بینظیر کی شہادت، قاتل اور سہولت کار گمشدہ۔۔۔

گزشتہ دنوںعدالت نے بینظیر کے قتل کا فیصلہ سنادیا جو حقیقت کے بالکل منافی تھا، جس جس شخصیات کو مورد الزام ٹھہرایا وہ بلواسطہ یا بلاواسطہ شامل قتل نہیں ،درحقیقت عدالت اس کے علاوہ فیصلہ دے ہی نہیں سکتی تھی کیونکہ عدالت کو اصل شواہد و ثبوت پیش نہیں کیئےاس کی ایک سب سے بڑی وجہ تفتیشی عوامل کو مکمل ہی ہونے نہیں دیاگیا، فیصلہ کے بعد میں نے اپنے ذرائع کے اس بابت عوام کے درمیان پہنچنے کا کہا کہ عوام کیا کہتی ہے اس قبل کہ عوام کے تاثرات کو اپنے معزز قارئین کے سامنے پیش کروں ،یہاں میں اپنے ہر دلعزیز اے آر وائی نیوز اسلام آبادکے رپورٹر راجہ ثاقب کا بیان پیش کررہا ہوں جو انھوں نے اپنے فیس بک پر لکھا ہے، یاد رہے راجہ ثاقب اُن دنوں میں ہی اے آر وائی سے دورسے چینل منتقل ہوگئے تھے ، میں یہاں جوں کا توں اپنے ناظرین کے سامنے پیش کررہا ہوں ،راجہ ثاقب لکھتے ہیں کہ ۔۔۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے ایک دن پہلے۔۔۔شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے صرف 18گھنٹے پہلے کے چند واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا جن سے کچھ سوال بھی پیدا ہوتے ہیں پولیس افسر اور اس وقت کے ڈی پی او راولپنڈی جن کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سترہ سال قید کی سزا سنائی ہے سے بھی کچھ منسوب ہے۔۔میں نے 2007میں تازہ تازہ ARYسے ایکسپریس نیوز جائن کیا تھا اور ان دنوں ایکسپریس نیوز کی ٹیسٹ ٹرانسمیشن جاری تھی ادھر محترمہ بے نظیر کے لیاقت باغ کے جلسے کی تیاریاں تقریباْ ختم ہوچکی تھی سیکورٹی انتظامات کے جاننے کے لئے میں نے ڈی پی او سعود عزیز سے خصوصی انٹروویو کا ٹائم لیا کیونکہ اس وقت جلسے کو صرف 18گھنٹے باقی رہ گئے تھے میں اپنی ٹیم کے ہمراہ سعود عزیز کے دفتر پہنچا میرے ہمراہ کیمرہ مین فیصل بھی موجود تھا سعود عزیز کے دفتر میں داخل ہوتے ہی خوشگوار موڈ میں ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد کیمرہ مین نے کہا کہ آپ لوگ باتیں کریں میں زرا لائٹنگ اور بیک گراونڈ سیٹ کرلوں ۔۔ ابھی اس نے اپنا کام شروع کیا تھا کہ اچانک سعود عزیز کو دفتر کے فون پر انکے آپریٹر نے کچھ کہا تو سعود عزیز نے کہا کہ ہاں فوری بات کرواو ۔۔ دوسرے طرف سے فون پر بات ابھی بات شروع ہوئی تھی کہ سعودعزیز نے زور سے کہا ۔۔۔ what ۔۔۔ اور فون ہاتھ میں تھامے سیٹ سے کھڑے ہوگئے پھر کچھ دیر یس اور نو کرتے رہے لیکن بہت کنفیوز اور گھبرائے ہوئے جوں ہی فون بند ہوا تو سعود عزیز اپنی کرسی پر بیٹھ گئے میں ابھی صورتحال کو بھانپنے کی کوشش کررہا تھا لیکن سعود عزیز کے چہرے کے تاثرات انتہائی پریشان کن تھے سو میں بھی چپ رہا اور سعود عزیز کافی دیر تک بالکل کسی سوچ میں گم رہے پھر میں نے ہمت کرکے پوچھا سر خیریت تو ہے تو انہوں نے کہا ۔۔۔نہیں۔۔۔