ایک کھیل میں کئی کھیلوں کے مزے

فٹ وولی،فٹ بال ٹینس،سیپاک ٹاکرا،سلیم بال، فٹ گولف، انٹرنیشنل رولز فٹ بال اور کارف بال
فٹ بال، آئس ہاکی، ٹینس، گولف، والی بال اور گیلک فٹ بال کا حسین امتزاج ہیں

فٹ بال کا شمار دل چسپ اور تیز ترین کھیلوں میں ہوتا ہے ، لیکن اسے بعض کھیلوں کےامتزاج سے اسے انتہائی دل چسپ شکل دی گئی ہے ۔ ہم ذیل میں ایسے ہی چند کھیلوں کا تذکرہ پیش کررہے ہیں جو فٹ بال کے ساتھ مختلف کھیلوں کو ملا کر ایک نئی ہئیت کے ساتھ کھیلے جاتے ہیں۔

فٹ وولی
گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں فٹ بال اور والی بال کو یکجا کرکے ’’فٹ وولی‘‘ کا کھیل ایجادکیا گیا، جو ساحل سمند پر یا انڈور جمنازیم میں سمندری ریت پر بنائے گئے کورٹ پر کھیلا جاتا ہے۔ اس کھیل کے تخلیق کار برازیل سے تعلق رکھنے والے فٹ بالر، اوکٹاویوڈی مورائس تھے۔ 1965ء میں جب وہ اپنے ساتھیوں کے ہم راہ ریو ڈی جنیرو میں’’ کوپاچابانا‘‘کے ساحل پر فٹ بال کھیل رہے تھے، وہیں ایک کھمبے پر والی بال کی نیٹ لگی ہوئی تھی۔ انہو ں نے فٹ بال کواپنی کک سے ہٹ لگا کر نیٹ میں پھینکا، یہ کھیل انہیں اتنا دل چسپ لگا کہ اس عمل کو انہوں نے کئی مرتبہ دہرایا، بعد میں وہ دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ پیروں کی مدد سے والی بال کا کھیل کھیلنے لگے، جو بعد میں مقبولیت اختیار کرتا گیا۔ ابتدا میں اسے ’’پے وولی‘‘ کہا جاتا تھا، بعد میں ’’فٹ والی بال‘‘ کی مناسبت سے ’’فٹ وولی‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔شروع میںفٹ وولی کی ٹیم پانچ کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی تھی تاہم کچھ عرصے بعد اس میں تبدیلی کرتے ہوئےدو کھلاڑیوں تک محدود کردی گئی اور اس کے باقاعدہ قوانین مرتب کیے گئے جس کا سب سے اہم کلیہ یہ تھا کہ کھلاڑی کسی بھی صورت میں گیند کو ہاتھ نہیں لگائیں گے اور جس طرح والی بال میں ہاتھوں سے گیند ایک دوسرے کے حصے میں پھینکی جاتی ہے،اسی طرح فٹ وولی کے کھیل میں یہ عمل صرف پیروں اور سر سے انجام دیا جائے گا تاہم اس دوران گیند کو سینے پر بھی روکا جاسکتا ہے۔اس کھیل میں والی بال کی گیند کی بجائےفٹ بال کی گیندکا استعمال کیا جاتا ہے۔سمندر کے کنارے یا انڈور جمنازیم میں ساحلی ریت سے بنائے گئے کورٹ پر کھیلے جانے والے اس کھیل میں پوائنٹس کی بنیاد پرفیصلہ ہوتا ہے اور اس کے لیے والی بال کے مروجہ قوانین و اصولوں کو اپنایا جاتا ہے۔ ایک گیم پر مشتمل کھیل 18پوائنٹس پر مبنی ہوتا ہے، جب کہ ’’بیسٹ آف تھری‘‘ کے تین گیمز پر مشتمل میچ کے اولین دو سیٹ 15پوائنٹس اور تیسرا سیٹ 11پوائنٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں نیٹ کی اونچائی7.2فٹ ہوتی ہے، جب کہ خواتین کے مقابلوں میں نیٹ کی اونچائی 6.6فٹ ہوتی ہے۔ ’’فٹ وولی‘‘ کا کورٹ 29.5فٹ چوڑا اور 59فٹ لمبا ہوتا ہے جسے دو مساوی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، تاہم امریکا کی فٹ وولی ایسوسی ایشن نے کھیل کو مزید تیز رفتار بنانے کے لیے قوانین میں معمولی سی ترامیم کی ہیں جن میں نمایاں ترمیم میں کورٹ کی کے رقبے میںاضافہ کیا گیا ہے۔حالیہ ترمیم کے مطابق اس کی لمبائی 57فٹ اور چوڑائی ساڑھے اٹھائیس فٹ ہوجائے گی۔ 1970ء میں ریو ڈی جنیروسے شروع ہونے والا یہ کھیل برازیل کے دیگر شہروں، ریسائف، سلواڈور، گوئینا، سانٹوس اور فلوریانوپولس میں کھیلا جانے لگا۔ حالیہ برسوں میں برازیلین فٹ بال کے کئی پروفیشنل کھلاڑی فٹ وولی کے میچز میں بھی حصہ لے رہے ہیں، ان میں روماریو، ایڈمنڈو، رونالڈو، رونالڈ ہو، گاؤچو اور ایڈن ہو جیسے عالمی شہرت یافتہ فٹ بالر شامل ہیں۔ 2003میں فٹ وولی کاپہلا بین الاقوامی میچ امریکا میں منعقد ہوا جس کا انعقاد ’’یونائیٹڈ اسٹیٹس فٹ وولی ایسوسی ایشن ‘‘کی جانب سے میامی کے ساحل پر کیا گیا تھا۔ اس ٹورنامنٹ میں دنیا کے کئی ممالک کے فٹ بالرز نے حصہ لیا اور والی بال کا کھیل فٹ بال کی طرح پیروں سے کھیلتے ہوئے بہت محظوظ ہوئے، جس کے بعد یہ کھیل لاطینی و جنوبی امریکا، یورپ، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور اوشیانا کے ممالک میں مقبول ہوگیا۔ 2003 سے اب تک دنیا کے متعدد ممالک میں ساحل سمندر پر فٹ وولی کے بڑے ٹورنامنٹس کھیلے جاچکے ہیں، جن میں اسپین، پرتگال، یونان، متحدہ عرب امارات، فرانس،ہالینڈ، تھائی لینڈ، جنوبی افریقہ، اوبارا اور پیراگوئے قابل ذکر ہیں۔ ان ممالک پر مشتمل فٹ وولی انٹرنیشنل ایسوسی ایشن کا قیام عمل میںلایا گیا جس کے زیر اہتمام فٹ وولی کی عالمی چیمپئن شپ کا انعقاد ہوا جس میں پیراگوئے کو اس کھیل کے پہلےعالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل ہوا ۔جب کہ اس وقت فٹ وولی کی ورلڈ چیمپئنز ٹرافی برازیل کے پاس ہےجس نے 2013میں ریو ڈی جنیرو میںمنعقد ہونے والیے عالمی ٹورنامنٹ کے فائنل راؤنڈمیں پیراگوئے کو شکست دے کر یہ اعزازاس سے چھینا تھا۔

فٹ نیٹ یا فٹ بال ٹینس
یہ بھی دو کھیلوں کا مجموعہ ہے جس میںفٹ بال اور لان ٹینس ملا کر ایک نیا کھیل ایجاد کیا گیا۔ ’’فٹ بال ٹینس‘‘ کا آغاز 1920میں’’ فٹ نیٹ‘‘ کے نام سے کیا گیا۔ اس کھیل کووسطی یورپ کی مملکت جمہوریہ چیک سے تعلق رکھنے والے سلویا پراگ فٹ بال کلب کے کھلاڑیوں نے تخلیق کیا تھا۔ فٹ بال کے ایک ٹورنامنٹ سے قبل نیٹ پریکٹس کرتے ہوئے جب سلویا پراگ فٹ بال کلب کے کھلاڑیوں نے ٹینس کورٹ میں زمین کو چھوتے جال کے اوپر سے فٹ بال کو اچھال کر پیروں کی مدد سے ایک دوسرے کو پاس دیا ، تو انہیں یہ انداز بہت دل کش لگا اور انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ وہ کیوں نہ ایسا کھیل شروع کریںجس میں صرف پیروں اور سر کی مدد سے گیند کو اپنی مخالف ٹیم کے حصے میں پھینکا جائے،تاہم اس دوران ٹینس کی مانند کھلاڑیوں کو گیند کو ایک ٹپا زمین پر کھانے کے بعد سر یا پیر کی مدد سے مخالف ٹیم کے کورٹ میں پھینکنے کی اجازت ہو (یاد رہے کہ والی بال یا فٹ وولی کے کھیل میں گیند کو ٹپے دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تاہم فٹ بال ٹینس میںکھلاڑی کھیل کے دوران وولی بال کی مانند ایک دوسرے کو محدود پیمانے پر پاس دے سکتے ہیں) ۔ فٹ بال ٹینس میں، ٹینس بال کی بجائے فٹ بال کی گیند کو استعمال کیا جاتا ہے اور ٹینس کے نیٹ پر یہ کھیلا جاتا ہے، اس لیے اسے ان دونوں کھیلوں کی مناسبت سے ’’فٹ نیٹ‘‘ کا نام دیا گیا، جو بعد میں فٹ بال ٹینس میں تبدیل ہوگیا۔فٹ بال ٹینس کے قوانین کے مطابق ، اس کی ٹیم ایک، دو یا تین کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہیں، جب کہ کورٹ12میٹر لمبا اور 9میٹر چوڑا ہوتا ہے اور نیٹ کی اونچائی 1.10میٹر ہوتی ہے۔اس کھیل میں تین سیٹ پر مبنی مقابلے ہوتے ہیں اور ہر سیٹ 15پوائنٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔1940میں اس کھیل کے باقاعدہ اصول و ضوابط مرتب کیے گئے اور اسی سال چیکوسلواکیہ میں پہلے ’’فٹ نیٹ یا فٹ بال ٹینس ‘‘ کپ کا انعقادکیا گیا ۔1953میں پہلا لیگ میچ ’’ٹرامپسکا لیگا‘‘ کے نام سے کھیلا گیا۔1961 میں چیکوسلواکیہ اسپورٹس آرگنائزیشن نے اسےملکی کھیل کی حیثیت سے تسلیم کیا۔1971میں اس کھیل کے فروغ کے لے ’’پراگ فٹ نیٹ کمیشن‘‘ قائم کیا جب کہ 1974میں ’’چیک فٹ نیٹ‘‘ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ 1991میں پہلی مرتبہ فٹ نیٹ یا فٹ بال ٹینس کی یورپی چیمپئن شپ کے مقابلے منعقد ہوئے جب کہ 1994سے عالمی چیمپئن شپ کا آغاز ہوا۔1987میں اس کھیل کی عالمی سطح پر نگرانی کے لیےانٹر نیشنل فٹ بال ٹینس ایسوسی کی بنیاد رکھی گئی جو ’’فیڈریشن آف انٹرنیشنل فٹ بال ٹینس ایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس کے زیراہتمام 1994سے ہردو سال بعد فٹ بال ٹینس کی عالمی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا جارہا ہے۔اس کھیل کا موجودہ عالمی چیمپئن جمہوریہ چیک ہے جس نےعالمی چیمپیئن شپ میں سنگل ، ڈبل اور ٹرپل کیٹیگریز میں ہنگری کو شکست دے کر یہ اعزازجیتا تھا۔

سیپاک ٹاکرا‘‘ یا ’’کک والی بال‘‘
