آزادی ہو تو ایسی

 تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافے کا باعث بنتی ہے تعلیم یافتہ انسا ن اور ایک ان پڑھ انسان میں بہت فرق ہوتاہے ان پڑھ انسان دوسروں کے زیراثر رہتا ہے جب کہ پڑھ لکھا انسا ن اپنی عقل ،سوچ اور بصیرت سے کام لیتاہے۔

آزادی اور غلامی میں کیا فرق ہے؟ جو دوسروں کی اندھی تقلید کرے کیا وہ آزاد ہے؟ جس کی اپنی کو ئی منزل نہ ہو۔ کیاوہ آزاد ہے؟ جس کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے دوسروں کا محتاج ہونا پڑے کیا وہ آزاد ہے؟ جس کو اپنے ملک میں ہی انصاف نہ ملے کیا وہ آزاد ہے ؟ جو حق کی آواز کو بلند نہ کر سکے کیا وہ آزاد ہے ؟

میں ان بنیادی سوالوں کے جوابات کا متلاشی ہوں۔ کاش کوئی مجھے ان کے جوابات تلاش کر دے۔ آج کل سڑکوں کی سیاست بہت مقبول ہورہی ہے سیاست دان سڑکوں پر آتے ہیں۔جب اقتدار ان کے پاس نہیں ہوتا۔ جب اقتدار مل جائے پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ ان کو عوام کے درد محسوس ہونے لگتے ہیں۔ جب وہ اقتدار سے محروم ہو جاتے ہیں۔ غریبوں کی بات کرتے ہیں۔جب کرسی ان کے پاس نہیں رہتی۔ ہماری عوام بھی ان کی باتوں میں ہمیشہ ہی آجاتی ہے۔ جس سیاسی جماعت کا جلسہ،جلوس یا ریلی ہو ۔عوام کا جمع غفیر امڈآتاہے۔ اور آج تک اس کی تعد اد کا تعین کوئی ٹھیک نہیں کر سکا۔ کبھی پانچ سو کو پانچ لا کھ کہا جاتاہے اور کبھی لاکھوں کو چند ہزار کہا جاتاہے۔

ہماری آنکھیں سب کچھ دیکھ کر بھی صحیح صورت حال کا اندازہ نہیں کر سکتیں۔ ہما ری تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ہم نے زیادہ تر وقت غلامی میں گزارہ ہے پہلے بادشاہوں کی غلامی پھر انگریزوں کی غلامی پھر ان کے غلاموں کی غلامی ہماری قسمت میں آئی۔ ہم شاید خود کو آزاد کرنا ہی نہیں چاہتے۔ پہلے اپوزیشن پارٹیاں اس با ت کا رونا روتیں تھیں کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے اب حکومتی جماعت بھی اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ ہمارے سابق وزیر اعظم کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔ ہمار ا مزاج بن گیا ہے جو فیصلہ ہمارے خلاف آئے ہم اس کی مسترد کر دیتے ہیں۔ جو الیکشن ہار جائے وہ دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیتاہے۔

یہ موجودہ منظر نامہ ہے جوہمیں نظر آرہاہے۔ کیا اس ساری صورت حال میں قصورعوام کا بھی ہے؟ عوام کے پاس ووٹ کی طاقت بطور امانت ہوتی ہے وہ جس لیڈر کو بہتر سمجھتے ہیں اس کو ووٹ دیتے ہیں یہاں تک بات درست ہے جو جس کو چاہیں ووٹ دیں۔ لیکن یہ درست نہیں کہ جس کو ہم نے ووٹ دے دیا ہے ۔ اس کی غلط بات کو بھی ہم درست کہنا شروع کردیں اور دوسروں کے ساتھ فضول بحث کر کے ان کو بھی قائل کریں کہ غلط کو درست کہیں۔ بھئی ! ووٹ دینا ہمار ا حق تھا دے دیا۔ خدا را! ووٹ دے کر اپنے پیاروں سے مخالفت نہ کریں ان لیڈروں کے لئے جن کو آپ نے پاس جا کر دیکھا نہیں۔جن کو آپ مکمل طور پر جانتے نہیں۔ کیوں لڑائی کرتے ہیں اپنی پارٹی کی سپورٹ میں اپنے دوستوں سے اپنے رشتہ داروں سے ۔ اپنا قیمتی وقت جلسے جلوسوں میں کیوں ضائع کرتے ہیں؟اپنی قیمتی جانیں کیوں گنواتے ہیں؟ کیوں اپنے ملک کا نقصان کرتے ہیں؟ کیوں سڑکوں کو بلاک کرتے ہیں؟ کیوں مریضوں کے لئے مشکلات پیدا کرتے ہیں؟ کیوں ایک دوسرے کو گالی گلوچ کرتے ہیں۔ کیا یہ ہماری تعلیم ہے کیایہی ہماری تربیت ہے ؟ میری تمام پاکستانیوں سے گزارش ہے برائے مہربانی ووٹ ضرور دیں اپنے من پسند لیڈر کو۔ لیکن خدا کے لئے مخالفین کے لیے گند ی زبان استعمال نہ کریں۔ اپنی جماعت کی حمایت کے لئے کسی کی دل آزاری نہ کریں۔ ووٹ ضرور دیں غلام مت بنیں۔ ووٹ دینے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم نے اپنے لیڈر کی غلط بات کو بھی ٹھیک کہناہے۔ اور مخالف جماعت کے لیڈرکی ٹھیک بات کو بھی غلط کہناہے۔ ہم آزاد قوم تب ہی بن سکتے ہیں جب ہم اس غلامی سے نکلیں گے۔ پھر ہم سب آزادی ملکرمنائیں گے۔پھر کوئی غلامی کی زندگی نہیں گزارے گا۔ خدا کرے ہم اس غلامی کی دلدل سے نکلیں۔ اور آزادی کو انجوائے کرسکیں۔ پاکستان زندہ باد !

MUHAMMAD IMRAN ZAFAR
About the Author: MUHAMMAD IMRAN ZAFAR Read More Articles by MUHAMMAD IMRAN ZAFAR: 29 Articles with 34663 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.