اور ساتھ ہی کہا کہ آپ جلدی انٹروویو کریں مجھے ضروری کام آن پڑا ہے اتنی دیر میں کیمرہ مین پیچھے لگی ہوئی قائداعظم کی تصویر جو کہ ہر سرکاری افسر کے دفتر میں عموما ہوتی ہے کو دیوار سے اتار کر سعود عزیز کے پیچھے رکھی ٹیبل پر رکھ رہا تھا تاکہ بیک گراونڈ اچھی بن جائے ۔۔ سعود عزیز نے مڑ کر دیکھا تو کیمرہ مین اس تصویر کو سیٹ کررہا تھا ۔۔یہ دیکھتے ہی اچانک سعود عزیز پھٹ پڑا اور کہ یہ تم کیا کررہے ہو۔۔Stupid۔۔یہ کس سے پوچھ کر کیا تم نے؟ یہ الفاظ سنتے ہی کیمرہ مین اور میں ایک دم سے حیران ہوگئے کہ انکو کیا ہوا ہے ؟ ان الفاظ پر مجھے غصہ آیا تو میں نے انہیں کہا کہ سر آپ کو یہ الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا آپ کو اچھا نہیں لگا تو کہ دیتے کہ واپس رکھ دو ۔۔ سعود عزیز جو کہ فون کال سننے سے پہلے انتہائی خوشگوار موڈ میں تھے بالکل مختلف انسان لگ رہے تھے اورکہنے لگے کہ مجھے پسند نہیں کہ میرے دفتر کی چیز کو کوئی ہاتھ لگائے ۔خیر۔۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے میں نے کہ دیا کہ جناب اگر آپ کو بات کرنے کی تمیز نہیں تو مجھے بھی ایسے کسی افسر سے بات کرنے کا شوق نہیں اور انٹروویو کرنے سے انکار کردیاجسکے بعد میں اور میرا کیمرہ مین باقاعدہ ایک دوسرے کو جملے کستے ہوئے ہم انکے دفتر سے نکال آئے ۔۔دفتر کی گاڑی پر ابھی ہم مشکل سے ایک میل دور ہی گئے ہونگے کہ اس وقت کے ایس پی ہیڈ کوارٹر جن سے بہت اچھا تعلق تھا میرا کا فون آگیا اور مجھے کہنے لگا یار ثاقب کی کیتا توں سعود عزیز نال ؟ میں نے کہا کہ کچھ نہیں اسکو تمیز سکھائیں ۔۔جس پر ایس پی صاحب نے کہا تینوں نہیں پتا یار اوہ بہت پریشان اے کل بی بی دے جلسے و چ رولا اے اور انوں تھوڑی دیر پہلے ہی اطلاع ملی اے ۔ تو واپس آجا میں تیری صلح کروا دینا واں ۔ میں نے ان سے کہا کہ جان دیو چوہدری صاحب فر سہی ہن میں کافی دور نکل آیا ۔۔۔ اگلے دن جو ہوا جلسے کے بعد تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر 18گھنٹے پہلے پولیس حکام کو ایسی اطلاع مل چکی تھی تو پھر جلسہ سے روکا کیوں نہیں گیا اور اگر کرنے کی اجازت برقرار رہی تو پھر ایکسٹرا سیکورٹی حصار کیوں نہیں بنائے گئے ۔۔شہید محترمہ کا جلسہ ختم ہوتے ہی مجھ سمیت تقریبا تمام میڈیا والے وہاں سے بھاگم بھاگ نکل رہے تھے کیونکہ دوسری طرف نواز شریف کا قافلہ اسلام آباد داخل ہورہا تھا اور اسلام آباد ہائی وے پر انکے قافلے پر فائرنگ ہوئی جس کے اس وقت دو افراد ہلاک ہوگئے تھے سو ہمیں جلدی تھی کہ وہاں پہنچیں تاکہ اسکی کوریج ہوسکے ابھی تھوڑے فاصلے پر پہنچے تھے کہ اچانک میرے ایک (سورس) جو کہ اس وقت ریسکیو ون فائیو پر ڈیوٹی دے رہا تھا کا فون آیا اور کہنے لگا ثاقب بھائی بی بی کے قافلے کے قریب دھماکہ اور فائرنگ کی آواز آئی ہے میں نے ایک دم سے ڈرائیور کو کہا کہ گاڑی روکو دھما کہ ہوگیا ہے میں نے جلدی سے ٹکر لکھوانے کے لئے دفتر فون کیا اتنی دیر میں ڈرائیور گاڑی واپس موڑ چکا تھا ۔۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ چونکہ رحما ن ملک جو کہ بی بی کی سیکورٹی کے انچارج تھے سے معلوم کیا جائے کہ صورتحال کیا ہے سو میں نے انکو کال ملائی اور کال ملتے ہی میں نے پوچھا سر بی بی کہاں ہے دھماکہ کی اطلاع ہے ۔تو رحمان ملک صاحب نے انتہائی اطمینان سے جواب دیا کہ یار بی بی تو اب تک گھر پہنچ چکی ہونگی وہ خیریت سے ہیں ۔۔۔ یہ بات انہوں نے دیگر ٹی وی چینلز کو بھی کہی ۔۔ آن ریکارڑ موجود ہے۔۔ سو رحمان ملک صاحب کے جواب پر میں نے دفتر اطلاع کردی کہ بی بی خیریت سے ہیں ملک صاحب کی طرف سے بیان چلا دیں ۔۔۔ خیر بعد میں مجھے جنرل ہسپتال جو کہ اب بی بی شہید ہسپتال کہلاتا ہے میں انتہائی سینئر پروفیسر ڈاکٹر میرے دوست اور محسن بھی ہیں نے بتایا کہ بی بی تو یہاں پہنچیں ہیں اور اانکا سانس نہیں چل رہا ہم پوری کوشش کرررہے ہیں یہ سنتے ہی میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی کہ یہ ہو کیا رہا ہے اور اس وقت تمام ٹی وی چینلز چلا رہے تھے کہ بی بی خیریت سے ہیں اور گھر پہنچ چکی ہیں جب میں نے بی بی کی ہسپتال میں تشویش ناک حالت کی خبر دی تو اس وقت ہمارے ڈائریکٹر نیوز فہد حسین نے مجھے جھاڑ دیا کہ کیا کہ رہے ہو کیوں ہمارے ٹی وی پر حملہ کروانا ہے لوگ آگ لگا دیں گے لیکن پھر بھی میں نے اپنے بیپر میں بی بی کے زخمی اور حالت خراب ہونے کی بات کرہی دی ۔ اسکے تقریبا ایک گھنٹے بعد بابر اعوان صاحب نے میڈیا پر آکر اعلان کیا کہ بی بی شہید ہوچکی ہیں ۔۔۔۔خیر اس سانحہ کے بعد ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوگیا سب سے پہلے جناب رحمان ملک صاحب نے الزام لگایا کہ ایس پی سیکورٹی یاسین فاروق میرا ملزم ہے میں اسکا گریبان پکڑوں گا ۔انکے اس بیان پر میں نے یاسین فاروق کو کال کی اور بتایا کہ تمہارے متعلق بات ہورہی ہے تمہارا آفیشل سٹیٹمنٹ کیا ہے اس پر ؟ تو اس نے کہا کہ اچھا میری طرف سے بیان چلا دیں کہ میں سے پہلے رحمان ملک سے تفتیش کا آغاز کروں گابی بی کی سیکورٹی کی ذمہ داری رحمان ملک صاحب نے لی تھی وہ جلسے ختم ہونے سے پہلے جلسہ گاہ چھوڑ کر کیوں چلے گئے تھے ؟ میں نے یاسین فاروق سے دوبارہ پوچھا کہ کیا یہ آفیشل بیان ہے آپکا ؟ تو یاسین فاروق نے کہا ہاں آپ چلا دیں ۔یہ معاملہ چند دن چلتا رہا پھر دبتا چلا گیا اور جب پیپلز پارٹی کچھ ہی ماہ بعد اقتدار میں تھی اور رحمان ملک صاحب وزیر داخلہ بنے تو انہوں نےیاسین فاروق جو کہ ان دنوں بھی راولپنڈی میں تعینات تھے اور ایس پی رینک پر تھے کو پرومووٹ کرکے ایس ایس پی اسلام آباد تعینات کرنے کے احکامات جاری کردئیے ۔۔۔ یاسین فاروق وہی افسر تھا جو کچھ ہی عرصہ پہلے رحمان ملک صاحب کو گرفتار کرنے کا بول رہا تھا اور رحمان ملک صاحب سیکورٹی کی ساری غیر ذمہ داری یاسین پر ڈال رہے تھے ۔۔۔ خیر نئے ایس ایس پی یاسین فاروق نے اگلے دن اسلام آباد کا چارج لیا اور صرف 24گھنٹے بعد انکو وزیراعظم کے حکم پر ایس ایس پی کے عہدے سے ہٹا کر واپس بھیج دیا گیا جس پر اس وقت میں نے ایکسپریس میں ایک کالم بھی لکھا کہ۔۔ اسلام آباد کی تاریخ کا ایک دن کا ایس ایس پی۔۔۔یہ کچھ واقعات جو کہ اس وقت سے منسوب ہیں لکھنے کو دل چاہ رہا تھا انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے بعد اور ان میں سے سوال تلاش کرنا اب آپ کی ذمہ داری ہے۔۔۔۔معزز قارئین!!ہمارے انتہائی محترم سینئر صحافی حامد میر نے نجی ٹی وی چینل پر اپنے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ بے نظیر بھٹو کے ساتھ زخمی ہوئے تھے ان کے قریبی ساتھی ، انہوں نے ہمیں کچھ اہم باتیں بتائی تھیں جو ہمیں اس عدالتی فیصلے میں نظر نہیں آئیں۔ اسلم چودھری جو کہ بے نظیر بھٹو کے پروٹوکول آفیسر تھے، اور زخمی ہوئے تھے اور ابن رضوی جو جلسے کے منتظمین میں شامل تھے ان دونوں نے ہمیں کچھ باتیں بتائی تھیں ۔۔۔۔اسلم چودھری کا کہنا تھا کہ پولیس ایک دم وہاں سے غائب ہو گئی تھی جو ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ایسا کیوں ہوا تھا۔ پولیس کو چاہئیے تھا کہ جب تک بی بی وہاں سے چلی نہیں جاتیں وہ وہیں رہتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دوسری جانب منتظمین جلسہ میں سے ایک منتظم ابن رضوی نے کہا کہ بی بی کی گاڑی نے بائیں ہاتھ کی طرف جانا تھا ہم پریشان یہ ہوئے کہ بی بی کی گاڑی کے آگے موجود اسکواڈ نے معلوم نہیں کس کے اشارے پر گاڑی دائیں جانب مری روڈ کی طر ف موڑدی۔۔۔ حالانکہ 23دسمبر کوانتظامیہ جس میں سی پی او اور ڈی پی او سمیت دیگر سکیورٹی حکام موجود تھے انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ بی بی مری روڈ کی طرف سے آئے گی اور واپسی پر ہمیشہ کی طرح گوالمنڈی کی طرف سے واپس جائے گی۔ حامد میر نے کہا کہ ایک اور معاملہ بہت اہم ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ گاڑی میں جو لوگ موجود تھے اس میں مخدوم امین فہیم ، صفدر عباسی،ناہید خان شامل تھیں۔۔۔ان سب سے ہم نے تو بات کی ہی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ عدالت نے ان تینوں میں سے کسی کو بھی طلب نہیں کیااور ان سے کوئی بیان نہیں لیا گیا۔۔بی بی پر حملے سے کچھ دیر قبل انہوں نے ناہید خان کو کہا تھا کہ نواز شریف کے قافلے پر حملہ ہو ہے میری نواز شریف سے بات کروائیں۔۔۔بی بی کی اس بات کو پورا کرتے ہوئے ناہید خان نے نواز شریف کا نمبر ملانا شروع کیا ۔۔ ناہید خان کا کہنا تھا کہ میں فون ملا ہی رہی تھی کہ انہوں نے مجھے روک دیا اور کہا کہ میں پہلے باہر کھڑے لوگوں کو ہاتھ ہلا لوں پھر مجھے فون ملا دینا۔ معزز قارئین!!پاکستان پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے رکن نے اعلیٰ پولیس حکام اور سندھ نیشنل فرنٹ کے چیئرمین وسابق وزیراعلیٰ سندھ ممتاز علی بھٹو کے بیانات قلمبند کرنے کے علاوہ رات گئے سانحہ کارساز کے مقام کا تفصیلی معائنہ کیا تھا۔ کمیشن کے ارکان نے ریلی میں بینظیر بھٹو شہید کے زیر استعمال بلٹ پروف کار کا بھی جائزہ لیا تھا۔ کمیشن کی جانب سے بینظیر بھٹو کے قتل کے محرکات، حقائق اور شواہد وبیانات پر مشتمل رپورٹ کو دبا دیا گیا تھا یا یوں کہ لیجئے کہ انہیں ایک حدود تک محدود رکھا گیا آخر انہیں کس نے تفتیش کے مراحل کے دوران پابند سلاسل یعنی اپنی منشا تک محدود کیا۔۔ معزز قارئین!! جب خان لیاقت علی خان کی شہادت ہوئی تو اس وقت ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی واضع ثبوت موجود ہے۔۔ لیکن بینظیر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔۔۔ ان پر حملے کی کئی ویڈیوز بھی موجود ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بی بی کس طرح قتل ہوئیں۔۔۔ اور دھماکہ کرنے والوں اور گولیاں چلانے والوں کی پوزیشن کیا تھی ۔پھر بھی آج تک ہمارے سیاستدان یہ پتا نہیں چلا سکے کہ اس عظیم رہنما کے قتل کے پیچھے کیا محرکات تھے۔ ۔۔۔ اُن کی شہادت ایک عظیم قومی سانحہ ہے جسےنو سال آٹھ ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج تک قاتلوں کا سراغ نہ لگ سکا۔کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ بی بی کو قتل کس نے کیا؟ کس نے کروایا؟ کیوں کیا یا کروایا؟ یہ تو دورکی بات ہے آج تک اس بات کا ہی پتا نہیں چلایا جا سکا کہ بینظیر کی شہادت گولی لگنے سے ہوئی تھی یاگاڑی کا سن روف لیور لگنے سے۔ اتنی بڑی لیڈر کے پوسٹ مارٹم کروانے کی بھی زحمت نہیں کی گئی۔۔ جیسے شروع دن سے ہی ”کوئی“ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس قتل کی کوئی تحقیق ہی نہ ہو۔۔ان نو سال آٹھ مہینوں میں تین حکومتیں بدلیں اور سب سے زیادہ پانچ سال خود بی بی کی جماعت پیپلزپارٹی نے پورے کیے اور ان کے شوہر آصف علی زرداری صدر پاکستان کی کرسی پر براجمان رہے مگر افسوس! محترمہ کے قاتلوں تک پہنچنا تودورکی بات کوئی یہ معلوم نہیں کر سکاکہ محترمہ کی شہادت کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ عجیب تربات یہ ہے کہ محترمہ کی پہلی برسی پر اُن کے شوہر آصف علی زرداری کا دعویٰ تھا کہ اُنہیں قاتلوں کے بارے میں معلوم ہے۔۔ مگر۔۔۔!!! نہ جانے کونسی مجبوری آڑے آگئی تھی کہ وہ بھی صدر مملکت بن جانے کے بعد اس بارے میں کچھ نہ بتا سکے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے قائم کردہ کمیشن کی رپورٹ کے اجراءکے ایک عرصے بعد سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا یہ دعویٰ تھا کہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ محترمہ کو قتل کرنے کی حکمت عملی کہاں اورکیسے تیارکی گئی۔ نہ جانے انہیں بھی کسی نے منع کر دیا کہ منہ مت کھولنا۔۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ محترمہ کے قاتلوں کا ذکر انہوں نے اپنے سیاسی قدکاٹھ میں اضافہ کرنے کے لیے کیا ہو۔۔