تعلیمی اداروں میں سیاسی تنظیمیں اور سیاسی سرگرمیاں

لفظ تعلیم ایک سحر انگیز لفظ ہے اور یقیناََ یہ سحر انگیز کیوں نہ ہوگا کہ ہم تعلیم کے ذریعے اپنی ا نفرادی ،اجتماعی،سماجی،سیاسی اور اخلاقی زندگی کو خوشحال طریقے سے گزارتے ہیں دنیا کی سمجھ اور دین کی سمجھ ہمیں تعلیم ہی سے آتی ہے اور اﷲ رب العزت نے بھی علم کا رتبہ بلند کیا ہر کوئی جانتا ہے پہلی وحی کے حوالے سے میں یہاں اس کے ترجمہ پر غور کرنا چاہونگا ــ’’اقرائـ‘‘ ــ پڑھ قرآن مجید کی پہلی وہی میں علم حاصل کرنے سیکھنے پر توجہ مبضول کرائی گئی ہے ساتھ اﷲ کے محبوب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بات کو واضح کرتے ہوئے فرما دیا کہ ’’علم حاصل کرو اس کے لیئے تمیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑہے ‘‘ یہاں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ علم کا فروغ اور علم کو حاصل کرنا کتنا ضروری ہے اور بے شک معاشرہ بھی علم ہی کی بدولت ترقی کرتا ہے ،قرآن اور حدیث کا حوالہ میں نے آپ سب کو علم کی اہمیت سمجھانے کے لیئے دیا ہے کیونکہ ہم شاید یہ بھول گئے ہیں کہ علم کی کیا اہمیت ہے علم ہی کی بدولت ایک معاشرہ ترقی کی طرف گامزن ہوتا ہے جس ملک میں تعلیم کا فروغی نظام ہی درست نہ ہو بھلا وہ ملک ترقی کیسے کریگا ، ایک زمانہ تھا کہ جب اساتذہ اور طلبہ کو جہاں جگہ ملتی وہ وہیں بیٹھ جاتے اور تعلیمی سلسلہ عام کرتے اس وقت یہ طریقہ تو بہت اچھا تھا لیکن کوئی نظم وضبط نہیں تھا، پھر تعلیمی اداروں کو تعمیر کیا گیا ،جس کا مقصد تمام طلبا و طالبات کو ایک جگہ جمع کرنا تھا اور ان میں نظم وضبط کو بیدار کرنا تھا،آہستہ آہستہ تعلیمی ادارے قائم ہوتے گئے اور آج پورے پاکستان میں ہزارو ں تعلیمی ادارے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے تعلیمی ادارے ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان ایک اچھا فرد پیدا نہیں کر پارہا ہے یا یہ ملک ترقی کی منزلیں طے نہیں کر پارہا، جسکی وجوہات کثیر تعداد میں ہیں لیکن ان کثیر وجوہات میں سے ایک وجہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سیاسی تنظیموں کا اور سیاسی سر گرمیوں کا ہونا ہے۔

کسی سیاسی تنظیم سے مراد ایسے افراد کا گروہ ہے جو ایک جیسے سیاسی عزائم اور سیاسی مقاصد رکھتے ہوں ،اگر اس تعریف کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہمارے تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ تنظیمیں در حقیقت سیاسی جماعتوں کے ہی مختلف دھرے ہیں جو درسگاہوں کی سطح پر ان تظیموں کے لیئے کام کرتے ہیں اور آج طلبہ تنظیموں سے وابستہ طلبہ تعلیم کی اہمیت اور استاد کے احترام کو پستِ پشت ڈالتے ہوئے ہر جائز نا جائز ہر بے کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں طلبہ و طالبات کے لیئے مختلف پراگرام کا انعقاد ،کتابوں کی نمائش،تقریری مقابلے اوردیگر صحت مند ہم نصابی سرگرمیاں یقیناََ ایک مثبت رحجان ہیں لیکن ان میں بھی اکثر سیاسی وابستگی کو ترجیح دی جاتی ہے اور معمولی باتوں پر طلبہ کے درمیا ن جھگڑا ہوجاتا ہے ،اور اب تو سونے پہ سُہاگہ یہ کہ پاکستان کے تعلیمی ادارے اس سحر انگیز مقام پر آ پہنچے ہیں ، جہاں طالب علموں کی آنکھوں سے خوف جھلکتا دکھائی دینے لگا ہے،وہ خوف جس کی وجہ سے طالب علم اپنی حق کی آواز بلند کرنے سے بھی کتراتے ہیں،وہ خوف جسکی وجہ سے طلبہ و طالبات تعلیمی اداروں میں جانے سے کتراتے ہیں، اور یہ خوف کسی شیطان یا دجال کا نہیں ہے بلکہ ان ہی کی مانند سیاسی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کے کارندوں کا ہے جنہوں نے تعلیمی اداروں کو اپنی جماعتوں کا مرکز بنا رکھا ہے،اور یہی وجہ ہے کے آج پاکستان میں طلبہ و طالبات اپنی ہی مادر ِعلمی میں گھٹ گھٹ کر علم حاصل کررہے ہیں،افسوس جن نوجوانوں کو علامہ اقبال نے شاہین کہہ کر پکارا ،وہ ترقی کے پہاڑوں پر بسیرا کرنے کے بجائے تاریکی میں مبتلہ ہوتے جارہے ہیں،یہ کہنا شاید غلط نہیں ہوگا کہ غور کرنا چاہیئے آیا تعلیمی اداروں میں سیاسی تنظیموں کا ہونا درست ہے یا نہیں اربابِ اختیار پر یہ بات لازم ہے کہ قانون سازی کرتے وقت اس معاملے پر بھی ذرا نظر ثانی کرنی چاہیئے کیونکہ اس معاملے پر نظر ثانی ارکان اسمبلی کا روز ایک دوسرے پر کیچڑ اَ چھالنے سے بہتر ثابت ہوگا ، تعلیمی اداروں کو صرف تعلیم تک ہی محدود ہونا چاہیئے نہ کہ سیاسی جماعتوں کا مرکز بننا چاہیئے جب تک طالب علم کی تمام تر توجہ تعلیم پر نہیں ہوگی نہ تو وہ اچھا شہری بن پائیگا اور نہ ہی اس ملک کا خیر خواہ۔
 

Zuhaib Khan
About the Author: Zuhaib Khan Read More Articles by Zuhaib Khan: 6 Articles with 10335 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.