مجھے کیوں نکالا

کیوں نکالا‘‘مجھے کیوں نکالا،،،

آپ سب کو اس بات کا یقین کرلینا چاہیے،،،کہ میں بالکل غیرسیاسی انسان ہوں،،،اسی لیے میرے آرٹیکل،،
‘‘مجھے کیوں نکالا‘‘کا کسی بھی طرح کا تعلق سیاست یا کوئی بھی سیاسی شخصیات بالکل بھی نہیں،،،
یہ اک ایسا ملین ڈالر سوال ہے جو ہر نکالے جانے والا ذی روح کرتا ہے،،،حضرت آدم یعنی بابا ئے آدم،،،
نے بھی کیا تھا،،،تو ثابت ہوا کہ یہ بہت پرانا سوال ہے،،،
اگربیٹی کو گھروالا اور گھر اچھا نہ ملے،،،تو وہ اپنے بابا ماما سے پوچھتی ہے،،مجھےگھرسےکیوں نکالا،،،
قیدی کو جیل سے نکالا جائے اب اسے پتا ہوتا ہے کہ کام کرکے ہی روٹی ملنی،،،وہ بھی جیلر سے،،
پوچھتا ہے،،،اوئے ڈپٹی،،،مجھے کیوں نکالا؟؟،،ڈپٹی اک رکھ کے دیتا ہے،،،وہ زمین سے اٹھ کر کپڑے،،
جھاڑکرکہتا ہے،،،مہربانی ڈپٹی،،،اب سمجھ گئے؟؟؟نہ،،،نہ،،،نہ،،
آپ یہ بالکل بھی مت سوچیے گا،،،کہ جو بھی پوچھے ‘‘مجھے کیوں نکالا‘‘آپ ڈپٹی نہ بن جانا،،،
بہت بری بات ہے،،،بندے کوسامنے والے کی عمر اور صحت کااحترام لازم ہے،،،اسے آپ قومی ترانے،،،
کی طرح عزت دیں گے،،،
اک صاحب ریڈیو سے بہت تنگ تھے،،،کہتےتھے جب بھی واش روم جاتا ہوں،،،زور لگاتا ہوں،،،
کام بنتا دکھائی دیتا ہے،،،ریڈیو پر قومی ترانہ آجاتا ہے،،،اسے کھڑا ہونا پڑ جاتا تھا،،،اسکی صحت ،،،
قومی ترانے نے خراب کردی،،،
جی بات ہورہی ہے‘‘مجھے کیوں نکالا‘‘یہ ہی سوال کالو کےابا نے کالو کی والدہ محترمہ سےپوچھ لیا تھا،،،
ابھی تک ان کو سیدھا بیٹھنےمیں تکلیف ہوتی ہے،،،ہم نے انجان بن کراک دفعہ پوچھ لیا،،،
آپ اتنا جھک کے کیوں بیٹھے ہیں؟،،،انکی آنکھ میں اک درد کی لہرایسے آکر گزرگئی،،،جیسے
کبھی کبھی سرکاری نلکے میں پانی کی بوندآکر لہرکی طرح نو۔۔دو۔۔گیارہ ہو جاتی ہے،،،
بولے‘‘،،مجھے کوئی زخم یا درد نہیں،،،بلکہ میں عاجزی سے بیٹھتا ہوں،،،مرزا بولے،،
جب سے انکی محترمہ نے ان کی عاجزی پرگرم چمٹا رسید کیا ہے،،تب سےانکی عاجزی بہت بارگئی ہے،،،
اک دفعہ ہم نے اپنی ماں جی سے کہا،،،،رات کے تین بجے ہمیں‘‘کیوں نکالا‘‘،،ماں کی جھاڑو بولی،،،
نکالوں گی تو تب جب تمہیں اندر آنے دیا جائے گا،،،بندہ رات کو آوارہ گردی کے بعد تھکا ماندہ،،،
گھرآیا،،،اس پر پوچھے بھی نہیں‘‘مجھے کیوں نکالا‘‘،،،حد ہے ویسے،،اِٹس مائی ڈیموکریٹک رائٹ(جمہوری حق)
ہمارے اس جملےپر ماں نے اک رائٹ(دائیں ہاتھ کا)دیا ہمارے کان کے نیچے،،،آج تک،،
رائٹ کا لیفٹ سنائی دیتا ہے،،،
اک دفعہ مرزا صاحب بازار سے سودا خرید کر لائے،،،جس میں انہوں نے پورے پندرہ روپے کی،،،
بقول ان کے(حلال کی ڈنڈی ماری تھی)،،،مسز مرزا نے ان کو پورے گن کے ہر نازک جگہ پر پندرہ ڈنڈیاں،،،
مار کر باہر نکال دیا،،،مرزا اپنی سوجی ہوئی جگہ سہلاتے جاتے،،،پوچھتے جاتے،،،‘‘مجھےکیوں نکالا‘‘،،،
نہ۔۔نہ۔۔نہ،،،ہم نے بالکل بھی نہیں کہا،،،ان کے وہاں وہاں سٹک سے مارا جائے،،،بہت بری بات ہے،،،
کوئی شرم ہوتی ہے،،،حیا ہوتی ہے،،،ہے نا ہوتی ہے نا؟؟۔۔۔
 

Hukhan
About the Author: Hukhan Read More Articles by Hukhan: 1124 Articles with 1194536 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.