معزز قارئین!! بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک بھر میں جس طرح آگ و تشدد کی طوفان بپا ہوا تھا وہ ایک طویل تاریک کا تاریخی حصہ ہے، سرکاری و نجی املاک کو خاکستر کردینا، ٹرینوں، ریلوے اسٹیشن، بینک، بازار، شاہراہین، ٹرانسپورٹ گوکہ شائد ہی کوئی سرکاری املاک ہوگی جس کو جلانے، برباد کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا گیا، صوبہ سندھ جوکہ آج تک پی پی پی سیاسی جماعت کے زیر اثر ہے اور اُس وقت بھی تھی، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، سندھ پولیس اور صوبائی حکومت کی جانب سے کی خاموشی کس بات کی عکاسی کرتی ہے آج بھی پاکستان بھر کے عوام پوچھتے ہیں کہ اس تمام ہنگامہ آرائی کے آخر کیا رموز تھے، کیا اسباب تھے، کیا وجوہات تھیں، کیا ضرورت تھی اور ایسی بھی کیا حکمت تھی کہ عوام کے ٹیکس سے بنے والے تمام ملکیت کو تہس نہس کردیا جائے۔۔۔۔معزز قارئین!!قائد اعظم محمد علی جناح، مادر ملت فاطمہ جناح جیسی عظیم ہستیوں کے انتقال پر اور بلخصوص قائد ملت خان لیاقت علی خان کی شہادت پر ایک بلب تک نہیں توڑا گیا کیونکہ اُس وقت کے سیاسی کارکنان ہوں یا سیاسی رہنما تمام پاکستان اور پاکستانیوں سے والہانہ محبت، عقیدت اور خلوص کی انتہائی درجے پر فائز تھے اُس وقت کے کارکنوں کو پاکستان کے زرے زرے سے پیار تھا وہ اس ملک کے قدر و منزلت جانتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ساٹھ کی دھائی سے قبل پاکستان میں مثبت سیاست کا روج تھا ،آج کی عوام پوچھتی ہے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی سیاسی جماعتیں جو جمہوریت کا آلاپ گاتے تھکتے نہیں جبکہ جمہوریت کی جیم سے بھی واقف نہیں ہیں۔۔۔!! معزز قارئین!! عوام کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے بینظیر بھٹو کی شہادت کے متعلق بات کی گئی تو ان میں ایک گروہ کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کی دور حکومت میں اس کے دونوں بھائیوں کا قتل اور اس کے بھائیوں کے قتل کے متعلق تفتیش میں رکاوٹ کس نے کی؟؟؟بینظر کےبھائیوں کے قتل کے بعد اصل بھٹو کے وارث یعنی مرتضیٰ بھٹو، شاہنوازبھٹو کی اولادوں کو کس نے یرغمال بنایا؟؟ ؟ کس نے بھٹو کے نام کو اپنی اولاد میں منسلک کیا اقتدار اور دولت کی حصول کیلئے ؟؟؟ آصف زرداری نے اپنے دور حکومت میں مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو اور بینظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش کیلئے حقیقی معنوں میں عمل کیوں نہیں کیا، جے آئی ٹی کیوں نہیں بنائی گئی، کیوں این آر او سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کیساتھ کیا؟؟؟ عوام کا کہنا ہے کہ نہ صرف آصف علی زرداری ان تینوں قتل میں مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے رہے بلکہ اس عمل میں ان کی اولادوں نے بھی ساتھ دیا،تمام تر ثبوت و شاہد مٹانے کے بعد اب واویلا کرنے آئے ہیں ؟؟؟ عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد قریبی اہم ترین لوگوں کا قتل ثبوت مٹانے کے مترادف نہیں تو پھر کیا ہے ، جو حیات ہیں ان سے بھی کوئی تفتیش نہیں کی گئی آخر کیوں ؟؟؟ عوام یہ بھی کہتی ہے کہ کسی غیر پر الزام لگا کر آصف علی زرداری اور ان کی اولادیں ان تین قتل سے راہ فرار ہرگز اختیار نہیں کرسکتی کیونکہ آج بھی سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہے اور برسوں سے چلی آرہی ہے، سب سے اہم بات تر یہ ہے کہ قتل کرنے والوں کیساتھ ساتھ سہولت کار کیوں نہیں بے نقاب کیئے گئے ، مفکرین و دانشوروں کا کہنا ہے کہ قاتل کتنا ہی چالاک کیوں نہ ہو وہ ایک نہ ایک دن اپنے گناہ میں ضرور پھنس جاتا ہے ،مفکرین کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام سے آج تک قدرت کا نظام چلتا چلا آرہا ہے کہ قاتل اپنی زندگی میں اعتراف جرم کیئے بغیر مرتا نہیں بصورت ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ اس کا جرم از خود بے نقاب ہوکر دنیا کے سامنے آجاتا ہے ، بینظر بھٹو کا بھی خون رائیگا نہیں جائیگا اور قاتل اپنے جرم کا اعترام کرکے ہی مرے گا ، سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ بھٹو کے مخلوص جیالوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پارٹی میں چھپے آستین کے سانپوں کو تلاش کرکے باہر نکالیں بصورت یہ جماعت سابق ایم کیو ایم کی ڈگر پر نگل جائیگی اور دیکھا یہی گیا ہے کہ پی پی پی جماعت میں اکثریت لوٹ مار ،کرپٹ، بد عنوان عناصر سے بھرتی جارہی ہے ، اس جماعت میں موجودہ پی پی پی میں نا اہل وزرا و مشیر وں کی بھرمار نظر آرہی ہے ، سینئر صحافیوں کے مطابق یہی حال رہا تو آنے والا الیکشن میں ان کی کامیابی خواب بن کر رہ جائیگی،حالیہ دنوں میں عدالت کے فیصلے میں دو پولیس افسران کو چند سالوں کی سزائیں اور پرویز مشرف کو اشتہاری مجرم قرار دیتے ہوئے ان کی املاک کو قرق کرنے کا حکم دیا گیا، یہ فیسلہ شائد کمزور شاہد اور نا قص تفتیش کے باعث دیا گیا ہے درحقیقت اس بڑے قتل کو نہ آصف علی زرداری نے اور نہ ہی اس کی اولادوں نے سنجیدگی سے لیا ، سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ اب بھی وقت نہیں گیا اگر اس کیس کو جدید سائنسٹفک انداز میں حل کیا جائے تو یہ چند ہفتوں میں حل ہوسکتا ہے مگر اس کیلئے خود آصف علی زرداری اور ان کی اولاد کو اس معاملے میں تمام سیاسی مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام تعاون کرتے ہوئے حل کرنے کیلئے جے آئی ٹی کا مطالبہ کرلینا چاہیئے تاکہ نہ صرف بینظر بلکہ شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا بھی پردہ فاش ہوجائے گا۔۔۔۔معزز قارئین!! گزشتہ دنوں میں نے شوشل میڈیا فیس بک میں بینظیر بھٹو کے قتل اور پی پی پی سےمتعلق جو تحریں دیکھی اور پڑھیں ہیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا چلوں ۔۔۔