فٹ بالرز، جنہوں نے اپنی موت کو خود گلے لگایا

کھلاڑیوں نے میچ فکسنگ ا سکینڈل، اہلیہ یا محبوبہ کی بے رخی، کوچز کی جانب سے متعصبانہ رویہ
اور گھریلو جھگڑوں سے دل برداشتہ ہوکر زندگی پر موت کو ترجیح دی

کھیلوں کا شمار غیر نصابی سرگرمیوں میں کیا جاتا ہےاور وہ کھلاڑیوں کو جسمانی اور ذہنی صحت کے لحاظ سے چاق و چوبند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن فٹ بال میں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے، یہ سخت مشقت کا کھیل ہے، اس میں کھلاڑی تقریباً ایک فرلانگ طویل گراؤنڈ میں فٹ بال کے ساتھ ساتھ دوڑتا ہے، 200 پونڈ وزنی گیند کو دائیں، بائیں پیراور سر سے شاٹ لگا کر گول پوسٹ میں پھینکنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ گول کیپر اسے اپنے ہاتھوں، پیروں، سر اور سینے کی مدد سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس میں زیادہ تر کھلاڑی اپنے مستقبل کی جانب سے یقینی اور بے یقینی کی کیفیات کا شکار ہوکر زیادہ تر نفسیاتی ہیجان میں مبتلا ہوکر حساس ہوجاتے ہیں اور اسی حالت میں بعض اوقات خودکشی بھی کرلیتے ہیں۔میچ فکسنگ کے اسکینڈل تو ہر کھیل کے بارے میں منظر عام پر آتے ہیں لیکن کئی فٹ بالرز نے خود پر الزامات عائد ہونے کے بعد موت کو گلے لگا لیا جب کہ بعض کھلاڑی محبوبہ یا منگیتر کی بے وفائی اور گھریلو ناچاقیوں سے دل برداشتہ ہوکرزندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ ایک فٹ بالر کو ٹیلی ویژن پر انٹرویو دینا مہنگا پڑگیا۔ انہوں نے رپورٹر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنی اہلیہ کے ساتھ ساتھ اپنی گرل فرینڈ کا بھی شکریہ ادا کردیا جو ان کی خانگی زندگی میں کشیدگی کا سبب بنا، جس کا نتیجہ ان کی موت کی صورت میں نکلا۔ ویسے تو خودکشی کرنے والے فٹ بالرز کی فہرست میں تقریباً ڈیڑھ درجن کھلاڑیوں کے نام ہیں لیکن ذیل میں ہم ایسے چند فٹ بالرز کا تذکرہ پیش کرتے ہیں جنہوں نے ذہنی دباؤکا شکارہوکر زندگی پر موت کو ترجیح دی۔
 

