جی ٹی روڈ پر آہ وبکا

پاکستان کی۷۰سالہ تاریخ میں یہ پہلاموقع ہے کہ اقتدارکی سب سے مضبوط کرسی پربراجمان وزیراعظم کوپاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے پانچ معززجج صاحبان نے صفائی کا پورا موقع فراہم کرنے کے بعداپنے متفقہ فیصلے میں امین وصادق کی شرائط پرپورانہ اترنے کے جرم میں نااہل قرار دیکراقتدار سے محروم کرتے ہوئے نیب کودیگرمقدمات میں ریفرنس دائر کرنے کاحکم دے دیاہے لیکن میاں نواز شریف اوران کے بعض مقلدین نہ صرف اس فیصلے پرسخت برہم ہیں بلکہ اس کی مخالفت میں قانون کی پاسداری کے انتہائی بنیادی تقاضوں کی نفی کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ میاں صاحب اسی عدالت عالیہ کی بحالی کیلئے اسی جی ٹی روڈپرایک تاریخی جلوس لیکر اسلام آبادجارہے تھے لیکن جونہی گوجرانوالہ پہنچے تواس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے ٹیلیفون پرعدالت کی بحالی کی نویدسنا کرمیاں صاحب کی تحریک کوکامیابی کی سندعطافرمائی اورآج اسی عدالت عالیہ کے احکام کے بعدمیاں صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ چار دن تک سراپااحتجاج کرتے ہوئے اپنے گھرجاتی عمرہ پہنچ گئے ہیں لیکن سارے راستے میں اپنے حامیوں کے سامنے اپنی بے گناہی کی دہائی دیتے ان کو ایک مرتبہ پھرمیدان گرم کرنے کی استدعاکرتے رہے۔میاں نواز شریف ممکن ہے عاصمہ جہانگیرکے عدالت مخالف طرزِ عمل فخرکریں جبکہ پاکستان بارکونسل نے عاصمہ جہانگیر سے مطالبہ کیاہے کہ وہ اپنے انتہائی اہانت آمیزطرز عمل پر معافی مانگیں۔وکلاء کی عظیم اکثریت عدالت عظمیٰ کے فیصلے پرصاد کررہی ہے اوراسے آئین و قانون کے مسلمہ مبادیات کے عین مطابق قرار دے رہی ہے جبکہ معدودے چند اہل قانون مخالفانہ رائے کااظہاربھی کررہے ہیں۔

ادھرسینیٹ کے چیئرمین رضاربانی نے کوئٹہ میں ایک سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کہا''جمہوری قوتوں نے آمرکے خلاف جدوجہدکی اوراٹھاون ٹوبی کو ختم کیا،اب ایک اور طریقہ منظرعام پرآگیاہے۔پاکستان فلاحی جمہوری ملک کی بجائے گیریژن اورسیکورٹی اسٹیٹ بن گیاہے۔''اس بیان کے اگلے ہی روز قانون دان عاصمہ جہانگیرنے اسلام آبادمیں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:''جب نوازشریف کونااہل قراردیاگیاتو خیال گزراکہ میاں صاحب کے خلاف ہیروں کی بوریاں نکلیں گی مگران کی نااہلی کاموجب اقامہ نکلا۔اب تک دو سویلین گاڈفادرنکالے جاچکے ہیں ۔میں قانون کی بالادستی کے ساتھ ہوں۔ کاش کبھی حقیقی مافیاکے خلاف کوئی فیصلہ آتا۔"