یہ کھیل تین کھیلوں فٹ بال، والی بال اور فٹ وولی کو ملا کر ایجاد کیا گیا ہےاور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا مقبول کھیل ہے۔ ملائشیا میں اسے ’’سیپاک راگا‘‘ ، تھائی لینڈ میں یہ ٹاکرا اور میانمار میں ’’چن لون‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ فلپائن کی مقامی زبان میں ٹاکرا کو سیپا کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ’’کک‘‘ کے ہیں، اس لیے یہ سیپاک ٹاکرا کےنام سے معروف ہے۔ 15ویں صدی میں ملاکا سلطنت کے دور میں سلطان منصور شاہ کے عہد میں اس کا آغاز ہوا لیکن اپنے انعقاد کی ابتدا میں ہی یہ کھیل ایک حادثے کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گیا۔ اس کے ایک میچ کے دوران بادشاہ کا بیٹا راجہ محمد اپنے مصاحبوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ تن بیسر کے بیٹے پیراک کی پھینکی گئی گیند اس کے سر پر آ کر لگی جس سے وہ زمین پر گر گیا۔ اس سے شہزادہ اتنا غضب ناک ہوا کہ اس نے پیراک کو خنجر گھونپ کر قتل کر دیا۔ بادشاہ نے فوری طور پر شہزادے کو ملک بدر کر دیا لیکن مذکورہ کھیل طویل عرصے تک تعطل کا شکار رہا۔مشرق بعید کے ممالک میں یہ خاصا مقبول ہے۔ یہ کھیل تین تین کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ ’’سیپاک ٹاکرا‘‘ کی ’’انٹرنیشنل سیپاک ٹاکرا فیڈریشن‘‘(ISTAF)کے زیراہتمام ہر سال تھائی لینڈ میں’’ کنگز کپ عالمی چیمپیئن شپ‘‘ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ کھیل ’’ ایشین گیمز اور جنوب مشرقی ایشیین گیمز کا بھی حصہ ہے۔2011 میں سیپاک ٹاکراکے پہلے عالمی کپ کا انعقاد ملائیشیا میں کیا گیا جس میں مردوں اور عورتوں کے مقابلوں میں تھائی لینڈ نے ورلڈ چیمپئن ٹرافی جیتی۔ سیپاک ٹاکرا کے کورٹ کی لمبائی 13.4میٹر اور چوڑائی 6.1میٹر ہوتی ہے، جب کہ نیٹ زمین سے 1.52میٹر اونچا ہوتا ہے۔ دونوں ٹیموں کے کورٹ میں سروس کروانے کا مخصوص دائرہ بھی ہوتا ہے۔ سیپاک ٹاکرا کھیل کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں استعمال کی جانے والی گیند بید کی چھال سے بنائی جاتی ہے، جس میں فٹ بال کے برعکس نہ صرف 12سوراخ ہوتے ہیں، بلکہ اس کی بنُت بھی بیس جوڑوں کی شکل میں کی جاتی ہے۔ کھیل کا مکمل سیٹ 15پوائنٹس پر مبنی ہوتا ہے اور عموماً بیسٹ آف فائیو پر مشتمل ہوتا ہے۔

سیپاک ٹاکراکے قواعد کے مطابق کھلاڑیوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ کھیل کے دوران صرف پیر، سر اور سینہ استعمال کرسکتے ہیں، جب کہ گیند کو ہاتھ لگانے پر مخالف ٹیم کو ایک پوائنٹ مل جاتا ہے۔ کھیل کا آغاز والی بال کی طرح سروس سے ہوتا ہے، مگر سروس کورٹ کے اندر سے کی جاتی ہے۔سیپاک ٹاکرا کے کھیل کو اس انفرادیت یہ بھی حاصل ہے کہ اس کے کھلاڑیوں کی قلابازی کھانے میں مہارت ضروری ہے

