یوم دفاع اور معصوم مومنہ شہید۔۔۔۔1

آج6 ستمبرپاکستا ن کا یوم دفاع ہے۔ ستمبر کو بعض حلقے ستم گر بھی کہتے ہیں۔ہر دن اب پاکستان کے لئے یوم دفاع بن رہا ہے۔نصف صدی قبل اسی ماہ بھارتی فوج نے بین الاقوامی سرحد پار کرتے ہوئے لاہورپر قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔نریندر مودی کے ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ گٹھ جوڑ کے بعد آج ایک بار پھر بھارت جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔آزاد کشمیر پرجارحیت اور یلغار کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔بھارت نے آزاد کشمیر کے دیہات پر ہی نہیں بلکہ ورکنگ باؤنڈری ،سیالکوٹ میں انٹرنیشنل سرحد پر بھی شہری علاقوں کو نشانہ بنا یا ہے۔اس نے گزشتہ آٹھ ماہ میں 700مرتبہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ بھارتی گولہ باری سے 30معصوم لوگ شہیداور سیکڑوں معذور ہو چکے ہیں۔2ستمبر کو یوم دفاع سے چار روز پہلے عید کے دن بھارت نے جارحیت جاری رکھی۔عباس پور سیکٹر کے پولس میں 5سالہ بچی مومنہ خضر کو بھارتی فوج نے شہید کر دیا۔یہ ننھی بچی کھلونے سے کھیل رہی تھی جب بھارتی فوج نے اسے نشانہ بنایا۔پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج بھی کیا مگر نئی دہلی پر اس کا اثر نہیں ہوتا۔اب بھی آزاد کشمیر پربھارتی قبضے کے لئے کمانڈوز ایکشن کی باتیں ہو رہی ہیں۔بھارت پاکستان کی داخلی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر مہم جوئی کرنا چاہتا ہے۔ اس کی فوجی کمانڈوز افغانستان میں بھی موجود ہیں۔اس سب کی کڑیاں آپریشن جبرالٹر سے ملتی ہیں۔عظیم مجاہد جرنیل طارق بن زیاد کے نام سے منسوب جبل الطارق یا جبرالٹرکا آپریشن کشمیر میں کیوں کیا گیا؟۔ کیا پاکستان نے کشتیاں جلا کر میدان جنگ کی جانب پیش قدمی کر لی تھی۔ اس آپریشن کے ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو کیوں تھے؟ جنرل موسیٰ کا کردار کیا تھا؟ جنرل ایوب خان کو قائل کس نے کیا؟ میجر جنرل اختر حسین ملک نے کیا منصوبہ بنایا تھا؟ قادیانی سازش کیا تھی؟۔وزارت خارجہ نے کیا مشورہ دیا؟ کشمیریوں کو اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا؟ناکامی کا اعتراف کرنے سے ہچکچاہٹ کس نے کی؟اپنی غلطی دوسروں کے سر ڈالنے کی روایت کب قائم ہوئی؟ غلطیوں سے کیا سبق ملا؟ان سوالات کا جواب دینے ولا کوئی نہیں۔ کوئی تحقیقات نہیں۔ کوئی کمیشن نہیں۔ معاملہ ایسا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ کرگل جیسے بھی واقعات ہوئے۔ جن سے بھارت کو جنگی نقطہ نگاہ سے بہت فائدہ پہنچا۔ لیکن اس کی ناکامی کا کوئی زمہ دار نہیں ہے۔ ایبٹ آباد کا سانحہ بھی رونما ہوا۔ پرویز مشرف کے بارے میں کوئی تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ ادارے کے خلاف سازش ہے۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ سے سبق حاصل کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔

جنرل محمد موسیٰ اس وقت پاک فوج کے کمانڈر ان چیف تھے۔ وہ اس آپریشن کے ایک سال بعد تک آرمی چیف رہے۔ اپنی کتاب ’’مائی ورژن‘‘ یا میرا موقف میں لکھتے ہیں کہ ، بھارت نے 6ستمبر 1965ء کو جی ایچ کیو، سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل ایوب خان کو حیران کر دیا۔ 5اور6ستمبر کی رات ساڑھے تین بجے بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ ایوب خان کو پاک فضائیہ کے کمانڈر نے حملے کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے جنرل موسیٰ کو فون کیا۔ اور معلومات حاصل کیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ، فارن سکریٹری عزیز احمد، آزاد کشمیر میں فوج کی بارہویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک نے آپریشن جبرالٹر کا منصوبہ بنایا تھا۔ انھوں نے حکومت سے سفارش کی کہ وہ پاک فوج کو ریڈرز کشمیر بھیجنے کی ہدایت دے تا کہ وہاں گوریلا کارروائیاں شروع کی جائیں۔ اور بھارتی قبضے کے خاتمے کے لئے کشمیریوں کو متحرک کیا جائے اور ان کی مدد کی جائے۔ اس ریڈ کو قبائلی ریڈ یا یلغارکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب یہ ریڈ شروع ہوا تو قبائلی جنگجو وادی پہنچنے لگے۔ کوئی تیاری نہیں تھی۔ وادی کے عوام کو بھی آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ ان کے ہمراہ ایس ایس جی کمانڈوز بھی تھے۔ کوئی زاد راہ ، کوئی کمک نہ تھی۔ اسی ریڈ کا نام آپریشن جبرالٹر رکھا گیا۔ اس وجہ تسمیہ شاید جبل الطارق ’ ایک پہاڑ کا نام‘بنی۔ جو کہ عظیم بہادر مسلمان سپہ سالار طارق بن زیاد سے مناسبت رکھتا ہے۔ یہ کوڈ نام تھا۔ کمانڈر 12ڈویژن اختر حسین کو جی ایچ کیو کے تعاون سے پلان کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت جنرل موسیٰ نے دی تھی۔ جی ایچ کیو نے پلان منظور کیا۔ جنرل ایوب خان اور ان کے ملٹری سکریٹری ، سی جی ایس میجر جنرل شیر بہادر، ملٹری آپریشنز اور انٹیلی جنس جنس کے ڈائریکٹرز بریگیڈیئر گل حسن اور ارشاد احمد خان بریفنگ میں موجود تھے۔ ایوب خان آپریشن پر تیار ہو گئے۔ بریفنگ میں کوئی سویلین موجود نہ تھا۔ منصوبہ مقبوضہ کشمیر میں فوجی تنصیبات، مواصلات کی تباہی، کشمیریوں میں اسلحہ کی تقسیم، گوریلا تحریک کی شروعات وگیر ہ کا تھا۔ اکھنور کی جان پیش قدمی اس کا حصہ نہ تھی۔ اسے آخری حربے کے طور آزمانے کی بات ہوئی۔ لیکن جب کرناہ اور کیرن ، حاجی پیر کے علاقوں پر قبضہ شروع کیا تو چھمب سے آگے اکھنور کی جانب پیش قدمی کی گئی تا کہ بھارتی دباؤ کم کیا جائے۔ یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ بھارت کو کشمیرتک محدود رکھا جائے گا۔ بھارت پاکستان پر حملے کی جرائت نہیں کرے گا۔ لیکن یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ اس سے قبل پشاور میں پیراشوت ٹریننگ سکول میں ایک بریفنگ میں کشمیر میں پیرا شوٹس کی مدد سے فوج اتارنے کا منصوبہ بنا۔ جو کہ 1956کی عرب اسرائیل جنگ جیسا ہو ۔ اس کی کامیابی کی بات کی گئی۔ جنرل موسیٰ نے کشمیر میں ریڈ سے متعلق واضح کیا تھا کہ کشمیر میں گوریلا جنگ تب ہی کامیاب ہو گی جب کشمیری اس کا حصہ بنیں گے ، تیاری کے لئے مزید وقت در کار ہے۔ گوریلا جنگ میں اگر بھارت نے سمجھا کہ وہ ہار رہا ہے تو وہ پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ بھارت کو ہرانے کہ لئے مزید فوج ، بہتر اسلحہ اور تربیت کی ضرورت ہے۔ انھوں نے دو دویژن فوج کی بھرتی کے لئے وزارت خزانہ سے پیسہ مانگالیکن انکار کر دیا گیا۔ آپریشن شروع کرنے سے قبل کوئی فوج بھرتی نہ ہوئی لیکن جنگ کے خاتمے کے فوری بعد اسی ماہ مزید دو ڈویژن فوج بھرتی کر لی گئی۔ جنرل موسیٰ اور جنرل شیر بہادر نے اس کی مخالفت کی لیکن ضد پر نہ اڑے رہے۔ آپریشن کا کمال دیکھیں کہ جس قوم کو آزاد کرانا تھا اسے کچھ نہ بتایا گیا۔ اس کا اعتراف جنرل موسیٰ کی کتاب میں بھی کیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت تک کو اس منصوبے کا علم نہ ہونے دیا گیا۔ پھر جب عوامی حمایت کا احساس ہوا تو پہلے سے قائم لبریشن سیل کا سربراہ چوھدری غلام عباس کو مقرر کیا گیا۔ انھوں نے اسے قبول نہ کیا۔ اور اس منصوبے سے لاعلمی ظاہر کی۔ اس میں فارن آفس،وزارت داخلہ اور وزارت امور کشمیر کے بعض سینئر لوگ شامل تھے۔