یہ امرباعث حیرت ہے اورباعث ملال بھی کہ ان دنوں سیاست دانوں کی نظرمیں ملکی سلامتی نہیں بلکہ جماعت اورجماعتی سیاست کی اہمیت ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے اٹھاون ٹوبی اورعدالت عظمیٰ کی طرف سے کئے گئے حق وانصاف پرمبنی فیصلے کویکساں قراردے ڈالا یعنی منتخب حکومتوں کوگھر بھیجنے کا ذریعہ۔یہ بات عاصمہ جہانگیرصاحبہ نے کی۔مقام حیرت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پرمعترض حضرات کوکرپشن نظرکیوں نظرنہیں آتی۔عاصمہ جہانگیرکاکہناہے :میں سمجھتی تھی ( میاں صاحب کے خلاف ہیروں کی بوریاں نکلیں گی مگران کی نااہلی کاموجب اقامہ نکلا)۔عام سوجھ بوجھ رکھنے والا ہر فردوبشریہ سوچنے پرمجبورہے کہ کیاعاصمہ جہانگیرکے درجے کی ماہرقانون اسی چوری کوجرم گردانتی ہیں جس میں ہیرے جواہرات کی بوریاں چرائی گئی ہیں جبکہ دین اسلام اورعام قانون کے مطابق توایک پائی کی چوری بھی جرم ہے اورکروڑوں اربوں روپے چرانے کااقدام بھی چوری ہی کی ذیل میں آتاہے۔ اگر محترمہ عاصمہ جہانگیریہ سمجھتی ہیں کہ نوازشریف کاجرم صرف اقامہ ہے تو براہِ کرم عام آدمی کوبتادیں کہ لندن فلیٹس کی خریداری کیلئے شریف فیملی کے سپوتوں نے رقم کہاں سے حاصل کی تھی؟زیرنظرمقدمہ میں بنیادی سوال تویہی تھاکہ لندن فلیٹس کی قیمت اداکرنے کیلئے رقم کہاں سے لی گئی تھی۔اس کاصاف اورسیدھاجواب یہ تھاکہ میاں نوازشریف اپنی لندن بینک کی اسٹیٹمنٹ عدالت میں پیش کردیتے جس میں اس رقم کی ٹرانسفر کا اندراج ہوتاکہ اتنی بڑی رقم کب اور کس ملک سے کس نے ٹرانسفر کی۔عاصمہ بی بی سے بہترکون جان سکتاہے کہ یہ سب اس وقت ہوتاجب یہ رقم کالادھن نہ ہوتی اورقانونی ذرائع سے ٹرانسفرکی جاتی۔

عدالت عالیہ کے فیصلے پرمعترض ہرشخص کواس سال کاجواب دیناہوگاکہ وہ خودغورکرے میاں نوزشریف اوران کے اہل خانہ کے پاس جتنے اثاثے اوردولت ملک میں یابیرونی ممالک میں ہے وہ کن ذرائع سے حاصل کی گئی جبکہ ان کی ملیں خسارہ میں جارہی تھیں اوراگرحسین نوازاورحسن نواز نے اتنی غیرمعمولی ذہانت سے کاروبارکیاتھاکہ بہت ہی کم وقت میں اتنی دولت کمالی تھی کہ لندن فلیٹس خریدلئے اوراپنے والدگرامی کوکروڑوں روپے نقدی تحفے میں بھیج دیئے توایسا ہوناناممکن نہیں ہوسکتالیکن لندن میں انکم ٹیکس کے قوانین بہت سخت ہیں،وہاں ہرتاجرکواپنی آمدنی کے حساب سے ٹیکس ادا کرناہوتاہے ،پھرحسن اور حسین نوازوہاں کی انکم ٹیکس کی رسیدیں ہی دکھادیں جس سے ثابت ہوجائے گاکہ ان کی لندن کی کل جائیداداوران سے ہونے والی آمدن سے وہ اپنے والد کو کروڑوں روپے سالانہ تحائف بھیجتے رہے ہیں ،جن سے ان کے نہ صرف کامیاب تاجر ہونے بلکہ یہ ساری جائیداد اسی کاروبار کی مرہون منت ہے اور عدالت عالیہ کے فیصلے کوبھی غلط ثابت کیاجاسکتاہے،لیکن اگرایساکچھ بھی نہ ہوتو پھر رقم کہاں سے آئی ؟کے جواب میں والد مرحوم کے کاروبارکی کہانی سنائی جائے کہ انہوں نے کس طرح قطرمیں مل لگائی ،پھراس کوفروخت کرکے بارہ ارب درہم شاہی خاندان کے ساتھ کاروبار میں لگائے،دبئی میں مل لگائی،جدہ میں لگائی،پھر ان کوفروخت کرکے لاکھوں ڈالروصول کئے اورمیاں نوازشریف پارلیمنٹ کے فلورپریہ کہیں کہ''یہ ہیں وہ ذرائع اوروسائل جن سے فلیٹ خریدے گئے اوران کے تمام ثبوت اوردستاویزات موجودہیں جوکسی بھی فورم میں پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ''اس کے باوجود کوئی ثبوت یادستاویزات پیش نہ کی جائیں اوراگردوعددجعلی تصدیق شدہ دستاویزات پیش کرکے میڈیامیں اپنے ترجمانوں کی زبان سے فتح کے جھنڈے گاڑنے کااعلان کیاجائے توبحیثیت سینیٹ کے چیئرمین رضاربانی اور قانون دان عاصمہ جہانگیرکیافیصلہ صادر فرمائیں گی؟