سلیم بال
’’سلیم بال‘‘ کا کھیل چار کھیلوں، امریکن فٹ بال، باسکٹ بال، آئس ہاکی کا جمناسٹک کے اشتراک سے تخلیق کیا گیا۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں مین گورڈن اور مائیک ٹوئن نے تخلیق کیا جو حقیقی زندگی پر مبنی ایک ویڈیو گیم سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ 2002ء اور 2003ء میں انہوں نے اسے ایک ٹیلی ویژن چینل پر پیش کیا۔ ’’سلیم بال‘‘ کا نام گورڈن کی کمپنی کے نام پر رکھا گیاتھا۔ مشرقی لاس اینجلس کے ایک گودام میں چھ ماہ بعد اس کا کورٹ تعمیر کیا گیا اس کے بعد اس نے گلیوں میں کھیلنے والے باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کو اس کھیل کی جانب راغب کرنے کی کوششیں کیں، ان میں سے جیمز ویس، سین جیکسن، ڈیوڈ ریمنڈ، مائیکل گولڈمین اور چیف شیریڈن کو پہلے گیم کے لئے تربیت دینا شروع کی۔ مذکورہ چھ کھلاڑی سلیم بال کی دو ٹیموں لاس اینجلس ریمبل اور شکاگو موب کا حصہ بن گئے۔ مذکورہ دونوں ٹیموں کے درمیان2001ء میں ایک نمائشی سیریز کا انعقاد کیا گیاجس میں شکاگو موب فاتح رہی۔ اس سیریز کی کامیابی کے بعد یہ کھیل گلیوں میں ٹینس کھیلنے والے نوجوانوں کی توجہ کا مرکز بنتا گیا اور اس میں مزید کھلاڑیوں نے تربیت حاصل کرنا شروع کی اور ایک سال کے عرصے میں400افراد ممکنہ کھلاڑیوں میں شامل ہو گئے۔ کیلی فورنیا کی یونیورسٹی میں2003ء میں ایک نیا سلیم بال کورٹ قائم کیا گیا۔ 2007ء میں ہوپ سٹی میں ’’پاورڈ سلیم بال چیلنج کپ‘‘ کا انعقاد کیا گیا اور2007ء میں ہی جارجیا میں اٹلانٹا کی چار ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ اسی سال جولائی میں یہ کھیل اٹلی میں فروغ پذیر ہوا۔ 2008ء میں آئی ایم جی اکیڈمی برینڈنٹس فلوریڈا کے زیراہتمام اس کے تربیتی کیمپ کا انعقاد کیا گیا جس میں100کے قریب ممکنہ کھلاڑیوں نے حصہ لیا جن میں سے8ٹیموں کے لئے64کھلاڑیوں کو منتخب کیا گیا، یہ کھیل مہارت کا متقاضی ہے۔ زمین پر لگے ہوئے اسپرنگ بورڈ پر اچھلتے ہوئے گیند کو باسکٹ میں ڈالنا ہی اس کھیل کے کھلاڑیوں کا مرکزی ٹارگٹ ہوتا ہے۔ باسکٹ بال کے برعکس سلیم بال میں دونوں ٹیموں کے باسکٹ نیٹ کے سامنے چارچار اسپرنگ بورڈ لگے ہوتے ہیں، جن پر کھلاڑی پندرہ سے بیس فٹ کی بلندی تک ہوا میں اچھلتا ہے اور نیٹ میں گیند ڈال کر پوائنٹ حاصل کرتا ہے۔ ہر اسپرنگ بورڈ کا سائز 7X14فٹ ہوتا ہے، جب کہ کورٹ کا مجموعی رقبہ 100X62فٹ ہوتا ہے۔ کورٹ کے چاروں طرف آئس ہاکی کے کورٹ کی مانند آٹھ فٹ بلند مضبوط شیشے کی دیواربنی ہوتی ہے۔