نہ کھلتے راز سر بستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں!

ہفت روزہ عوامی آواز مالیگاؤں جلد 60شمارہ 27بتاریخ 18؍اگست 2017ء بروز جمعہ کے صفحہ 2؍پر کل جماعتی تنظیم کے رہنما مولانا عبدالحمید ازہری دیوبندی کی ایک تحریر ’’بھارت کی آزادی کے لیے مسلمانوں نے عدیم المثال محبانِ وطن قائدین پیش کیے‘‘ شائع ہوئی۔ مطالعہ کے بعد حیرت ہوئی؛ اس لیے کہحقائق کا خون بے دردی کے ساتھ کیا گیا ہے۔تحریر کی ثقاہت محلِ نظر ہے! اصولِ تحقیق سے انحراف کیا گیا ہے! حقائق کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سچ کو چھپایا گیا ہے ۔ اعتقادی قائدین کی اندھی عقیدت میں تاریخ گری کی بدترین مثال پیش کی ہے۔ ہم اس سے متعلق صرف تین مثالیں یہاں تحریر کرتے ہیں:
[1] مولانا عبدالحمید لکھتے ہیں: ’’تحریک سید احمد شہید بھی در حقیقت تحریکِ آزادیِ ہند کی ابتدائی کڑی تھی۔جس میں اُنھوں نے ہندوستان کے شمال مغربی علاقے سے سکھوں کے اقتدار کو ختم کرکے دلی کی طرف بڑھتے ہوئے برٹش اقتدار کے خاتمے کی اسکیم بنائی تھی۔‘‘
کیا یہ انگریز سے ملک کی آزادی کی تحریک تھی؛ جب کہ سید مراد علی ’’تاریخ تناولیاں‘‘ (محررہ ۱۸۷۵ء)میں لکھتے ہیں:
’’۱۸۳۰ء میں خلیفہ سید احمد سرگروہِ وہابیاں نے یار محمد خان حاکم پشاور دکو ہاٹ برادر دوست محمد خان والی کابل کو بہ پشت گرمی لشکر غازیان شکست دی اور پشاور دکوہاٹ پر قبضہ کر کے اپنے تھانہ جات مقرر کئے اور بہ لقب سید بادشاہ مشہور ہوا۔‘‘
(تاریخ تناولیاں، سید مراد علی، مکتبہ قادریہ لاہور اپریل ۱۹۵۵ء،ص۴۹)
ان کا جہاد انگریز سے تھا یا سرحدی پٹھانوں و سکھوں سے؛ اس بابت سید مراد علی لکھتے ہیں:
’’غرضیکہ امیر خان نے وہ روپیہ لے کر موضع جوڑاپنڈ میں پاس سردار پائندہ خان کے حاضر کر دیا۔ اس وقت خان موصوف مع خزائن و اسباب غنیمت ذخیرہ قلعہ بہاروکوٹ واپس انب آیا اور جو کہ خلیفہ سید احمد و مولوی اسمٰعیل دہلوی و ارباب بہرام خان بعد شکست موضع چھتربائی کے جانب پنجتار مع بقایا لشکر کے گئے تھے۔ الحاصل بعد فراہمی فوج جرّار بعزمِ تسخیر ملک کشمیر پنجتار سے جانب بالاکوٹ روانہ ہوئے اور بالاکوٹ میں بمقابلہ لشکر مہاراجہ شیر سنگھ خلیفہ (سید احمد) مع مولوی محمد اسمٰعیل دہلوی و ارباب بہرام خان رئیس پشاور مع لشکریاں اس کے قتل ہوئے چنانچہ قبر ہر سہ مقتول کی بالاکوٹ میں ہے۔‘‘
(تاریخ تناولیاں، سید مراد علی، مکتبہ قادریہ لاہور اپریل ۱۹۵۵ء، ص۶۳)
حکیم نصیر الدین ندوی لکھتے ہیں: ’’یہ دونوں (سید احمد رائے بریلوی و اسماعیل دہلوی) انگریزوں کے حلیف تھے حریف نہ تھے۔‘‘(حقائق تحریک بالا کوٹ، سید شاہ حسین گردیزی، ضیاء العلوم پبلی کیشنز راولپنڈی دسمبر ۲۰۰۹ء،ص۵)
سید احمد انگریزوں سے کیسے مراسم رکھتے تھے،مرزا حیرت دہلوی لکھتے ہیں:
