آگے دریا پیچھے موت

اُنہوںنے روتے ہوئے اپنی انگلیوں پر اپنے ان اہل خانہ کو گننا شروع کیا جن کو قتل کردیا گیا۔ نوجوانوں اور بڑی عمرکے لوگوں کو انہوںنے رائفل سے شوٹ کیا جب کہ بچیوں اور ننھے بچوں کو انہوںنے پانی میں پھینک دیا۔شام کو انہوںنے تمام لاشوں کو جمع کرنا شروع کیا اور پھر انہیں دریا کے کنارے ریت میں گڑھے کھود کر دفنا دیا گیا۔ 1962سے ہر چند سال بعد میانمار( سابقہ برما) کی حکومت چاہے وہ فوجی ہو یا نام نہاد جمہوریت روہنگیا مسلمانوں پر کسی نہ کسی بہانے سے حملہ آور ہوتی ہے، ان کا قتل عام کیا جاتا ہے، ان کو ملک سے باہر دھکیلا جاتا ہے، ان کی خواتین کی آبرو ریزی کی جاتی ہے۔
عوامی سطح پر ہمیں چاہیے کہمیانمار کے سفیر اور میانمار کی حکومت کو اس حوالے سے احتجاجی مراسلے بھیجے جائیں تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ دنیا بھر میں ان کے اس عمل کو ناپسند کیا جارہا ہے۔

اُنہوں نے روتے ہوئے اپنی انگلیوں پر اپنے ان اہل خانہ کو گننا شروع کیا جن کو قتل کردیا گیا۔میری بیوی 50 سالہ رابعہ بیگم،میرا پہلا بیٹا 35سالہ حامد حسین،اس کی بیٹی دو تین سال کی نائمہ،چھے یا سات ماہ کا بیٹا رشید، میرا دوسرا بیٹا 12سال کا نور کمال،میرا تیسرا بیٹا 10 سالہ فیض الکمال،میرا چوتھا بیٹا سات سال کا اسمٰعیل ، میری سب سے بڑی بیٹی 25سال کی صفورہ، اس کا شوہر 35سالہ اظہر حسین، میری دوسری بیٹی سنزیدا(سنجیدہ) عمر 14سال،میری تیسری بیٹی چھے سال کی اصطفا، میری چوتھی بیٹی پانچ سال کی شاہینہ بیگم،میری پانچویں بیٹی دو ڈھائی سال کی نور صومی اور میری چھے سات ماہ کی بیٹی حسینہ۔ سب کو مار دیا گیا۔ظہیر نے برطانوی اخبار کے نمائندے کو بتایا کہ نوجوانوں اور بڑی عمرکے لوگوں کو انہوںنے رائفل سے شوٹ کیا جب کہ بچیوں اور ننھے بچوں کو انہوںنے پانی میں پھینک دیا بشمول میری چھے ماہ کی بیٹی حسینہ ۔

ظہیر احمد کے بڑے بھائی 65سالہ کبیر احمد نے بتایا کہ جب میں نے سنا کہ فوج نے حملہ کردیا ہے تو میں دریا میں کود گیا۔میرے دو بیٹے میرے ساتھ تھے۔ انہوںنے بچوں کو دریا میں پھینکنا شروع کیا۔میری تین سال کی پوتی مقرہ اور ایک سال کے پوتے ابوالفیاض کو انہوںنے پانی میں پھینک دیا۔ انہوںنے تمام لوگوں کو پہلے ایک جگہ جمع کیا اور پھر ان سے بھاگنے کو کہا۔ اس کے بعد ان پر فائر کھول دیا گیا۔ کبیر احمد نے بتایا کہ ہم پہاڑ پر درختوں کی آڑ میں چھپے ہوئے تھے ۔ شام کو انہوںنے تمام لاشوں کو جمع کرنا شروع کیا اور پھر انہیں دریا کے کنارے ریت میں گڑھے کھود کر دفنا دیا گیا۔ظہیر احمد کے گھر کے آٹھ افراد قتل کردیے گئے ہیں جب کہ ان کے دو بیٹے لاپتہ ہیں۔یہ الفاظ ہیں کاکس بازار کے رفیوجی کیمپ میں موجودہ میانمار کی راکھین ریاست کے علاقے تولا تولی سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ کبیر احمد اور ان کے بھائی 55سالہ ظہیر کے ( بحوالہ:دی گارجین 7ستمبر)
https://www.theguardian.com/world/2017/sep/07/massacre-at-tula-toli-rohingya-villagers-recall-horror-of-myanmar-army-attack
یہ ہم نے صرف دو افراد کی باتیں یہاں نقل کی ہیں ورنہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و سفاکیت برتی گئی ہے ، اس کو ضبطِ تحریر میں لانے کے لیے بھی بڑا دل گردہ چاہیے۔روہنگیا مسلمانوں کو اقوام متحدہ بھی دنیا کی مظلوم ترین اقلیت تسلیم کرچکی ہے۔ 1962سے ہر چند سال بعد میانمار( سابقہ برما) کی حکومت چاہے وہ فوجی ہو یا نام نہاد جمہوریت روہنگیا مسلمانوں پر کسی نہ کسی بہانے سے حملہ آور ہوتی ہے، ان کا قتل عام کیا جاتا ہے، ان کو ملک سے باہر دھکیلا جاتا ہے، ان کی خواتین کی آبرو ریزی کی جاتی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان کا جرم کیا ہے؟؟