اس کھیل میں کھلاڑیوں کو مختلف پوزیشنز پر کھلایا جاتا ہے۔ وہ کھلاڑی جو نیٹ کے نیچے ہوتا ہے اسے اسٹاپرکہتے ہیں، مخالف ٹیم پر حملہ کرنے والے کھلاڑی کوگنراور درمیان میں رہتے ہوئے گیم پلان کرنے والے کو ہینڈلرکہا جاتا ہے۔ کھیل کا دورانیہ پانچ پانچ منٹ کے چار رائونڈز کاہوتا ہے۔ اس دوران جو ٹیم زیادہ مرتبہ بال باسکٹ میں ڈالتی ہے اسے پوائنٹ کی برتری حاصل ہوجاتی ہے اورزیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والی ٹیم فاتح قرار پاتی ہے،میچ کی نگرانی دو ریفریز کی ذمہ داری ہوتی ہےسلیم بال کا کھیل امریکا، آسٹریلیا، چین اور پرتگال میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ تاہم ملکی سطح پر اس کے مقابلے شروع نہیں ہوسکے ہیں۔

فٹ گولف
دیگر کھیلوں کی طرح فٹ بال اور گولف کے اشتراک سے ’’فٹ گولف ‘‘ کا کھیل متعارف کرایا گیا، جسے گولف کے انداز میں گولف کوس کے ہرے بھرے میدان میں کھیلا جاتا ہے۔انفرادی سطح پر کھیلے جانے والے اس کھیل کے تمام قواعد و قوانین گولف ہی کی طرح ہوتے ہیں لیکن فٹ گالف کے کھلاڑی اسے گالف اسٹک کی بجائے پیروں سے ہٹ لگا کر کھیلتے ہیں۔ اس میں گالف کی چھوٹی گیند کی بجائے وسیع و عریض قطر کی فٹ بال استعمال ہوتی ہے۔ اسی کی سائز کی مناسبت سے ہول بنائے جاتے ہیں جن میں کھلاڑی پیروں سے ہٹ لگاتے ہوئے فٹ بال ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ کھیل کے دوران ہر وہ رکاوٹیں بھی موجود ہوتی ہیں جو گولف کھیلتے ہوئے کھلاڑیوں کے سامنے آتی ہیں۔ اس کھیل میں کم سے کم شاٹ لگاتے ہوئے فٹ بال کو ہول میں ڈالنے والا کھلاڑی فاتح قرار دیا جاتا ہے۔ اس کھیل کی ایجاد کا سہرا کس ملک کے سر جاتا ہے، اس کا تعین اب تک نہیں ہوسکا ہے، کیوں کہ اسی طرح کا کھیل 1920سے 1930کے دوران امریکا میں رائج تھا جب کہ 1980میں سوئٹزرلینڈ اور1990میں ہالینڈ کے کھلاڑی اسے مختلف ناموں سے کھیلتے رہے۔ ہالینڈ کے کھلاڑیوں مائیکا جینسن اور باس کورسٹن نے نہ ٹرف اس کی یونیفارم کا ڈیزائن تیار کیا بلکہ پہلی مرتبہ 2000میں اس کے قوانین مرتب کیے گئے۔2008میں ہالینڈ میں فٹ گالف کا کھیل سرکاری سطح پر شروع کیا گیا۔ ہالینڈ کے فٹ بال کے کھلاڑیوں، کورسٹن برادران میں سے ولیم کورسٹن 1999سے 2001تک ٹاٹنہم ہوٹس پور کے برٹس کلب کی طرف سے فٹ گولف کے مقابلوں میں حصہ لیتا رہا۔ فٹ گالف کا پہلا ٹورنامنٹ ہالینڈ اور بلجیم کے فٹ بالر کے درمیان منعقد ہوا جس کے بعد دیگر ممالکنے بھی اس کھیل میں دل چسی لینا شرو ع کی اور وہاں اسے فروغ دیا گیا۔ یورپ اور امریکا کے متعدد ملکوں میں فٹ گالف کے میچوں کا انعقاد کیا گیا، نیشنل لیگز اور ایسوسی ایشنز کا قیام عمل میں لایا گا۔ 