’’۱۲۱۳ھ تک سید احمد صاحب امیر خاں کی ملازمت میں رہے مگر ایک ناموری کا کام آپ نے یہ کیا کہ انگریزوں اور امیر خاں کی صلح کرا دی اور آپ ہی کے ذریعے سے جو شہر بعد ازاں دیے گئے اور جن پر آج تک امیر خاں کی اولاد حکمرانی کرتی ہے دینے طے پائے تھے۔ لارڈ ہسٹینگ سید احمد کی بے نظیر کارگزاری سے بہت خوش تھا۔ دونوں لشکروں کے بیچ میں ایک خیمہ کھڑا کیا گیا اور اس میں تین آدمیوں کا باہم معاہدہ ہوا۔ جس میں امیر خاں لارڈ ہسٹینگ اور سید احمد شامل تھے۔‘‘
(حیات طیبہ، مرزا حیرت دہلوی،ص۴۲۱؛نفس مصدر، ص۵۹)
انگریز دشمن کی نہیں دوست کی کارگزاری سے خوش ہوتا؛ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے-
مولانا فضل حسین بہاری غیر مقلد لکھتے ہیں: ’’آپ (شاہ اسمٰعیل) اپنے شیخ طریقت سید احمد صاحب کو امام تسلیم کر کے مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ جہاد کے لیے پنجاب پہنچے تو گورنمنٹ انگلشیہ نے بھی آپ کے اس ارادے میں کسی طرح کی مزاحمت یا پیچیدگی پیدا نہیں کی۔‘‘
(الحیات بعد الممات،فضل حسین بہاری،ص۲۰۳؛ مرجع سابق،ص۶۱)
[2]مولانا عبدالحمید- مولوی محمودالحسن دیوبندی کے حوالے سے دارالعلوم دیوبند سے متعلق لکھتے ہیں: ’’در حقیقت دارالعلوم (دیوبند) ۱۸۵۷ء کی ناکامیوں کی تلافی کے لیے قائم کیا گیا ہے۔‘‘
اس عبارت پر مزید تبصرہ نہ کرتے ہوئے چند دلائل پیش کیے دیتا ہوں:
لفٹِننٹ گورنر ممالکِ متحدہ اَوَدھ وآگرہ کے نمائندہ مسٹر پامر نے ۳۱؍جنوری ۱۸۷۵ء کے اپنے دورۂ مدرسہ دیوبندکی رپورٹ میں لکھا :’’جوکام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں روپے کے صَرفہ سے ہوتا ہے وہ یہاں کوڑیوں میں ہورہا ہے ۔جوکام پرنسپل ہزاروں روپے ماہانہ تنخواہ لے کر کرتا ہے وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپے ماہانہ پرکررہا ہے۔ یہ مدرسہ خلافِ سرکار نہیں بلکہ مُمِد ومُعاوِن سرکار (انگریزی)ہے۔‘‘
(سوانح مولانا محمداحسن نانوتوی، پروفیسر محمدایوب قادری دیوبندی، ص۲۱۷،مطبوعہ کراچی)
انگریز لارڈ ڈفر ن کی مدرسۂ بہاولپور آمد کے حوالے سے مولانا عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں: ’’مدرسۂ دیوبند اس وقت گورنمنٹ کی نظروں میں ایک خاص رنگ رکھتا تھا۔‘‘
(تذکرۃالخلیل، مولانا عاشق الٰہی میرٹھی ، مکتبۃالشیخ سہارن پور۱۴۱۱ھ،ص۱۳۰)
مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی اپنی ایک مجلس میں فرماتے ہیں:
’’میری طالب علمی کے زمانے میں ایک انگریز کلکٹر مدرسۂ دیوبند میں آنے والا تھا میں نے حضرت مولانا یعقوب صاحب سے عرض کیا کہ اگر وہ چندہ دیں تو آپ قبول کر لیں گے؟ فرمایا: ہاں۔‘‘
(مجالس حکیم الامت،مولانا محمد شفیع دیوبندی،فرید بک ڈپو دہلی ۱۴۲۳ھ،ص۱۸۸)