جواب بڑا سادہ سا ہے۔ ان کا جرم مسلمان ہونا ہے۔بدھ مت سے تعلق رکھنے نام نہاد امن پسندوں اور آہنسا کے پیرو کاروں کو اپنی سر زمین پر مسلمانوں کا وجود گوارہ نہیں ہے۔ حقوق انسانی اور جانوروں تک کے حقوق کے لیے مگر مچھ کے آنسو بہانے والے مغرب کے لیے ہزاروں مسلمانوں کا قتل کوئی اہمیت نہیں رکھتا،لندن، برسلز اور دیگر یورپی شہروں میں کسی بھی دہشت گردی کے واقعات میں چند افراد کے قتل پر آسمان سر پر اٹھانے والے میڈیا اور حقوق انسانی کی نام نہاد تنظیموں کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ میانمار کی حکومت کیسا گھنائونا کھیل کھیل رہی ہے۔ اس سارے المیے میں سب سے مکروہ اور قابل مذمت کردار اس خاتون کا ہے جو جرات و بہادری کی علامت سمجھی جاتی ہے ، جی ہاں نوبل انعام یافتہ میانمار کی خاتون رہنما اور موجودہ حکمران آن سنگ سوجی کی منافقت بھی دنیا کے سامنے عیاں ہوگئی کہ اس پورے المیے پر اس خاتون نے کبھی بات کرنا گوارہ نہیں کی ۔ اب اگر اس نے زبان کھولی بھی ہے تو مسلمانوں کے حق میں نہیں بلکہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے۔

لیکن میں یا آپ میانمار کی حکومت یا ان کے لوگوں سے گلہ کیوں کریں؟؟ سوال تو یہ ہے کہ او آئی سی کیا کررہی ہے؟ مشرق وسطیٰ کے معاملات میں ٹانگ اڑانے والے سعودی حکمران کیا کررہے ہیں؟ عراق ، یمن اور شام میں مداخلت کرنے والا ایران اس معاملے پر چپ کیوں ہے؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے والا، مشرق وسطیٰ کے ہر معاملے کو اپنا سمجھنے والے ملک خداداد پاکستان کا اس سارے المیے میں کیا کردار ہے؟ اور وہ جو عظیم الشان اسلامی ممالک کی اتحادی فوج ہے وہ کیا کررہی ہے؟ صرف زبانی مذمت کرنے یا بیان جاری کرنے سے نہ پہلے کچھ ہوا ہے اور نہ اب کچھ ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک اپنے ملک میں موجود میانمار کے سفیر کو طلب کرکے احتجاج کریں،میانمار سے تجارتی اور سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں تاکہ اس پر دبائو پڑے۔

یہ تو حکومتی سطح پر کیے جانے کے کام ہیں ۔عوامی سطح پر ہمیں چاہیے کہ ہم اس ظلم کے خلاف احتجاج کریں، جو لوگ اس ظلم کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ان کا ساتھ دیں، میانمار کے سفیر اور میانمار کی حکومت کو اس حوالے سے احتجاجی مراسلے بھیجے جائیں تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ دنیا بھر میں ان کے اس عمل کو ناپسند کیا جارہا ہے۔اس طریقے سے ہم اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کرسکتے ہیںاور شاید اس طرح ان کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم بند ہوسکیں۔ البتہ ایک انتہائی ضروری بات یہ ہے کہ مراسلے ضرور بھیجیں،احتجاج ضرور کریں لیکن مراسلوں یا خطوط میں تہذیب اور شائستگی کا ضرور خیال رکھیے ورنہ آپ کا ایک اچھا اور اہم عمل بھی بے اثر اور رائیگاں جائے گا۔

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1451386 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More