آج کا صحافی

آج کافی دن کے بعد میں اپنے دوستوں میں یہ بات شئیر کرنا مناسب سمجھوں گا ۔کہ یہ دنیا کتنی عجیب و غریب ہے۔افسوس تو اس بات کا ہے جو صحافی کو بر ا کہتے ہیں ۔مگر ان لوگوں کو کیا یہ معلوم ہے کہ وہ صحافی کیسے بنا اور اس غریب کی کیا حالت ہے۔کیا یہ کیسی کو نظر نہیں آتا کہ اس کے بچوں کو کھانا مل رہا ہے کہ نہیں ۔اس کے بچے جو صرف دودھ پیتے ہیں سن کو دودھ بھی ملا کے نہیں ۔کہ یہ بات کہا دینا ضروری ہے کہ صحافی بلیک میلر ہوتے ہیں۔افسوس تو مجھے ان لوگوں پر ہے۔جو یہ الفاظ بولتے ہیں۔ان کو کیا یہ پتا ہے کہ یہ وہ صحافی ہے جو نہ تو دن دیکھتا ہے نہ رات کبھی کیسی سیاسی کے سامنے تصویرے لیے رہا ہوتا ہے یا کیسی گلی کی ۔اس گلی کو بنانے والے یا بنوانے والوں کے بچے گرمیوں میں دن رات اے سی میں گزار دیتے ہیں۔اور سردیواں میں ہیٹر میں سردیاں ؂ گزار دیتے ہیں۔مگر کیسی نے یہ نہیں پوچھا کہ یہ آمد ان لوگوں کے پاس کہا سے آرہی ہے۔اور ان کہ اخراجات کیسے اور کون چلا رہاہے۔لیکن وہ صحافی جو دن رات ایک کر کے نیوز لے آتا ہے۔اس کو نہ تو سونے کی ہے۔نہ ہی اس کو یہ کہ میرے بچے کیس حالت میں ہے۔یہ وہ صحافی ہے جو دن رات ایک کر کے اپنے خبریں لے آتا ہے۔یہاں تو جو پرائیویٹ سکولوں صحافی حضرات اپنے بچوں کو تعلیم دلوائے رہے ہیں ۔کیسی کو یہ بھی نہیں پتہ کہ اس کی فیس کیسے ادا کرتے ہوگئے۔ان کو تین وقت کا کھانے کیسے ملتا ہوگا۔ان کے بجلی کے بل ان کے گھر کے اخراجات کیسے پورئے ہوتے ہو گئے۔کیسی کو یہ معلوم نہیں کے اس کے گھر میں فاکے کب سے ہیں ۔اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ایک فیڈر دودھ بھی ملا کہ نہیں ۔مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ صحافیوں کے بارئے میں آج تک کیسی نے کچھ نہیں سوچا۔کیوں کہ سیاستدانوں کی نیوز لے آئے صحافی ان کو اپنے اخرجات سے اخبارات یا نیوز چینل میں لگوائے صحافی ان کی جگہ جگہ مشہوری کرئے صحافی اور بچے بھوکھے مر صحافی کے آخر کیا مسئلہ ہیں۔یہ بات آج تک مجھے سمجھ نہیں آئی۔اگر اخبار یا چینل لیے آئے تو صحافی اپنی جیب سے سارا دن بھاگ بھاگ کر نیوز لیے آئے۔صحافی اور سب کو دنیا کی نظر میں مشہور کرئے تو صحافی۔مگر آج مجھے یہ بتائے کہ اس صحافی کا کیا قصور ہے۔جو اپنا وقت ان لوگوں کو دے رہا ہے۔جو ان کو بلیک میلر کہتے ہیں ۔کیا ایسے لوگ خود دودھ کے دھولے ہے جو خود کو نیک ایماندار ٖفرض شناش کہتے ہیں۔مثال کے طور پر ایک سرکاری ملازم کی تنخواہ بیس ہزار ہے تو اس کے بچے پرائیوٹ سکولوں اور کالجوں میں تعلیم کیسے حاصل کر رہے ہیں ۔