...... 2
قائد اعظم کے سکریٹری کے ایچ خورشید نے کہا کہ ایوب خان کو کمزور کرنے کے لئے یہ منصوبہ بنایا گیا تھا۔اور وہ ا س کے انجام سے بے خبر تھے۔ ورنہ جس ایوب خان نے بھارت کو مشترکہ دفاع کی پیشکش کی تھی ، اسے کبھی منظور نہ کرتے۔ کیا کمزور منصوبہ بندی کی گئی تھی؟ یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ بھارت نے کشمیرکو بچانے کے لئے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کر دیا۔ اس سے بھارت کیلئے کشمیر کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بھارت نے کرگل اور لیہ تک جنگ پھیلا دی۔ جب آپریشن جبرالٹر کی ناکامی پر پاکستان نے آپریشن گرینڈ سلام کے تحت مظفر آباد کے تحفظ کے لئے بھمبر، چھمب، اکھنور کی جانب پیش قدمی کی اور 8میل تک کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ لیکن پاک فضائیہ کو بھی با خبر نہ رکھا گیا۔ ایئر چیف مارشل(ر)انور شمیم اپنی کتاب ’’ کٹنگ ایج پی اے ایف‘‘میں لکھتے ہیں کہ فضائیہ کو آپریشن جبرالٹر سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس کے لئے کوئی مشترکہ منصوبہ نہ بنا۔ جو لوگ اندر بھیجے گئے وہ نہ تو مقامی زبان سے واقف تھے اور نہ راستے جانتے تھے۔ بھارت نے آزاد کشمیر کے جنوب کو شمال سے کاٹنے کے لئے درہ حاجی پیر پر قبضہ کر لیا۔

ائر مارشل (ر)اصغر خان جو آپریشن جبرالٹر سے چند ماہ قبل ریٹائر ہو گئے، نے ’’ دی فرسٹ راؤنڈ، انڈو پاکستان وار ‘‘میں لکھا ہے کہ یہ پلان لانچنگ پیڈ پر ہی ناکام ہو گیا تھا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ آپریشن فول پروف ہے۔ ہر کوئی اپنے کردار سے ہی باخبر ہے، دشمن منصوبہ کو کبھی نہ جان سکے گا۔ سچ یہ ہے کہ پہلے چار رضاکار بھارت نے پکڑے۔ انہوں نے 8اگست 65ء کو بھارتی فوج کی جانب سے سرحد پار کرنے سے ایک ماہ قبل ہی آل انڈیا ریڈیو پر تمام منصوبہ بیان کر دیاتھا۔ پھر بھی اسی پر عمل ہوا۔میاں ارشاد حسین اس وقت دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر تھے۔ جو بعد ازاں وزیر خارجہ بنے ۔ انہوں نے77ء میں مطالبہ کیا تھاکہ 65ء کی جنگ کی وجوہات کی عدالتی تحقیقات کی جائے۔ کیوں کہ انھوں نے ترکی کے سفارتخانے کے زریعے 4ستمبر1965ء کو فارن آفس کوخبر دار کیا تھاکہ بھارت پاکستان پر حملے کا پلان بنا رہا ہے۔ لیکن کوئی توجہ نہ دی گئی۔ پھر جنرل موسیٰ کا یہ کہنا کہ بھارت نے حملہ کر کے حیران کر دیا کتنا درست ہو سکتاے؟۔ یہ نصف صدی کی کہانی ہے۔ کوئی ہے جو ماضی سے سبق سیکھنے کی کوشش کرے؟