وہ تحریریں یہ تھیں ۔۔۔اب پاکستانی عوام کا مطالبہ ہے کہ چین کی طرح پاکستان میں بھی کرپشن، رشوت، بدعنوانی پرسزائے موت لازم کردی جائے۔۔؟؟؟لوگوں کاکہناہےکہ پی پی پی،ایم کیوایم، پی ایم ایل این،اےاین پی،جےیوآئی ف جماعتوں کوکلعدم قراردیناچاہیئےکیونکہ انھوں نےمایوس کیا۔۔۔۔۔؟؟؟ لوگوں کا یہ بھی کہناہےکہ سندھ کا تمام بجٹ پی پی پی اورایم کیوایم ملی بھگت سےچاٹ جاتےہیں اورعوام بنیادی حقوق سےمحروم رہ جاتےہیں۔۔۔۔؟؟؟لوگ کہتے ہیں سندھ کےمکینوں کےحقوق کوسلب کرنےوالی سیاسی جماعتیں صرف پی پی پی اورایم کیوایم ہی ہیں ۔۔۔؟؟؟لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں اس کے بھائیوں کا قتل ہونا اور خود بینظیر کا بے بس ہونا لمحہ فکریہ ہے۔۔۔؟؟؟لوگوں کا یہ بھی کہناہے کہ خون کبھی نہیں چھپتا،قاتل خوداپنی موت سےپہلےاقرار کر کے مرتا ہے کیونکہ اسکی روح نکلتی نہیں ہےاقرارجرم سے پہلے۔۔۔۔؟؟؟؟لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بینظیر کا قاتل اب بھی پی پی پی میں موجود ہے بس اس کے ڈر اور شر سے کوئی جیالا زبان نہیں کھولتا۔۔۔ ؟؟؟لوگ کہتے ہیں بینظیربھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری کو اقتدار ملا ورنہ وہ پوری زندگی اقتدار نہیں لے سکتا تھا ۔۔۔۔۔؟؟؟؟ بینظیرپرحملہ کےوقت جوساتھ تھے، ان کے بیانات کیوں نہیں قلم بند کیئے گئے،آصف زرداری نے کیوں اس معاملہ کو سست روی پر رکھا۔۔۔؟؟؟؟دنیاکہتی ہےحاکم علی زرداری کوبھٹوناپسند کرتاتھااورآصف زرداری اپنے سالوں کونا پسند کرتاتھا،یہ کس معاملات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔۔؟؟پھربینظیربھٹوکا قتل،آصف زرداری کےپانچ سالہ حکومت میں پیش رفت کیوں نہیں ہوئی،بینظیرکےاہم لوگ کیسےقتل ہوگئے یعنی ثبوت مٹادیئے گئے۔۔۔؟؟؟؟بینظیربھٹو کے دورحکومت میں مرتضیٰ بھٹو کا قتل، قاتل ان کے دورحکومت میں کیوں نہیں پکڑا گیا۔۔۔۔۔؟؟؟؟کسی پر الزام لگا کر پی پی پی کے جیالے اور سیاسی رہنما بینظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو کے قتل کی ذمہ داری سے دسبردار نہیں ہوسکتے ۔؟؟؟

کئی سالوں سے صوبہ سندھ میں حکومت کرنے والی پی پی پی کیونکر بے بسی ظاہر کررہی ہے ، دیگر معاملات میںاپنے اقتدار کا اثرات پیش کرنے والی سندھ حکومت سولیہ نشان بنی ہوئی ہے ۔۔۔۔؟؟؟؟قانون سے بالاتر کوئی نہیں مگر قانون کے تقاضوں کو پورا کیوں نہیں کیا گیا۔۔۔؟؟؟؟ سندھ حکومت میں جس قدر قانون شکنی کی جاتی ہے شائد ہی کسی صوبے میں اس قدر ہوتی ہو،اگر قانون سب کیلئے یکساں کردیئے جائیں تو پھر تفتیش بھی شفاف ہوا کرے گی ۔۔؟؟؟

اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے، پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔!!

جاوید صدیقی‎
About the Author: جاوید صدیقی‎ Read More Articles by جاوید صدیقی‎: 310 Articles with 243460 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.