وزیراعظم کی تصویر؟

 وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وزارتِ اطلاعات کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ کسی بھی سرکاری اشتہار میں اُن کی تصویر نہ لگائی جائے۔ منتخب ہونے کے بعد شاید یہ وزیراعظم کا پہلا غیرروایتی حکم ہے، اس سے قبل وہ معمول کے فرائض سرانجام دیتے رہے، مگر انہوں نے اپنی ذاتی تشہیر کی نفی کرنے کا عملی اور پہلا مظاہرہ یہی کیا ہے۔ اگرچہ موجودہ وزیراعظم نے منتخب ہونے کے فوراً بعد قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں قوم پر یہ واضح کردیا تھا کہ میری کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے، انہوں نے اپنے انداز میں یہی ظاہر کیا کہ وزارتِ عظمیٰ کے لئے جسم اُن کا ہے، مگر اس میں روح میاں نواز شریف کی ہی ہے۔ کچھ اسی قسم کے جذبات کا اظہار پوری مسلم لیگ ن کر رہی ہے کہ نواز شریف ہمارے دل میں وزیراعظم ہیں،یہ الگ بات ہے کہ تصور یا خواہش یا حسرت کوئی اور چیز ہوتی ہے اور زمینی حقائق کوئی اور بات۔ میاں نواز شریف ن لیگ کے بانی ہیں، ان کے قائد ہیں، یقینا ان کے دلوں میں رہیں گے، قائد بن کر رہیں یا وزیراعظم بن کر۔ یہ بھی زمینی حقیقت ہی ہے کہ اب سرکاری اشتہارات پر میاں نواز شریف کی تصاویر نہیں لگ سکتیں، کیونکہ وہ نااہل قرار پا چکے ہیں، ایسے میں وزیراعظم نے سوچا کہ اگر قائد کی تصویر نہیں لگ سکتی تو میں بھی اپنی تصویر نہیں لگواتا۔ اگر مذاق یا تنقید یا طنز سے ہٹ کر بات کی جائے تو سادگی کا یہ اعلان بھی کوئی انقلابی نہیں۔

گذشتہ ماہ میں نے تنگ آکر اخبارات بند کروا دیئے، ویسے تو آئی ٹی کے زمانے میں ایک سے زیادہ اخبار خریدنا کوئی عقلمندی کی علامت نہیں، نیٹ کھولیں اور تمام اخبارات کا مطالعہ کرلیں، جس کالم یا خبر وغیرہ کو چاہیں کاپی کرکے محفوظ کرلیں۔ مگر کاغذی اخبارات خریدنا ایک نشہ ہے، جن لوگوں کو یہ لگا ہوا ہے، نہیں چھوٹتا۔ مگر میں نے دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کیا اور اس پر عمل درآمد بھی کیا۔ وجہ اس انقلابی فیصلے کی یہ ہوئی کہ کئی روز تک یہ واقعہ پیش آتا رہا کہ اخبار کھولیں، پہلے صفحے کا لوئر ہاف سرکاری اشتہار، جس میں بجلی کی فراہمی وغیرہ کے دعوے اور اعلانات وغیرہ ہوتے اور صفحہ آخر بھی مکمل طور پر سرکاری اشتہار کے نرغے میں۔ جیب سے خرچ کرکے حکمرانوں کی تصویریں دیکھنے کا شوق رکھنا بھی کوئی دانائی نہیں، اگر اخبار خریدا ہے تو کچھ پلے بھی پڑے۔ جب یہ کام تسلسل کے ساتھ ہونے لگا تو ہم نے اخبار بند کروا دیا۔ حکمرانوں کا یہ بڑا ہتھیار ہے، جسے وہ بے دھڑک استعمال کرتے اور اپنی ذات کی تشہیرکرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اشتہار ہوتے ہی حکمرانوں کی ذاتی تشہیر کے لئے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ حکمرانوں کے کئے ہوئے کارناموں کو عوام تک پہنچانے کے اور بھی بہت سے ذرائع ہو سکتے ہیں، اول تو جو کام ہوتا ہے وہ چڑھتے سورج کی مانند سب کو دکھائی دیتا ہے، دوسرا یہ کہ جن لوگوں کو اس کا فائدہ ہوتا ہے، وہ خود اس کی تشہیر بن جاتے ہیں، تیسرا یہ کہ میڈیا کوریج کے ذریعے بھی یہ کارِ خیر سرانجام دیا جاسکتا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے الیکٹرانک میڈیا کو جاری کئے جانے والے اشتہارات میں موجودہ وزیراعظم کے قائد کی تصاویر بڑی شان وشوکت کے ساتھ آرہی ہیں، خود وزیراعظم بھی دکھائی دیتے ہیں، ممکن ہے اس حکم کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر جاری ہونے والے اشتہارات سے بھی ان کی تصاویر نکال دی جائیں، اور اخبارات کے لئے دیئے گئے اشتہارات میں بھی اسی حکم پر عمل ہو جائے۔ اس سے قبل تو حالات حد سے باہر تھے، جہاں رمضان بازار سج گیا، سابق وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی بیسیوں بہت بڑے سائز کی تصاویر سے پورا علاقہ بھر جاتا تھا، ذاتی تشہیر قدم قدم پر سادگی کا منہ چڑاتی دکھائی دیتی تھی۔ بات صرف اشتہارات میں تصویر شائع نہ کرنے تک ہی محدود نہیں، مسئلہ تو اشتہارات کا بھی ہے، کہ وہ بھی کسی حد تک ہی ہونے چاہییں۔ وزیراعظم کے پاس اب ممکنہ طور پر دس ماہ موجود ہیں، انہوں نے اپنی ابتدائی تقریر میں کہا تھا کہ پنتالیس روز میں وہ پنتالیس ماہ کا کام کریں گے، اب انہیں تین سو کے قریب دن دستیاب ہیں، اِن میں وہ کتنے مہینوں کا کام کریں گے؟ انہوں نے اس بارے میں ہو سکتا ہے منصوبہ بندی کر رکھی ہو۔ ایک حکم ذاتی پروٹوکول میں کمی اور ایک حکم وہ سرکاری گاڑیوں کے بے جا استعمال پر پابندی کی صورت میں بھی لگا دیں تو کروڑوں روپے کی بچت ہو سکتی ہے، ہوجائے پھر حکم جاری؟
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 424521 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.