رابرٹ اینکے
رابرٹ اینکے جرمنی کی فٹ بال ٹیم کے گول کیپر اور انٹرنیشنل کھلاڑی تھے۔ وہ اسپین کے بارسلونا اور پرتگال کے’’ بینی فیکا کلب‘‘ کی جانب سے بھی کھیلتے تھے لیکن وہ فٹ بال کی قومی ٹیم اور جرمنی کے شہر ہنوورکے فٹ بال کلب کے گول کیپر تھے۔ 1999ء سے 2009ء تک انھوں نے کنفیڈریشن کپ کے لیے قومی ٹیم کی آٹھ مرتبہ نمائندگی کی اور 2008ء میں یورو کپ کی رنر اپ ٹیم کا حصہ رہے تھے۔ 2010ء میں ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کی منتخب ہونے والی ٹیم کے وہ ممکنہ گول کیپر تھے۔ انھوں نے پیشہ ورانہ کھلاڑی کی حیثیت سے1995ء میں کھیل کا آغاز ’’کارل زلیسی جینا‘‘ کی جانب سے فیوچر کلب ہنورو 96 کے خلاف بنڈس لیگا میچ کھیل کر کیا۔ انہیں ماریو نیوسن نامی کھلاڑی پر فوقیت دے کر ٹیم میں شامل کیا گیا تھا جنہوں نے تین میچوں میں 14 گول اسکور کیے ۔ اسی سال اینکے نے تین میچ کھیلے لیکن ناقص کارکردگی کی وجہ سے انہیں ڈراپ کر کے نیومن کو دوبارہ ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ 1999ء میں انہوں نے پرتگال میں بینی فیکا کلب کے ساتھ معاہدہ کیا۔ اس کلب کا نظم و نسق اینکے کے ہم وطن جپ ہنکیس کے ہاتھ میں تھا، جس نے انہیں فوری طور ٹیم کا کپتان بنادیا۔ ان کی کپتانی کا دور بینی فیکا کلب کے لیے کافی ہنگامہ خیز رہا۔ اس عرصے میں ٹیم کے تین منیجرز کی تبدیلیاں کی گئیں، کلب کو مالی مشکلات درپیش رہیں جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کی تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوتی رہی۔ اس عرصے میں انہیں کئی دیگر کلبز کی جانب سے پیشکش موصول ہوئیں لیکن انہوں نے اسپین کے سب سے بڑے بارسلونا کلب سے معاہدہ کرلیا۔ 2004ء میں جرمنی کی بنڈس لیگا کے ہنوور96 کی جانب سے کھیلنے کا معاہدہ کیا ۔ان کے کھیل کو دیکھ کر انہیں سال کا بہترین گول کیپر قرار دیا گیا۔ 2009-10 ء میں انہیں ہنوور ٹیم کا کپتان بنادیا گیا۔ 2008-9 میں انہوں نے ایک مرتبہ پھرسال کے بہترین گول کیپر کا ایوارڈ حاصل کیا۔ 2007ء میں انہوں نے جرمنی کی جانب سے اپنا انٹرنیشنل ڈیبو ’’ڈوٹس برگ‘‘ میں ڈنمارک کے خلاف کھیل کر کیا۔ 2008ء میں یورو کپ کے مقابلوں میں حصہ لیا۔ روس کے خلاف میچ کے لیے لگائے گئے تربیتی کیمپ میں دوران تربیت ان کے بائیں ہاتھ کی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی جس کے آپریشن کے بعد انہیں دو ماہ تک کھیل سے دور رہنا پڑا۔ جولائی 2009ء میں ٹیم میں واپسی کے بعد انہوں نے ایک مرتبہ پھر خود کو ملک کے نمبر ون گول کیپر کی حیثیت سے منوا لیا۔ ستمبر اور اکتوبر کے دوران انہیں معدے کے عارضے کی وجہ سے ٹیم سے الگ ہونا پڑا اور اس کی وجہ سے ان کا نام چلی کے خلاف میچ کھیلنے والی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا جس کا انہیں بہت قلق تھا اور وہ اس کی وجہ سے ذہنی انتشار کا شکار تھے۔ انہوں نے آخری میچ اگست 2009ء میں آذربائیجان کے خلاف کھیلا جس میں جرمنی نے مخالف ٹیم کو وائٹ واش کردیا۔ 10 نومبر 2009ء کو انہوں نے ایلولیا کے مقام پرگزرتی ہوئی ایک ایکسپریس ٹرین کے سامنے آکر خودکشی کرلی۔ ان کی اہلیہ ٹریسا کے بیان کے مطابق ان کے شوہر گزشتہ چھ سال سے اپنی بیٹی لارا کی موت کے بعد سے ذہنی تناؤ کا شکار تھے۔

image


لی کیونگ ہوان
لی کیونگ ہوان جنوبی کوریا کے فٹ بالر تھے۔ وہ ڈائیون سٹیزن اور سوون بلیو ونگز کی جانب سے مڈ فیلڈر کے طورپر کھیلتے تھے۔2010ء میں منعقد ہونے والے 15 میچوں میں فٹ بال میچوں کےنتائج فکس کرنے پر استغاثہ نے 2011ء میں 57 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی جن میں سے 46 موجودہ اور سابق کھلاڑی جبکہ 11 جرائم پیشہ گینگ کے ارکان اور بک میکرز تھے۔ اپنی ٹیم کی جانب سے ایک میچ کے دوران انہیں بھی میچ فکسنگ میں ملوث پایا گیا، اگست 2011ء میں تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ ملنے کے بعد ان پر جنوبی کوریا کی تمام لیگز کی جانب سے کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔اسکینڈل میں نام سامنے آنے کے بعد وہ گرفتاری کے خوف سے روپوش ہوگئے۔ ان کے کئی ساتھی گرفتار کیے گئے لیکن انہوں نے تفتیش کے دوران لی کیونگ ہوانگ کا نام افشاء نہیں کیا، جس کے بعد انہیں اسکینڈل میں ملوث افراد کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا لیکن پابندی بدستور عائد رہی۔ انہیں اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ اپنی خودغرضی پر بہت ملال تھا جس کی وجہ سے وہ ذہنی انتشار کا شکار رہتے تھے اور اسی کیفیت کے ہاتھوں انہوں نے16 اپریل 2012ء کو خود کشی کر لی تھی۔ وہ سیول کے مغرب میں انچیون شہر میں ایک رہائشی عمارت کے سامنے زخمی حالت میں پائے گئے۔ انہوں نے عمارت سے چھلانگ لگائی تھی۔خودکشی سے قبل انہوں نے ایک خط تحریر کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ وہ بہت شرمندہ ہیں کہ ان کے گرفتار ساتھیوں نے تفتیش کاروں کے سامنے صرف پرانی دوستی کے ناتے ان کا لینے سے گریز کیا حالاں کہ وہ سب بے گناہ ہیں جب کہ اس اسکینڈل کے مرکزی کردار وہ خود ہیں۔ لیکن انہوں نے خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی، اب وہ اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوکر خود کو موت کی سزا دے رہے ہیں۔