ان کے بچے گرمیوں میں دن رات اے سی میں کیسے اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ان کے گھر کے اخراجات کیسے پورئے ہوتے ہیں۔اور وہ نوابوں کی زندگی کیسے جی رہا ہے۔یہ کیسی کو نظر نہیں آتا۔صحافی جو نیک نیتی ایمانداری سے اپنا فرض منصبی ادا کر رہے ہے۔وہ بلیک میلر وجہ کیا وہ بلیک میلر نہیں جو ایک جگہ پر دودو چارج لیے کر بیٹھے ہے۔اور ان کے بچے بھی ان کی طرح وی آئی پی کی زندگی گزار رہے ہیں۔جب کبھی چودہ اگست یا کوئی ڈئے آجائے ۔تو اس وقت ادارئے صحافیوں کو حکم نامہ دیتے ہے۔کہ مکمل ایڈیشن دو جو ہزاروں یا لاکھوں روپے میں ہو گا۔ادرائے نے تو اپنا بل اپنے نمائیدئے سے وصول کر لینا ہے اس کو آگے کیسی سے بل ملے یا نہ ملے۔ادرائے کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے گھر آج بچوں کو دودھ ملا کے نہیں۔اس کے گھر کھانا بنا کے نہیں۔بس ان لوگوں کو اپنی ہے کوئی جیئے یا مرئے۔یہاں کیسی ادارئے کے درجہ چہارم کے ملازم کو دیکھ لیے تو وہ اپنے افسران سے بڑا افسر معلوم ہوگا۔لیکن کوئی درجہ چہارم کا ملازم ہو یا کوئی بڑا افسر ان کو نوکری سے فارغ ہونے کے بعد بھی پینشن ملنی ہے۔مگر صحافی جو دن رات سڑکوں گلیوں یا دیہاتوں میں بھاگ بھاگ کر نیوز لے آتا ہے۔وہ وہاں نیوز فوٹیج لیتے مر بھی جائے تو کیسی نے ان کی طرف نہیں دیکھنا بس یہی بولے گئے کہ ایک صحافی مر گیا۔اور کوئی سیاستدان مر جائے۔تو ہم سب اس کے جنازئے میں جانے میں فخر محسوس کرئے گئے۔چاہے وہ کل تک ہم کو بلیک ملیر کہتا ہوا مر جائے۔یہ وہ صحافی حضرات ہے جن کو تنخواہ نہیں ملتی ۔اور ان کے نیٹ کے اخراجات موبائل بل اور سارا سارا دن بھاگ بھاگ کر نیوز لے آنا۔اس کے لیے سب کیس کام کا۔اگر کیسی سیاستدان کی نیوز لگائی تو عزت اس کو ملے گئی۔اور کیسی نے پریس کانفرس کی تو نیوز لگائی تو فائدہ بھی اسی کو ملے گا۔لیکن سارا سارا دن بھاگ بھاگ کر نیوز لینے اور لگوانے والا جب گھر شام کو گھر جائے اس کی جیب میں پیسے نہ ہو اور اپنے بچوں کے لیے دودھ تک نہ خرید سکے۔تو کیا فائدہ۔سکول میں جب جائے اس کے پاس سکول کالباس نہ یا اس کے پاس مکمل بک نہ ہو۔یا سکولوں کی فیس ادا نہ کی ہو اور بچوں کو سکول سے گھر واپس بھیج دے۔تو اس غریب کے دل پر کیا گزرئے گئی۔صحافی وہ ہے جو نہ دن دیکھتا ہے نہ رات نہ ہی دوپہر اور نہ ہی سفر اسی کشمکش میں اس کو تو اپنے گھر کا ہوش نہیں رہتا۔اس کو اس وقت پتہ چلتا جب وہ تھک ہار کے شام کو واپس اپنے گھر کو آتا ہے۔صحافی کو عزت دیجیے۔بس میں یہی کہوں گا۔

Shafqat Ullah Sial
About the Author: Shafqat Ullah Sial Read More Articles by Shafqat Ullah Sial: 34 Articles with 27905 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.