2008میں ہنگری اور بلجیم کے گالف کورسوں میں یہ کھیل مقبولیت اختیار کر گیا۔ 2010میں یہ ارجنٹائن میں بھی مقبول ہوگیا جب کہ 2011میں ’’فیڈریشن فار انٹرنیشنل فٹ گالف‘‘ کے نام سے اس کھیل کی عالمی تنظیم قائم کی گئی۔2012میں ہنگری کے شہر بڈاپسٹ میں 8ممالک کے درمیان ’’پہلے فٹ گالف عالمی کپ ‘‘ کا انعقاد ہوا جس میں ہنگری کے فٹ گالفربیلا لینگل فٹ گولف کے پہلےعالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔2016میں دوسرے عالمی کپ کا انعقاد ارجنٹائن میں کیا گیا جس میں 26ممالک کے230کھلاڑیوں نے شرکت کی اور ہنگری نے اپنے اعزاز کا کامیاب دفاع کیا۔

انٹرنیشنل رولز فٹ بال
قدیم کھیل فٹ بال اور آئرلینڈکے روایتی گیلک فٹ بال کے کھیل کو ملا کر انٹرنیشنل رولز فٹ بال کا کھیل ایجاد کیا گیا۔یہ کھیل 145میٹر لمبے اور 90میٹر چوڑے میدان میں کھیلا جاتاہے، جس میں پندرہ کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیموں کو دو لمبے اور دو چھوٹے گول پوسٹ کے درمیان گیند ڈال کر ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنا ہوتی ہے۔ اس دوران کھلاڑی ہاتھوں اور پیروں کی مدد سے گیند کو آگے دھکیلتے ہوئے بڑھتے ہیں اورگیند کو گول پوسٹ میں پھینک کر پوائنٹ حاصل کرتے ہیں۔ پوائنٹ بالترتیب چھے، تین اور ایک پر مشتمل ہوتے ہیں۔انٹرنیشنل رولز فٹ بال کے قوانین کے مطابق ہرکھلاڑی کے لیے ضروری ہوتاہے کہ وہ دوڑتے ہوئے گیند کو ہر 10میٹر یا 6قدم کے بعد زمین پر ٹپا دے۔مجموعی طور پر یہ کھیل 72منٹ کاہوتا ہے جو 18منٹ کے چار ہاف پر مشتمل ہوتا ہے۔ مار دھاڑ اور دھینگا مشتی سے بھرپور اس کھیل کا اولین بین الااقوامی مقابلہ 1967میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کی مقامی ٹیموں کے درمیان منعقد ہوا تھا۔ تماشائیوں کی تعداد کے لحاظ سے ’’انٹرنیشنل رولز فٹ بال‘‘ مخلوط کھیلوں میںسب سے زیادہ پسندکیا جانے والا کھیل ہے۔ انٹرنیشنل رولز فٹبال کے معاملات چلانے کی ذمہ داری ’’آسٹریلین فٹ بال لیگ کمیشن‘‘ کی ہے، جس کے رکن ممالک میںتیرہ ممالک کی انٹرنیشنل رولز فٹ بال ایسوسی ایشنز کی تنظیمیں کل کام کرتی ہیں، اس کا مقصد تمام ملکی و عالمی سطح کے مقابلوں کی نگرانی اور عالمی چیمپئن شپ کا انعقاڈ ہوتا ہے۔ انٹرنیشنل رولز فٹ بال موجودہ عالمی چیمپئن آئرلینڈ ہے۔

کارف بال
نیٹ بال اور باسکٹ بال سے مماثلت رکھنے والا کھیل کارف بال ہے جو 4مرد اور4خواتین پر مشتمل دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے، اس میں گیند کو11.5فٹ بلند کھمبے پر لگی باسکٹ میں پھینکا جاتا ہے۔عالمی چیمپئن شپ کے لئے کارف بال کورٹ کا رقبہ20x40 میٹر پر محیط ہوتا ہے جب کہ اس کی گیند کا قطر فٹ بال جتنا ہوتا ہے اور یہ کھیل