image


فرانٹزک راجٹورل
چیکو سلواکیہ کے فٹ بالر، چیک ری پبلک کی قومی فٹ بال ٹیم میں شامل تھے۔ 2010 ء میں انہوں نے ایف سی وکٹوریہ پلیزن کی جانب سے کھیلتے ہوئےاپنی ٹیم کو ’’چیک کپ‘‘ جتوانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کلب کی جانب سے کھیلتے ہوئے دو مرتبہ ’’گیمبرینس لیگا‘‘ اور ایک مرتبہ ’’چیک سپر کپ‘‘ جیتنے کے اعزاز کےعلاوہ کئی ٹرافیاں بھی جیتی تھیں۔ 2012ء میں انہوں نے سینئر فٹ بال ٹیم کی کیپ حاصل کی اور آئر لینڈ کے خلاف ایک دوستانہ میچ میں قومی ٹیم کی جانب سے کھیلے جس کا نتیجہ ایک ایک گول سے برابر رہا۔ انہیں چیکوسلواکیہ کی ٹیم کے بہترین رائٹ ونگز اٹیکر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ 2014ء میں وہ جرمنی بنڈس لیگا کب ہنووور کے ساتھ وابستہ ہوگئے لیکن ان کی خدمات مذکورہ کلب نے ایک سیزن کے لیے پلیزن کلب سے مستعارلی تھیں۔ 2016ء میں انہوں نے ترکی کے صف اول کے کلب ’’گیزنیٹ ایسپور‘‘ کے ساتھ کھیلنے کا معاہدہ کرلیا اور ترکی میں سکونت اختیار کرلی۔ اس سے قبل راجٹورل نے 2007ء میں چیک فٹ بال ٹیم کی جانب سے یوئیفا انڈر 21 چیمپئن شپ مقابلے میں شرکت کی تھی جب کہ اپنے ملک میں تین مرتبہ قومی ٹورنامنٹ کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 2012ء میں ان کا نام یورو کپ کے مقابلوں میں حصہ لینے والے 23 ویں کھلاڑی کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ اپریل 2017ء میں وہ ترکی میں اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔ ان کے گھر سے بدبو آنے کے بعد ان کے پڑوسیوں نے پولیس کو مطلع کیا جس کے بعد اس نے ان کی پھندا لگی لاش دریافت کی جو پنکھے میں جھول رہی تھی۔ ان کے کلب کے صدر ابراہم کزل کے مطابق راجٹورل کی موت کی وجوہات ان کی گرل فرینڈ سے تعلقات ختم ہونے اور فروری 2017ء میں ایک دوست ڈینٹل کولار کی جدائی ہوسکتی ہیں، ان محرکات نے انہیں نفسیاتی دباؤ کا شکار کردیا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے ہاتھ سے موت کو گلے لگالیا۔

