آپریشن رد الکرپشن ۔۔۔ایپکا!!

آپریشن رد الکرپشن میں آ ج میں ایپکا کے متعلق بیان کرونگا ،ایپکاکا مطلب ہےآل پاکستان کلرک ایسوسی ایشن ۔۔۔۔

سرکاری، نیم سرکاری، کارپوریشن،کمپنی ،نجی ادارے گویا دفتری امور کے معاملات کو حسابی اور فارمولیٹی طریقہ کار کو ادا کرنے والوں کو کلرک کہتے ہیں، کلرک کسی بھی ادارے کے انتظامی امور کو پیپرورک میں ڈھالنے والے ہنر مند بھی کہلاتے ہیں، کلرک کی ذمہ داریوں میں تنخواہ، تقرریاں، پروموشن جیسے معاملات کو متعلقہ اداروں کے قوانین کے تحت ملازمین کے حسابات کو تحریری شکل میں لانا بھی ہوتا ہے ، پاکستان بھر میں سرکاری اداروں میں کام کرنے والے کلرکوں کی تنظیم کا نام ایپکا ہے،یہ تنظیم کلرکوں کے جائز حقوق کیلئے بنائی گئی ہے جسے بنے کئی سال بیت گئے ہیں۔معزز قارئین!!

آج سےچالیس سال قبل وہ زمانہ تھا جب کلرکوں کی ضرورت ہوتی تھی تو تمام ادارے نوکریوں کے اشتہارات اخبارات میں شائع کرتے تھے جس میں عہدے کی نسبت تعلیمی و تجربات کا تعین کیا جاتا تھا، ایک تحریری امتحان کے بعد کامیاب امیدواروں سے انٹرویو کرکے ان کی قابلیت کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی ،شریک ا میدواروں میں سب سے زیادہ اہل و قابل کو منتخب کیا جاتا تھا تاکہ دفتری معاملات بہتر انداز میں ہوسکیں، کلرک کی نوکری میں جونیئر منتخب کیئے جاتے تھے وہ اپنے سینئر کی ماتحتی میں پانچ سال تک تربیت حاصل کرتے تھے پانچ سال بعد پروموشن کی توقع کی جاسکتی تھی ،بحرحال ایک منظم نظام کے تحت سلسلہ جاری و ساری رہا ، پاکستان میں ستر کی دہائی سے لیکراب تک یعنی گزشتہ چالیس سالوں میں ایک سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل ضیاا لحق کا مارشل لا اورسابق صدر و ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کا ایمرجنسی میں کلرک حضرات کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ کسی سے ایک کپ چائے کی خواہش کرلیتے لیکن ان ادوار میں جب جب سول حکومت یعنی منتخب نمائندگان یعنی جمہوری حکومت اقتدار میں آئیں انھوں نے نہ صرف نظام کا تہس نہس کیا بلکہ رشوت، شفارش، نا اہلی کو بے پناہ پڑھوان چڑھایا، سیاسی من مانیاں، اختیارات کا ناجائز استعمال سے ادارے بھی تباہ کرڈالے گویا اپنے غلاموں کو مختلف محکموں کا سربراہ بنا ڈالا، نا اہل افسران کی تعیناتی کی وجہ سے کلرک اسٹاف بھی جو نا اہل تقرر کیئے جاتے رہے، کسی بھی ادارے کو چلانے کیلئے کلرکوں کا بہت اہم کردار ہوتا ہے ،کلرک ڈرافٹنگ اور دیگر تمام دفتری کاغذی معاملات افسر کے حکم سے تیار کرتے ہیں بلکہ ماضی میں کسی بھی پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے کلرک اپنے افسران کو قانونی رائے کے ذریعے حل پیش کیا کرتے تھے، ملازمین کی ترقیوں سے لیکر سبکدوشی تک کے تمام کاغذی معاملات کلرک ہی کیا کرتے تھے، چھوٹے ادارے ہوں یا صوبائی سیکریٹریٹ سے لیکر وفاقی ادارے ان سب میں کلرک کی بہت اہمیت ہوتی ہے کیونکہ حکومتی مشنری ان کے ہی ڈرافٹنگ کے ذریعے چل رہی ہوتی ہیں،صدر، وزیراعظم، اسپیکرز سمیت سپریم کورٹ کے تمام کاغذی ڈرافٹ کلرک صاحبان ہی حل کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کلرک کی اعلیٰ تقرر یاں یعنی سپرنٹنڈنٹ کے عہدے کیلئے کمیشن کے ذریعے منتخب کیا جاتا تھا،لیکن گزشتہ نو سالوں سے یعنی پی پی پی کے دور اقتدار صدر آصف علی زرداری اور موجودہ پی ایم ایل این کے دور اقتدار میں جو بدترین حال سرکاری و نیم سرکاری، کارپوریشن اور