عدالتی تحقیقات کون کرے گا۔ 1947سے فائلیں بند ہیں۔ کوئی کمیشن ، کوئی انکوائری نہیں۔ پاکستان ٹوٹنے پر محمود الرحمان کمیشن بنا۔ اس پر کیا ہوا۔ سب جانتے ہیں۔ غیر جانبداری نہ ہو تو یہی ہوتا ہے۔ تحریک آزادی کشمیر میں کئی اتار و چڑھاؤ آئے۔ لیکن غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا جا تا ہے۔ لاکھوں افراد کی قربانیاں دی گئی ہیں۔ شہداء کے مشن کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کو بھی درست سمت کا تعین کرنا ہو گا۔ اگر چہ پاکستان کو متعدد داخلی اور خارجی چیلنجز در پیش ہیں، تا ہم کشمیر پر بھارت کا قبضہ بہت بڑا چیلنج ہے۔جس سے پاکستان کی سلامتی ہر وقت داؤ پر لگی رہے گی۔ اس لئے پاکستان کشمیر کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔ مسلہ کشمیر کا حل پاکستان کی پہلی ترجیح نہ رہی تو جنگ کے بادل اس خطے پر منڈلاتے رہیں گے۔

آج ایک بار پھر ستمبر آ گیاہے۔ یوم دفاع پر بہادری کے کارنامے بیان ہوتے ہیں۔ سچ یہ بھی ہے کہ زندہ قومیں ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ تاریخ سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ عظیم لوگ ہی اپنی غلطی کا احساس بھی کرتے ہیں ، اسے تسلیم بھی کرتے ہیں۔ جائزے لئے جاتے ہیں۔ عرق ریزی سے کیس سٹڈیز کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔ انسان بشر ہے۔ غلطیوں کا پتلا ہے۔کوتاہی ہو سکتی ہے۔ سوچے سمجھے کوئی غلطی نہیں کرتا۔ لیکن یہ خطرناک اور ناقابل معافی غلطی ہوتی ہے کہ غلطی کو ماننے سے ہی انکار کر دیا جائے۔ یا غلطی کو درست قرار دے دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے نہ سدھرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ غلطی تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہو گا کہ ہم میں اصلاح کرنے کی ہمت ہے۔ یہی حوصلہ مندی آئیندہ کی حماقتوں سے بھی بچاتی ہے۔ غلطیوں کا ازالہ بھی ضروری ہوتا ہے۔

ہمارا ریت و رواج مختلف ہے۔ منصوبہ بندی کا فقدان رہتا ہے۔ دریا کے بہاؤ پر بہہ جاتے ہیں۔ ہاں میں ہاں ملانے کا رواج ہے۔ یس سر کہنے کی عادت ہے۔ اگر ناں کہی تو نہ جانے کیا ہو جائے گا۔ مراعات یافتہ لوگ یا وہ جو میرٹ کی پامالی کر کے آگے بڑھتے ہیں۔ انہیں ناں سے خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے ان کی وجہ سے سارا سسٹم تباہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے سیاستدان اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ فوج پرڈال دیتے ہیں۔ اسی طرح قومی ادارے سیاست کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو ہر منفی چیز کا زمہ دار قرار دیتے ہیں۔ زمہ دار ی اپنے سر نہیں لیتے۔ ۔ 1947سے اب تک کے تمام منصوبوں ، ناکامیوں، کامیابیوں کی انکوائری کی ضرورت ہے۔ تا کہ پتہ چلے کہ کیسے اقدام کا انجام اچھا یا برا ہوتا ہے۔ اس سے مستقبل میں درست فیصلے کرنے کا جذبہ بیدار ہو گا۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 483266 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More