image


ڈیل رابرٹس
ڈیل رابرٹس 1986ء میں ہورڈن ڈرہم کاؤنٹی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کلیو لینڈ فٹ بال کلب کی جانب سے کھیل کا آغاز کیا۔ فٹ بال میں پروفیشنل کیریئر کا آغاز سندر لینڈ اور بارو کلب کی جانب سے کھیلتے ہوئے کیا۔ 2003ء میں بارو کلب کی جانب سے ایف اے یوتھ کپ کے مقابلوں میں حصہ لیا۔ انہوں نے سینٹر کھلاڑی کی حیثیت سے اپنے کھیل کا آغاز 2005ء میں ناٹنگھم فاریسٹ کی ٹیم میں شمولیت اختیار کر کے کیا۔ 2006ء میں انہیں ایسٹ ووڈ ٹائون اور الفرٹین ٹائون کی جانب سے کھیلنے کے لیے مستعار طور پر بھیجا گیا۔ 2008-9 میں ان کی خدمات دو مزید کلبوں، رشدن اور ڈائمنڈز کلب کو دو سیزن کے لیے مستعار دی گئیں۔ ان دونوں کلبوں کی طرف سے کھیلتے ہوئے انہوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام بنالیا۔ 2009-10 میں انہوں نے برطانیہ کی قومی سینئر ٹیم کی جانب سے اپنے کھیل کا آغاز کیا اور مالٹا کے خلاف میچ میں ان کی کارکردگی متاثر کن رہی 2004ء میں وہ ایف اے یوتھ کپ جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ 2010ء میں ان کی منگنی لنڈسے کوون نامی دوشیزہ سے ہوئی لیکن اس کے ٹیم کے ایک اور کھلاڑی پال ٹیری سے مراسم کے انکشافات کے بعد رابرٹ نے اس سے تعلقات منقطع کرلیے، لیکن وہ اس واقعے سے بہت دل گرفتہ تھے۔ دسمبر 2010ء میں ایف اے ٹرافی کے مقابلوں کا انعقاد ہوا قومی ٹیم کی جانب سے رابرٹس کا نام بھی شامل تھا لیکن میچ شروع ہونے سے صرف ایک گھنٹے قبل اسٹیڈیم میں ان کی موت کی خبر پہنچ گئی اور ایف اے کپ ٹورنامنٹ کا میچ ملتوی کردیا گیا۔ انہوں نے اپنے گھر میں پھندا لگا کر خودکشی کی تھی۔

image


جمی یاٹس
1869ء میں برطانیہ میں جنم لینے والا انگلش فٹ بالر جمی یاٹس نے 1900ء کے ایف اے کپ کے فائنل میچ میں حصہ لیا۔ وہ سائوتھمپٹن کی ٹیم کا حصہ تھے جو پانچ فٹ بال سیزن میں لیگز ٹائٹل جیتنےکی دعوے دار تھی۔ مذکورہ ٹیم کے ساتھ انہوں نے 77 میچوں میں شرکت کر کے 22 انفرادی گول اسکور کیے۔ پروفیشنل کھلاڑی کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد انہیں 1904ء میں چھ ہفتے کے لیے ایچ وی وی ٹیم کا کوچ مقرر کیا گیا وہ کچھ عرصے تک کوپن ہیگن میں ڈچ فٹ بال ٹیم کے پروفیشنل کوچ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1907ء میں ساؤتھمپٹن واپسی سے قبل وہ برازیل اور امریکا کی فٹ بال ٹیموں کی کوچنگ کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔وطن واپس آنے کے بعد انہیں سائوتھمپئن کی بندرگاہ پراسٹیوارڈ کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔ ان کی صحت کافی خراب رہنے لگی تھی جس کی وجہ سے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ وہ دوسری جگہوں پر نوکری تلاش کرتے رہے لیکن ناکام رہے بالآخر بے روزگاری سے تنگ آکر انہوں نے 1922ء میں اپنے آبائی گھر میں خودکشی کرلی۔

image


ایلن ڈیوس
ایلن ڈیوس 1961ء میں برطانیہ میں پیدا ہونے والے ویلز قومیت کے حامل کھلاڑی تھے۔ انہوں نے فٹ بال کے کھیل کا آغاز مانچسٹر یونائیٹڈ کی جانب سے کیا۔جس کے بعد وہ نیو کیسل یونائیٹڈ چارلٹن ایتھلیٹک، کارلیسل یونائیٹڈ، سوانسی سٹی اور بریڈ فورڈ سٹی کی جانب سے بھی کھیلتے رہے۔ انہوں نے اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز ویلز نیشنل فٹ بال ٹیم میں شمولیت اختیار کر کے کیا اور سات برس میں انہوں نے 13 مرتبہ اس کی کیپ حاصل کی۔ 1983ء میں انہوں نے ایف اے کپ ٹورنامنٹ کے دونوں مقابلوں میں شرکت کی اور اپنی ٹیم یونائیٹڈ کی جانب سے برائٹن کلب کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔ سوانسی سٹی کی جانب سے انہوں نے دو سیزن میں 84 لیگ میچ کھیلے جن میں آٹھ گول اسکور کیے۔ 1989ء میں وہ بریڈ فورڈ سٹی کلب میں چلے گئے اور 43 لیگ میچوں میں 4 گول اسکور کیے۔ فروری 1992ء کو وہ اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے کے بعد ہورٹن شہر کی طرف روانہ ہوئے اور شام کو اپنی کار میں مردہ پائے گئے۔ ان کی موت کار میں کاربن مونو آکسائیڈ کی زہریلی گیس بھرنے کی وجہ سے واقع ہوئی اور اس کے کھڑکی دروازے مقفل تھے۔ ان کی خودکشی کی وجوہات اب تک راز میں ہیں۔