اداروں کا حال ہوا ہے وہ کسی بھی دور میں اس قدر بدترین نہ تھا، رشوت ستانی عروج پر قائم ہے، ایپکا یوں تو کلرکوں کی تنخواہ بڑھانے کیلئے شور مچاتی ہے مگر کبھی بھی کلرکوں کیلئے ریفریش کورس یعنی تربیتی کورس کے اہتمام کیلئے آواز بلند نہیں کی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ کلرک کی تقرریاں نا ہلیت پر کی گئیں ہیں ،چند تعداد کے علاوہ بیشتر کلرک ایسے ہیں جنہیں اپنے نام کی اسپیلنگ تک نہیں آتی گویا وہ دفتری امور کس طرح سرانجام دیں گے، حیرت ع توتعجب کی بات تو یہ بھی ہے کہ دیگر سرکاری، نیم سرکاری، کارپوشن کے ملازمین کی طرح بیشتر کلرکوں کی اسناد جعلی ہیں مگر افسوس کہ اینٹی کرپشن ادارہ ایسے جعلی ملازمین سے بھاری رقم حاصل کرکے کلیئرنس کا سرٹیفکٹس فراہم کردیتے ہیں جس سے سندھ سمیت پاکستان بھر میں نا اہل اور جعل ساز ملازمین کی بھرمار ہوگئی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بابت ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں جن کا کردار شفاف اور وہ سچ و حق پر قائم رہتے ہوں جو کسی بھی دباؤ کے اثر سے گھبراتے نہ ہوں ہوں تب ہی وہ اپنی تحقیق اور جانچ پڑتال کے بعد اہل کلرکوں کی تقرر کا بہتر بناسکیں۔۔معزز قارئین!! صوبہ سندھ وہ صوبہ ہے جہاں بے پناہ سرکاری ، نیم سرکاری، کارپوریشن میں کرپشن پھیلی ہوئی ہے حتیٰ کہ سندھ پبلک کمیشن بھی کرپشن کی دلدل میں اس قدر غرق ہوگیا تھا کہ مجبوراً عدالت کو اس کمیشن کو بند کرنا پڑا، قابلیت و اہلیت کا جس طرح سندھ میں قتل کیا جاتا ہے وہ شائد کہیں اور دیکھنے میں نہ آتا ہو، اس کی ایک سب سے بڑی وجہ سندھ کی دو حصوں میں تقسیم ہے ، ایک حصہ شہری تو دوسرا حصہ دیہی، یہی وجہ ہے کہ برسوں سے ملک پاکستان میں صرف اسی صوبے میں کوٹہ سسٹم رائج کیا ہوا ہے ،پاکستان کے تمام دیگر صوبوں میں یہ نظام نہیں ،کیا دیگر صوبوں میں دیہات یا شہر واقع نہیں تو پھر یہ ظالمانہ نظام سندھ میں ہی کیوں ، یہ سوچی سمجھی اسکیم ہے سندھ کو برباد کرنے کی ، اس نظام سے مکمل اہلیت و قابلیت کا جنازہ اٹھ رہا ہے ، ایپکا کی دیگر تنظیموں کی طرح ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اہلیت و قابلیت کو زندہ جاوید رکھنے کیلئے کلرکوں کے تقرر میں لازم و ملزوم قرار دیں ، بصورت یہی انارکی کا حال رہا تو ہمارے ادارے مکمل تباہ برباد ہوکر رہ جائیں گے، جہاںایپکا سن کوٹہ کی بات کرتا ہے وہیں وہ اہل اولادوں کی شرط بھی لگائے کہ بغیر قابلیت کا امتحان کے پاس ممکن نہیں ہوسکے گا اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ ملک پاکستان کے ادارے مضبوط ہونگے اور پاکستان ترقی کی جانب گامزن ہوسکے گا،اللہ پاکستان کے کلرکوں کو ہدایت بخشی کہ وہ رشوت کی طلبی کے بجائے تیرے شکر گزار بندے بن جائیں اور انصاف کے تقاضوں کے تحت اپنی فرائض منصبی کو احسن انداز میں پورا کرنے کی صلاحیت کو بڑھائیں ،آمین ثما آمین۔۔۔۔، معزز قائرین!!
جہاں ناا ہلیت اداروں کو تباہ کردیتی ہے وہیں قابل کلرکوں کی جانب سے رشوت کی طلبی بھی وطن عزیز اور اس کے اداروں کیلئے ناسور کا سبب بنتی ہے ، اب بھی وقت ہے کہ عوام کی بھلائی کیلئے ایپکا اپنی تنظیم کو پابند رکھے کہ اہلیت قابلیت صف اول پرہو اللہ ہم سب کو ہدایت کی روشنی عطا فرمائے آمین۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔!

جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 243470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.