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مدرسۂ دیوبند پر انگریز مخالفت کا الزام لگایا گیا۔ انگریز حکومت کو یہ درخواست دی گئی کہ:
’’مولانا محمد قاسم صاحب نے دیوبند میں ایک مدرسہ گورنمنٹ کے مقابلہ میں کھولاہے……‘‘ جس پر انگریز نے تفتیش کی،انگریز حکام کی رپورٹ مولانا اشرف علی تھانوی کی زبانی سُنیے:
’’حکومتِ ہند کو رپورٹ کی کہ جو لوگ ایسے مقدس صورتوں پر نقضِ امن اور غدر و فساد (یعنی انگریز سے غداری) کا الزام لگاتے ہیں وہ خود مفسد ہیں اور یہ محض چند مفسدوں(فسادیوں) کی شرارت ہے۔‘‘
(ارواحِ ثلثٰہ، مولانا اشرف علی تھانوی،اریب پبلی کیشنز دہلی۲۰۱۲ء،ص ۱۸۷)
ان دلائل کی روشنی میں مولانا عبدالحمید ازہری کا دعویٰ ہباء ً منثوراً ہو گیا؛ تاریخ گری کی یہ روایت ان کے یہاں نئی نہیں۔ یہ حوالے ان کے اکابر کے ہیں جن میں انگریز سے موافقت؛ دارالعلوم دیوبند سے انگریز کے دوستانہ مراسم اور دیوبند کا ’’ مُمِد ومُعاوِن سرکار ‘‘(انگریزی) ہونااظہرمن الشمس ہے۔
۱۸۵۷ء کی جہادِ آزادی کو بغاوت اورمخالفینِ انگریز کو حکمراں کا نافرمان قرار دیتے ہوئے مولانا عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی نے یہاں تک لکھ دیا:
’’انھوں نے(انگریز) کمپنی کے امن و عافیت کا زمانہ قدر کی نظر سے نہ دیکھا اور اپنی رحم دل گورنمنٹ کے سامنے بغاوت کا علم قائم کیا، فوجیں باغی ہوئیں، حاکم کی نافرمان بنیں، قتل و قتال کا بند بازار کھولا اور جواں مردی کے غرّہ میں اپنے پیروں پر خود کلہاڑیاں ماریں۔‘‘
(تذکرۃالرشید، مولانا عاشق الٰہی میرٹھی، دارالکتاب دیوبند۲۰۰۲ء،ج۱،ص۱۱۳)
[3]مولانا عبدالحمید لکھتے ہیں: ’’مولانا قاسم نانوتوی کی سپہ سالاری میں باضابطہ انگریزی فوجوں سے مقابلہ ہوا اور جس میں اس مقدس جماعت کی ایک عظیم شخصیت حافظ ضامن نے جام شہادت نوش کیا۔ ‘‘
اس بابت مولانا کے ہم مسلک قلم کار کی تحریر درج کی جاتی ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی (سوانح قاسمی، ص۸۹) پر فرماتے ہیں: اس عام سطحی معیار کو دیکھ کر بے دھڑک یہ مان لینا کہ غدر کے ہنگامے میں سیدنا الامام کبیر (قاسم نانوتوی) نے بھی اسی طرح حصہ لیا تھا جیسے اس ملک کے عام باشندے اس کی آگ میں کود پڑے سیدنا امام کبیر (قاسم نانوتوی) کی شان کے مطابق اسی قسم کا عاجلانہ فیصلہ درست ہو سکتا ہے اور نہ واقعات ہی اس کی تائید کرتے ہیں۔
پھر ص۱۰۹ ؍پر فرماتے ہیں: اتنی بات بہر حال یقینی ہے اور ان ناقابل انکار چشم دید گواہوں کا کھلا اقتضاء ہے کہ مالیخولیا سے زیادہ اس قسم کی افواہوں کی کوئی قیمت نہیں کہ غدر کے ہنگامے کے برپا کرانے میں دوسروں کے ساتھ سیدنا الامام کبیر (قاسم نانوتوی) آپ کے علمی و دینی رفقاء کے بھی ہاتھ تھے بلکہ واقعہ وہی ہے جو حضرت الامام نے لکھا ہے کہ مولانا فسادوں سے کوسوں دور تھے۔