30،30منٹ کے دو ہاف پر مشتمل ہوتا ہے۔ 1902ء میں ہالینڈ کے ایک اسکول ٹیچر نیکوبروخیوسن کو سوئیڈن کے قصبے ’’ناس‘‘ میں بچوں کو تدریسی جمناسٹک کے بارے میں تعلیمی نصاب کی تربیت کے لئے بھیجا گیا۔ یہاں وہ ایک نئی قسم کے سوئیڈش کھیل ’’رنگ بال‘‘ سے روشناس ہوا۔ اس کھیل کا میدان تین زونز میں منقسم ہوتا تھا جس میں عورت اور مرد دونوں حصہ لیتے تھے لیکن ہر کھلاڑی اپنے زون تک محدود ہوتا تھا۔ گیند کو تین میٹر کی بلندی پر لگے گول جال میں ڈالنے سے ایک پوائنٹ ملتا تھا۔ بروخیوسن کو یہ کھیل اتنا پسند آیا کہ جب وہ ایمسٹرڈیم واپس آیا تو اس نے اسے اپنے اسکول کے بچوں کو سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے جال کے متبادل باسکٹ کو 3.5میٹر بلند کھمبے پر نصب کرایا اور اس کھیل کا نام ’’کارف بال‘‘ رکھاگیا۔ ’’کارف‘‘ ولندیزی زبان میں باسکٹ کو کہتے ہیں۔ اس کھیل سے متعلق چند اصول و ضوابط وضع کئے گئےاور ہالینڈ میں اس کھیل کا باقاعدہ آغاز ہوااور آج یہ ہالینڈ کا مقبول ترین کھیل ہے۔ پورے ملک میں اس کے569کلب قائم ہیں اور تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ افراد اس کھیل میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کھیل کا قدیم ترین کلب ’’ڈچ کارف بال کلب‘‘ ہے جو ہیگ میں یکم فروری1906ء کو قائم کیا گیا تھا اور وہ آج بھی اپنی قدیم ہیئت میں قائم ہے۔ 1910ء میں یہ کھیل دیگر ممالک میں بھی متعارف ہوا اور 1920ء اور 1928ء کے سمر اولمپک میں شامل کیا گیا۔ 1933ء میں ’’انٹرنیشنل کارف بال فیڈریشن‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ آج یہ کھیل برطانیہ، امریکا، پاکستان اور بھارت کے علاوہ دنیا کے60ممالک میں کھیلا جاتا ہے۔ 1978ء سے انٹرنیشنل کارف بال فیڈریشن کے زیراہتمام اس کھیل کی عالمی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا جانے لگا جو ہر چار سال بعد منعقد ہوتی ہے۔ 2006ء میں ہانگ کانگ نے کارف بال کے پہلے بین الاقوامی ٹورنامنٹ ’’ایشیا اوشیانا چیمپئن شپ‘‘ اور نیوزی لینڈ نے2007ء میں ایشیا اوشیانا یوتھ چیمپئن شپ کی میزبانی کی۔ اس کھیل کی ابتدا 1978ء سے اب تک، نو مرتبہ کا عالمی چیمپئن ہالینڈ ہے جب کہ ایک مرتبہ یہ اعزاز 1991ء میں بلجیم کو حاصل ہوا۔ ہالینڈ نے آخری مرتبہ2015ء میں عالمی ٹرافی کا اعزاز بلجیم میں جیتا تھا جب کہ2019ء میں کارف بال کی عالمی چیمپئن شپ کے مقابلے کا انعقاد جنوبی افریقہ میں متوقع ہے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 190535 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.