image

گیری اسپیڈ
گیری اسپیڈ ’’ویلز فٹ بال ٹیم‘‘ کےمعروف کھلاڑی اور منیجر تھے۔ 1969ء میں ویلز کے شہر مینکوٹ میں پیدا ہوئے۔ نہوں نے لیڈز یونائیٹڈ کی جانب سے 1988ء میں ٹرینی کھلاڑی کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ پہلی مرتبہ’’ اولڈ ہم ایتھلیٹک‘‘ کے خلاف 19 سال کی عمر میں لیفٹ بیک پوزیشن پر کھیلے۔ انہوں نے یوتھ لیول پر ویلز کی طرف سے انڈر 21 ٹیم میں تین مرتبہ کپتانی کی۔ وہ ویلز کی ٹیم کی جانب سے 85 مرتبہ کھیلے اور سب سے زیادہ ٹورنامنٹ کھیلنے والے کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا جب کہ 44 مواقع پر ٹیم کی کپتانی کی۔ انہیں 1990ء کے عشرے میں برطانیہ کے فرسٹ ڈویژن فٹ بال کی تاریخ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ 2006ء میں وہ پہلےفٹ بالر تھے جنہوں نے پریمئیر لیگ کے 535 میچز میں حصہ لیا۔ 2010ء میں ان کی سالگرہ پر فٹ بال کے کھیل میں بہترین خدمات پر انہیں برطانوی دارالعلوم کی طرف سے ’’ممبر آف دی برٹش ایمپائر‘‘ کا اعزاز دیا گیا۔ کھیل سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ویلز ٹیم کا منیجر بنالیا گیا۔ 26 نومبر 2011ء کو وہ بی بی سی ون ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں شریک ہوئے، جس کے بعد مانچسٹر یونائیٹڈ اور اولڈ ٹریفورڈ کے درمیان فٹ بال میچ دیکھنے گئے۔ اس کے اگلے روز صبح سات بجے ان کی بیوی لوئین نے اسے گیراج میں لٹکا ہوا پایا۔ اس نے فوری طور سے ایمبولینس سروس اور پولیس کو مطلع کیا۔ پولیس کی نگرانی میں انہیں اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔ پولیس کی تحقیقات کے مطابق اسپیڈ کی موت خودکشی کی وجہ سے واقع ہوئی جس کی وجوہات کا علم نہ ہوسکا۔

image

سعید حلافی
1990ء میں ایران کے شہر اہواز میں پیدا ہونے والے عرب فٹ بالر سعید حلافی نے اپنے کیریئر کا آغاز’’ آزاد یگان لیگ‘‘ کی جانب سے کھیلتے ہوئے کیا۔ انہوں نے 17 سال کی عمر میں سنت نفت کی طرف سے آزادی اسٹیڈیم میں ’’استقلال تہران‘‘ کے خلاف کھیلتے ہوئے اپنی ٹیم کو 2 کے مقابلے میں 3 گول سے میچ جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 2009-10ء میں وہ ’’راہ آہن‘‘ کی ٹیم کی جانب سے کھیلتے ر ہے۔ فٹ بال کے اگلے سیزن میں انہوں نے پرسیپولس کی ٹیم کی جانب سے ’’خطفی کپ‘‘ میں شرکت کی اور ’’داماش‘‘ کے خلاف وننگ گول اسکور کر کے اپنی ٹیم کو کپ جتوانے کے لیےاعلیٰ کاکردگی کا مظاہرہ کیا۔ جنوری 2012ء میں وہ واپس اپنے کلب سنت نفت کی جانب سے کھیلنے لگے لیکن مذکورہ کلب کے کوچ نے ان کے ساتھ عرب ہونے کی وجہ سے متعصبانہ اور اہانت آمیز رویہ اختیار کیا۔ ان کے احتجاج پر کلب کے ساتھ ان کا معاہدہ ختم کر کے انہیں ٹیم سے نکال دیا گیا جس سے دل برداشتہ ہوکرنہوں نے نیند کی 95 گولیاں کھاکر خودکشی کی کوشش کی لیکن بروقت طبی امداد دے کر بچالیا گیا۔ وہ زندہ تو بچ گئے لیکن عمر بھر کے لیے ذہنی معذوری کا شکار ہوگئے۔