(علمائے دیوبند کا ماضی،حکیم محمود احمد،ادارہ نشرالتوحید والسنۃ لاہور جولائی ۲۰۰۳ء، ص۱۶۰)
یہ دلائل دعویٰ کی تردید کو کافی ہیں۔
[4]مولانا عبدالحمید لکھتے ہیں: ’’مولانا رشید احمد گنگوہی چھ ماہ تک جیل میں رہے اور ناکافی ثبوتوں کی بنا پر رہا کر دیے گئے۔‘‘
مولانا گنگوہی کو جو جیل ہوئی؛ مولانا عبدالحمید کے نزدیک یہ اسیری انگریز کی مخالفت میں تھی۔ اس کی سچائی مولانا عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی کے قلم سے پڑھیے اور یہ بھی دیکھیے کہ اسیری غلط فہمی کی بنیاد پر تھی یا انگریز کی مخالفت کی بنا:
’’جب بغاوت کا قصہ فرو ہوا اور رحم دل (انگریز)گورنمنٹ کی حکومت نے دوبارہ غلبہ پا کر باغیوں (مجاہدوں) کی سرکوبی شروع کی تو جن بُزدل مفسدوں کو سواے اس کے اپنی رہائی کا کوئی چارہ نہ تھا کہ جھوٹی سچی تہمتوں اور مخبری کے پیشہ سے سرکاری خیر خواہ اپنے کو ظاہر کریں انھوں نے اپنا رنگ جمایا اور ان گوشہ نشین حضرات (اکابر دیوبند) پر بھی بغاوت کا الزام لگایا اور یہ مخبری کی کہ تھانہ (بھون) کے فساد میں اصل الاصول یہی لوگ تھے، اور شاملی کی تحصیل پر حملہ کرنے والا یہی گروہ تھا، بستی کی دوکانوں کے چھپر انھوں نے تحصیل کے دروازہ پر جمع کیے اور اس میں آگ لگا دی یہاں تک کہ جس وقت آدھے کواڑ جل گئے ابھی آگ بجھنے بھی نہ پائی تھی کہ ان نڈر ملانوں نے جلتی آگ میں قدم بڑھائے اور بھڑکتے ہوئے شعلوں میں گھس کر خزانۂ سرکار کو لُوٹا تھا، حالاں کہ یہ کمل پوش، فاقہ کش، نفس کش حضرات فسادوں(انگریز مخالف معرکہ) سے کوسوں دور تھے۔‘‘ (تذکرۃالرشید، مولانا عاشق الٰہی میرٹھی، دارالکتاب دیوبند۲۰۰۲ء،ج۱،ص۱۱۶)
اس اقتباس سے یہ معلوم ہوا کہ علماے دیوبند پر معرکۂ شاملی میں انگریز مخالفت کا محض الزام تھا،یہ حضرات مجاہدین سے کوسوں دور تھے، مجاہدین کے گروہ میں شامل نہیں تھے۔انگریز کے تاحیات وفادار رہے جس کی شہادت مولانا عاشق الٰہی دیوبندی کے الفاظ میں پڑھیے:
’’ہر چند کہ یہ حضرات حقیقتاً بے گناہ تھے مگر دُشمنوں کی یاوہ گوئی نے ان کو باغی و مفسد اور مجرم وسرکاری خطاوار ٹھہرا رکھا تھا اس لیے گرفتاری کی تلاش تھی مگر حق تعالیٰ کی حفاظت برسر تھی اس لیے کوئی آنچ نہ آئی، اور جیسا کہ آپ حضرات اپنی مہربان سرکار(انگریز) کے دلی خیر خواہ تھے تازیست خیر خواہ ہی ثابت رہے۔
…………حضرت امام ربانی قطب الارشاد مولانا رشید احمد صاحب قدس سرہ کو اس سلسلہ میں امتحان کا بڑا مرحلہ طے کرنا تھا اس لیے گرفتار ہوئے اور چھ مہینے حوالات میں بھی رہے، آخر جب تحقیقات اور پوری چھان بین سے کالشمس فی نصف النہار ثابت ہوگیا کہ آپ پر جماعت مفسدین کی شرکت کا محض الزام ہی الزام اور بہتان ہی بہتان ہے اس وقت رہا کیے گئے۔‘‘
