یہ آسمان بھی رستہ ہے

جب حضرت انسان کو اپنے مالک حقیقی کی عطاء کردہ غیر معمولی صلاحیتوں کا مکمل ادارک حاصل ہو جاتا ہے ۔ تو پھر یہ بسیط کائنات اس کے لیے ایک جولا نگاہ بن جاتی ہے ۔ وہ اپنے خدا کی آرزوؤں کا حقیقی ترجمان بن کر ستاروں سے آگے آباد دنیاؤں کو سر کرنے کا عزم بالجزم کر لیتا ہے ۔ اس وقت یہ آسمان بھی اس کے لیے ایک رستہ بن جاتا ہے۔میں نے کالم کا عنوان ایک صوفی دانشور کی کتاب سے لیا ہے ۔
مسلم قوم تو نہیں البتہ کرۂ ارض پر موجود کئی دوسری اقوا م نے آسمان کو رستہ بنایا ہوا ہے ۔ کچھ عرصہ پیشتر ہمارے شاعر نے کہا تھا !
عروج آدم خاکی کے منتظر ہیں تمام
یہ کہکشاں ، یہ ستارے، یہ نیلگوں افلاک

انسان نے خلاء اور اس سے بھی اوپر کی کائنات کی طرف سفر کئی دہائیوں سے شروع کیا ہوا ہے۔ جب صلاحیتوں کا ادراک ہو گیا تو اوپر کی طرف جانے کے لیے ساز و سامان کی تیاری شروع ہوئی ۔ چاند کی بات تو اب قدیم قصہ لگتی ہے ۔ Space Station بھی بہت سال پہلے قائم ہو گیا ۔ اب انسان کی اگلی منزل مریخ ہے ۔زمین کے سیاسی ، معاشرتی اور معاشی مسائل کو چھوڑ کرآج ہم آسمان بالا کی ہی باتیں کریں گے ۔ ویسے زمین پر انسان نے اپنی تعداد اتنی بڑھا لی ہے کہ اس چھوٹے سے کرہ ٔارض کے لیے 7۔ ارب سے زیادہ انسانوں کے بے پناہ مسائل کو حل کرنا نا ممکن سا ہو چکا ہے ۔ 2 ۔افراد سے 7 ۔ارب افراد کو ئی تو حد ہونی چاہئے تھی ۔سٹیفن ہاکنگ جیسے بڑے سائنس دان بھی انسان کوکسی نئے مستقر کی تلاش کا مشورہ دے رہے ہیں۔ غلطی کی سزا اب انسان بھگت رہا ہے ۔ دوسرے سیاروں کی طرف توجہ لگائے ہوئے ہے کہ شاید کہیں انسان کی رہائش کے لیے مناسب ماحول میسر ہو ۔ کہیں زندگی کے آثار مل جائیں اور بندہ خاکی بھی اسی طرف اڑان بھرنا شروع کر دے۔NASA والوں نے تاریخ میں ان منٹ نقوش چھوڑے ہیں اور مزید کے لیے بات آگے سے آگے بڑھ رہی ہے ۔سب سے پہلے امریکی پاتھ فائنڈر1997ء میں مریخ پر اترا۔اور ایک گاڑی مریخ پر تجربات کے لئے استعمال کی گئی۔ مریخ کے لیے آخری پروگرام نومبر 2011ء میں Cape Caneveral سے لانچ کیا گیا تھا ۔ یہ شٹل فراٹے بھرتی ہوئی 8 ماہ اور پندرہ دن بعد 6 اگست 2012 ء کو مریخ کے قریب پہنچی ۔ وہاں اس نے Rover Cuorisity کو انتہائی کامیابی سے پہلے سے طے شدہ مریخ کے علاقے پر اتار دیا ۔ بڑے سائز کی گاڑی کے برابر یہ Rover انتہائی جدید آلات سے لیس تھا۔ اس لیبارٹری میں 10 انتہائی حساس سائنسی آلات اور 17 کیمرے نصب تھے ۔ مریخ پریہ چلتی پھرتی لیبارٹری بہت ہی خوبصورت دکھائی دیتی تھی۔ یہ اپنے آلات سے کبھی کبھی چٹانوں کو توڑتی ہوئی بھی نظر آتی تھی اور ہماری زمین سے مریخ کا فاصلہ ناقابل یقین 5 کروڑ 46لاکھ کلو میٹر اور وہاں بندہ خاکی کے بنائے ہوئے آلات و کیمرے 100 فیصد درست کام کر تے رہے ۔ زمین پر ریکارڈ کی ہوئی ایک آوا ز مریخ پر گئی اور وہاں سے واپس NASA کے دفتر میں سن بھی لی گئی اور جہاں تک سگنلز کا تعلق ہے ۔ یہ تو ہر وقت ہی وصول ہو رہے تھے۔ Images آ رہے تھے اور NASAوالے انہیں فوٹو اور ویڈیو کی شکل میں شائع بھی کرتے رہے۔ انسانی عقل نے حد کر دی ہے ۔ انسان خدائی حدود کی طرف بڑھتا نظر آ تا ہے ۔حضرات 5 کروڑ 46لاکھ کلو میٹر کی بلندی ۔ ایسی سائنسی باتوں سے دلچسپی نہ رکھنے والوں کو یقین ہی نہ آئے گااور ہم مسلمان تو ایسی باتوں کو واقعی بہت کم جانتے ہیں ۔ مریخ تو ہے ہی اپنے Solar System کا سیارہ ۔ امریکہ کا چھوڑا ہوا ایک ایسا بھی سیارہ ہے ۔ جو ہمارے سولر سسٹم کا تمام فاصلہ طے کرنے کے بعد اس سے بھی آگے کی کائنات میں پہنچ چکا ہے اور وہاں سے سگنلززمین پر وصول ہو رہے ہیں۔6 اگست 2012ء کو مریخ کی سطح پر اتارا جانے والا Rover Curiosity امریکہ کا چوتھا پرگرام تھا ۔ اس سے پہلے Oppurtunity ،Sojaurner اور Spirit نام کے Rover مریخ کی سطح پر اتارے جا چکے تھے ۔ یہ لیبارٹریز کم سہولیات والی اور کم وزن والی تھیں ۔ Opportunity جو 2004ء میں مریخ پر اتاری گئی تھی ۔ وہ 9 سال تک کام کرتی رہی اور 9 سال کے بعد ریٹائر ہو گئی ۔ آخری لیبارٹری Curiosity کی مدت صرف 2 سال تھی اور اگست 2014ء میں یہاں سے بھی سگنلز آنا بند ہو گئے ۔ پوری سپیس ایجنسی نے روس سے مل کر اس شعبہ میں کام کیا اور ان کی طرف سے ارسال کردہ لیبارٹری مریخ کے 500 دن کام کرتی رہی۔ جب امریکی لیبارٹری Curiosity مریخ کی سطح پر اتاری گئی تو اس کے 4 مقاصد بتائے گئے تھے اور ان چار مقاصد کو سامنے رکھ کر لیبارٹری میں حساس آلات اور کیمرے نصب کئے گئے تھے۔پہلا مقصد مریخ پر زندگی کے امکان کے بارے میں تحقیق کرنا اگر زندگی کی کوئی بھی صورت پہلے مریخ پر موجود ہو گی تو انسان کا وہاں جانا اور ٹھہرنا ممکن ہو سکے گا ۔

دوسرا مقصد یہ تھا کہ مریخ کی آب و ہوا کے بارے معلومات اکٹھی کی جا سکیں ۔ موسم کیسے ہیں ۔ درجہ
حرارت مریخ کے دن اور رات میں کتنا رہتا ہے۔ کیا انسان کے لیے اس درجہ حرارت میں ٹھہرنے کا امکان ہے ۔ یہ اطلاعات ابھی تک موصول ہوئی ہیں کہ مریخ پر دن کے وقت (مراد مریخ کا دن ) 14 سینٹی گریڈ درجہ حرارت رہتا ہے ۔ رات کو یہ زیرو سے بہت نیچے منفی تک چلا جاتا ہے ۔