image

کارلوس جوز کیسٹل ہو
1927 میں ریوڈی جنیرو میں پیدا ہونے والے فٹ بالر کیسٹل ہو، برازیلین فٹ بال ٹیم کے گول کیپر تھے۔ وہ 1947ء سے 1964ء کے درمیان فلمینیز اور برازیل کی جانب سے کھیلتے رہے۔ فٹ بال کے چار عالمی کپس 1950، 1954، 1958 اور 1962ء میں برازیل کی قومی ٹیم کا حصہ تھے۔ ان کا شمار خوش قسمت گول کیپرز میں ہوتا تھا۔ جب وہ گول پوسٹ پر کھڑے ہوتے تھے تو مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرف سے پھینکی جانے والی تیز رفتار گیند ان کے پاس آکر رک جاتی تھی اور ان کی ٹیم کے خلاف گول نہیں ہوپاتا تھا،جس کی وجہ سے ان کے ساتھی کھلاڑیوں نے ان کا نام ’’سینٹ کیسٹل ہو‘‘ رکھ دیا۔ اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کے دوران انہوں نے فلمنیز کی جانب سے 696 میچوں میں شرکت کی اور 255 میچوں میں ان کی ٹیم کے خلاف کوئی بھی مخالف ٹیم گول اسکور نہ کرسکی۔ کھیل سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے برازیل کی کئی ٹیموں میں کوچ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ آخری ایام میں وہ گھریلو پریشانیوں کا شکار رہنے لگے۔ سب سے زیادہ پریشانی انہیں اپنی بیوی کی طرف سے تھی جو ان سے طلاق لینا چاہتی تھی۔ ان حالات سے تنگ آکر ،فروری 1987 ء میں انہوں نے چوتھی منزل پر واقع اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی۔

image

ہیوجی گلاچر
1903ء میں اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والے بیوجی گلاچر اسکاٹش فٹ بال ٹیم کے مایہ ناز کھلاڑی تھے، انہوں نے 623 میچوں میں حصہ لیا۔ مختصر الوجود ہونے کے باوجود گلاچر کو گیند پر حیرت انگیز کنٹرول حاصل تھا۔ وہ اپنے دائیں اور بائیں پیروں کا استعمال کرکے بیک وقت گیند کو ہٹ لگاتے تھے، ڈر بلنگ کرتے تھے اور ہیڈ شاٹ لگانے میں ماہر تھے۔ چار میچوں کے دوران انہوں نے ہر میچ میں 5 گول کر کے ریکارڈ قائم کیا۔ انہوں نے 24 بین الاقوامی فٹ بال میچوں میں 20 انفرادی گول اسکور کیے۔ 1928ء میں وہ اسکاٹ لینڈ کی جیتنے والی اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے ویمبلے میں انگلینڈ کی ٹیم کو ایک کے مقابلے میں پانچ گول سے شکست دی تھی۔ اس میچ کے بعد وہ برطانیہ منتقل ہوگئے جہاں ان کی خدمات نیو کیسل، یونائیٹڈ اور چیلسا کلب نے حاصل کرلیں، جن کے ساتھ کھیلتے ہوئے انہوں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔1934 ء میں انہیں نجی زندگی میں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑاجس کی وجہ سے 1939ء میں انہوں نے کھیل سے ریٹائرمنٹ لے لی اور اسکاٹ لینڈ واپس آگئے۔ اپنے وطن میں انہیں کورٹ میں خود کو دیوالیہ قرار دینے کے خلاف مقدمہ لڑنا پڑا۔ ذہنی الجھنوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے شراب کا سہارا لیا۔ 1957ء میں انہوں نے گھریلو حالات سے دل برداشتہ ہوکر ٹرین کے سامنے لیٹ کرخودکشی کرلی۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

Football is very much regarded as the beautiful game because of the intensity, excitement, and thrills that grip it at all levels – amateur or professional. The game also sees the players become some sort of demi-gods, as they are idolised by fans.