(تذکرۃالرشید، مولانا عاشق الٰہی میرٹھی، دارالکتاب دیوبند۲۰۰۲ء،ج۱،ص۱۲۰)
دورانِ اسیری مولانا گنگوہی مطمئن تھے کہ انگریز کی فرماں برداری بہر حال ثابت ہوگی اور جھوٹے الزام سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔مولانا عاشق الٰہی دیوبندی لکھتے ہیں:
’’(مولانا گنگوہی) سمجھے ہوئے تھے کہ میں جب حقیقت میں (انگریز)سرکار کا فرماں بردار رہا ہوں تو جھوٹے الزام سے میرا بال بھی بیکا نہ ہوگا اور اگر مارا بھی گیا تو (انگریز) سرکار مالک ہے، اسے اختیار ہے جو چاہے کرے۔‘‘(تذکرۃالرشید، مولانا عاشق الٰہی میرٹھی، دارالکتاب دیوبند۲۰۰۲ء،ج۱،ص۱۲۱)
مطالعہ کی ضرورت:
آخر میں ایک اہلِ حدیث مصنف حکیم محمود احمد بن مولانا اسماعیل سلفی کی یہ عبارت ملاحظہ کریں جو چشم کشا ہے :
’’چوں کہ تاریخ کے صفحات پر علمائے دیوبند کا کہیں نام و نشان تک موجود نہ تھا اس لیے سب سے پہلے مولانا (حسین احمد) مدنی نے تاریخ سازی فرمائی اور ایک کتاب اسیر مالٹا لکھی اور اس میں بتایا کہ ہمارا کسی آزادی کی تحریک سے کوئی تعلق نہ تھا۔ دوسری کتاب نقش حیات لکھی اور اس میں تحریک آزادی کا ہیرو مولانا محمودالحسن (دیوبندی) کو بنا ڈالا۔ یہی کام مولانا عبیداﷲ سندھی نے کیا تحریک مجاہدین کے تمام کارہائے نمایاں اہلِ دیوبند سے منسلک کرنے کے لیے اس نے شاہ اسحٰق صاحب کی جگہ علمائے دیوبند کی فرضی نیابت بسرکردگی مولانا مملوک علی بیان کی۔‘‘
(علمائے دیوبند کا ماضی،حکیم محمود احمد،ادارہ نشرالتوحید والسنۃ لاہور جولائی ۲۰۰۳ء، ص۱۵۱۔۱۵۲،)
کاش! مولانا عبدالحمید ازہری ان دلائل کو ایک مرتبہ دیوبند کی مطبوعہ کتابیں حاصل فرما کر دیکھ لیتے تو عمر کے اس آخری پڑاؤ میں جھوٹ/کذب/بہتان/تاریخ گری/علمی خیانت کے مرتکب نہ ہوتے ۔ راقم چوں کہ کھرے اور کھوٹے کی پہچان کا ذریعہ مطالعہ کو قرار دیتاہے؛ اس لیے اظہارِ حق میں تعصب/ہٹ دھرمی/بہتان کا قائل نہیں۔ مجھے امید ہے کہ مولانا عبدالحمید ازہری نیز دیگر ان کے ہم فکر صاحبان اپنی اصلاح کر لیں گے۔قارئین! ان شواہد و حقائق سے جان گئے ہوں گے کہ ڈرامہ کیسے رچا جا رہا ہے اور مجاہدین آزادی کو فسادی کہنے والوں کو کس طرح ’’مجاہدِ آزادی‘‘ قرار دے کر تاریخ سے کھلواڑ کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ صرف ایک جھلک ہے۔ مزید ابواب کھلنے باقی ہیں۔جن پر پھر کبھی لکھا جائے گا:
نہ تم صدمے ہمیں دیتے، نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سر بستہ، نہ یوں رُسوائیاں ہوتیں
٭٭٭
نوٹ: عبارتوں کے درمیان قوسین میں توضیحی الفاظ راقم نے درج کیے۔

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255130 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.