عاصمہ نے اسی پربس نہیں کیابلکہ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں فوج کوبھی موردِ الزام ٹھہرایا۔محترمہ فرماتی ہیں:اس فیصلے میں بوٹوں کی بوبھی محسوس ہورہی ہے۔فوج اور سیاستدانوں کے کرداروعمل کے موازنہ کایہ محل نہیں۔جہاں تک عاصمہ صاحبہ کاسوال ہے توانہیں خودبھی اپنے بیانات پر غورکرلینا چاہئے۔ ایک نجی ٹی وی چینل نے ان کی چندتصاویر دکھائی ہیں جن میں ایک میں وہ گجرات میں سینکڑوں مسلمانوں کے قاتل مودی اوردوسری تصویرمیں بنگلہ دیشی وزیراعظم کے ساتھ نہائت ادب سے مل کرایوارڈوصول کررہی ہیں۔یہ وہ خونی ڈائن عورت ہے جوسہ فریقی معاہدے کے باوجود جماعت اسلامی کے ضعیف العمرمحبان وطن پاکستانیوں کے خلاف ۱۹۷۱ءمیں پاکستان سے وفاداری نبھانے کے جرم میں مقدمہ چلاکران کوپھانسیاں دیں ۔دوسری تصاویرمیں عاصمہ جہانگیرگیروے رنگ کے لباس میں ماتھے پرتلک لگائے مہاتما گاندھی کی تصویرکے سامنے سرجھکائے ہاتھ جوڑکرپرنام کررہی ہیں جبکہ باقی تصاویر میں وہ بھارت کے انتہاء پسند بلکہ صحیح االفاظ میں دہشتگرد بال ٹھاکرے کے سامنے گیروے لباس میں بیٹھی ہیں اور ایک تصویرمیں توسرپرہندوؤں کی مقدس کتاب ''رامائن''سرپراٹھائے ہندوؤں کی مذہبی عبادت گاہ مندرمیں اپنی منت پوری کرتی ہوئی نظرآرہی ہیں۔کیامحض چند شخصیات کوخوش کرنے کیلئے اسلامی تعلیمات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے کسی تصویر کے سامنے ہاتھ جوڑکرپرنام کرناجائز (بلکہ قابل برداشت )قرارپا سکتاہے ،اورکیااسلام کے بنیادی احکام سے روگردانی کرنے والاشخص اسلامی جمہوریہ کی عدالت عظمیٰ پراعتراض کرنے کاکوئی حق رکھتاہے جس نے عدل کی ایسی سنہری مثال قائم کی ہوجومستقبل کیلئے سنگ میل کی حیثیت اختیارکر گئی ہو۔

میاں نوازشریف صاحب کوئی بھی شخص خواہ وہ کتناہی اہم کیوں نہ ہوکم ازکم فوج اورعدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی سے گریزکریں توبہترہوگاکیونکہ اس وقت عوام نااہلیوں کے نتیجے میں بجاطورپراپنی فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ کسی بھی قسم کی کوتاہی ہوئی توکوئی بھی سرپھراجذبات میں آکرکچھ بھی کر سکتاہے۔سیاسی چالاکیوں کی بجائے آپ کواور آپ کے شریک جرم آل اولاد کو مقدمات سے عہدہ براء ہونے کے ہوشمنداقدامات پرتوجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔ عدلیہ کوآزادانہ طورپرکام کرنے دیناچاہئے اورفوج جوسیاسی معاملات سے بالکل الگ تھلگ ہے اورباربارملکی آئین کا ساتھ دینے کااعلان کررہی ہے،اس پرانگلی اٹھانے سے گریزکرناچاہئے۔میاں نوازشریف اوران کی پارٹی کویادرکھناچاہئے کہ اگرفوج ضربِ عضب اورردّالفسادجیسے آپریشن میں اتنی قربانیاں دے رہی ہے تواسی کے طفیل ملک میں امن وامان واپس لوٹ رہاہے جس کی بناءپرسول حکومت امن وامان اورترقی کے بلندوبانگ دعوے کررہی ہے!

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349261 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.