یہ بھی مقصد تھا کہ ارضیات مریخ کا مطالعہ کیا جائے ۔ اس کے بارے اب تک تحقیقی لیبارٹری بہت سی معلومات زمین پر ارسال کر چکی ہے۔ مریخ پر ڈرلنگ بھی کی گئی ہے جو صرف 2.5 انچ گہرائی تک ہو سکی ۔ یہ کام زمین سے علاوہ کسی دوسرے سیارے پر پہلی دفعہ ہوا اور مریخ کی ارضیات کی کافی تفصیل معلوم ہو چکی ہے ۔

چوتھا مقصد یہ تھا کہ کیا انسان مریخ پر آئندہ بھیجا جا سکتا ہے یا نہیں ۔ اسے کیا مسائل در پیش آ سکتے ہیں۔ اب تک حاصل کردہ معلومات کے مطابق نتائج حوصلہ افزاء ہیں ۔ برف کی موجودگی کے معنی پانی کی موجودگی ہے ۔ اسے توڑ کر ہائیڈروجن اور آکسیجن حاصل کی جا سکتی ہے ۔

Explore Mars Incorporated ادارے نے لیبارٹری کے اترنے کے ایک سال بعد امریکہ میں سروے کرایا۔جس کے مطابق 71 فیصد امریکی چاہتے ہیں کہ انسان کو مریخ پر بھیجا جائے ۔ 2033ء ؁ وہ سال ہے کہ امریکی انسان کو مریخ پر اتارنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ مریخ سے آنے والے آخری Images ، 2 اپریل اور 8 اپریل 2014ء کے ہیں۔ یہ چٹانوں کے Images ہیں ۔ جو چمکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ پھول جیسی کسی شے کے Images بھی زمین پر وصول ہو چکے ہیں۔ Curiosity مریخ کی سطح پر ویسے ہی دوڑ تی رہی جیسے زمین پر ہماری گاڑیاں دوڑتی ہیں۔

کچھ عرصہ پیشتر اس طرح کی باتیں سائنس فکشن کے طور پر پڑھی جاتیں تھیں ۔ لیکن انسانی عقل نے اب 5 کروڑ 46لاکھ کلومیٹر بلندی پر پہنچنے کے بہت سے انتظامات کر لئے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ کرۂ ارض اور مریخ کے درمیان فاصلہ تبدیل ہوتارہتا ہے۔ انسان نے وہاں اپنے قدم رکھنے ہی رکھنے ہیں ۔ کبھی بلندیوں پر پہنچنے کی باتیں " اقبال " جیسے شاعر کیا کرتے تھے ۔ وہ دل سے نکلی ہوئی بات کا اثر بتایا کرتے تھے۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔
پر نہیں ، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے ۔
قدسی الا صل ہے ، رفعت پہ نظر رکھتی ہے ۔
خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ گزر رکھتی ہے ۔

آج دنیا کی طاقتور قومیں اپنی بھاری بھر کم اور حساس آلات پر مشتمل لیبارٹریوں کو کروڑوں میل کی بلندیوں پر پہنچا رہی ہیں۔ کل کلاں انسان نے بھی مریخ اور دوسرے سیاروں پر جانا ہے اور انسان کے لیے پوری کائنات انتظار میں ہے ۔ مسلمانوں کو بھی جاگنا چاہئے اور تسخیر کائنات کے کاموں میں حصہ لینا چاہئے۔ آسمان کا رستہ تمام قوموں کے لیے ہے ۔اگرناسا کوامریکی حکومت ضروری مالیات فراہم کرتی رہی تو ایک دن زمین والے دیکھیں گے کہ انسان مریخ پر کھڑا چاروں طرف موجود کائنات کو حیرانی سے دیکھ رہا ہوگا۔
 

Prof Jameel Chohdury
About the Author: Prof Jameel Chohdury Read More Articles by Prof Jameel Chohdury: 72 Articles with 49710 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.