرلیتے ہیں، برسوں گزرنے کے باوجود سندھ میں اہلیت و قابلیت کا نام و نشان نہیں ہے، شفارش اور قوم پرستی عروج پر ہے، یہی وجہ ہے کہ اداروں کا اثر بھی زائل ہوچکا ہے ، سندھ میں تو اینٹی کرپشن ہی سب سے بڑا کرپشن کا مرکز بنا ہوا ہے ،یہاں ہر کیس کے حساب سے ریٹ فکس کیئے ہوئے ہیں، تھانے جرائم کی آمجگاہیں جبکہ عدالتیں مجرموں کی رہائی کا راستہ ثابت ہورہی ہیں گو کہ سندھ میں آپریشن رد الکرپشن کی شدید ضرورت ہے، جب تک سندھ بھر میں آپریشن رد الکرپشن بھرپور بلا تفریق اندز میں نہیں کیا جائیگا اُس وقت تک سندھ روز تباہ ہوگا روز برباد ہوگا ، سندھ بھر کے تمام سرکاری ،نیم سرکاری، کارپوریشن، آٹومیشن، لوکل گورنمنٹ اور نجی اداروں کے اندر جراثیم کے مانند کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنا پڑے گا، کراچی سمیت سندھ بھر میں سیاسی و امرا کے نا جائز سلسلہ کو ختم کرنا چاہیئے، بلا تفریق چائنا کٹنگ، زمینوں پر قبضہ، سرکاری املاک کو سستے داموں کمیشن کے عیوض بیچنے کے خلاف گرینڈ آپریشن کرنا لازم بن گیا ہے، پی پی پی، ایم کیو ایم، اے این پی اور دیگر سندھ کے الحاق موجودہ و سابقہ سیاسی جماعتوں کا کڑا احتساب کرنا چاہیئے، خاص کر تقرریوں میں کرپشن یعنی نوکریوں کی فروخت پر احتساب و آڈٹ کرانا چاہیئے، سن انیس سو اکہتر سے لیکر جتنی بھی زرعی و دیگر بینکوں سے قرضے معاف کرائے گئے ان کی تفتیش و تحقیق کا عمل شروع کرنا چاہیئے،سندھ سے فی الفور کوٹہ سسٹم ختم کرنا چاہیئے، سندھ اس وقت تمام صوبوں میں کرپشن و لوٹ مار اور سرکاری و نیم سرکاری اراضی کی غیر قانونی فروخت میں سب سے زیادہ ریشو رکھتا ہے، خود سابق صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور اقتدار میں جس قدر محکمہ تعلیم، محکمہ صحت، محکمہ انکم ٹیکس، محکمہ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن، محکمہ انہار، محکمہ ثقافت، محکمہ انفارمیشن،محکمہ داخلہ و خارجہ ،اکاؤنٹینٹ جنرل آف سندھ، سندھ ٹریژیری،کے ڈی اے، کے ایم سی، کراچی بلڈنگ کنٹرول، کے الیکٹرک، پی ٹی سی ایل سندھ، ایس ایس جی سی سندھ سمیت سندھ بھر کے تمام شہروں میں ترقیاتی امور ہوں یا دیگر ہر ایک میں کڑوروں نہیں کھربوں کی کرپشن اور لوٹ مار کی گئیں، وڈیروں کی نجی جیلیں، کمزور اور غریب کسانوں، ہاریوں، مسکین و لاچار لوگوں پر ظلم کی طویل داستانیں موجود ہیں، وڈیروں کے جبر اً قبضے اور قتل و غارت پر پولیس کا پردہ رکھنا یہاں کا گویا روج بن گیا ہو، کسی ایسے دیہات موجود ہیں جہاں نہ سندھ حکومت کی رٹ موجود ہے اور نہ ہی وفاق کی کیونکہ اُن علاقوں کے وڈیرے ایوانوں میں موجود ہیں کوئی وزیر بنا پھرتا ہے تو کوئی مشیر اور یہ سب پولیس اور قانون کو اپنے جوتے کے تلوے میں رکھتے ہیں ، شرم کی بات تو یہ ہے کہ سندھ پولیس ا ن کی دلالی کرتے ذرا بھی حیا نہیں کرتی، اس کی ایک وجہ سندھ پولیس کا سیاسی دباؤ یعنی کرپٹ وزرا و حکمران کا براہ راست اثر ہے جس کی وجہ سے اچھے، ایماندار، مخلص وطن افسروں کو اعلیٰ مقام پر تعینات نہیں کیا جاتا،چھ سمتبریوم دفاع کی شب آرمی چیف نے اپنی تقریر میں واضع اشارہ کردیا کہ آپریشن رد الفساد اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ آپریشن رد الکرپشن کو پورے ملک میں بھر پور انداز میں نہ کیا جائے گویا آپریشن رد الفساد کا براہ راست تعلق آپریشن رد الکرپشن سے ہے، آرمی چیف کے مطابق دہشت گردی ، سہولت کاری کا اساس اور بنیاد کرپشن ہے، کرپشن سے کمائی جانے والی رقمیں ہی اصل میں دہشتگردوں، ٹارگٹ کلرز کو پیدا کیئے ہوئے ہیں، اگر یہ مالی امداد کا سلسلہ ہی بند کردیا جائے تو اس ملک سے ازخود دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا،مالی اعانت نہ ہونے سے ظاہر ہے یہ بارودی سامان اور دیگر معاملات بھی نہیں کرسکتے، افسوس صد افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان بھر میں سیاسی رہنما ،سیاسی جماعتیں چند ایک کے علاوہ سب ہی ان دہشتگردوں سے اپنے مفادات حاصل کرتے رہے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ سندھ کی سیاست متواتر عدم استحکام کا شکار رہی ہے، جب بج کسی حکومت نے سندھ میں پائے جانے والے جرائم اور کرپشن کی روک تھام کیلئے اقدام اٹھانے کی کوشش کی وہیں اسے کبھی سیاسی تو کبھی طاقتور انداز سے روکا گیا لیکن اب وقت ماضی کی طرح نہیں دور حاضر میں میڈیا بہت تیز ہوچکی ہے وہ ظلم و بربریت، قانون شکنی کو لمحہ بھر میں بے نقاب کرکے عوام کے سامنے پیش کردیتی ہے، یاد رکھگنے کی بات تو یہ ہے کہ اپنی تقریر میں آرمی چیف نے میڈیا کی کوششوں اور مثبت کردار کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ پاکستانی میڈیا کرپشن کے خاتمے میں مزید اپنا موثر کردار ادا کرتارہیگا۔۔۔معزز قارئین!! میری سینئر صحافی، محقق، تجزیہ کار اور دانشوروں سے سندھ میں پھیلے ہوئے کرپشن کے متعلق بات کی تو انھوں نے کہا کہ سندھ پاکستان کا سب سے زیادہ اور اہم ترین صوبہ ہے کیونکہ سندھ میں کراچی وہ شہر ہے جہاں سے دنیا بھر کی تجارت اور معاشی سرگرمیاں ہوتی ہیں اگر سندھ ہی کرپشن میں ڈوبا رہا تو گویا پاکستان کا زرہ زرہ کرپشن میں ڈوبا رہیگا اسی لیئے پاکستان کی ترقی و کامرانی ، امن و سکون کا دارومدار سندھ کا کرپشن سے پاک ہونا ایسا ہی ہے جیسے آگ کو پانی بجھادیتا ہے ، جہاں کرپشن کی بات ہوتی ہے وہیں نا انصافی، عدم تحفظ بھی ساتھ نظر آتا ہے، اسی لیئے اب اے ڈی خواجہ سمیت ایماندار بیوروکریٹس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سندھ کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے بھرپور آپریشن رد الکرپشن اپنے اپنے اداروں، محکمے اور وزاتوں میں ہنگامی بنیادوں پر کریں ،انشااللہ نیک نیتی سے ہر کام کامیاب ضرور ہوتا ہے ۔ اللہ سندھ کو ہمیشہ کیلئے کرپشن سےنجات دلادے، پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔!

جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 245504 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.