چائے اور بسکٹ

ڈوب کے مرنا پسند کرتا ہوں
مرزا تجھ پر ہزار لعنت بھیجتا ہوں

دنیا میں کچھ چیزیں ایسے اک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں‘‘،،،کہ ان کے لیے حضرت انسان کو‘‘،
طرح طرح کے محاورے اور فقرے لکھنے یایوں کہہ لیں ایجاد کرنے پڑ گئے‘‘،،،جیسا کہ‘‘،،
چائے اور بسکٹ کو ہی لے لیجئے‘‘،،،ان کے ریلیشن کو زبان زدِ عام کرنے کے لیے‘‘،،دامن چولی کا ساتھ‘‘،،
اک انار سو بیمار‘‘،،،دو بدن اک جان‘‘،،،ایسے اور بہت سے الفاظ کو پاجامہ پہنایا گیا‘‘،،،
جتنے بھی لوگ جو عین چائے کے ٹائم دوسروں کے گھر جانا اپنا فرض سمجھتے ہیں‘‘،،،انہیں ہی پتاہے‘‘،،
کہ چائے بنا بسکٹ کے یا بسکٹ بنا چائے کے ایسے ہی ہے‘‘،،،جیسے بنا بٹن کے شیروانی‘‘،،
بناپیندے کے پتیلا‘‘،،،بنا تلوے کے جوتا‘‘،،،بنا سیلری کے نوکری‘‘،،،بنا دلہن کے ڈولی‘‘،،،
اک دن ہم اور مرزا صاحب شام کی چائے،،ویسے چائے وہ صبح کی ہی تھی،،،مگرپی شام کو جارہی تھی‘‘،،،
اسی لیے وہ شام کی چائے لکھی اور پڑھی جائے گی‘‘،،،مرزا کی جیب میں اپنی سسرال سے چوری،،
کیے ہوئے چند بسکٹ تھے‘‘،،،

وہ انہیں جیب سے ایسے نکال رہے تھے‘‘،،،جیسے کوئی محلے کی کالی پیلی،کترینہ ٹائپ ہیروئن‘‘،،،
سبزی والے کو دیکھ کے اپنا مکھڑا دروازے کی اوٹ سے نکالتی ہے‘‘،،،بہرحال،،،
صبح کی چائے شام تک تروتازہ ہی تھی‘‘،،،کیونکہ ہمیں اکثر ایسی چوری کی ہوئی چائے ہی نصیب،،،
ہوتی ہے‘‘،،،مرزا صاحب نے ہمیں بسکٹ دینے سے صاف انکار کردیا کیونکہ وہ ان کے سسرال سے،،،
چھپائے گئے تھے‘‘،،،بقول مرزا اس حق حلال کے بسکٹ پر صرف ان کے منحوس جبڑے کاہی حق تھا،،،
مرزا صاحب نے انتہائی مغرورانہ انداز میں ہماری طرف دیکھا‘‘،،،اور بسکٹ کو چائے میں ڈبو دیا،،،
ہم نے بھی بسکٹ پر ایسی نادیدہ نظر ڈالی کہ جس کے بعد ہمیں یقین ہو چلا تھا‘‘،،کہ یہ بسکٹ،،
ان کے میدے کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوں گے‘‘،،،بسکٹ چائے میں غڑپ کرکے ڈوب گیا،،،
ہمیں انتہا درجے کی خوشی محسوس ہوئی،،،جیسے سرکارنے ہمیں غلطی سے دو دفعہ سیلری دےدی ہو‘‘،
اک کے بعد اک بسکٹ چائے میں ڈوبتا چلاگیا،،،مرزا کا منہ اس زاویہ میں کھلا کا کھلا رہا جیسے،،
سرکار گٹر کے منہ بند کرنابھول جاتی ہے،،،مرزا سے رہا نہ گیا،،ہم سے بولے،،،خان صاحب،،،
یہ کیا ماجرا ہے،،،ہم تو ویسے ہی خار کھاکر جلے بھنے بیٹھے ہوئے تھے‘‘،،،جھٹ سے بولے،،
مرزا صاحب سو دفعہ برا مانیے مگر یہ سچ ہے بسکٹ نے قسم کھا رکھی ہے،،کہ وہ چائےمیں،،
ڈوب کر خود کشی کرلے گا مگر آپ کے منہ میں جانا اسے کسی قیمت قبول نہیں،،مرزا غمگین لہجے میں بولے،،
حسرت ان بسکٹوں پر جنہوں نے مرزا کے منہ کی بجائے موت کو گلے لگانا پسند کیا،،،
چائے میں سے بسکٹ کی آواز آئی،،،
ڈوب کے مرنا پسند کرتا ہوں
مرزا تجھ پر ہزارلعنت بھیجتا ہوں۔۔۔
 

Hukhan
About the Author: Hukhan Read More Articles by Hukhan: 1124 Articles with 1193747 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.